عجیب شخص تھا حیران کر گیا

حالانکہ اتنا لمبا عرصہ بلکہ قید بامشقت اس عظیم الشان ’’حیرت کدے‘‘ میں جسے پاکستان کہتے ہیں


Saad Ulllah Jaan Baraq September 10, 2015
[email protected]

حالانکہ اتنا لمبا عرصہ بلکہ قید بامشقت اس عظیم الشان ''حیرت کدے'' میں جسے پاکستان کہتے ہیں گزارنے کے بعد ہمارے اندر اب ''حیران ہونے'' کی حس ہی مر چکی ہے اوپر سے حیرت کدے کے اندر دوسرے حیرت کدے صوبہ کے پی کے اور پھر اس کے اندر تیسرے حیرت کدے پشاور میں رہتے رہتے اب یوں ہو گیا ہے کہ

پہلے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی

لیکن پھر بھی کبھی کبھی ایسے واقعات ہو ہی جاتے ہیں کہ چونکا دیتے ہیں حیران کر دیتے ہیں اور پھر ہنسا دیتے ہیں ایسا ہی واقعہ گذشتہ دنوں بمقام پشاور واقع صوبہ کے پی کے مملکت پاکستان اس وقت رونما ہوا جب ''لقموں'' کے لیے پیدا کیے گئے نئے بلدیاتی ''مونہوں'' کی حلف برداری ہو رہی تھی کسی ''نر کے بچے'' نے نو منتخب حاکم ضلع کی جیب اتنی صفائی سے کاٹ لی کہ صاحب جیب تو کیا خود جیب کو بھی پتہ نہیں چلا وہ تو جب موصوف نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو پتہ چلا کہ وہ جو بیچتے تھے دوائے دل دکان اپنی بڑھا گئے

جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہو گا
کریدتے ہو جو اب ''جیب'' جستجو کیا ہے

پتہ نہیں صاحب جیب جو پشاور کے لیے حاکم بھی ہیں ارباب بھی اور خوش نصیب بھی، ان کو حیرت ہوئی ہو گی یا نہیں کیونکہ اس وقت ان کے سر پر تاج سج رہا تھا یا سج چکا تھا اور اتنی ''بڑی'' جیب پانے کی خوشی میں اپنی چھوٹی سی جیب کٹنے کا صدمہ اگر زور کا بھی ہو گا تو دھیرے سے لگا ہو گا لیکن ہمیں تو یہ دھیرے کا جھٹکا زور سے اس لیے لگا کہ ستر ہزار روپے بجائے خود ہمیں حیرت زدہ کرنے کے لیے کافی ہیں، جب کہ اوپر سے اس عظیم الشان فنی مظاہرے کی حیرت مستزاد تھی اس لیے حیران ہونا تو بنتا تھا، پتہ نہیں حاکم ضلع منتخب ہونے کی خوشی میں ارباب صاحب نے کچھ کہا یا نہیں لیکن ہم ہوتے تو لاپرواہی سے کہہ دیتے کہ

چپک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہن
ہماری جیب کو اب حاجت رفو کیا ہے

ضلع کی حاکمیت کوئی ایسا ویسا ''پیراہن'' تو نہیں دارالحکومت کا خوب ''تربتر'' پیراہن ہوتا ہے لیکن اس سارے قصے میں ہمیں جو بات ''ناگوار'' گزری ہے اس کا ذکر کہیں دور دور تک نہ تھا اور نہ اس کے بعد ہوا ہے، وہ بات یہ ہے کہ ہم تو سمجھ رہے تھے کہ ''جیب تراشی'' کا فن اب تقریباً ختم ہو چکا ہے کیونکہ اس کی جگہ اب نئے اور جیب تراشی سے کہیں زیادہ منافع بخش اور ''بے خطر'' فنون رائج ہو گئے ہیں اور ایک سروے کے مطابق جو ہم نے خود بیٹھے بیٹھے کی ہے۔

کے مطابق شہر کے اکثر جیب کترے ان دوسرے ''فنون'' کو جوائن کر چکے ہیں ،اب اگر آپ ان دوسرے ''فنون'' کے بارے میں پوچھیں گے تو ہم نہیں بتا پائیں گے کیوں کہ ... جس کو ہو دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں؟ ... لیکن اتنا بتا دینے میں کوئی خطرہ نہیں کہ یہ دوسرے فنون ''معززانہ'' فنون کہلاتے ہیں جو اردو میں سفید پوش اور انگریزی میں وائٹ کالر کہلاتے ہیں۔

جیب تراشی کے پیشے کو سب سے بڑا زک یہ پہنچا کہ لوگ بہت برے ہو گئے، پرانے زمانے کے شریف لوگوں کی طرح جیب کترے کو پکڑ کر دو چار ٹھڈے مارنے کے بعد چھوڑ دینے کا شریفانہ طریقہ ختم ہو گیا اور نئے دور کے ''ندیدے'' اور ناقدر لوگ بے چارے جیب کترے کو پکڑنے کے بعد ایسے پل پڑتے تھے ایسے پل پڑتے تھے جیسے کوئی جیب کترا نہیں بلکہ سیاسی لیڈر پکڑا گیا ہو، جتنے بھی لوگ موقع واردات پر موجود ہوتے تھے وہ اپنا ''گھریلو'' غصہ بھی جیب کتروں پر نکال ڈالتے تھے۔

اس کا بھی توڑ جیب کتروں نے نکال لیا تھا ایک جیب کترے کے ساتھ ایک اور سپئر آدمی پھرتا تھا اسے ایک طرح سے جیب کترے کا باڈی گارڈ بھی کہہ سکتے ہیں کہ جب جیب کترا پکڑا جاتا تو اس سے پہلے کہ عام لوگ اس پر اپنا ''گھریلو'' غصہ نکالتے وہ آگے بڑھ کر جیب کترے کو دو چار بے ضرر قسم کے تھپڑ گھونسے مار کر اپنی تحویل میں لے لیتا اور یہ کہہ کر لے جاتا تھا کہ تم لوگ جاؤ میں اسے تھانے لے جارہا ہوں اور یہ کوئی موڑ مڑ کر دونوں بغل گیر اور شیر و شکر ہو کر یہ جا وہ جا ہو جاتے تھے۔

لیکن لوگ آہستہ آہستہ اس راز کو بھانپ گئے چنانچہ اکثر تو مددگار پر بھی پل پڑتے اور یا خوب خوب اپنی بھڑاس نکالنے کے بعد خود ہی لے جا کر پولیس کے حوالے کر دیتے، جیب کتروں میں مسکوٹ ہوئی اور سر جوڑ کر غور و فکر کے بعد یہ حل نکالا کہ دوسرے آدمی کا جاب پولیس والوں ہی کو دیا جائے پھر یوں ہونے لگا کہ جیب کترے کے آس پاس کوئی پولیس والا بھی موجود رہتا اور جب بھی جیب کترا پکڑ میں آتا فوراً آگے بڑھ کر اسے جکڑ لیتا لوگ سمجھتے کہ ہم نے جیب کترے کو ''پولیس'' کے حوالے کر دیا جب کہ پولیس والا اوٹ میں لے جا کر اپنی مزدوری وصول کرتا اور پھر دونوں ہی اکٹھے کسی ہوٹل میں چائے پی کر ہنسی خوشی جدا ہو جاتے۔

ایک مرتبہ ایسا ہی واقعہ ہوا کہ پولیس کو دیے ہوئے ''جیب کترے'' کو دس پندرہ منٹ بعد پھر دیکھ لیا، یہ واقعہ میں ہوا تھا، دیکھنے والے نے یہ بات اخبار کے دفتر آکر ہمیں بتائی ہم نے اسے باقاعدہ خبر بنا کر چھاپ دیا ۔ دوسرے تیسرے دن ایک پولیس والا اخبار کے دفتر آکر بولا کہ یہ خبر جو تم نے چھاپی ہے جانتے ہو اس واردات کا ہیرو پولیس والا میں ہی ہوں اور میں نے آخر برا کیا کیا ہے، بیس روپے لے کر اسے چھوڑ دیا تھا اور اگر میں تھانے لے جاتا تو ایس ایچ او سو روپے لے کر چھوڑ دیتا اگر وہ بھی چالان کر دیتا تو آگے پانچ سو روپے دے کر چھوٹ جاتا ایسے میں اگر وہی کام میں نے بیس روپے میں کر کے اپنا اور اس جیب کترے کا کچھ بھلا کر دیا تو کیا برا کیا، یہی وہ مقام اور ٹوئسٹ تھا جب جیب کتروں نے فیصلہ کیا کہ خواہ مخواہ خالی جیبیں ٹٹولنے، مار کھانے اور اپنی ساری آمدنی اہل قانون کو دینے سے بہتر ہے کہ پیشہ ہی بدل لیا جائے۔

اچھی بات یہ ہوئی کہ ایسے بہت سارے ''پیشے'' بھی نکل آئے جن میں ''مار'' کم اور مال زیادہ تھا بلکہ مار یا بے عزتی تھی ہی نہیں کیوں کہ یہ سارے پیشے معزز پیشے تھے کسی نے جائیداد منقولہ و غیر منقولہ کی دلالی شروع کی، موٹر بارگیننگ اور پراپرٹی ڈیلر کا لیبل لگا کر جیب تراشی شروع کی اور وہ بھی خاصے بڑے پیمانے اور بے تحاشا منافع کے ساتھ، کسی نے ریکروٹنگ ایجنسی کھول لی، کوئی عامل کامل بن کر لوگوں کی تقدیریں ''بناتا'' اور خود اپنی ''تقدیر'' بدلنے کا کام شروع کر دیا لیکن زیادہ تر لوگ اس پیشے میں آگئے جس میں نہ ہینگ لگتی تھی نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی زبردست آتا تھا، سیاست

زباں پہ بار خدایا یہ کس کا نام آیا
کہ میرے نطق کے بوسے مری زبان نے لیے

اس پیشے کو اپنانے میں سب سے بڑی آسانی اور سب سے بڑا حسن یہی تھا کہ اس کے لیے کسی بھی کوالی فیکشن، تربیت یا محنت کی ضرورت نہیں پڑتی تھی بس تھوڑی سی ٹریننگ کے لیے پہلے سماجی کارکن یا چمچہ بننا پڑتا تھا اور اس کے آگے ... آگے راوی جناب ستلج اور سندھ چین ہی چین لکھتے تھے ۔

سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر
اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ مرے اس دعا کے بعد

اور خوب صورت پہلو اس کا یہ تھا کہ صرف چند کلیوں پر قناعت کی مجبوری بھی نہیں تھی کیونکہ اس ''گلشن'' میں علاج تنگی دامان بھی تھا، پکڑ دھکڑ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہاں اگر ''کندھا'' بدلنے کے وقت کچھ ''ایسا ویسا'' ہو بھی جاتا تو اس میں بھی فائدہ ہوتا تھا کیوں کہ

تندی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے

یوں جیب تراشی کے سخت اور مشکل پیسے سے لوگ جوق در جوق اسی طرف آنے لگے اور بہت کچھ پانے لگے لیکن پتہ نہیں یہ کون بے وقوف تھا یا ہے جو اب بھی اس پرانے متروک اور نقصان دہ پیشے سے وابستہ ہے وہ تو شکر ہے کہ پکڑا نہیں گیا ورنہ پورے ضلع کے حاکم پر ہاتھ ڈالنے کے جرم میں ناجانے بے چارے کا کیا حشر ہوتا، جن جن لوگوں نے حاکم ضلع کو ایک ایک ووٹ دیا ہے اگر وہ اس کے جسم پر بھی ایک ایک ٹھپہ لگا دیتے تو کم از کم ''مرحوم ضلع'' بن جانا تو طے تھا۔

ویسے یہ بات ہماری سمجھ میں بالکل نہیں گھس رہی ہے کہ اس نے آخر ان بہت ساری جیبوں میں صرف اس جیب کو کیوں کاٹا جو ساری جیبوں میں ''انتخاب'' تھی اور اسے یہ کیسے پتہ چلا کہ ووٹوں کے اس بازار میں اتنے ''نوٹ'' بھی موجود ہیں گویا جہاں ''کاکروچ'' ہوتے ہیں وہاں آس پاس بچھو بھی ضرور ہوں گے، خیر حاکم ضلع کو اتنی بڑی خوشی کے موقع پر اس چھوٹے سے نقصان کی کوئی خاص پروا نہیں ہو گی کیوں کہ ... لیکن خیر چھوڑیئے کب تک ووٹوں نوٹوں کی تکرار کی جائے۔

بہرحال ہمیں ایک اور شبہ ہے اور بڑا ہی تشویش ناک شبہ ہے کہ کہیں الٹے بانس بریلی کو تو نہیں چلے پہلے ''اس'' پیشے سے لوگ ''اس'' پیشے میں لوگ جارہے تھے اور جوق در جوق جارہے تھے کہیں اب ہواں ۔۔۔۔ سے ہیاں تو نہیں آنے لگے ہیں؟ یا کوئی ''ڈبل پیشہ'' تو وہاں نہیں آگیا تھا۔ وہ ایک شخص چور کا پیچھا کر رہا تھا چور مسجد میں گھسا اور نماز باجماعت میں کھڑا ہو گیا نماز کے بعد اس شخص نے چور کی نشاندہی کی تو کئی نمازیوں نے اس کی طرف داری کرتے ہوئے کہا ، نہیں ایسا کیسے ہو سکتا ہے یہ بے چارا تو نمازی ہے، وہ شخص اپنا سر پیٹ کر بولا کہ رونا تو یہی ہے کہ یہ کم بخت ''وہ'' بھی کرتا ہے اور ''یہ'' بھی کرتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں