ذرا ٹھنڈے دل سے سوچئے

سب ہی جانتے ہیں کہ پاکستان 2001ء میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد سے دہشت گردی کا شکار چلا آ رہا ہے


عثمان دموہی September 10, 2015
[email protected]

سب ہی جانتے ہیں کہ پاکستان 2001ء میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد سے دہشت گردی کا شکار چلا آ رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں ایک لاکھ سے زیادہ شہری اور سیکیورٹی اہلکار ہلاک ہو چکے امن و امان درہم برہم ہو چکا، معیشت کا بھٹہ بیٹھ چکا گو یہ تباہی بربادی مغربی ممالک کی مہربانیوں کا ہی نتیجہ ہے مگر اس کے باوجود مغربی میڈیا پاکستان پر ہی تنقید کے تیر چلاتا رہتا ہے۔

پاکستان کو ایک دہشت گرد اور دیوالیہ ملک کے طور پر تعارف کرانا اس کا معمول بن چکا ہے، بلوچستان میں اگر کوئی ہلاکت ہو جائے تو اس خبر کو بڑھا چڑھا کر اس انداز سے پیش کرتا ہے، جیسے پاکستان نازیوں کے ہاتھوں یہودیوں کے قتل عام سے بھی زیادہ سنگین جرم کا مرتکب ہوا ہے، جب کہ بھارت کے ساتھ اس کا رویہ انتہائی مشفقانہ اور ہمدردانہ ہے۔ بھارت اپنے ہاں چلنے والی تحاریک آزادی کے لیے کام کرنے والوں پر بربریت کے پہاڑ بھی توڑے تو یہ خبر سرے سے نشر ہی نہیں کی جاتی بلکہ الٹا اسے حقوق انسانی کا چیمپئن قرار دیا جاتا ہے۔

اس کی ڈوبتی ہوئی معیشت کو عالمی معیار کا گردانا جاتا ہے۔ بھارت جیسے کشمیریوں کی آزادی کے غاصب کو سلامتی کونسل کا مستقل رکن بنانے کی پر زور سفارش کی جاتی ہے، آخر یہ سب کیا ہے؟ مغربی میڈیا نے پاکستان کو کیوں ہٹ لسٹ پر لیا ہوا ہے، اس کی ویسے تو بہت سی وجوہات ہیں مگر چند جو عام فہم ہیں وہ یہ کہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے۔

جو اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا ہے یہاں اسلامی نظام کے قیام کے لیے جد وجہد جاری ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ پاکستان تمام اسلامی ممالک کا اتحاد قائم کر کے مسلمانوں کو موجودہ مسائل سے باہر نکالنے کا خواہاں ہے پھر تیسری وجہ شاید یہ ہے کہ پاکستان نے مغربی ممالک کے ایک مشورے کو آج تک قبول نہیں کیا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کر لیا جائے۔ پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرنا تو کجا اسے کھلم کھلا مسلمانوں کا دشمن اور عالمی امن کے لیے خطرہ قرار دیتا ہے۔

ایک زمانے تک عرب ممالک نے بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا تھا مگر پھر حالات نے ایسا رخ اختیار کیا کہ نہ چاہتے ہوئے بھی اسے تسلیم کرنا پڑا۔ اب کئی عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کر کے اس سے تجارتی و دیگر تعلقات بھی قائم کر چکے ہیں۔ مصر اسرائیل کا سب سے بڑا دشمن تھا وہ اس سے ایک جنگ بھی لڑ چکا ہے، شکست کھا کر بالآخر اسرائیل کو تسلیم کر چکا ہے اور اس کی سلامتی کی ضمانت بھی دے چکا ہے، کچھ عرصہ قبل مصر میں حسنی مبارک کی حکومت کے خاتمے کے بعد اخوان المسلمین کی حکومت قائم ہو گئی تھی مگر چونکہ انھوں نے اسرائیل کے خلاف محاذ کھولنے کا ارادہ کر لیا تھا چنانچہ مغربی ممالک دہل کر رہ گئے اور پھر مصری فوج کو ''مرسنریز'' کا کردار ادا کرنا پڑا۔ اخوان المسلمین کی جمہوری حکومت کا راتوں رات بوریا بستر لپیٹ دیا گیا اور پھر سے فوجی حکومت قائم ہو گئی۔

اردن پہلے ہی اسرائیل کو نا صرف تسلیم کر چکا ہے بلکہ اپنا مہربان تسلیم کر کے اپنا جھگڑا ختم کر چکا ہے، حالانکہ اس کے دریائے اردن کے مغربی کنارے پر بدستور اسرائیل کا قبضہ ہے اور بیت المقدس جیسا متبرک شہر اس کے قبضے میں ہے مگر اب وہ یہ پورا علاقہ فلسطینی مملکت کے لیے مختص کر کے سکون کی زندگی بسر کر رہا ہے۔

ترکی نے پہلی ہی اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے اور اس کے اسرئیل سے ٹھیک ٹھاک تعلقات قائم ہیں۔ لیبیا، عراق اور شام تین ایسے ممالک ہیں جن کے سابق حکمران اسرائیل کو کھلم کھلا صفحہ ہستی سے مٹانے کی دھمکیاں دیتے رہتے تھے اب لیبیا کے مرد آہن کرنل قذافی اپنے ہی عوام کے ہاتھوں قتل ہو چکے ہیں۔ لیبیا جو کبھی معاشی طور پر مستحکم ملک تھا اور تیل و گیس کی وافر مقدار میں پیدوار کی وجہ سے مغروریت میں امریکا جیسے سپر پاور ملک کو خاطر میں نہیں لاتا تھا آج ایک اجڑا ہوا ملک ہے جس کے اپنے ہی کئی گروپوں میں تقسیم ہو کر باہم جنگ و جدل میں مصروف ہیں ملک کے تمام ایئرپورٹ اور بندرگاہیں تباہ ہو چکی ہیں تیل اور گیس کے کنوؤں پر مختلف گروپوں کا قبضہ ہے عوام جنگ و جدل اور تنگدستی سے تنگ آ کر یورپ کا رخ کر رہے ہیں مگر ان کی کشتیاں راستے میں ہی بحر روم میں غرق ہو رہی ہیں۔

عراق کا حشر ہم سب دیکھ ہی چکے ہیں، صدام حسین جو کبھی اسرائیل کو چند گھنٹوں میں نیست و نابود کرنے کا دعویٰ کرتے تھے بالآخر اپنے ملک کو تباہ و برباد کرا کے خود پھانسی چڑھ گئے۔ شام تو اسرائیل کا سب سے بڑا دشمن تھا اور ہوتا بھی کیسے نہیں کہ اس نے شام کی گولان کی پہاڑیوں پر 1967ء کی جنگ میں قبضہ کر لیا تھا۔

شام اسرائیل کے وجود کے خلاف تھا، حافظ الاسد اسرائیل دشمنی کی بنیاد پر کئی برس حکومت کر کے ملک اپنے بیٹے کے حوالے کر کے ملک عدم کو سدھار گئے۔ بیٹے نے باپ کے نقش قدم پر چل کر اسرائیل دشمنی کو جاری رکھا اور ساتھ ہی اسرائیل کو زیر کرنے کے لیے فوجی تیاریاں جاری رکھیں مگر امریکا نے ایسی چال چلی کہ اس کے اپنے لوگوں کو حکومت کے خلاف جنگ پر آمادہ کر دیا اب گزشتہ چار سال سے شام میں حکومت اور اپوزیشن کے مختلف دھڑوں کے درمیان مسلح جنگ چل رہی ہے، ڈیڑھ لاکھ کے قریب شہری مارے جا چکے ہیں، شہر کے شہر کھنڈر بن چکے ہیں۔

بشارالاسد اب امریکا کے آگے ہاتھ جوڑ رہے ہیں کہ سرکار غلطی ہو گئی معاف کر دیں اب کبھی اسرائیل کی جانب صاف آنکھ سے بھی نہیں دیکھیں گے مگر اب امریکا کیا کر سکتا ہے کہ تیر کمان سے نکل چکا ہے اب شام میں ایک نئی تباہ کن مصیبت 'داعش' کے نام سے نازل ہو چکی ہے جو شام ہی کیا عراق کو بھی صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے آگے ہی بڑھتی چلی جا رہی ہے، حیرت ہے کہ اس فوج کا تو امریکا جیسی سپر پاور بھی مقابلہ نہیں کر پا رہی ہے۔

شاید اس لیے اس نے انھیں طاقت ہی ایسی بخش دی ہے کہ وہ کسی کے قابو میں آ ہی نہ سکیں، سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر داعش راسخ العقیدہ مسلمانوں کی تنظیم ہے اور وہ اسلامی نظام کے قیام کے داعی ہیں تو پھر وہ مسلمانوں کو ہی کیوں تباہ کر رہے ہیں صرف مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں کو ہی قتل نہیں کر رہے بلکہ تمام اسلامی مقدس مقامات کو حتیٰ کہ اہل بیت کے مقدس مزارات کو تاراج کر رہے ہیں۔ اب انھوں نے ترکی کو بھی نشانہ بنایا ہے۔

سعودی عرب اور خلیجی ممالک میں داعش کے دہشت گرد مساجد میں بم حملے کر کے نمازیوں کو ہلاک کر رہے ہیں۔ یہ فتنہ تمام عرب ممالک کے لیے ایک چیلنج بن چکا ہے مگر ابھی تک اس کے تدارک کے لیے کوئی ٹھوس حکمت عملی سامنے نہیں آ سکی۔ مبصرین اس فتنے کے بھی اسرائیل سے تانے بانے جوڑ رہے ہیں کہ وہ جو جدید اسلحہ استعمال کر رہے ہیں وہ اسرائیل ہی انھیں مہیا کر سکتا ہے اور ان کی مالی معاونت کا بوجھ بھی وہی اٹھا سکتا ہے۔ ایران بھی اسرائیل کا بہت بڑا دشمن ہے وہ بھی اسرائیل کو آئے دن تباہ و برباد کرنے کی دھمکیاں دیتا رہتا ہے۔ امام خمینی نے تو اسرائیل کو تباہ کرنے کا فتویٰ تک جاری کر دیا تھا۔

آخر ایران کو اسرائیل دشمنی کی سزا بھگتنا پڑی وہ مسلسل پچیس سال تک مغربی ممالک کے غیظ و غضب کا شکار رہا، ایران کا اصل جرم تو اسرائیل کو دشمن سمجھنا تھا مگر اسے ایٹم بم بنانے کا مجرم قرار دے کر قرار واقعی سزا دی گئی۔ وہ برسوں دنیا سے کٹا رہا اس کے تیل فروخت کرنے پر بھی پابندی عائد رہی اس کے مغربی ممالک میں موجود تمام اثاثے ضبط کر لیے گئے تھے عوام انتہائی کسمپرسی اور قید جیسے ماحول میں زندگی بسر کرتے رہے اب جب ایران نے ایٹم بم بنانے سے توبہ کر لی ہے تو مغربی ممالک نے اسے معاف کر دیا ہے کیوں کہ اب وہ بم بنا کر اسرائیل کو کبھی تباہ نہیں کر سکے گا۔

لگتا ہے اسرائیل کے سلسلے میں سعودی عرب اور خلیجی ممالک ہی عقل مند ثابت ہوئے کہ انھوں نے نہ کبھی اسرائیل کو دھمکیاں دیں اور نہ کبھی اسے اپنا دشمن نمبر ایک قرار دیا بلکہ وہ شام کی تباہی اور ایران کی معاشی و بم سازی کی بندش میں مغربی ممالک کے ہم نوا رہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس وقت پاکستان جن مسائل کا شکار ہے۔

وہ مستقل طور پر کیسے حل ہوں گے؟ کیا بھارت کے مقابلے میں ہمیں ہمیشہ ذلیل کیا جاتا رہے گا؟ بات دراصل یہ ہے کہ مغربی میڈیا ہی کیا آئی ایم ایف سے لے کر تمام اہم عالمی ادارے یہودیوں کے قبضے میں ہیں اور خود مغربی ممالک میں یہودیوں کا سکہ چل رہا ہے وہ جو چاہتے ہیں مغربی میڈیا نشر کرتا ہے وہ جسے چاہتے ہیں قرض ملتا ہے اور جہاں چاہتے ہیں دہشت گردی کا جال بچھا دیتے ہیں تو اب ایسی صورت حال میں ہمیں کیا کرنا ہو گا؟ جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں ذرا ٹھنڈے دل سے سوچیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں