اردوکا نفاذ ایک چیلنج

سپریم کورٹ نے اردو کو دفتری زبان کے طور پر فوری رائج کرنے کا حکم دیتے ہوئے3 ماہ میں عملدرآمد رپورٹ طلب کرلی


Editorial September 09, 2015
سپریم کورٹ نے اردو کو دفتری زبان کے طور پر فوری رائج کرنے کا حکم دیتے ہوئے3 ماہ میں عملدرآمد رپورٹ طلب کرلی، فوٹو: فائل

سپریم کورٹ نے اردو کو دفتری زبان کے طور پر فوری رائج کرنے کا حکم دیتے ہوئے3 ماہ میں عملدرآمد رپورٹ طلب کرلی۔ چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں فل بنچ نے12سال پرانی پٹیشن کا فیصلہ سناتے ہوئے آئین کے آرٹیکل251کو بلا تاخیر نافذ کرنے کا حکم دیا ہے۔ فیصلہ 26اگست کو محفوظ کیا گیا تھا جو منگل کو چیف جسٹس نے پڑھ کر سنایا جو ریٹائرمنٹ سے پہلے بحیثیت چیف جسٹس سپریم کورٹ ان کا آخری اور یادگار فیصلہ شمار ہوگا۔

عدالت عظمیٰ کا اردو کو بطور دفتری زبان فوری رائج کرنے کا حکم چشم کشا ہے۔ یہ ملک کی لسانی تاریخ میں ایک خوش آیند پیش رفت ہے اور اسے تہذیبی ، ثقافتی اور تعلیمی تناظر میں ایک ویک اپ کال کا درجہ حاصل ہونا چاہیے، ثقافت کسی بھی قوم کی پہچان ہوتی ہے اور اردو زبان قومی زبان ہونے کے حوالہ سے ہماری تہذیب و ثقافت کا اہم جزو ہے۔

برصغیر کی تاریخ ساز سیاسی، مذہبی تحریکوں اور قیام پاکستان کی جدوجہد میں قومی نظریاتی و یکجہتی کے اظہار میں اردو زبان کا کردار ناقابل فراموش رہا ہے ۔ دنیا بھر کے لوگ اپنی زبانوں سے والہانہ محبت کرتے ہیں، اردو زبان کا تاریخی ارتقا اور اس میں شعر و ادب ، نقد و نظر اور فکشن کا قابل قدر ذخیرہ موجود ہے ، مگر یہ المیہ ہے کہ ریاستی اور حکومتی سطح پر اردو کو افسوس ناک طور پر نظرانداز کیا گیا۔

حکمران اردو کو دفتری زبان بنانے کی نیم دلانہ کوششوں سے آگے نہ بڑھ سکے، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ آزاد ملک ہونے کے باوجود ہم جاگیردارانہ ذہنیت سے آزاد نہ ہوسکے، قومی ، مادری اور علاقائی زبانوں کی ترویج و ترقی کو تعلیمی پالیسیوں سے جوڑنے میں ناکام رہے، یہ الگ بات ہے کہ ادارہ فروغ قومی زبان کی تکنیکی کاوشیں لائق داد ہیں، مولوی عبدالحق ، ڈاکٹر سید عبداللہ ،ڈاکٹر وحید قریشی، ابواللیث صدیقی، شان الحق حقی ، اشفاق احمد، انعام الحق جاوید اوران گنت محققین و ماہرین نے بطور قومی زبان اردو کو آئینی ضرورت کے تحت رائج کرنے کی حتی المقدور کوشش کی ، مگر اہل اقتدار بانیٔ پاکستان کے 21مارچ1948 ء میں ڈھاکا میں دیے گئے اس پیغام کی روح کو عام نہ کرسکے۔

جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ''میں آپ کو واضح طور پر بتا دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہوگی، اور صرف اردو،اور اردو کے سوا کوئی زبان نہیں ہوگی۔'' عوامی حلقوں کا استدلال یہ تھا کہ ملک کا طبقاتی تعلیمی نظام اردو کو دفتری زبان بنانے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے، نئی نسل کے ذہن میں یہ بات ڈالی گئی کہ انگریزی کے باعث ہی جاب ملے گی ، اشرافیہ نے اردو پر انگریزی کے نفسیاتی غلبہ کو ایک ڈھال بناکر نئی نسل کو تعلیمی غلامی کی پر فریب زنجیر پہنا دی جسے توڑنے کے لیے اب اردو کو دفتری زبان بنائے بغیر کوئی چارہ نہیں۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں9 نکات پر مبنی ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا کہ آئین کا اطلاق ہم سب پر فرض ہے، حکومت نے اردوکو بطور سرکاری زبان دفاتر میں رائج کرنے کی جو میعاد6 جولائی2015 کے مراسلے میں خود مقررکی ہے اس کی ہر حال میں پابندی کی جائے، قومی زبان کے رسم الخط میں یکسانیت پیدا کرنے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتیں باہمی ہم آہنگی پیدا کریں۔

وفاقی اور صوبائی قوانین کا 3 ماہ کے اندر اندر قومی زبان میں ترجمہ کیا جائے، وفاقی سطح پر مقابلے کے امتحانات میں اردو کے نفاذ کے لیے حکومتی اداروں کی سفارشات پر عمل کیا جائے جب کہ ان عدالتی فیصلوں کا جو عوامی مفاد سے تعلق رکھتے ہوں یا جو آرٹیکل 189کے تحت اصولِ قانون کی وضاحت کرتے ہوں، لازماً اردو میں ترجمہ کروایا جائے، عدالتی مقدمات میں سرکاری محکمے اپنے جوابات حتیٰ الامکان اردو میں پیش کریں تا کہ شہری اس قابل ہو سکیں کہ وہ مؤثر طریقے سے اپنے قانونی حقوق نافذ کروا سکیں، تمام متعلقہ اداروں میں آرٹیکل251 کا نفاذ یقینی بنایا جائے۔

عدالت نے قرار دیا کہ دستور کی دفعہ251 کے اندر پنہاں حکم کو حکومت نے جس طرح ہلکے انداز میں لیا اس نے معاشرہ میں پھیلی ہوئی لا قانونیت کو براہِ راست تقویت فراہم کی۔ مزید برآں یہ ظلم بھی ہوا کہ اردو کو نظر انداز کرنے سے نئی پود کے تعلیمی خواب بکھر گئے، انھیں انگریزی سے نابلد ہونے کا طعنہ ملا، ان میں احساس کمتری پیدا ہوا،حکمران طبقہ نے اردو سے بے اعتنائی برتی ۔ ادھر ایک اطلاع یہ ہے کہ اردو لغت کا مکمل سیٹ اردو ڈکشنری بورڈ میں ہی موجود نہیں جب کہ اردو کی ترویج کو سیاسی مسئلہ بناکر طبقاتی تشخص سے منسلک کیا گیا ۔چنانچہ عدلیہ کے احکامات قومی امنگوں کی مکمل ترجمانی کرتے ہیں۔

اب ضرورت چند اہم اقدامات کی ہے ، اور سب سے پہلا قدم یہ ہونا چاہیے کہ اردو آسان اور عام فہم ہو تاکہ ہر شخص اسے سمجھ سکے، اصطلاحات کا ترجمہ بھی سہل ہو ، فارسی و عربی الفاظ کی بھرمار نہ ہو ، تجارتی خط و کتابت سمیت عدلیہ ، سرکاری دفاتر اور تجارتی خط وکتابت سادہ اردو میں ہو۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ حکمران اردو کو بطور دفتری زبان رائج کرنے کے چیلنج سے کیسے عہدہ برآ ہوتے ہیں اور اردو کو اس کا جائز حق دلانے اور نیا دفتری اردو کلچر پیدا کرنے میں کیا تدابیر اختیار کرتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں