سستی رہائش ایک گمبھیر مسئلہ
ملک میں عام آدمی کے لیے رہائش آج ایک بہت بڑا مسئلہ بنی ہوئی ہے
گزشتہ کئی برسوں سے ہفتہ وار چھٹی یا کسی تہوار کے موقعے پر اخبارات کے صفحات تعمیراتی کمپنیوں کے اشتہارات سے بھرے ہوتے ہیں۔ ٹیلی ویژن پر بھی اس نوعیت کی پرکشش اشتہاری فلمیں چلتی رہتی ہیں۔
ملک میں عام آدمی کے لیے رہائش آج ایک بہت بڑا مسئلہ بنی ہوئی ہے، کیونکہ ہر گذرنے والے دن بڑے شہروں میں جہاں نت نئے رہائشی پروجیکٹس متعارف ہورہے ہیں، کچی آبادیوں کی تعداد میں بھی خود رو پودوں کی طرح مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ لہٰذا یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اس صورتحال کے اسباب کیا ہیں اور اس کا ممکنہ حل کیا ہوسکتا ہے۔
عوام کے لیے روزگار کے ذرایع پیدا کرنے، تعلیم اور صحت تک ان کی رسائی کو ممکن بنانے کے علاوہ مناسب رہائش فراہم کرنا بھی ریاست کی ذمے داری ہوتی ہے۔ دنیا بھر میں مختلف کیٹیگریز کے مکانات کی تعمیر اور ان کا الاٹمنٹ مقامی (شہری) حکومت کی ذمے داری ہوتی ہے۔
جو آبادی میں اضافے کی مناسبت سے ہر سال کم آمدنی والے شہریوں کے لیے سستے مکانات تعمیر کرتی ہیں۔ سابق سوویت یونین میں انقلاب کے فوراً بعد رہائش کے مسئلے کو اولین قومی ترجیحات میں شامل کرتے ہوئے اس منصوبے پر تیزی سے کام شروع کیا گیا۔ دس برس کے اندر تقریباً تمام شہریوں کو باعزت اور بنیادی سہولیات سے آراستہ رہائش فراہم کردی گئی۔
امریکا اور برطانیہ سمیت سبھی یورپی ممالک میں آج بھی کم آمدنی والے شہریوں کے لیے ہر سال رہائشی منصوبے شروع کیے جاتے ہیں۔ ملائیشیا میں ہر شہر کی مقامی حکومت ہر سال سیکڑوں کی تعداد میں فلیٹس تعمیر کرکے انھیں45برس کی لیز پر کم آمدنی والے شہریوں کو معمولی اقساط پر الاٹ کرتی ہے۔ حد یہ کہ افریقی ممالک کینیا، گھانا، مالی اور جنوبی افریقہ میں بھی وہاں کی حکومتیں کم آمدنی والے شہریوں کے لیے مکانات تعمیر کررہی ہیں۔
کلکتہ بھارت کا وہ شہر تھا، جہاں لاکھوں افراد فٹ پاتھوں، کھلے میدانوں پر بڑے بڑے پائیپوں میں زندگی گذارتے تھے۔ ان کی کئی نسلیں فٹ پاتھوں پر پیدا ہوکر بوڑھی ہوجاتی تھیں۔ کمیونسٹ پارٹی نے اپنے30 سالہ دور حکومت میں کم قیمت (Low cost)ہاؤسنگ پر خصوصی توجہ دی اور 25مربع گز پر 16 فٹ بلند چھت کے ایک کمرے پر مشتمل فلیٹ تعمیر کیے۔ ہر فلیٹ میں8فٹ کی بلندی پر 6فٹ چوڑی دو چھتی بھی تعمیر کی۔ اس طرح ان فلیٹوں کے مکین سونے کے لیے دو چھتی استعمال کرتے ہیں، جب کہ دن ہال نما کمرے میں گذارتے ہیں۔ ہر فلیٹ کے ساتھ منسلک بالکونی میں کچن اور باتھ روم بنائے گئے ہیں۔
اس آئیڈیے کو ممبئی کی مقامی حکومت بھی استعمال کررہی ہے۔2007 میں ممبئی کے میئر نے ہمیں بتایا تھا کہ ان کی حکومت کا ارادہ ہے کہ اس طرح کے فلیٹ تعمیرکر کے2020 تک ممبئی کے اندر اور اطراف میں موجود کچی بستیوں کے مکینوں کو ان فلیٹوں میں منتقل کردیا جائے۔
پاکستان کے ابتدائی چند برسوں کے دوران حکومت نے ابتداً وفاقی دارالحکومت (اس زمانے میں) کراچی میں چند تعمیراتی اسکیمیں شروع کیں۔ جن میں نیو کراچی، فیڈرل بی ایریا ، ڈرگ کالونی(شاہ فیصل)، کورنگی اور ناظم آباد وغیرہ شامل ہیں۔ جہاں45،60، 80اور120مربع گز قطعہ اراضی پر دو کمروں پر مشتمل کوارٹر دیگر ضروریات کے ساتھ تعمیر کرکے آسان اقساط پر کم آمدنی والے شہریوں کو دیے گئے۔
ساتھ ہی شہر کے مختلف علاقوں میں مختلف سائز کے چھوٹے بڑے بڑے پلاٹس قسطوں پر فروخت کیے جاتے تھے۔ تاکہ جس میں جتنی استطاعت ہو، اتنے رقبہ کا پلاٹ خرید کر اپنی مرضی کا مکان تعمیر کر سکے۔ لاہور سمیت دیگر شہروں میں بھی اس نوعیت کی پالیسیاں محدود پیمانے پر شروع کی گئیں۔ لاہور میں ٹاؤن شپ اور دیگر کئی علاقوں میں چار اور پانچ مرلے پر کوارٹرز تعمیر کرکے کم آمدنی والے شہریوں کو الاٹ کیے گئے۔
سندھ کے سابق چیف سیکریٹری تسنیم صدیقی جب حیدر آباد ڈیولپمنٹ اتھارٹی(HDA)کے منیجنگ ڈائریکٹر تھے تو انھوں نے حیدر آباد میں خدا کی بستی کے نام سے کم قیمت مکانات کی تعمیر کا سلسلہ شروع کیا۔ بعد میں جب ان کی تقرری بحیثیت منیجنگ ڈائریکٹر کچی آبادی سندھ ہوئی تو انھوں نے کراچی کے تیسر ٹاؤن میں اسی نام سے کم قیمت بستی قائم کی۔ یہ ایک افسر کے تخیلات تھے جنھیں وہ اپنے محدود اختیار کے اندر پائے تکمیل تک پہنچا سکے۔
حکومت نے اس منصوبے کو مزید آگے بڑھنے میں کسی قسم کی دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا جس کی وجہ سے یہ سلسلہ رک گیا۔ دراصل بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد سے بالعموم اور جنرل ضیاء الحق کے دور سے بالخصوص کم قیمت رہائشی منصوبوں سے حکومتی توجہ ہٹ چکی ہے۔ گو کہ ہاؤسنگ کی وزارت موجود ہے، مگر یہ محض دکھاوے کی حد تک رہ گئی ہے۔ جنرل ضیاء الحق ہی کے دور سے نجی تعمیراتی کمپنیوں کو زمینیں الاٹ کرنے اور بڑے بڑے پلازے تعمیر کرنے کی کھلی چھٹی مل چکی ہے۔
نہ تو عالیشان عمارتوں اور بڑے بڑے پلازوں کی تعمیر سے کوئی اختلاف ہے اور نہ ہی نجی شعبے میں تعمیراتی منصوبوں پر اعتراض ہے۔ یہ تمام رہائشی اسکیمیں متمول گھرانوں کے لیے ہوتی ہیں، جو ملک کی کل آبادی کا 15سے20فیصد ہیں جس کی قوت خرید میں یہ رہائشی اسکیمیں آتی ہیں۔ لہٰذا جس کی استطاعت میں جو مکان یا فلیٹ آتا ہے ، وہ اسے خرید لیتا ہے۔ اصل معاملہ ملک کی 80سے85فیصد آبادی کا ہے، جس کا 50فیصد کے قریب حصہ خط افلاس کے نیچے زندگی بسر کرنے والوں پر مشتمل ہے۔ آبادی کے اس بڑے حصے کے لیے باعزت رہائش کا کوئی مناسب بندوبست نہیں ہے۔
یہ لوگ ریلوے لائنوں کے اطراف، ندی نالوں کے کنارے یا پھر سرکاری اراضی پر کچی بستیاں بسا کر آباد ہونے اور انتہائی غیر محفوظ زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں ۔ یہ بستیاں جہاں ایک طرف جرائم پیشہ افراد کی محفوظ پناہ گاہیں بن جاتی ہیں، وہیں دوسری پانی، بجلی اور گیس کی چوری کا سبب بھی ہیں۔ اس کے علاوہ حفظان صحت کی سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث مختلف متعدی بیماریوں کے پھیلاؤ کا ذریعہ بھی بنی ہوئی ہیں۔
گزشتہ 30برسوں کے دوران روزگار کی تلاش میں سرگرداں خاندانوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے دیہی علاقوں سے شہروں کی طرف نقل مکانی کی ہے۔ کراچی، لاہور، ملتان، راولپنڈی، فیصل آباد، حیدر آباد اور پشاور سمیت ملک کے تمام بڑے شہروں کی آبادی میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہوا ہے، جب کہ کراچی پر آبادی کا دباؤ سب سے زیادہ ہے۔ پورے ملک سے ہر سال4 لاکھ کے قریب افراد روزگار کی تلاش میں کراچی آتے ہیں جن کی اکثریت شہر کے درمیان ندی نالوں یا پھر شہر کے اطراف کچی بستیوں میں آباد ہوتی ہے۔ یوں کراچی کچی آبادیوں کا جنگل بنتا جارہا ہے اور شہر کی آبادی 22ملین سے تجاوز کرچکی ہے۔
سیاسی جماعتیں اور شہری انتظامی ادارے ان افراد کے لیے مناسب رہائش کا بندوبست کرنے کے بجائے اپنے معمولی سے مفاد کی خاطر ان بستیوں کو ریگولرائز کر کے غیر ذمے دارانہ سوچ کا مظاہرہ کرتے ہیں جو رہائشی مسئلے کو مزید پیچیدہ بنانے کے علاوہ امن و امان کی صورتحال کو دگرگوں بنانے کا بھی سبب ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اگر حکومت کولکتہ ، ممبئی، کوالالمپور یا کیپ ٹاؤن کے ماڈل کو سامنے رکھتے ہوئے کراچی اور لاہور سمیت ملک کے دیگر شہروں میں کم قیمت فلیٹس کی تعمیر کا سلسلہ شروع کرے،توکم آمدنی والے شہریوں کو مناسب رہائش مہیا ہونے کے علاوہ کچی آبادیوں سے چھٹکارہ مل سکتا ہے۔ یہ حکومت کی ذمے داری ہے کہ کچی آبادی کی فلیٹوں میں منتقلی کے بعد اس جگہ پر نئے فلیٹس تعمیر کرکے ، اس سلسلے کو اس وقت تک جاری رکھے جب تک کہ ساری کچی بستیاں ختم نہیں ہوجاتیں۔
یوں محض 10 برس کی قلیل مدت میں پورے ملک سے کچی بستیوں کا خاتمہ ممکن ہے لیکن اس کے بعد حکومت کم قیمت مکانات کی تعمیر سے مبرا نہیں ہوجاتی، بلکہ اسے اس سلسلے کو آبادی کی شرح میں اضافے کو مدنظر رکھتے ہوئے جاری رکھنا ہوگا۔ اگر ایسا ہوجاتا ہے تو پھر متمول شہریوں کی رہائشی ضروریات کے لیے نجی شعبہ میں مکانات کی تعمیر کے حالیہ سلسلے کو جاری رکھنے پر کسی کو اعتراض نہیں ہوگا۔