چند قابل غور حقائق

میرے پاس کچھ عرصے سے معظم خان مندوخیل کے فون اور پیغامات آتے رہے۔

zb0322-2284142@gmail.com

ISTANBUL:
میرے پاس کچھ عرصے سے معظم خان مندوخیل کے فون اور پیغامات آتے رہے۔ وہ میرے کالم کے قاری ہیں۔ ایک بار فون آیا کہ ''میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔'' میں نے خوش آمدید کہا۔ شیخ معظم خان اچانک ایک روز میری رہائش گاہ پر تشریف لائے۔ ان کے ساتھ دو کتابیں تھیں۔ کتاب کا نام ''از خود نوٹس'' دو حصوں پر مشتمل ہے۔

شیخ معظم خان مندوخیل ہیں پشتون لیکن ان کی گفتگو اور انداز لکھنو والوں جیسا تھا۔ ان کی کتاب کے سرورق پر نظر پڑتے ہی قانون کا پس منظر، پرچھائیں جیسا ذہن پر نمودار ہوا اور مجھے فوراً چودھویں صدی کے معروف یونانی ذہین فلسفی، موسیقار، قلم کار، ادیب اور تاریخ داں ''سولونو'' یاد آئے، ان کا مشہور قول ہے کہ ''قانون ایک ایسا مکڑی کا جال ہے جسے طاقتور پھاڑ کر نکل جاتا ہے اور کمزور پھنس جاتا ہے'' یہی طبقاتی نظام کا وتیرہ ہے اور سرمایہ داری کی بنیاد۔ از خود نوٹس حصہ اول میں سائل جو اپنا نام بتائے بغیر کہتا ہے کہ میں 20 سال سے مقدمہ لڑ رہا ہوں۔

بہر حال سائل اپنا مقدمہ جیت گیا۔ اس مضمون میں معظم خان لکھتے ہیں کہ ''جب عدالت کی بات آتی ہے تو اس سے منسلک سب لوگ ذہن میں آ جاتے ہیں۔ ایک وکیل جب سائل کا مقدمہ جیتتا ہے اور دوسری پارٹی اپیل میں جاتی ہے تو جیتنے والا وکیل اس سے کہتا ہے کہ ''آپ دفتر آئیں اور اپیل کے لیے دوبارہ فیس طے کریں گے، کتنا ظلم ہے کہ ایک طرف سائل بے چارہ پہلے ہی عدالتوں میں 30،20 سال تک رگڑے کھاتا رہا ہے، اپنی جائیدادیں بیچ چکا ہے۔

اپنا قیمتی وقت، وکیل اور عدالت کی نذر کر چکا ہے اور وکیل و عدالت کے ہر طرح کے اخراجات پورا کرتے ہوئے مالی، جسمانی اور ذہنی طور پر کھوکھلا اور مفلوج ہو چکا ہے گویا وکیل مسلسل تقاضا کرتے ہیں، آخر وہ بادشاہ ہیں، شاید ان کی کوئی پریشانی ہو یا پھر کوئی غرض یا مقصد ہو گا، مگر ایسی باتوں سے سائل کے دل پر جو گزرتی ہے وہ صرف وہی جانتا ہے، یہ تو رہی عدلیہ، عادل اور وکیل کی باتیں۔

اب ذرا محترم چیف جسٹس آف سپریم کورٹ پاکستان جواد ایس خواجہ کے چشم کشا ریمارکس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ''مساجد کے چندے کا بھی حساب رکھنا ہو گا، یہاں امیر اور غریب کے لیے آئین الگ الگ ہیں، مزدور خود کو منظم کریں، حقوق لینے سے ملیں گے، کم از کم اجرت کے قانون پر عمل درآمد حکومتی ذمے داری ہے، انھوں نے کہا یہ حکومت کا فریضہ ہے کہ وہ دیکھے کہ این جی اوز کے فنڈز کہاں سے آتے ہیں اور کہاں خرچ ہوتے ہیں۔ ''


یہ اچھی باتیں تو کر دیں جو عام آدمی کو بھی پتہ ہے۔ اب فیصلہ کون کرے گا اور عمل در آمد کون کرے گا۔ کیا اس نظام میں رہتے ہوئے ممکن ہے؟ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق عدالت نے ریمارکس دیے کہ ''کسی کو معلوم نہیں ہے کہ لوگوں سے اکٹھا کیا جانے والا چندہ کن مقاصد کے لیے استعمال ہو رہا ہے'' جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ ''حکومت کالا دھن اور چندہ اکٹھا کرنے والوں کے خلاف کیوں کارروائی نہیں کرتی؟ انھوں نے کہا کہ کالعدم تنظیمیں بھی مختلف ناموں سے چندہ اکٹھا کر رہی ہیں۔

جواد ایس خواجہ نے مزید کہا کہ ''کچی آبادیوں کا مسئلہ مفاد عامہ اور بنیادی انسانی حقوق کا معاملہ ہے'' بہر حال آخری سوال روٹی کا ہے۔ آج دنیا کی سات ارب کی آبادی میں ساڑھے پانچ ارب غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ حال ہی میں ایشیا کی ابھرتی ہوئی معیشت چین اور ہندوستان کہلاتی ہے جب کہ چین میں گزشتہ دنوں اسٹاک ایکسچینج میں مندی کے باعث 11 اگست 2015ء کے بعد سے اب تک گلوبل مارکیٹس کو 5 ٹریلین ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔ شنگھائی انڈیکس 8.49 فی صد نیچے آ گیا۔ جس کے اثرات ممبئی، کراچی، یورپ اور امریکی مارکیٹس پر پڑے۔

سرمایہ کاروں نے دھرا دھڑ حصص فروخت کیے، چین کی مقامی سرمایہ کاروں نے خدشے کا اظہار کیا ہے کہ بیجنگ کے وسیع مالی وسائل کے باوجود چینی مارکیٹس میں افرا تفری کو روکنا اس کے لیے ممکن نہیں ہو گا۔ 26 اگست 2015ء کو بھارتی ریاست چھتیس گڑھ میں چپڑاسی کی 30 اسامیوں کے لیے 75 ہزار درخواستیں آئیں، جن میں عام گریجویٹس کے علاوہ انجینئر سے لے کر ایم بی اے بھی شامل تھے۔ تنخواہ 14000 روپے بتائی گئی تھی۔

اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے محکمے کے سربراہ امیتابھ پانڈے نے اس صورتحال کو انتہائی غیر معمولی قرار دیتے ہوئے بھرتیوں کے عمل کا از سرنو جائزہ لینے کا اعلان کیا۔ معظم خان ''از خود نوٹس'' حصہ دوم کے ایک مضمون بیان کرتے ہیں کہ ''مقدمہ لڑنے کے لیے نوح علیہ السلام کی عمر، قارون کا خزانہ اور آخر میں صبرِ ایوب کی ضرورت ہوتی ہے''۔

معظم خان ''آئین اور ریاست'' کے عنوان سے لکھے گئے مضمون میں کہتے ہیں کہ ''آج میں 21 جولائی 2013ء کو اخبار پڑھ رہا تھا۔ اسی مضمون میں معظم صاحب نجکاری کے خلاف شدید تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سارے اداروں کی نجکاری کریں گے تو پھر عوام کے پاس کیا رہ جائے گا۔ ایک اور مضمون ''پاکستان برائے فروخت نہیں ہے'' میں کہتے ہیں کہ اگر سارے ادارے فروخت ہی کر دیے جاتے ہیں تو عوام کے خون پسینے سے 68 سال میں جو بنے ہیں تو پھر پاکستان کے پاس کیا رہ جائے گا۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ کون سی منطق ہے؟۔ مندوخیل صاحب کے مطابق ملٹی نیشنل کمپنیوں اور عالمی سامراج کے تحت ساری دنیا کو لوٹا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ محنت کش نجکاری کے خلاف ڈٹ گئے ہیں، سچے جذبوں کی قسم ان نا انصافیوں اور طبقاتی جبر سے تنگ آ چکے ہیں۔
Load Next Story