ہنگامہ ہے کیوں برپا
امریکا جیسے ملک میں بھی پاکستان کی طرح 4,4گھنٹے فلائٹ لیٹ ہوتی ہے، وہاں بھی ٹریفک بلاک ہوتی ہے۔
مجھے خوشی ہے کہ جس سسٹم کی بات میں کرتا آرہا ہوں، اللہ تعالیٰ نے اس کی ایک جھلک دکھا دی ہے یعنی 100 میں سے ایک فیصد ہی سہی مگر ہمارا سسٹم ٹھیک ہو رہا ہے لیکن انسان ہمیشہ خوش فہمیوں اور غلط فہمیوں میں مارا جاتا ہے ۔
اللہ کرے میری یہ ''فہمیاں'' اپنی جگہ پر ہی رہیں اور یہ نظام سو فیصد صحیح ہوجائے۔ مدتوں بعد ایسا آرمی چیف دیکھا ہے جس کے لہجے اور اقدامات سے پاکستان دشمن عناصر اور بھارت کے ایوانوں میں طوفان آگیا ہے۔ اس طوفان کی شدت میں اُس وقت اضافہ ہوا جب آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے 6 ستمبر کی رات جی ایچ کیو میں شہداء کی یاد میں ایک تقریب سے خطاب کیا۔ عصر حاضر میں دو ٹوک الفاظ کا ایسا خطاب کم ہی سننے کو ملتا ہے ورنہ ہمارے لیڈران تو بھارت سے محبت میں بہت آگے نکل جاتے ہیں۔
آرمی چیف نے کہا ''کشمیر تقسیمِ برصغیر کا نامکمل ایجنڈا ہے۔ مسئلہ کشمیر کو پسِ پشت ڈال کر خطے میں پائیدار امن ممکن نہیں ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ اقوام متحدہ کی قرارداد کی روشنی میں مسئلہ کشمیر حل کیا جائے۔ پاکستان کی فوج بیرونی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ جنگ چاہے روایتی ہو یا غیر روایتی ہم تیار ہیں۔
پاکستان کو دہشت گردی اور غیر روایتی جنگ کا سامنا ہے۔ انتشاری قوتوں نے ریاست کو چیلنج کیا تو دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ضربِ عضب شروع کیا گیا۔ پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر حملے معصوم بچوں کی شہادتیں ظلم کی انتہا تھی۔ ریاست کے تمام اداروں کو خلوصِ نیت کے ساتھ اپنا کام کرنا ہے تاکہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد ممکن بنایا جا سکے۔ دہشت گردوں کے مددگار، سہولت کار اور مالی مدد دینے والے، سب کو کیفرار کردار تک پہنچا کر ہی دم لیا جائے گا۔'' یہ خطاب براہ راست بھارت کو مخاطب کر کے کیا گیا، میرے خیال میں یہ بھارت کا جنگی جنون ہی ہے جس کی وجہ سے پاکستان کو دفاعی بجٹ ہر سال بڑھانا پڑتا ہے۔ جب بھارت اپنے بجٹ کا 50فیصد حصہ دفاع پر خرچ کرتا ہے تو مجبوراََ پاکستان بھی علاقے میں ڈیٹیرنس(توازن) قائم رکھنے کے لیے جدید اسلحہ خریدتا ہے۔
بھارت میں غربت کی وجہ سے لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں جب کہ وہاں کی قیادت پاکستان کے ساتھ جنگ کو اپنا اولین فریضہ سمجھتے ہیں۔ مودی جب امریکا گیا تو میں نے وہاں کی اخبارات کا مطالعہ کیا، میں یہ پڑھ کر حیران رہ گیا کہ وہاں کے تقریباََ تمام عالمی امور کے ماہرین نے بھارت سے اس بات پر زور دیا تھا کہ وہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرے۔
ان ماہرین نے ایسا اس لیے لکھا کہ جب دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی بڑھتی ہے تو ان ممالک کی مارکیٹیں کریش کر جاتی ہیں اور بیرونی سرمایہ کار اپنا پیسہ نکال لیتے ہیں۔ جب کہ مودی سرکار کو یہ علم ہونا چاہیے کہ ہمارے ہاںملکی سرمایہ کار اتنے زیادہ مضبوط نہیں ہیں اس لیے کشمیر سمیت ہر مسئلے کا حل مذاکرات کے ذریعے نکالنا چاہیے۔ اور یہی پیغام جنرل راحیل شریف نے بھی اپنی تقریر میں دیا ہے کہ آپ جیسے تعلقات رکھنا چاہیں گے ہم بھی ویسے ہی رکھیں گے۔ آپ جنگ کریں گے تو ہم بھی اسی طرح کی جنگ کریں گے۔
خیر مذکورہ بالا خطاب کو سننے کے بعد مجھے ایک وقت کے لیے شدید احساس ہوا کہ میں اس مرد حق کے لیے کچھ کلمات لکھوں کیوں کہ پاکستان کو ایسا لیڈر برسوں بعد نصیب ہوا ہے جو سچا اور ایماندار ہے۔ جس نے کراچی جیسے شہر سے بھتہ خوروں، سود خوروں، اغواکاروں، ٹارگٹ کلرز، مسلح ونگز، لٹیروں، ڈاکوؤں اور چوروں کو ایسے بھگایا جیسے پورے ملک سے ''گند'' صاف کرنے کا اُس نے تہیہ کیا ہو۔۔۔ بقول شاعر
ہر لفظ میں محبت،ہر لفظ میں دعا
مقروض کردیا ہمیں تیرے خلوص نے
میں آرمی چیف کا متعرف اس لیے ہوں کہ ہمیں سیاستدانوں نے نام نہاد جمہوریت دے کر شخصیت پرستی پر مجبور کر دیا ہے، اس جمہوریت نے ہمیں ایسے کرپٹ سیاستدان دیے ہیں جنہوں نے وطن عزیز کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا ہے۔ اب تو ہم پاکستانیوں کا حال ایسا ہے کہ کوئی صدق دل سے ہمارا حال پوچھتا ہے ہمارے آنسو جھلک جاتے ہیں اور دل اس ملک کی حالت دیکھ کر خون کے آنسو روتا ہے۔۔ بقول مرزا غالب کے
مت پوچھ کہ کیا حال ہے میر ا ترے پیچھے
تو دیکھ کہ کیا رنگ ہے تیرا مرے آگے
میں حیران ہوں کہ جب سیاستدانوں سے کرپشن کا ''حساب'' مانگا جا رہا ہے تو ہر طرف کہرام مچا ہوا ہے۔ افسوس ازحد افسوس کہ ہمارے حکمرانوں نے کرپشن اور لوٹ مار کا نام جمہوریت رکھ دیا تھا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن دونوں پر کرپشن کے الزامات ہیں۔ اس قوم کے ساتھ جو مذاق کیا گیا وہ نام نہاد این آر او تھا۔ قارئین کو یاد ہوگا مشرف کے دور میں NRO پر دستخط کیے گئے تھے۔ یہ وہی آرڈیننس تھا جس میں سب کی کرپشن 'معاف' کر دی گئی تھی اور پچھلے ادوار میں ہوئے تمام کرپشن اسکینڈل کو ختم کردیا گیا تھا۔
موجودہ حالات میں مجھے اسٹیبلشمنٹ اور حکومت سے ایک سخت شکایت ہے کہ کرپشن کے خلاف جنگ صرف کراچی میں ہی کیوں؟ کیا باقی صوبے اس میں نہیں آتے؟ کیا پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان قومی ایکشن پلان کا حصہ نہیں ہیں؟ ڈاکٹر عاصم ہی کیوں؟ یہاں ہر صوبے میں سیکڑوں عاصم بیٹھے ہیں۔ ان پر ہاتھ کیوں نہیں ڈالا جارہا؟۔ میں حکومت وقت سے پوچھتا ہوں کہ جن وزراء کے خلاف ٹھوس ثبوت ہیں اُنہیں کیوں نہیں پکڑا جا رہا؟ کیا رانا مشہود اس الزام سے بری ہے جس کی ویڈیو سب کے سامنے ہے۔
میرے خیال میں بددیانت اور ملک و قوم کا پیسہ فضول خرچنے والا بھی کرپٹ ہے۔ اپنے مفادات کی خاطر نت نئے مہنگے پراجیکٹ شروع کرنے والا بھی کرپٹ ہے۔ ماضی میں جس جس نے بینکوں سے قرضے معاف کرائے وہ بھی قوم کے مجرم ہیں، انھیں بھی کٹہرے میں لایا جائے اور عوام کا پیسہ جو بیرون ملک بینکوں میں پڑا ہے اسے اپنے ملک میں لایا جائے۔
یہ حقیقت ہے کہ ڈاکٹر عاصم حسین غیر سیاسی شخصیت ہوتے ہوئے بھی سندھ کی دوبڑی سیاسی جماعتوں کے آنکھ کے تارے جانے جاتے ہیں، ان پر باقی الزامات اپنی جگہ لیکن میری نظر میں انھوں نے میڈیکل کی تعلیم کو کاروبار بنایا۔ یہ مشرف دور کی بات ہے جب وہ پی ایم ڈی سی کے چیئرمین تھے۔
انھوں نے پی ایم ڈی سی کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد پی ایم ڈی سی کے قوانین میں تبدیلی کرکے اس باڈی میں پرائیویٹ یونیورسٹیوں کونمایندگی دی ، 2006 تک ملک میں 67 میڈیکل کالج تھے۔ 2015ء تک ان کی تعداد 135 تک جاپہنچی، اب انھیں کی بدولت پرائیویٹ میڈیکل کالجز 70 لاکھ سے 1کروڑ روپے میں ایک ڈاکٹر تیار کر رہے ہیں۔ خیر ابھی تو رینجر کے پاس 90دن کے ریمانڈ پر ہیں۔ آگے آگے دیکھیے کیا ہوتا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ پاکستان میں عوام کی محرومیوں کا سبب وسائل کی کمی نہیں بلکہ کرپشن ہے۔ حکومت کے دور میں نت نئے کرپشن اسکینڈل سامنے آتے ہیں ۔ عوام چیختے اور چلاتے ہیں لیکن بے سود اور بے اثرکیونکہ ان کے منتخب حکمران اپنے مفاد کے لیے عوام کے بجائے افسر شاہی کے ساتھی اور رفیق بن جاتے ہیں۔ پھر عوام کو نظیر اکبر آبادی کے اس مشہور شعر کا سہارا لینا پڑتا ہے ...
تھا ارادہ تری فریاد کریں حاکم سے
وہ بھی کم بخت ترا چاہنے والا نکلا
امریکا جیسے ملک میں بھی پاکستان کی طرح 4,4گھنٹے فلائٹ لیٹ ہوتی ہے، وہاں بھی ٹریفک بلاک ہوتی ہے۔ لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ وہاں ''لائن'' نہیں ٹوٹتی۔ وہاں سسٹم ہے لوگ اس کو فالو کرتے ہیں یہاں نہ تو کوئی سسٹم ہے اور نہ ہی لوگ اسے فالو کرنا پسند کرتے ہیں۔ ہمارے سیاستدانوں کو ہنگامہ برپا کرنے کی کیا ضرورت ہے بلکہ اگر وہ کرپشن میں ملوث نہیں ہیں تو اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کریں، ایسا کرنے سے ان کے قد کاٹھ میں عوام کی نظر میں اضافہ ہوگا ورنہ لوگ یہی کہیں گے کہ
ہنگامہ ہے کیوں برپا۔۔۔