اردو کے امتحاں ابھی اور بھی ہیں
عدالت عظمیٰ نے حکم تو دے دیا، مگر ضرورت ایک فعال دارالترجمے کی ہے، جہاں تیزی سے جدید علم وادب کا اردو ترجمہ کیا جائے۔
اردو کے فوری نفاذ کا عدالتی فیصلہ سنا دیا گیا۔۔۔ چیف جسٹس جواد ایس خواجہ محض 24 دن کے لیے آئے، مگر 68 برس سے مسلط انگریز کے نظام پر کاری ضرب لگا ہی گئے۔ کہنے کو اردو کو آئین کے تحت 1988ء میں دفتری زبان بن جانا تھا، مگر اس کے بعد آنے والے حکم رانوں نے اسے پس پشت ڈالے رکھا، بلکہ نوکر شاہی نے بھی یہ نہ ہونے دیا۔۔۔
یہ کشمیر کی طرح کبھی نہ حل ہونے والا مسئلہ دکھائی دیتا تھا۔ راقم السطور چھٹی کلاس میں تھا، جانے کیا سمائی کہ اردو کے مضمون میں اردو کے ہندسے استعمال کروں، خیال یہ تھا کہ اردو ہے تو پوری اردو ہونی چاہیے۔۔۔ پھر تحریر اور گفتگو میں مکمل اردو کا شعور آیا۔۔۔ ریاستی بنیاد میں اردو کے حوالے نمایاں ہوئے۔۔۔ نونہال اور ایکسپریس میں پہلے مضمون کا عنوان بھی اردو تھا۔۔۔ وقت گزرنے کے ساتھ دیوانگی بڑھی، اہل علم سے ملاقاتیں رہیں۔ 2008ء میں ہاتھ سے لکھے گئے 50 سے زاید خطوط آج بھی محفوظ، جو اردو کے تحفظ اور نفاذ کے لیے مختلف شخصیات کو بھیجے، جواب ندارد، پھر ڈاکٹر منظور احمد جیسی شخصیت کے جواب نے گویا سوکھے دہانوں پر پانی ڈال دیا۔
اُس وقت کے ایکسپریس لاہور کے مدیر عبداللہ طارق سہیل نے اپنے کالم میں جگہ دی، پھر ابراہیم عزمی، ڈاکٹر یونس حسنی، ایس نیر نے کالموں میں حوصلہ افزائی کی، ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی، پروفیسر عنایت علی خان، ڈاکٹر مبین اختر، اور ایف ایم 107 کے میزبان خالد زبیری کے جوابی مراسلوں سے گویا محنت وصول ہوگئی۔ ایکسپریس کے میگزین مدیر اور (آج کے ہمارے باس) جناب احفاظ الرحمٰن کے تفصیلی فون نے گویا مردے تن میں جان ڈالی، بریگیڈیر (ر) عبدالرحمٰن صدیقی، قیصر سلیم اور شیخ نثار پرچم والا نے بھی فون پر کمر تھپکی۔ گویا ان 13 شخصیات نے صحرا میں نخلستان کا کام دیا۔
جامعہ کے زمانے میں یار لوگوں نے 'اردو کے چوکی دار' طرح کی عرفیتوں سے پکارا، تو فخر کا سا احساس ہوا۔ جمیل الدین عالی کے در پر پہنچے، تو انہوں نے فرمایا ''نفاذ اردو کے لیے اب سڑکوں پر لاٹھیاں کھانے والے لوگ چاہئیں، میں عمر کے اس حصے میں تو یہ کام نہیں کر سکتا۔ ''
اُردو کے لیے لکھے جانے والے مراسلے مضامین بن گئے، ماسٹرز مکمل ہوا اور پھر فکر معاش میں یہ تحریک کہیں پیچھے رہ گئی۔ ملنے جلنے والے جب پوچھتے تمہاری تحریک کہاں تک پہنچی، تو شرمندہ سا ہوجاتا، لیکن پھر چل سو چل، وقتاً فوقتاً کچھ نہ کچھ لکھ ہی لیتا۔ کراچی میں 'تحریک نفاذ اردو' متحرک ہوئی، پھر لاہور سے 'قومی زبان تحریک' کے ذریعے فاطمہ قمر نے شاید ہی کسی قلم کار سے اس اہم مسئلے پر لکھوائے بغیر چھوڑا ہو۔ اس کام کے لیے نتائج سے بے پروا ہوکر اسی مستقل مزاجی کی ضرورت تھی، پھر جسٹس جواد ایس خواجہ جیسی شخصیت ایوان عدل کی زینت ہو توکامیابی کو راہ فرار کہاں ملتی ہے۔
عدالت عظمیٰ نے حکم تو دے دیا، مگر اس کے لیے سب سے بڑی ضرورت ایک فعال دارالترجمے کی ہے، جہاں تیزی سے جدید علم وادب کا اردو ترجمہ کیا جائے، بصورت دیگر اردو کو ناممکن قرار دے کر پھر پیچھے دھکیلنے والے سر چڑھ کر بولیںگے۔
یہی نہیں دیگر پاکستانی زبانوں کو اردو سے ٹکرانے والے بھی اوزار تیز کریں گے، بعید نہیں انگریزی کے پُجاری انہیں ہی استعمال کریں۔۔۔ پہلے بھی اردو، بنگلا کے حوالے دے کر انگریزی کا قلعہ مضبوط کیا گیا۔ پاکستان ٹوٹنے کی غلطیوں پر پردہ ڈالا اور ملبہ قائداعظم پر گرایا کہ اردو پر اصرار قائد کی غلطی تھی۔ پھر دیگر ممالک کے حوالے دے کر کہا گیا کہ فلاں جگہ دس قومی زبانیں اور فلاں جگہ 20، یہ نہ دیکھا کہ ہماری ریاستی بنیاد ہی واحد قومی زبان اردو پر استوار ہے، اس لیے یہاں ایک سے زائد قومی زبانیں ممکن ہی نہیں۔ رہی بات دیگر پاکستانی زبانوں کی، تو یہ بات 1948ء میں قائد اعظم نے بھی کہی اور 1973ء کا دستور بھی کہتا ہے کہ مرکزی سطح پر اردو ہے، جب کہ صوبے اس کے ساتھ اپنی ایک ایک زبان رائج کر سکتے ہیں۔ مگر نظریاتی بغض رکھنے والے نام نہاد دانشوَر یہ دشنام طرازی کرتے ہیں کہ قائد نے بنگالیوں کی زبان چھین کر اُردو مسلط کی۔ حالانکہ اردو تو پاکستان یا ہندوستان نہیں بلکہ سارک ممالک کا مشترکہ ورثہ ہے، نیپال، بنگلادیش اور سری لنکا وغیرہ میں یہ بولی سمجھنے والے موجود ہیں، مگر افسوس کچھ اشرافیائی اور تنگ نظری کے پیروکار غلط فہمیوں کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کرتے رہے ہیں۔
جسٹس جواد ایس خواجہ آج یہ تاریخی فیصلہ دے کر رخصت ہو رہے ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ اُن کی تین ماہ کی مہلت کے بعد کیا ہوتا ہے۔ سرِدست 68 سال سے 98 فی صد عوام کو یرغمال بنائے ہوئے ''کالے انگریزوں'' سے خطرہ ہے۔ کیا مقابلے کے امتحان اردو میں منعقد ہوپائیںگے؟ کیا اب غریب کا بچہ سول سروس میں آجائے گا؟ پھر راج کرے گی خلق خدا۔۔۔؟ سامراجی بت خانے خاموشی سے یہ قیامت سہ لیں گے؟ دیکھتے ہیں کہ اب کیا ہوتا ہے!
[poll id="652"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس
یہ کشمیر کی طرح کبھی نہ حل ہونے والا مسئلہ دکھائی دیتا تھا۔ راقم السطور چھٹی کلاس میں تھا، جانے کیا سمائی کہ اردو کے مضمون میں اردو کے ہندسے استعمال کروں، خیال یہ تھا کہ اردو ہے تو پوری اردو ہونی چاہیے۔۔۔ پھر تحریر اور گفتگو میں مکمل اردو کا شعور آیا۔۔۔ ریاستی بنیاد میں اردو کے حوالے نمایاں ہوئے۔۔۔ نونہال اور ایکسپریس میں پہلے مضمون کا عنوان بھی اردو تھا۔۔۔ وقت گزرنے کے ساتھ دیوانگی بڑھی، اہل علم سے ملاقاتیں رہیں۔ 2008ء میں ہاتھ سے لکھے گئے 50 سے زاید خطوط آج بھی محفوظ، جو اردو کے تحفظ اور نفاذ کے لیے مختلف شخصیات کو بھیجے، جواب ندارد، پھر ڈاکٹر منظور احمد جیسی شخصیت کے جواب نے گویا سوکھے دہانوں پر پانی ڈال دیا۔
اُس وقت کے ایکسپریس لاہور کے مدیر عبداللہ طارق سہیل نے اپنے کالم میں جگہ دی، پھر ابراہیم عزمی، ڈاکٹر یونس حسنی، ایس نیر نے کالموں میں حوصلہ افزائی کی، ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی، پروفیسر عنایت علی خان، ڈاکٹر مبین اختر، اور ایف ایم 107 کے میزبان خالد زبیری کے جوابی مراسلوں سے گویا محنت وصول ہوگئی۔ ایکسپریس کے میگزین مدیر اور (آج کے ہمارے باس) جناب احفاظ الرحمٰن کے تفصیلی فون نے گویا مردے تن میں جان ڈالی، بریگیڈیر (ر) عبدالرحمٰن صدیقی، قیصر سلیم اور شیخ نثار پرچم والا نے بھی فون پر کمر تھپکی۔ گویا ان 13 شخصیات نے صحرا میں نخلستان کا کام دیا۔
جامعہ کے زمانے میں یار لوگوں نے 'اردو کے چوکی دار' طرح کی عرفیتوں سے پکارا، تو فخر کا سا احساس ہوا۔ جمیل الدین عالی کے در پر پہنچے، تو انہوں نے فرمایا ''نفاذ اردو کے لیے اب سڑکوں پر لاٹھیاں کھانے والے لوگ چاہئیں، میں عمر کے اس حصے میں تو یہ کام نہیں کر سکتا۔ ''
اُردو کے لیے لکھے جانے والے مراسلے مضامین بن گئے، ماسٹرز مکمل ہوا اور پھر فکر معاش میں یہ تحریک کہیں پیچھے رہ گئی۔ ملنے جلنے والے جب پوچھتے تمہاری تحریک کہاں تک پہنچی، تو شرمندہ سا ہوجاتا، لیکن پھر چل سو چل، وقتاً فوقتاً کچھ نہ کچھ لکھ ہی لیتا۔ کراچی میں 'تحریک نفاذ اردو' متحرک ہوئی، پھر لاہور سے 'قومی زبان تحریک' کے ذریعے فاطمہ قمر نے شاید ہی کسی قلم کار سے اس اہم مسئلے پر لکھوائے بغیر چھوڑا ہو۔ اس کام کے لیے نتائج سے بے پروا ہوکر اسی مستقل مزاجی کی ضرورت تھی، پھر جسٹس جواد ایس خواجہ جیسی شخصیت ایوان عدل کی زینت ہو توکامیابی کو راہ فرار کہاں ملتی ہے۔
عدالت عظمیٰ نے حکم تو دے دیا، مگر اس کے لیے سب سے بڑی ضرورت ایک فعال دارالترجمے کی ہے، جہاں تیزی سے جدید علم وادب کا اردو ترجمہ کیا جائے، بصورت دیگر اردو کو ناممکن قرار دے کر پھر پیچھے دھکیلنے والے سر چڑھ کر بولیںگے۔
یہی نہیں دیگر پاکستانی زبانوں کو اردو سے ٹکرانے والے بھی اوزار تیز کریں گے، بعید نہیں انگریزی کے پُجاری انہیں ہی استعمال کریں۔۔۔ پہلے بھی اردو، بنگلا کے حوالے دے کر انگریزی کا قلعہ مضبوط کیا گیا۔ پاکستان ٹوٹنے کی غلطیوں پر پردہ ڈالا اور ملبہ قائداعظم پر گرایا کہ اردو پر اصرار قائد کی غلطی تھی۔ پھر دیگر ممالک کے حوالے دے کر کہا گیا کہ فلاں جگہ دس قومی زبانیں اور فلاں جگہ 20، یہ نہ دیکھا کہ ہماری ریاستی بنیاد ہی واحد قومی زبان اردو پر استوار ہے، اس لیے یہاں ایک سے زائد قومی زبانیں ممکن ہی نہیں۔ رہی بات دیگر پاکستانی زبانوں کی، تو یہ بات 1948ء میں قائد اعظم نے بھی کہی اور 1973ء کا دستور بھی کہتا ہے کہ مرکزی سطح پر اردو ہے، جب کہ صوبے اس کے ساتھ اپنی ایک ایک زبان رائج کر سکتے ہیں۔ مگر نظریاتی بغض رکھنے والے نام نہاد دانشوَر یہ دشنام طرازی کرتے ہیں کہ قائد نے بنگالیوں کی زبان چھین کر اُردو مسلط کی۔ حالانکہ اردو تو پاکستان یا ہندوستان نہیں بلکہ سارک ممالک کا مشترکہ ورثہ ہے، نیپال، بنگلادیش اور سری لنکا وغیرہ میں یہ بولی سمجھنے والے موجود ہیں، مگر افسوس کچھ اشرافیائی اور تنگ نظری کے پیروکار غلط فہمیوں کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کرتے رہے ہیں۔
جسٹس جواد ایس خواجہ آج یہ تاریخی فیصلہ دے کر رخصت ہو رہے ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ اُن کی تین ماہ کی مہلت کے بعد کیا ہوتا ہے۔ سرِدست 68 سال سے 98 فی صد عوام کو یرغمال بنائے ہوئے ''کالے انگریزوں'' سے خطرہ ہے۔ کیا مقابلے کے امتحان اردو میں منعقد ہوپائیںگے؟ کیا اب غریب کا بچہ سول سروس میں آجائے گا؟ پھر راج کرے گی خلق خدا۔۔۔؟ سامراجی بت خانے خاموشی سے یہ قیامت سہ لیں گے؟ دیکھتے ہیں کہ اب کیا ہوتا ہے!
[poll id="652"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس