حرام میں آرام ہے
میرا بھانجا اکثر بڑے مزے سے بولتا ہے، ماموں بس حرام میں ہی آرام ہے اور میں ہنس کر رہ جاتا ہوں۔
میرا بھانجا اکثر بڑے مزے سے بولتا ہے، ماموں بس حرام میں ہی آرام ہے اور میں ہنس کر رہ جاتا ہوں۔ ابھی پچھلے دنوں سرراہ چلتے ہوئے میری ملاقات ایک دوست سے ہو گئی، ان کا حال احوال پوچھنے کے بعد میں نے ان سے اگلا سوال یہ کیا کہ کیا خبریں ہیں، میرے سوال کا جواب انھوں نے بڑی ہی افسردگی کے ساتھ دیتے ہوئے کہا کہ سندھ کے ساتھ بڑی ناانصافی ہو رہی ہے۔
میری حیرت کے جواب میں انھوں نے مزید کہنا شروع کیا۔ کیا صرف سندھ ہی میں کرپشن ہو رہی ہے کیا باقی صوبوں میں نہیں ہو رہی ہے تو پھر وہاں کرپشن کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہو رہی ہے۔
اصل میں مجھے ان سے اس جواب کی بالکل توقع ہی نہ تھی وہ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے مزید کہنے لگے کہ آخر نیب اور ایف آئی اے سندھ کے لوگوں کے ہی پیچھے کیوں پڑی ہوئی ہے۔ بولنے لگے ہمارے محکمے کے کئی بڑے افسران گرفتار کر لیے گئے ہیں ذہن میں رہے وہ حیسکو میں ملازم ہیں۔ ان کی پوری بات سن کر میری مسکراہٹ روکے سے نہ رکی اور مجھے بے اختیار بھانجے کی بات یاد آ گئی کہ حرام میں ہی آرام ہے۔ بس میں اس کی بات میں یہ اضافہ کر رہا ہوں کہ اور حلال میں بے آرامی ہی بے آرامی ہے۔
آج کل رینجر ز، نیب اور ایف آئی اے کی کارروائیوں کے نتیجے میں آرا م والوں کا آرام حرام ہو چکا ہے اور بے آرامی کا یہ عالم ہے کہ وہ اٹھتے بیٹھے ہاتھ اٹھا اٹھا کر دعائیں کر رہے ہیں یااللہ کسی بھی طرح یہ آپریشن رکوا دے یااللہ ہم پر رحم فرما دے یا اللہ اس کا رخ کسی دوسرے صوبے کی طرف کروا دے یہ ان کی بے آرامی ہی ہے، جو انھیں مزاروں پر چکر لگوانے پر مجبور کر رہی ہے جو انھیں نامور باباؤں کے ہاتھ پاؤں دبانے پر اکسا رہی ہے۔
ہر قسم کی منتیں مانگنے پر مجبور کر رہی ہے بھر بھر کر نیازیں بانٹنے کی ترغیب دے رہی ہے اور پھر ہر جگہ ناکامی کا منہ دیکھنے کے بعد وہ ہی آخری حربہ کہ سندھ کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے کا ورد شروع کر وا دیتی ہے اور پھر اس ورد کو عوامی پذیرائی نہ ملنے کے بعد اپنے ہی اعمال کو کو سنا شروع کروا دیتی ہے۔ اور ان بے آراموں کے دن رات شیطان کو برا بھلا کہنے میں بیتنے لگتے ہیں اور وہ یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ واقعی شیطان انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے اور ان سے ساری برائیاں کروانے کا واحد ذمے دار بھی ہے۔
آپ کچھ دیرکے لیے سب کو بے وقوف بنا سکتے ہیں لیکن آپ کسی بھی صورت میں سب کو ہمیشہ کے لیے بے وقوف نہیں بنا سکتے ہیں۔ اگر آپ ایسا کرنے کی کوشش کریں گے تو آپ خود بڑے بے وقوف ہوں گے اصل میں ہمارے کچھ سیاست دان، بیوروکریٹس، افسران پاکستان اور اس کے عوام کو اپنی لونڈی سمجھے بیٹھے تھے جب کہ ماضی بعید میں لونڈیوں کے ساتھ ایسا بدترین سلوک نہیں روا رکھا جا تا تھا جو انھوں نے پاکستان اور اس کے عوام کے ساتھ روا رکھا ہے لگتا ہے ان کے نزدیک عام لوگوں کا درجہ لونڈیوں سے بھی کم قرار پایا گیا ہے، بدترین سلوک کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔
دنیا بھر میں بے ایمانی لوٹ مار، کر پشن سمیت تمام خرابیوں اور برائیوں کی کوئی نہ کوئی ایک حد ہے اگر آپ کو کسی ملک میں ہر حد پار ہوتی ہوئے ملے تو فوراً سمجھ لیں کہ وہ پاکستان ہے ہمارے ہاں جس کے پاس جتنا بڑا عہدہ یا مرتبہ ہے وہ اتنا ہی بڑا بے ایمان،کرپٹ اور بے حس ہے۔ ہمارے ہاں ایماندار، دیانت دار، نیک ، شریف لوگ اتنی کم تعداد میں پائے جاتے ہیں کہ انھیں شمار کرتے ہوئے شرم آ جاتی ہے۔
سر ندامت سے اٹھ ہی نہیں پاتا ہے آپ اپنی نظروں میں اس قدرگر جاتے ہیں کہ پھر دوبارہ کھڑے ہی نہیں ہو پاتے ہیں ہمارے کچھ سیاستدانوں، حکمرانوں، بیوروکریٹس اور افسران کی قبروں کے کتبے پر یہ ضرورر لکھا ہونا چاہیے کہ یہ اس شخص کی قبر ہے جس سے برے اور کرپٹ آدمی محبت کرتے تھے اور نیک اور ایماندار آدمی اس سے ڈرتے تھے اور جس کی بے ایمانی، کرپشن، لوٹ مارکی ہمسری ممکن ہی نہیں ہے ۔ اگر آج سقراط ، افلاطون ، ارسطو زندہ ہوتے اور وہ ہمارے ملک میں یہ ہی سب کچھ ہوتا ہو ا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوتے تو اپنے اپنے سر پیٹ پیٹ کر رہ جاتے۔
اپنا دما غی توازن کھو بیٹھتے اور اپنے سر میں خاک ڈال کر اپنے کپڑے پھاڑ کر بیابانوں اور صحراؤں میں نکل کھڑے ہوتے اور آیندہ فلسفے، ایمانداری اور دیانت دار ی کی باتیں کرنے والے کو زمین پر پٹخ پٹخ کر دے مارتے۔
ہمارا ملک ایسا ملک بن کے رہ گیا ہے جہاں تھانے بکتے ہیں جہاں اراکین پارلیمنٹ اپنے حلقوں کے لوگوں کے مسائل سننے کے بجائے مجرے سنتے ہیں جہاں عقل سے خالی نرے جاہل، تہذیب و تمدن سے عاری چند لوگ 20 کروڑ عقل مندوں کی زندگیوں کے فیصلے کرتے پھرتے ہیں جہاں کر پٹ، راشی، زانی، قانون اور اخلاقیات سے بے خبر قانون سازی کرتے پھرتے ہیں جہاں ہر جائزکام ناجائز طریقے سے ہوتا ہے جہاں بزنس مین اپنے منافعے کی خا طر لوگوں کو حرام اور مردارکھلاتے پھرتے ہیں۔
جہاں مولو ی مذہب کے نام پر اپنی اجارہ داری قائم کرتے پھرتے ہیں جہاں تابوتوں، رشوت، کمیشن، لوٹ مار کا کاروبار دن رات ترقی ہی کرتا جا رہا ہے۔ یاد رہے ہم نصیب اور قسمت کے نہیں بلکہ نیت اور سوچ کے مارے ہیں فرق ہمیشہ سوچ کا ہوتا ہے کیونکہ سوچ سے ہی اعمال جنم لیتے ہیں اور جنہیں ہم پال پوس کر بڑا کرتے ہیں اور آگے چل کر ہمارے اعمال دیوتا کا درجہ حاصل کر لیتے ہیں اور ہم ان کے پجاری بن کر رہ جاتے ہیں اور پھر تمام زندگی دیوتا اور پجاری کے درمیان گزرتی رہتی ہے شاہ جہاں اور کنگ ایڈورڈ دونوں بادشاہ اپنی بیویوں سے بے پناہ محبت کرتے تھے دونوں کی بیویوں کی موت کینسر سے ہوئی۔
شاہ جہاں نے کروڑوں روپے خرچ کر کے تاج محل بنوایا اورکنگ ایڈورڈ نے University of Medical Research بنوائی تا کہ جس بیماری سے اس کی بیوی مری اس سے دوسروں کو بچایاجا سکے۔ ایمرسن نے کہا ہے ''اس زندگی کے بہت سے سائے اس لیے بھی بنتے ہیں کہ ہم خود اپنے سورج کی روشنی کے آگے کھڑے ہوتے ہیں۔''
آئیں سب سے پہلے تو ہم اپنے سورج کی روشنی کے آگے سے ہٹ جائیں اورمزید سائے بننے سے روک دیں۔ اب آپ سامنے دو راستے موجود پائینگے ایک راستہ وہی ہے جس پر آپ چل کر یہاں تک پہنچے ہیں۔ ساری تباہی اور بربادی آپ نے اپنی آنکھوں سے خود دیکھی ہے یا تو اسی راستے پر چپ چاپ خاموشی سے سب کچھ دیکھتے اور سہتے چلتے رہیں یا پھر اس راستے پر اپنے پہلے قدم رکھ دیں جو راستہ آپ کو خوشحالی، ترقی،کامیابی، ایمانداری، دیانتداری اورخوشیوں سے بھر ی زندگی کی طرف لے جائے گا۔ فیصلہ آپ نے خود کرنا ہے۔
میری حیرت کے جواب میں انھوں نے مزید کہنا شروع کیا۔ کیا صرف سندھ ہی میں کرپشن ہو رہی ہے کیا باقی صوبوں میں نہیں ہو رہی ہے تو پھر وہاں کرپشن کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہو رہی ہے۔
اصل میں مجھے ان سے اس جواب کی بالکل توقع ہی نہ تھی وہ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے مزید کہنے لگے کہ آخر نیب اور ایف آئی اے سندھ کے لوگوں کے ہی پیچھے کیوں پڑی ہوئی ہے۔ بولنے لگے ہمارے محکمے کے کئی بڑے افسران گرفتار کر لیے گئے ہیں ذہن میں رہے وہ حیسکو میں ملازم ہیں۔ ان کی پوری بات سن کر میری مسکراہٹ روکے سے نہ رکی اور مجھے بے اختیار بھانجے کی بات یاد آ گئی کہ حرام میں ہی آرام ہے۔ بس میں اس کی بات میں یہ اضافہ کر رہا ہوں کہ اور حلال میں بے آرامی ہی بے آرامی ہے۔
آج کل رینجر ز، نیب اور ایف آئی اے کی کارروائیوں کے نتیجے میں آرا م والوں کا آرام حرام ہو چکا ہے اور بے آرامی کا یہ عالم ہے کہ وہ اٹھتے بیٹھے ہاتھ اٹھا اٹھا کر دعائیں کر رہے ہیں یااللہ کسی بھی طرح یہ آپریشن رکوا دے یااللہ ہم پر رحم فرما دے یا اللہ اس کا رخ کسی دوسرے صوبے کی طرف کروا دے یہ ان کی بے آرامی ہی ہے، جو انھیں مزاروں پر چکر لگوانے پر مجبور کر رہی ہے جو انھیں نامور باباؤں کے ہاتھ پاؤں دبانے پر اکسا رہی ہے۔
ہر قسم کی منتیں مانگنے پر مجبور کر رہی ہے بھر بھر کر نیازیں بانٹنے کی ترغیب دے رہی ہے اور پھر ہر جگہ ناکامی کا منہ دیکھنے کے بعد وہ ہی آخری حربہ کہ سندھ کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے کا ورد شروع کر وا دیتی ہے اور پھر اس ورد کو عوامی پذیرائی نہ ملنے کے بعد اپنے ہی اعمال کو کو سنا شروع کروا دیتی ہے۔ اور ان بے آراموں کے دن رات شیطان کو برا بھلا کہنے میں بیتنے لگتے ہیں اور وہ یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ واقعی شیطان انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے اور ان سے ساری برائیاں کروانے کا واحد ذمے دار بھی ہے۔
آپ کچھ دیرکے لیے سب کو بے وقوف بنا سکتے ہیں لیکن آپ کسی بھی صورت میں سب کو ہمیشہ کے لیے بے وقوف نہیں بنا سکتے ہیں۔ اگر آپ ایسا کرنے کی کوشش کریں گے تو آپ خود بڑے بے وقوف ہوں گے اصل میں ہمارے کچھ سیاست دان، بیوروکریٹس، افسران پاکستان اور اس کے عوام کو اپنی لونڈی سمجھے بیٹھے تھے جب کہ ماضی بعید میں لونڈیوں کے ساتھ ایسا بدترین سلوک نہیں روا رکھا جا تا تھا جو انھوں نے پاکستان اور اس کے عوام کے ساتھ روا رکھا ہے لگتا ہے ان کے نزدیک عام لوگوں کا درجہ لونڈیوں سے بھی کم قرار پایا گیا ہے، بدترین سلوک کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔
دنیا بھر میں بے ایمانی لوٹ مار، کر پشن سمیت تمام خرابیوں اور برائیوں کی کوئی نہ کوئی ایک حد ہے اگر آپ کو کسی ملک میں ہر حد پار ہوتی ہوئے ملے تو فوراً سمجھ لیں کہ وہ پاکستان ہے ہمارے ہاں جس کے پاس جتنا بڑا عہدہ یا مرتبہ ہے وہ اتنا ہی بڑا بے ایمان،کرپٹ اور بے حس ہے۔ ہمارے ہاں ایماندار، دیانت دار، نیک ، شریف لوگ اتنی کم تعداد میں پائے جاتے ہیں کہ انھیں شمار کرتے ہوئے شرم آ جاتی ہے۔
سر ندامت سے اٹھ ہی نہیں پاتا ہے آپ اپنی نظروں میں اس قدرگر جاتے ہیں کہ پھر دوبارہ کھڑے ہی نہیں ہو پاتے ہیں ہمارے کچھ سیاستدانوں، حکمرانوں، بیوروکریٹس اور افسران کی قبروں کے کتبے پر یہ ضرورر لکھا ہونا چاہیے کہ یہ اس شخص کی قبر ہے جس سے برے اور کرپٹ آدمی محبت کرتے تھے اور نیک اور ایماندار آدمی اس سے ڈرتے تھے اور جس کی بے ایمانی، کرپشن، لوٹ مارکی ہمسری ممکن ہی نہیں ہے ۔ اگر آج سقراط ، افلاطون ، ارسطو زندہ ہوتے اور وہ ہمارے ملک میں یہ ہی سب کچھ ہوتا ہو ا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوتے تو اپنے اپنے سر پیٹ پیٹ کر رہ جاتے۔
اپنا دما غی توازن کھو بیٹھتے اور اپنے سر میں خاک ڈال کر اپنے کپڑے پھاڑ کر بیابانوں اور صحراؤں میں نکل کھڑے ہوتے اور آیندہ فلسفے، ایمانداری اور دیانت دار ی کی باتیں کرنے والے کو زمین پر پٹخ پٹخ کر دے مارتے۔
ہمارا ملک ایسا ملک بن کے رہ گیا ہے جہاں تھانے بکتے ہیں جہاں اراکین پارلیمنٹ اپنے حلقوں کے لوگوں کے مسائل سننے کے بجائے مجرے سنتے ہیں جہاں عقل سے خالی نرے جاہل، تہذیب و تمدن سے عاری چند لوگ 20 کروڑ عقل مندوں کی زندگیوں کے فیصلے کرتے پھرتے ہیں جہاں کر پٹ، راشی، زانی، قانون اور اخلاقیات سے بے خبر قانون سازی کرتے پھرتے ہیں جہاں ہر جائزکام ناجائز طریقے سے ہوتا ہے جہاں بزنس مین اپنے منافعے کی خا طر لوگوں کو حرام اور مردارکھلاتے پھرتے ہیں۔
جہاں مولو ی مذہب کے نام پر اپنی اجارہ داری قائم کرتے پھرتے ہیں جہاں تابوتوں، رشوت، کمیشن، لوٹ مار کا کاروبار دن رات ترقی ہی کرتا جا رہا ہے۔ یاد رہے ہم نصیب اور قسمت کے نہیں بلکہ نیت اور سوچ کے مارے ہیں فرق ہمیشہ سوچ کا ہوتا ہے کیونکہ سوچ سے ہی اعمال جنم لیتے ہیں اور جنہیں ہم پال پوس کر بڑا کرتے ہیں اور آگے چل کر ہمارے اعمال دیوتا کا درجہ حاصل کر لیتے ہیں اور ہم ان کے پجاری بن کر رہ جاتے ہیں اور پھر تمام زندگی دیوتا اور پجاری کے درمیان گزرتی رہتی ہے شاہ جہاں اور کنگ ایڈورڈ دونوں بادشاہ اپنی بیویوں سے بے پناہ محبت کرتے تھے دونوں کی بیویوں کی موت کینسر سے ہوئی۔
شاہ جہاں نے کروڑوں روپے خرچ کر کے تاج محل بنوایا اورکنگ ایڈورڈ نے University of Medical Research بنوائی تا کہ جس بیماری سے اس کی بیوی مری اس سے دوسروں کو بچایاجا سکے۔ ایمرسن نے کہا ہے ''اس زندگی کے بہت سے سائے اس لیے بھی بنتے ہیں کہ ہم خود اپنے سورج کی روشنی کے آگے کھڑے ہوتے ہیں۔''
آئیں سب سے پہلے تو ہم اپنے سورج کی روشنی کے آگے سے ہٹ جائیں اورمزید سائے بننے سے روک دیں۔ اب آپ سامنے دو راستے موجود پائینگے ایک راستہ وہی ہے جس پر آپ چل کر یہاں تک پہنچے ہیں۔ ساری تباہی اور بربادی آپ نے اپنی آنکھوں سے خود دیکھی ہے یا تو اسی راستے پر چپ چاپ خاموشی سے سب کچھ دیکھتے اور سہتے چلتے رہیں یا پھر اس راستے پر اپنے پہلے قدم رکھ دیں جو راستہ آپ کو خوشحالی، ترقی،کامیابی، ایمانداری، دیانتداری اورخوشیوں سے بھر ی زندگی کی طرف لے جائے گا۔ فیصلہ آپ نے خود کرنا ہے۔