200 روپے میں جان
جب باپ اپنی اولاد کا دشمن ہو جائے تو پھر غیروں سے کیا شکوہ کریں۔
KARACHI:
جب باپ اپنی اولاد کا دشمن ہو جائے تو پھر غیروں سے کیا شکوہ کریں۔ کس کے ہاتھ پر خون کے نشان تلاش کروں جب مالی خود اپنے پھولوں کو پیروں تلے روند ڈالے۔ کہاں سے مدد پہنچے گی جب فنکار خود اپنے شاہکار کو جلا دے ۔ کیا ستم ہے یہ ہے ہم خود اپنی آنے والی نسلوں کے دشمن بن گئے ہیں کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ ایک باپ اپنے بچوں کو معذور کرنے کا ارادہ کر لے۔
دنیا میں اس سے برا معاشرہ کون سا ہو گا جہاں باپ اپنے بیمار بچوں کو جان بوجھ کر دوا نہ دے اور مجھے بتائیں ان سب پر اس سے بڑا ظلم کیا ہو گا جو اپنے بچوں کو معذوری کے راستے پر ڈال رہا ہو وہ ہی باپ جو اپنے بچے کو دوا نہ دیتا ہو اس شخص کا ذمہ ہی دوسروں کو دوا دینا ہو۔ ایک شخص جو روزی ہی اس بات سے کماتا ہو کہ لوگوں کو علاج مہیا کرنا ہے وہ اپنے بچوں کا علاج نا کراتا ہو۔ دیکھیں ہمارا معاشرہ کس زوال کا شکار ہے۔
پانچ سال کی گل افشاں کا کیا قصور تھا کہ اُسے زندگی بھر کے لیے معذوری دے دی گئی اور اُس کو یہ معذوری کسی اور نے نہیں بلکہ اُس کے اپنے باپ نے ہی دی ہے۔ میں بھی یہ پڑھ اور سُن کر حیرت میں رہ گیا تھا جب کوئٹہ میں یہ دل ہلا دینے والی کہانی سامنے آئی تھی۔ صوبہ بلوچستان میں ایک محکمہ ہے جس کا نام ایمرجنسی آپریشن ہے۔ یہ خاص طور پر اس لیے بنایا گیا ہے کہ بچوں کو معذور کر دینے والی بیماری پولیو سے لڑا جا سکے۔
اتوار کو اس کے سربراہ نے صحافیوں کے سامنے ایسے انکشافات کیے کہ سب لوگ حیرت کا مجسمہ بنے رہے۔ گزشتہ دنوں ایک پانچ سال کی معصوم لڑکی گل افشاں پولیو سے متاثر ہوئی تھی۔ جس پر صحافیوں کا کہنا تھا کہ کیا کوئٹہ، پشین اور قلعہ عبد اللہ میں پولیو مہم ناکام ہو گئی۔ اُس پر ایمرجنسی آپریشن کے سربراہ نے جوش میں کہا کہ ''اس لڑکی کے باپ کو جیل میں بھیج دینا چاہیے کیونکہ یہ اکیلا ہی اس لڑکی کو معذور کرنے کا ذمے دار ہے۔'' آپ سمجھ رہے ہونگے کہ انھوں نے جذبات میں یہ کہہ دیا۔
لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ گل افشاں کا باپ کوئی جاہل نہیں بلکہ حیرت انگیز طور پر وہ بلوچستان کے شعبہ صحت سے وابستہ ہے۔ یعنی آپ یہ سمجھیں کہ وہ اُس محکمے میں کام کرتا ہے جو دوسروں کو صحت دیتا ہے اور اُس نے خود منع کیا کہ میرے بچوں کو پولیو کے قطرے نہیں پلائے جائیں۔
اب آپ خود فیصلہ کریں کہ جو ماں باپ سب کچھ جانتے ہوئے بھی اپنے بچوں کو دوا نہیں پلاتے انھیں کیا سزا دی جائے۔ حیرت انگیز بات دیکھیں کہ اس سے ہمارے معاشرے کا دوغلہ پن واضح ہوتا ہے کہ ایک شخص جو محکمہ صحت کا ملازم ہے وہ خود اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے نہیں پلاتا۔ یہ سب کچھ آپ کو ہر جگہ مل جائے گا۔
وہ لوگ جو ٹیکس کے محکمے میں کام کرتے ہونگے وہ خود ٹیکس نہیں دیتے ہونگے، جو لوگ تعلیم کے محکمے میں ہونگے وہ خود ہر روز تعلیم کا قتل کرتے ہونگے، جو لوگ ہماری حفاظت کے لیے معمور ہیں اُن کے ہاتھوں میں ہی ہمارا لہو ہو گا۔ جن کا کام ہماری خوشحالی ہے وہ ہی ہمیں بدحال کرتے ہیں۔ جو لوگ امن و محبت کی بڑی بڑی دلیلیں دیتے ہیں وہی فساد کی وجہ بن جاتے ہیں۔ جن سے انصاف کی امید ہوتی ہے وہ ہی ہمیں مجرم بنا دیتے ہیں۔
میں جانتا ہوں کہ اُس ظالم باپ کے اوپر کوئی مقدمہ نہیں بن سکتا کہ سب لوگوں کے لیے ایک سبق بن جائے، گزشتہ سال پولیو کے حوالے سے بدترین سال تھا ۔ 2014ء میں دنیا بھر میں سب سے زیادہ کیس پاکستان کے اندر ہوئے۔ میں یہ پڑھ کر شرمندہ ہو گیا کہ گزشتہ سال نائیجیریا میں ایک بھی پولیو کا کیس نہیں ہوا۔ مجھے نہیں معلوم کہ ہم نائیجیریا میں پناہ لینا چاہییں گے یا نہیں لیکن اس سے بڑا تعجب یہ ہے افغانستان میں 28 کیس ہوئے تھے۔ دو دہائیوں سے چلنے والی پولیو مہم اب تک ہمارے یہاں کامیاب نہیں ہو سکی۔
ہمارا ازلی دشمن یہاں تک پہنچ گیا کہ اگر کوئی پاکستان سے آتا ہے تو اُسے پہلے پولیو کے قطرے پلائے جاتے ہیں۔ ہمیں اس پر اپنی غیرت کو جگاتے ہوئے فورا پولیو کو اپنے ملک سے ختم کرنا چاہیے یا پھر انڈیا سے احتجاج کرنا چاہیے کہ آخر وہ ہمیں پولیو کے قطرے کیوں پلاتا ہے۔
ہماری بے بسی کا عالم دیکھیں کہ صرف بلوچستان کے تین اضلاع کوئٹہ، پشین اور قلعہ کے اندر ایک ہی باپ ایسا نہیں تھا جس نے اپنے بچوں کو معذور کیا۔ نہیں صرف ان تین اضلاع میں ساڑھے چار ہزار خاندان ایسے ہیں جنھوں نے منع کر دیا کہ وہ اپنے بچوں کو عمر بھر کے لیے معذور کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن قطرے نہیں پلائیں گے۔ اب بیچاری حکومت کیا کر سکتی؟ وہ حکومت جو کبھی کبھار ہی نظر آتی ہے۔ ان تمام بچوں کی فہرست، ان کے ماں باپ کے نام اورگھر کے پتے حکومت کے کاغذات میں موجود ہیں، لیکن اس بیچاری حکومت کی بے بسی دیکھیں کہ وہ ان لوگوں کوحکم نہیں دے سکتی کے اپنے بچوں کو قطرے پلائیں۔
یہ حکومت جہاں اپنی حاکمیت کو ظاہر کرنا چاہے تو کھلے سمندروں سے بندہ ڈھنڈھ لاتی ہے، اگر ان کو ضروت پڑے تو یہ اونچے اونچے پہاڑوں سے جڑی بوٹی لا سکتے ہیں لیکن کیونکہ شاید ان کے بچے کبھی متاثر نہیں ہونگے اس لیے انھیں کوئی فکر بھی نہیں ہے۔ کاش ان لوگوں کو یہ سمجھا دیا جائے کہ یہ پولیو کا وائرس بھی اسرائیل اور انڈیا کی سازش ہے تو اس کے خاتمے کے لیے وہ لوگ تیار ہو جائیں ۔
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسامہ بن لادن کیس میں جس طرح سے پولیو کے قطرے کو مشکوک بنایا گیا اُس سے اس مہم کو بہت نقصان پہنچا، لیکن کوئی مجھے یہ بھی تو بتائے کہ 90ء کی دہائی میں جس وقت اس مہم کا آغاز کیا گیا تھا۔ اُس لمحے کون سا ایبٹ آباد کا واقعہ ہوا تھا۔ یہ مہم تو جب سے شروع ہوئی ہے چند لوگوں نے اسے زبردستی مشکوک بنا دیا ہے۔
ملک کے جید علماء اس حوالے سے یہ کہہ چکے ہیں کہ پولیو کے قطرے پلائے جائیں۔ اب تک جو رپورٹ منظر پر آئی ہے اُس میں یہ واضح طور پر لکھا ہے کہ گل افشاں کے باپ نے بھی اس لیے اپنے بچوں کو قطرے نہیں پلائے کہ وہ اُسے مذہبی طور پر ٹھیک نہیں سمجھتے۔
آخر اس مسئلے کا حل کیا ہے۔ ہمیں اجتماعی طور پر ایک نتیجے پر پہنچنا ہو گا۔ اب تک کی معلومات کے مطابق گزشتہ سالوں کے مقابلے میں اس سال پولیو کے کیسز کم سامنے آئے ہیں، لیکن پولیو ختم نہیں ہوا۔ اب بھی ہم نائیجیریا سے آگے ہیں۔ اربوں روپے خرچ ہو چکے ہیں لیکن لگتا یوں ہے کہ نتیجہ صفر۔ کچھ لوگ پولیو کے قطروں کے اصل ہونے پر بھی سوالات اٹھاتے ہیں۔ جب کہ کچھ لوگ کرپشن کا بھی رونا رو رہے ہوتے ہیں۔ اب ان کی سیکیورٹی کا بھی کہا جا رہا ہے۔ ایک پولیو ورکر کو روز کی بنیاد پر جتنے پیسے دیے جاتے ہیں وہ بھی باعث شرم ہے۔ آج کل مزدور کی جتنی اجرت نہیں اُس سے بھی کم رقم اُسے دی جاتی ہے۔ میں ایک واقعہ آپ کو بتاتا ہوں جو کہ ڈیرہ اسماعیل خان کا ہے۔
اس واقعے کو پاکستان میں پولیو کے لیے کام کرنے والے ادارے نے بھی شایع کیا ہے۔ وہاں ایک نوجوان خاتون انار نامی بھی پولیو ورکر کے طور پر کام کرتی ہے۔ جس کے ماں باپ انتقال کر چکے ہیں۔ انار کا تعلق وزیرستان کے علاقے ٹانک سے ہے۔ حالات خراب ہونے کی وجہ سے یہ لوگ ڈیرہ اسماعیل خان آ چکے ہیں۔
اس علاقے میں پولیو ورکر کو شدید خطرات لاحق ہیں اور خاص طور پر ایک لڑکی کے لیے تو یہاں جانا بہت مشکل ہے، لیکن اپنے گھر کی مجبوری کی وجہ سے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر انار پولیو کے قطرے پلاتی ہے۔ جس وقت پولیو کی مہم یہاں شروع ہوتی ہے تو ان تین دنوں کے لیے انھیں رکھا جاتا ہے
۔ ایک دن کی اجرت اتنی کم ہوتی ہے کہ جسے بتاتے ہوئے مجھے شرم آتی ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ ایک لڑکی اپنی جان پر کھیل کر اگر کوئی کام کر رہی ہو تو کم از کم اُسے سراہا تو جائے۔ یہ لڑکی 12 سال سے یہ کام کر رہی ہے اور آپ کو حیرت ہوگی کہ اسے صرف ایک بار صاحبان نے خوش ہو کر انعام میں رقم دی ہے۔ یہ رقم کتنی ہو گی؟ یہ رقم تھی 2 سو روپے۔ اس ملک میں غربت کا یہ حال ہے کہ ایک لڑکی 2 سو روپے کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ لیکن ہر طرف سے مالا مال حکومت ان والدین کو پکڑ نہیں سکتی جو اپنے بچوں کو قطرے نہیں پلاتے ۔