جمہوریت اور دور آمریت کی کرپشن
خورشید شاہ کے خلاف بھی آج کل سوشل میڈیا پر خبریں چل رہی ہیں اور ان کے ارب پتی بن جانے پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں
اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کہا ہے کہ آمروں کے دور میں ہونے الی کرپشن کی کوئی بات نہیں کرتا اور سب اس سلسلے میں سیاست دانوں اور جمہوری ادوار کی کرپشن کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں جو جمہوریت کو بدنام کرنے کا منصوبہ ہے۔
خورشید شاہ کے خلاف بھی آج کل سوشل میڈیا پر خبریں چل رہی ہیں اور ان کے ارب پتی بن جانے پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں مگر اس سلسلے میں اپوزیشن لیڈر خاموش ہیں، پہلے کہا جاتا تھا کہ ملک میں آمروں نے طویل عرصے تک حکومت کی جن کا عرصہ اقتدار جمہوری حکومتوں سے زیادہ ہے مگر اب یہ بات درست نہیں رہی کیوں کہ ملک کے 68 سالوں میں اب آمریت کا دور تقریباً 32 سال اور جمہوری حکومتیں تقریباً 36 سال اقتدار میں رہی ہیں اور اب وزیر اعظم نواز شریف کا اقتدار تیسرے سال میں ہے۔
ملک کے پہلے فوجی سربراہ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے گیارہ سالہ دور کو ملک کی تعمیر و ترقی کا دور کہا جاتا ہے، جمہوریت و آمریت کے چکر سے الگ ہو کر ایمانداری سے دیکھا جائے تو ایوب دور ایک سنہری دور تھا جس میں ملک میں صنعتی ترقی کا ریکارڈ قائم ہوا اور جمہوریت کے علاوہ ہر شعبے میں نمایاں ترقی نظر آئی۔ صدر ایوب کی کابینہ میں قابل لوگ شامل تھے جن پر کرپشن کے الزامات نہیں تھے اور انھوں نے اپنی صلاحیتیں مال بنانے کی بجائے ملک کے لیے استعمال کیں۔
ایوب دور فرشتوں کا دور تو نہیں تھا مگر ان کے وزیروں پر کرپشن کے ذریعے کمایا گیا مال غیر ملکی بینکوں میں جمع کرانے کے الزامات نہیں تھے، کیوں کہ وہ لوگ اپنی ذات سے زیادہ ملک سے مخلص تھے۔
شراب و شباب کے رسیا یحییٰ خان پر بھی کرپشن کے نہیں ملک توڑنے کے الزامات ضرور لگائے جاتے ہیں تاہم یہ الزام بھٹو پر بھی ہے، جنھوں نے ''ادھر ہم ادھر تم'' کی بات کی تھی۔
کرپشن کی کچھ کہانیاں بھی بھٹو دور میں پروان چڑھیں اور سیاست دانوں کے وارے نیارے ہونا شروع ہوئے جو بے نظیر کے دور میں عروج پر تھے اور گیلانی اور راجہ رینٹل کے دور میں تو کرپشن کی انتہا دیکھی گئی، جنرل ضیا کے گیارہ سالہ دور میں آج کے مقتدر سیاسی رہنما ان کی حکومت کا حصہ رہے۔
جس کی ایک واضح مثال وزیر اعظم نواز شریف ہیں جنھیں جنرل ضیا نے اپنی عمر لگ جانے کی دعا دی تھی مگر نواز شریف کو اپنا وہ محسن اب 17 اگست کو بھی یاد نہیں آتا اور کئی سال سے جنرل ضیا کی برسی نواز شریف کی شرکت کے بغیر منائی جاتی ہے، جنرل ضیا کی حکومت میں پیپلز پارٹی اور اے این پی جیسی قومی پارٹیوں کے علاوہ دیگر تمام بڑی جماعتیں مسلم لیگ جماعت اسلامی، جے یو آئی اور پی ڈی پی بھی شامل رہی ہیں۔ سندھ کے ایک اہم سیاست دان مولابخش سومرو کہتے تھے کہ بھٹو دور میں اتنی کرپشن ہو گئی تھی کہ جس کے پاس پہلے دو گدھے بھی نہیں تھے وہ دو قیمتی کاروں کا مالک بن گیا۔
جنرل ضیا کے حادثہ کے بعد بے نظیر بھٹو وزیر اعظم بنیں اور انھوں نے جنرل ضیا اور ان کے خاندان کی کرپشن کا پتہ چلانے کی کوشش کی مگر ناکام رہیں، جنرل ضیا کے بعض وزیروں پر بھی کرپشن کے الزامات لگے مگر کچھ نہ ہو سکا۔ وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے کرپشن کے الزام میں اپنے ایک وزیر کو ضرور برطرف کیا تھا مگر بے نظیر اور نواز شریف کے دونوں ادوار میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔
سابق صدر آصف زرداری نے پنجاب کے وزیر تعلیم کی کرپشن کی ویڈیو کی نشاندہی کی ہے مگر وہ اپنے 5 سالہ دور میں ہونے والی کرپشن کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں حالانکہ ان کے دور کے بدنام دونوں وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف اپنے خلاف درج کرپشن کے مقدمات میں ضمانتیں کرانے میں مصروف ہیں جب کہ سندھ کے چیف سیکریٹری آئی جی پولیس و دیگر افسران اور وزرا پر کرپشن کے سنگین الزامات لگے ہیں۔
سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے دونوں ادوار میں ان کے شوہر آصف زرداری پر کرپشن کے سنگین الزامات لگے اور خود بے نظیر بھٹو پر بھی کرپشن کے مقدمات قائم ہوئے۔ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نے ایک دوسرے پر کرپشن کے سنگین الزامات لگائے اور نواز شریف نے محترمہ کو سیکیورٹی رسک تک قرار دیا۔
بے نظیر حکومت ان کے منہ بولے بھائی اور صدر فاروق لغاری نے کرپشن کے الزامات لگا کر برطرف کی اور سابق صدر غلام اسحاق اور جنرل پرویز مشرف نے میاں نواز شریف کی حکومتیں کرپشن کے الزامات میں برطرف کیں، جنرل پرویز مشرف کا دعویٰ ہے کہ ان کے دور میں کرپشن نہیں تھی اور ان پر ذاتی طور پر کرپٹ ہونے کا الزام بھی کسی نے نہیں لگایا مگر اب ایک عالمی تنظیم نے کہا ہے کہ پرویز مشرف کے نو سالوں میں جتنی کرپشن ہوئی اتنی آصف زرداری کی صدارت کے 5 سالوں میں نہیں ہوئی۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنے سندھ کے حالیہ دورے میں کہا ہے کہ سندھ میں پی پی دور کے سیاست دانوں نے سرکاری ملازمتیں فروخت کیں اور وہ کرپشن کے سنگین معاملات میں ملوث ہیں اور جب ان کے خلاف کارروائیاں شروع ہوئی تو آصف زرداری چراغ پا ہو رہے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ سب سے زیادہ بیوروکریٹ کرپشن کرتے ہیں اور وہ سیاست دانوں کو کرپشن کی نہ صرف ترغیب دیتے ہیں بلکہ وہ خود کو محفوظ رکھنے کے لیے سیاست دانوں کو کرپشن کے مواقعے دکھا کر انھیں کرپٹ کر دیتے ہیں اور اسی وجہ سے ہمارے سیاست دان ڈپٹی کمشنروں اور کمشنروں کی خوشامد کو ترجیح دیتے ہیں۔
انھیں با اختیار ناظم پسند نہیں بلکہ کمشنری نظام پسند ہے سیاست دانوں کو بیورو کریٹ سے زیادہ اپنے سیاست دانوں کی کرپشن کا پتہ ہے اور وہ کبھی بیورو کریسی پر تنقید نہیں کرتے کیوں کہ بیوروکریٹ ان کی کرپشن کے مکمل ثبوت رکھتے ہیں اور سیاست دان ان کے ہاتھوں بلیک میل بھی ہوتے ہیں اور فوجی ادوار میں افسروں نے ہی سیاست دانوں کی بدنامی کا کوئی موقع ضایع نہیں کیا۔
خورشید شاہ کے خلاف بھی آج کل سوشل میڈیا پر خبریں چل رہی ہیں اور ان کے ارب پتی بن جانے پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں مگر اس سلسلے میں اپوزیشن لیڈر خاموش ہیں، پہلے کہا جاتا تھا کہ ملک میں آمروں نے طویل عرصے تک حکومت کی جن کا عرصہ اقتدار جمہوری حکومتوں سے زیادہ ہے مگر اب یہ بات درست نہیں رہی کیوں کہ ملک کے 68 سالوں میں اب آمریت کا دور تقریباً 32 سال اور جمہوری حکومتیں تقریباً 36 سال اقتدار میں رہی ہیں اور اب وزیر اعظم نواز شریف کا اقتدار تیسرے سال میں ہے۔
ملک کے پہلے فوجی سربراہ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے گیارہ سالہ دور کو ملک کی تعمیر و ترقی کا دور کہا جاتا ہے، جمہوریت و آمریت کے چکر سے الگ ہو کر ایمانداری سے دیکھا جائے تو ایوب دور ایک سنہری دور تھا جس میں ملک میں صنعتی ترقی کا ریکارڈ قائم ہوا اور جمہوریت کے علاوہ ہر شعبے میں نمایاں ترقی نظر آئی۔ صدر ایوب کی کابینہ میں قابل لوگ شامل تھے جن پر کرپشن کے الزامات نہیں تھے اور انھوں نے اپنی صلاحیتیں مال بنانے کی بجائے ملک کے لیے استعمال کیں۔
ایوب دور فرشتوں کا دور تو نہیں تھا مگر ان کے وزیروں پر کرپشن کے ذریعے کمایا گیا مال غیر ملکی بینکوں میں جمع کرانے کے الزامات نہیں تھے، کیوں کہ وہ لوگ اپنی ذات سے زیادہ ملک سے مخلص تھے۔
شراب و شباب کے رسیا یحییٰ خان پر بھی کرپشن کے نہیں ملک توڑنے کے الزامات ضرور لگائے جاتے ہیں تاہم یہ الزام بھٹو پر بھی ہے، جنھوں نے ''ادھر ہم ادھر تم'' کی بات کی تھی۔
کرپشن کی کچھ کہانیاں بھی بھٹو دور میں پروان چڑھیں اور سیاست دانوں کے وارے نیارے ہونا شروع ہوئے جو بے نظیر کے دور میں عروج پر تھے اور گیلانی اور راجہ رینٹل کے دور میں تو کرپشن کی انتہا دیکھی گئی، جنرل ضیا کے گیارہ سالہ دور میں آج کے مقتدر سیاسی رہنما ان کی حکومت کا حصہ رہے۔
جس کی ایک واضح مثال وزیر اعظم نواز شریف ہیں جنھیں جنرل ضیا نے اپنی عمر لگ جانے کی دعا دی تھی مگر نواز شریف کو اپنا وہ محسن اب 17 اگست کو بھی یاد نہیں آتا اور کئی سال سے جنرل ضیا کی برسی نواز شریف کی شرکت کے بغیر منائی جاتی ہے، جنرل ضیا کی حکومت میں پیپلز پارٹی اور اے این پی جیسی قومی پارٹیوں کے علاوہ دیگر تمام بڑی جماعتیں مسلم لیگ جماعت اسلامی، جے یو آئی اور پی ڈی پی بھی شامل رہی ہیں۔ سندھ کے ایک اہم سیاست دان مولابخش سومرو کہتے تھے کہ بھٹو دور میں اتنی کرپشن ہو گئی تھی کہ جس کے پاس پہلے دو گدھے بھی نہیں تھے وہ دو قیمتی کاروں کا مالک بن گیا۔
جنرل ضیا کے حادثہ کے بعد بے نظیر بھٹو وزیر اعظم بنیں اور انھوں نے جنرل ضیا اور ان کے خاندان کی کرپشن کا پتہ چلانے کی کوشش کی مگر ناکام رہیں، جنرل ضیا کے بعض وزیروں پر بھی کرپشن کے الزامات لگے مگر کچھ نہ ہو سکا۔ وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے کرپشن کے الزام میں اپنے ایک وزیر کو ضرور برطرف کیا تھا مگر بے نظیر اور نواز شریف کے دونوں ادوار میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔
سابق صدر آصف زرداری نے پنجاب کے وزیر تعلیم کی کرپشن کی ویڈیو کی نشاندہی کی ہے مگر وہ اپنے 5 سالہ دور میں ہونے والی کرپشن کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں حالانکہ ان کے دور کے بدنام دونوں وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف اپنے خلاف درج کرپشن کے مقدمات میں ضمانتیں کرانے میں مصروف ہیں جب کہ سندھ کے چیف سیکریٹری آئی جی پولیس و دیگر افسران اور وزرا پر کرپشن کے سنگین الزامات لگے ہیں۔
سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے دونوں ادوار میں ان کے شوہر آصف زرداری پر کرپشن کے سنگین الزامات لگے اور خود بے نظیر بھٹو پر بھی کرپشن کے مقدمات قائم ہوئے۔ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نے ایک دوسرے پر کرپشن کے سنگین الزامات لگائے اور نواز شریف نے محترمہ کو سیکیورٹی رسک تک قرار دیا۔
بے نظیر حکومت ان کے منہ بولے بھائی اور صدر فاروق لغاری نے کرپشن کے الزامات لگا کر برطرف کی اور سابق صدر غلام اسحاق اور جنرل پرویز مشرف نے میاں نواز شریف کی حکومتیں کرپشن کے الزامات میں برطرف کیں، جنرل پرویز مشرف کا دعویٰ ہے کہ ان کے دور میں کرپشن نہیں تھی اور ان پر ذاتی طور پر کرپٹ ہونے کا الزام بھی کسی نے نہیں لگایا مگر اب ایک عالمی تنظیم نے کہا ہے کہ پرویز مشرف کے نو سالوں میں جتنی کرپشن ہوئی اتنی آصف زرداری کی صدارت کے 5 سالوں میں نہیں ہوئی۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنے سندھ کے حالیہ دورے میں کہا ہے کہ سندھ میں پی پی دور کے سیاست دانوں نے سرکاری ملازمتیں فروخت کیں اور وہ کرپشن کے سنگین معاملات میں ملوث ہیں اور جب ان کے خلاف کارروائیاں شروع ہوئی تو آصف زرداری چراغ پا ہو رہے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ سب سے زیادہ بیوروکریٹ کرپشن کرتے ہیں اور وہ سیاست دانوں کو کرپشن کی نہ صرف ترغیب دیتے ہیں بلکہ وہ خود کو محفوظ رکھنے کے لیے سیاست دانوں کو کرپشن کے مواقعے دکھا کر انھیں کرپٹ کر دیتے ہیں اور اسی وجہ سے ہمارے سیاست دان ڈپٹی کمشنروں اور کمشنروں کی خوشامد کو ترجیح دیتے ہیں۔
انھیں با اختیار ناظم پسند نہیں بلکہ کمشنری نظام پسند ہے سیاست دانوں کو بیورو کریٹ سے زیادہ اپنے سیاست دانوں کی کرپشن کا پتہ ہے اور وہ کبھی بیورو کریسی پر تنقید نہیں کرتے کیوں کہ بیوروکریٹ ان کی کرپشن کے مکمل ثبوت رکھتے ہیں اور سیاست دان ان کے ہاتھوں بلیک میل بھی ہوتے ہیں اور فوجی ادوار میں افسروں نے ہی سیاست دانوں کی بدنامی کا کوئی موقع ضایع نہیں کیا۔