کشمیر بات چیت کا محور رہے گا
لفظ پاکستان کے حروف میں ’ ک ‘ کشمیر کے لیے مخصوص کیا گیا تھا،کشمیر ہمیشہ سے پاکستان کا حصہ ہے اور رہے گا
FAISALABAD:
لفظ پاکستان کے حروف میں ' ک ' کشمیر کے لیے مخصوص کیا گیا تھا،کشمیر ہمیشہ سے پاکستان کا حصہ ہے اور رہے گا، اگرچہ بھارت اس پر غاصبانہ قبضہ برقرار رکھنے کے لیے لاکھوں کشمیریوں کو شہید کرچکا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ پاکستانی مسئلہ کشمیرکی تائید وحمایت کرنا چھوڑ دیں اور پاک وبھارت مذاکرات بغیر 'کشمیر' کا ذکر چھیڑے کیے جائیں تو یہ بڑی بھول ہے بھارت کی۔
اس ضمن میں گزشتہ روز وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ وقومی سلامتی سرتاج عزیز نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ کشمیر پر بات نہیں ہوگی تو بھارت سے مذاکرات نہیں ہوں گے۔انھوں نے انتہائی واضح پیغام دیا جو پاکستانی اور کشمیریوں کی امنگوں کا ترجمان ہے ۔ بلاشبہ کشمیر کے بغیر پاکستان نامکمل ہے،جب تک بھارت کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصواب رائے کا حق نہیں دیتا اس وقت تک بھارت سے کسی اور موضوع پر بات نہیں ہونی چاہیے۔
اسلامی ممالک کی پارلیمانی یونین کی ایگزیکٹوکمیٹی نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اورکشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق مسئلہ جموں وکشمیر کے پرامن حل کا مطالبہ کیا اور مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارتی افواج کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پرتشویش کا اظہار کیا ہے۔
پاکستان میں منعقد ہونے والی اسلامی ممالک کی پارلیمانی یونین کی 34ویںایگزیکٹو کمیٹی نے 2روزہ اجلاس کے بعد مشترکہ اعلامیے میں اہم نکات اٹھائے ہیں اور ان کے حل کے لیے مشترکہ لائحہ عمل اپنانے کی ضرورت پر زور دیا ہے، اسلامی اخوت وبھائی چارے کی اہمیت، دہشت گردی اور پرتشدد انتہاپسندی کے خلاف مربوط حکمت عملی اختیارکرنے کا کہا ہے۔
مسلم بلاک کی عدم موجودگی اور باہمی نفاق کے نتیجے میں غیر مسلم ریاستوں میں مسلم اقلیتوں کے بنیادی حقوق پامال ہو رہے ہیں، کیونکہ ان ممالک کو پتہ ہے کہ مسلمان تو آپس میں دست وگریبان ہیں، جدید دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کو اسلاموفوبیا ہوچکا ہے۔حالانکہ اسلام ایک پرامن دین ہے ۔
جو دیگر مذاہب کے منانے والوں کا احترام کرتا ہے، مغرب کو اسلاموفوبیا کی خودساختہ اصطلاح کے خوف سے نکلنا ہوگا، اس ضمن میں او آئی سی ایک ایسا پلیٹ فارم ہے، جس پراکٹھے ہوکر مسلمان اپنے مسائل کا حل خود تلاش کریں ،باہمی نفاق کو دور کریں اور اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے مشترکہ اعلامیے پر عملدرآمد شروع کردیں ۔
لفظ پاکستان کے حروف میں ' ک ' کشمیر کے لیے مخصوص کیا گیا تھا،کشمیر ہمیشہ سے پاکستان کا حصہ ہے اور رہے گا، اگرچہ بھارت اس پر غاصبانہ قبضہ برقرار رکھنے کے لیے لاکھوں کشمیریوں کو شہید کرچکا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ پاکستانی مسئلہ کشمیرکی تائید وحمایت کرنا چھوڑ دیں اور پاک وبھارت مذاکرات بغیر 'کشمیر' کا ذکر چھیڑے کیے جائیں تو یہ بڑی بھول ہے بھارت کی۔
اس ضمن میں گزشتہ روز وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ وقومی سلامتی سرتاج عزیز نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ کشمیر پر بات نہیں ہوگی تو بھارت سے مذاکرات نہیں ہوں گے۔انھوں نے انتہائی واضح پیغام دیا جو پاکستانی اور کشمیریوں کی امنگوں کا ترجمان ہے ۔ بلاشبہ کشمیر کے بغیر پاکستان نامکمل ہے،جب تک بھارت کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصواب رائے کا حق نہیں دیتا اس وقت تک بھارت سے کسی اور موضوع پر بات نہیں ہونی چاہیے۔
اسلامی ممالک کی پارلیمانی یونین کی ایگزیکٹوکمیٹی نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اورکشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق مسئلہ جموں وکشمیر کے پرامن حل کا مطالبہ کیا اور مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارتی افواج کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پرتشویش کا اظہار کیا ہے۔
پاکستان میں منعقد ہونے والی اسلامی ممالک کی پارلیمانی یونین کی 34ویںایگزیکٹو کمیٹی نے 2روزہ اجلاس کے بعد مشترکہ اعلامیے میں اہم نکات اٹھائے ہیں اور ان کے حل کے لیے مشترکہ لائحہ عمل اپنانے کی ضرورت پر زور دیا ہے، اسلامی اخوت وبھائی چارے کی اہمیت، دہشت گردی اور پرتشدد انتہاپسندی کے خلاف مربوط حکمت عملی اختیارکرنے کا کہا ہے۔
مسلم بلاک کی عدم موجودگی اور باہمی نفاق کے نتیجے میں غیر مسلم ریاستوں میں مسلم اقلیتوں کے بنیادی حقوق پامال ہو رہے ہیں، کیونکہ ان ممالک کو پتہ ہے کہ مسلمان تو آپس میں دست وگریبان ہیں، جدید دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کو اسلاموفوبیا ہوچکا ہے۔حالانکہ اسلام ایک پرامن دین ہے ۔
جو دیگر مذاہب کے منانے والوں کا احترام کرتا ہے، مغرب کو اسلاموفوبیا کی خودساختہ اصطلاح کے خوف سے نکلنا ہوگا، اس ضمن میں او آئی سی ایک ایسا پلیٹ فارم ہے، جس پراکٹھے ہوکر مسلمان اپنے مسائل کا حل خود تلاش کریں ،باہمی نفاق کو دور کریں اور اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے مشترکہ اعلامیے پر عملدرآمد شروع کردیں ۔