کچھ نہیں سے سب کچھ
عموماً لوگ فوری طور پر بہت کچھ حاصل کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں
پاکستان میں انفرادی سطح پر ایک بڑی شخصیت بننا کوئی آسان کام نہیں, بالخصوص جب حالات نامساعد ہوں اور آپ کو الف سے اپنی جدوجہد کا آغاز بھی کرنا پڑے تو آگے بڑھنے کے لیے کئی طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
عموماً لوگ فوری طور پر بہت کچھ حاصل کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں, لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ کامیابی مشروط ہے صبر,مسلسل جدوجہد، دیانت داری سے ۔ ہماری آج کی نئی نسل بہت جلد باز ہے , وہ سب کچھ جلد از جلد حاصل کرنا چاہتی ہے جو بڑے لوگوں نے کئی دہائیوں کی جدوجہد کے بعد حاصل کیا۔
پاکستان میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو عملی طور پر ہمارے رول ماڈل ہونے چاہئیں ۔ بدقسمتی سے ہم نے اپنے رول ماڈل کو محض کھلاڑیوں, فن کاروں , گلوکاروں اور کچھ سیاست دانوں تک محدود کر کے رکھ دیا ہے۔ علمی میدان میں گراں قدر خدمات انجام دینے والے ہمارے رول ماڈل موجود ضرور ہیں، لیکن ان کی وہ پذیرائی نہیں ہو سکی , جس کے وہ حقدار تھے۔ جو فرد چیلنج کو قبول کر کے روائتی انداز کے بجائے کچھ نیا پن اختیار کر کے آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے , وہ ہی معاشرے کا اصل حسن ہوتا ہے۔
پاکستان نے گزشتہ کئی برسوں میں آئی ٹی کی دنیا میں بڑا نام کمایا ہے۔ اس میں ایک اہم نام سلیم غوری کا بھی ہے۔ سلیم غوری اس وقت دنیا بھر میں پاکستان کی نمایندگی کرنے والی سب سے بڑی ایک آئی ٹی کمپنی کے بانی اور چیف ایگزیکٹو ہیں۔ آئی ٹی کی دنیا سے وابستہ افراد ان کو پاکستان کا بل گیٹس کہتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ان کی ہمت، حوصلے، کام کرنے کی لگن اور visionary approach نے انھیں پاکستان سمیت دنیا بھر کے آئی ٹی کے شعبہ میں ممتاز کر دیا ہے۔
سلیم غوری نے ایک چھوٹے سے آفس اور اپنے دو ساتھیوں کی مدد سے جب پاکستان میں اپنے کام کا آغاز کیا تو عزم جوان تھا۔ یہ ان کا لگن اور شوق تھا کہ وہ آئی ٹی کی دنیا میں پاکستان کی پہچان ایک ایسے ملک کے طور پر کرانا چاہتے تھے, جو اس شعبہ میں نئی نئی جہتوں کو سامنے لا سکے۔
سلیم غوری نے اپنی پروفیشنل زندگی کا آغاز سعودی عرب سے کیا، وہیں کام کے دوران ان کو کمپیوٹر سیکھنے کا جنون ہوا اور پھر اس شعبے میں اس قدر مہارت حاصل کی کہ ان کی پہچان محض پاکستان تک محدود نہیں رہی بلکہ وہ بین الاقوامی شخصیت بن گئے۔ وہ پاکستان میں عملی طور پر ایک بڑی آئی ٹی یونیورسٹی بنانے کا مشن رکھتے ہیں۔ کیونکہ ان کے بقول ہماری نئی نسل اس شعبہ کو اپنی کنجی بنا کر عالمی دنیا میں اپنی پہچان بنا سکتی ہے۔
وہ آسٹریلیا میں کئی برسوں تک آئی ٹی کے شعبہ سے وابستہ رہے لیکن ان کے اندر کا جو پاکستانی ہے وہ ان کو وہاں بے تحاشا مراعات کے باوجود اپنے ملک میں کچھ کرنے کی طرف مائل کرتا رہا۔ آسٹریلیا سے پاکستان آنے کا فیصلہ آسان نہیں تھا لیکن سلیم غوری کے اس فیصلہ میں ان کی اصل طاقت ان کی اہلیہ نسرین غوری بنی۔
یہ ہی وجہ ہے کہ سلیم غوری اپنی زندگی کی کامیابیوں کا اصل سہرا اپنے والدین کے بعد اپنی اہلیہ ہی کو قرار دیتے ہیں, ان کے بقول کچھ کرنے کے لیے یقین کی دولت انھیں اہلیہ سے ملی۔ یہ بات بجا ہے کہ جب آپ کوئی مشکل زندگی گزارنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو یہ کام واقعی تن تنہا اور خاندان کی مدد کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ وہ اپنی اس کامیابی کو خاندان کی کامیابی سے جوڑ کر اپنی کہانی کو ترتیب دیتے ہیں۔
آئی ٹی کی دنیا میں جہاں ان کو پاکستانی بل گیٹس کا نام دیا گیا وہیں ان کو دنیا بھر میں پاکستانی IT- Icon کے نام سے بھی متعارف کروایا گیا۔ اعلی کوالٹی کی دھن میں مگن سلیم غوری نے کمپنی کو CMMI Level 5 بنا دیا ہے جس سے بین الاقوامی منڈی میں ان کی کمپنی کی ساکھ میں اضافہ ہوا ہے۔
سلیم غوری روائتی انداز میں کام کرنے کے عادی نہیں, نئے پن کی تلاش میں سرگرداں سلیم غوری کے بارے میں ورلڈ بینک کے سابق سربراہ اور ماہر معاشی امور شاہد جاوید برکی کا یہ جملہ قابل قدر ہے کہ ''سلیم غوری کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ تکنیکی طور پر بہت زیادہ مہارت یافتہ ہیں , اسی لیے انھوں نے leasesoft جیسا بین الاقوامی سافٹ وئیر تیار کیا, میں سمجھتا ہوں کہ سلیم غوری کی کمپنی جنوبی ایشیا میں پراڈکٹ ڈویلپمنٹ کے اعتبار سے اپنا ثانی نہیں رکھتی، انھوں نے بھارتی آئی ٹی کمپنیوں کی طرح خالی سروس کی فراہمی پر ہی اپنی توجہ مرکوٖز نہیں رکھی۔''
سلیم غوری کے والد رحمت اللہ غوری کے بقول بعض اوقات میں حیران ہوتا ہوں کہ میرا بیٹا اتنی بڑی بڑی ذہانت کی باتیں کیسے کرتا ہے, اس کی خوبی یہ ہے کہ وہ کام کو تیزی سے کرتا ہے اور اس سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ کام کو صحیح طریقے سے کرتا ہے, اس کے ہاں غلطی کا امکان کم ہوتا ہے۔سلیم غوری نے اپنی زندگی کے تجربات اور مشاہدات پر مبنی ایک شاندار کتاب '' غوری --- کچھ نہیں سے سب کچھ'' لکھ ڈالی ہے۔ کتاب کیا ہے بس ایک تجربات سے بھری ہوئی کہانی جو اس کی شاندار کامیابیوں اور ان مشکلات و مصائب کا احاطہ کرتی ہے, جو اس نے زندگی میں جھیلی ہیں۔
سلیم غوری کے بقول میں اکثر اپنے دوستوں سے پوچھتا ہوں کیا وہ خواب دیکھتے ہیں؟ جواب میں لوگ حیرت سے مجھے دیکھتے اور جھجھک سے اثبات میں سر ہلاتے ہیں, ایسے لگتا ہے کہ انھیں اپنے خوابوں کی سچائی پر کبھی یقین نہیں رہا, وہ خوابوں کو کسی اور دنیا کی مخلوق سمجھتے ہیں اور ان سے پیچھا چھڑوانے کے چکر میں خواہ مخواہ اپنی زندگی کو مشکل بنائے رکھتے ہیں, بقول شاعر ؎
میں ایسے شخص کو زندوں میں کیا شمار کروں
جو سوچتا بھی نہیں اور خواب دیکھتا بھی نہیں
اپنی کتاب میں سلیم غوری لکھتے ہیں کہ ''میں نے کمپنی شروع کی تو مجھ سمیت کسی کو یہ اندازہ نہ تھا کہ یہ اتنی بڑی ایمپائر میں تبدیل ہو جائے گی کہ سلیم غوری بھی اس کی ایک بائی پراڈکٹ بن جائے گا, یہ سوانح عمری دراصل اس کمپنی کی کامیابی کی کہانی ہے, میری حیثیت تو محض ایک ورکر کی ہے, اصل حیثیت تو کمپنی اور اس میں کام کرنے والے لوگوں کی ہے۔
سلیم غوری کی یہ کہانی ایک عام سے بچے یا نوجوان کی کہانی ہے,جس کا ابتدائی سفر لاپرواہی میں گزرا,لیکن جو وہ خواب دیکھتا گیا, اس کی تعبیر بھی خود ہی تلاش کی اور کامیابی حاصل کر کے ثابت کیا کہ محنت سے بڑی کامیابی ممکن ہوتی ہے۔اسی سوانح عمری میں سلیم غوری نے طلبہ سیاست کے ساتھ اس وقت کی سیاست, جب پاکستان دو ٹکڑے ہوا، کا ذکر بھی کیا ہے۔
انتہائی ملنسار سلیم غوری ذاتی زندگی میں بھی شاندار آدمی ہیں جو ان سے ملتا ہے وہ جلد ہی ان کا گرویدہ ہو جاتا ہے۔ اپنے ملازمین کے بچوں کی تعلیم کے اخراجات بھی وہ خود برداشت کرتے ہیں۔
ہنس مکھ اور زندہ دل سلیم غوری محفلوں کی جان ہیں اور دوستوں کی رابطہ کاری میں انھیں بڑا فن حاصل ہے، نہ صرف دوست بناتے ہیں بلکہ ان کو نبھانے کا ہنر بھی جانتے ہیں۔ سلیم غوری کی یہ کتاب نوجوان نسل کے لیے اہم ہے جو محض خواب تو دیکھتے ہیں لیکن ان خوابوں کی تکمیل میں کہیں گم ہو کر رہ جاتے ہیں۔ یہ سوانح عمری نئی نسل کے لیے کامیابی کی ایک ایسی کنجی ہے جو ان کو آگے بڑھنے کا ہنر بھی فراہم کرتی ہے اور ان کے اندر کے جنون کو بھی جھنجھوڑتی ہے کہ صرف اپنے لیے ہی نہیں بلکہ اپنی ذات سے باہر نکل کر ملک کی ترقی میں بھی اپنا حصہ ڈالنا ہے۔