حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
معاشرتی زندگی کے کئی تاریک پہلو ہیں۔ دہرا رویہ انسانی زندگی پر ایک مہلک وار ہے۔
FAISALABAD:
معاشرتی زندگی کے کئی تاریک پہلو ہیں۔ دہرا رویہ انسانی زندگی پر ایک مہلک وار ہے۔ جس کی سنگینی سے بے خبری کئی روشن زندگیاں نگل جاتی ہے۔ یہ دہرا معیار جس کا شکار گھر، ادارے اور سیاسی نظام بھی ہے، گھر سے معاشرہ تشکیل پاتا ہے اور معاشرہ سیاسی نظام کی ترویج کرتا ہے۔ سیاسی نظام فرد کی ذاتی ذمے داری اور آگہی کو دیکھتا ہے۔ بے خبری اور کوتاہی دوہرے رویوں کو راستہ دیتی ہے۔ بے حسی اور خود غرضی سے یہ خوب پھلتے و پھولتے ہیں۔
والدین کے جھگڑے ہوں یا خاندانی فتنے درحقیقت بچے بہت تکلیف اٹھاتے ہیں۔ یہ زخم ناسور بن کے معاشرے کو ذہنی طور پر بیمار کر دیتے ہیں۔ حالات کے ستائے ہوئے یہ بچے بڑے ہو کر مجرم بن جاتے ہیں۔ مجرم اس معاشرے میں دو طرح کے ہیں۔
ایک وہ مجرم ہیں، جو سب کے سامنے جرم کرتے ہیں۔ یہ عمل معاشرتی کوتاہیوں کا اعتراف ہوتا ہے۔ مجرموں کی دوسری صف بڑی مہلک ہے۔ یہ خاموشی سے وار کرتے ہیں۔ جس کی نہ کوئی داد ہے نہ کوئی فریاد۔ انھیں جرم کے بجائے معاشرتی اقدار کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ جس کے لیے کوئی سزا مقرر نہیں ہوتی۔
یہ خاموش جرم دوہرے معیار کے سائے میں پلتے ہیں۔ یہ چھپ کے پیٹھ پیچھے وار کرتے ہیں۔ لہٰذا ذہنوں میں نفرت کا لاوا پکتا رہتا ہے۔ خوف، تشویش، ذہنی دباؤ، فکر ہے۔ لیکن انسان کو یاد نہیں رہتا کہ اس نے کس وقت، کس گھڑی، کسے لفظوں کی کاٹ یا رویے کے خنجر سے قتل کیا۔
ایسے معاشروں میں سانس لینے کے عمل کو زندگی کہا جاتا ہے۔ضمیر سویا رہے تو سونے پہ سہاگہ۔ غم پیتے رہیں۔ رویوں کا زہر دل پر انڈیلتے رہیں۔ خاموشی کی چادر غصے پر تان لیں۔ ایک ایسی زندگی جیئیں جو بظاہر پر سکون ہو۔ چاہے کتنے بھنور احساس و خوشی کو ڈبوتے رہیں۔ مگر آخر کب تک؟
یہ خاموشی زیادہ دن نہیں چلتی۔ یہ درد میں ڈوبی چیخ بن جاتی ہے۔ یہ معاشرے کے سوئے ضمیر کو بری طرح جھنجھوڑ ڈالتی ہے۔چند ذی روح جاگ جاتے ہیں۔ اکثریت مصلحت کی خاموشی میں ڈوبی رہتی ہے۔
چیخیں ابھر کر معدوم ہو جاتی ہیں۔ احساس چونک کر لمحے کے لیے حقیقت کو چھوتا ہے اور دوبارہ بے یقینی کی کھائی میں گرنے لگتا ہے۔ غصے کو دبانے کا سلیقہ سکھایا جاتا ہے۔ اگر کوئی چیختا ہے تو بہت سے لوگ اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیتے ہیں۔ اسے کھل کے چیخنے نہیں دیتے۔
اگر کوئی روتا ہے تو طرح طرح کے افسانے منسوب کر دیے جاتے ہیں۔ کوئی بھی دکھ کی نوعیت نہیں سمجھ پاتا۔
معاشرہ سانس لیتی دیواروں کو پنپتا ہے۔ بے حسی سے انھیں سینچتا ہے۔ بے حسی کو خوب سراہتا ہے۔ لاتعلقی پر عطا کرتا ہے، نوازتا ہے پھر دیواروں کا کلچر فروغ پاتا ہے۔ احساس کی مرضی کہ ان سے سر ٹکرا کے خود کو زخمی کرتا رہے یا راستہ بدل دے۔
ہم بچوں سے اظہار کا سلیقہ چھین لیتے ہیں۔ انھیں بار بار خاموش کراتے ہیں۔ انھیں تہذیب کے انداز سکھاتے ہیں۔ ان کے فطری پن کو قبول نہیں کرتے۔ انھیں اچھائی سکھاتے ہیں۔ چاہے خود کتنے ہی برے اور بے عمل کیوں نہ ہوں۔ انھیں جھوٹ سکھاتے ہیں دوہرے رویوں سے اور سچ بولنے کی تلقین کرتے ہیں۔
بچے خود سے برائی نہیں سیکھتے۔ والدین، اساتذہ اور معاشرے سے منفی اثر لیتے ہیں۔ لہجوں کی کاٹ، بے جا سختی، جھوٹے اصول اور دوہرے رویوں سے مر جاتے ہیں۔ مر کے بھی یہ نہیں بتاتے کہ اب یہ فقط سانس لیتی مردہ روحیں ہیں۔ جسم زندہ ہو مگر روح غائب تو انسان انسانیت سے منہ موڑ لیتا ہے۔
بدی کی قوت اس کے احساس میں بسیرا کر لیتی ہے۔ پھر نوروز اور صبا جیسے بچے سامنے آتے ہیں۔ جن کے عمل کے پیچھے والدین، اساتذہ اور معاشرتی لاپرواہی و دہرا معیار نظر آ رہا ہوتا ہے۔ بچوں کی بات نہیں سنی جاتی یہ ٹین ایجر کے روپ میں خطرہ بن کے سامنے آن کھڑے ہوتے ہیں۔ ان کی غلطیوں کو حقیقت پسندی سے نہیں لیا جاتا۔ کوتاہیوں پر انھیں بری سزائیں دی جاتی ہیں۔ انھیں کھل کے اپنی بات کہنے کا موقعہ نہیں دیا جاتا۔
بات کو بیچ میں کاٹ دیا جاتا ہے اگر وہ مزاج کے خلاف ہے۔ تنقید سنی نہیں جاتی۔ غلطی کا اعتراف کھلے دل سے نہیں کیا جاتا۔ تا کہ اصلاح کو راستہ مل سکے۔ سچائی کو چھپایا جاتا ہے نقاب در نقاب۔
حقائق سے منہ موڑ لیا جاتا ہے۔ گناہ پر پردہ ڈال دیا جاتا ہے۔
جس چیز کو جتنا چھپایا جائے گا۔ دبایا جائے گا وہ اور ہی شدت سے ابھر کے سامنے آتی ہے۔ اور ایک دن یہ دبا ہوا لاوا ایک دم پھٹ پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سگمنڈ فرائڈ نے ان تمام مسائل کا حل ٹاک تھیراپی بتایا تھا۔ بات چیت، گفتگو اور اظہار کے ذریعے ذہنی الجھنوں و پریشانیوں کا خاتمہ کرنا۔ اظہار اس وقت ممکن ہے جب اچھے اور سمجھدار سامع موجود ہوں۔
ذات کے اندر بھنور رکھنے والے لوگ کبھی بھی اچھے سامع نہیں بن سکتے۔ اچھا سامع وہ ہو سکتا ہے، جو غیر جانبدار سوچ رکھتا ہو۔ فراغ دل ہو۔ جس کے کان ذہن سے کوسوں دور ہوں۔ وہ دوسرے کے ذہن سے سننے اور سمجھنے کی اہلیت رکھتا ہو۔ دوہرے معیار کو ناپسند کرتا ہو۔ اچھا سامع حقیقت پسند بھی ہوتا ہے۔احساس کمتری و احساس برتری سے مبرا وہ فقط انسانیت کی برتری پر یقین رکھتا ہو۔ ایسے لوگ بہت کم ہیں۔
یا شاید سرے سے وجود ہی نہیں رکھتے۔ لہٰذا ہر طرف ڈپریشن کا شکار لوگ نظر آتے ہیں۔ یہ ڈپریشن کئی ذہنی بیماریوں کا پیش خیمہ بنتا ہے۔ تباہی کی طرف جانے والا پہلا زینہ ہے۔ اس ذہنی عارضے کی تشخیص مشکل سے ہو پاتی ہے۔ لیکن اس کی جڑیں پختہ ہو جاتی ہیں تو یہ مجرموں کو تشکیل دیتا ہے۔ یہ خاموش مجرم معاشرے میں تباہی پھیلا دیتے ہیں۔
جب آپ احساس کو پناہ نہیں دے سکتے تو یہ احساس محرومی جرم کی پشت پناہی کرتا ہے۔ اس کے دو راستے ہیں۔ یا تو انسان مضبوط ہو کے ابھرتا ہے۔ یا پھر یہ مجروح احساس اذیت پسندی کا رجحان لے کر دکھ اور تکلیف بانٹنے لگتا ہے۔
انسانی فطرت یقین و احساس کی نگہبانی چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر بار کہیں نہ کہیں نوروز کی کہانی وقت دہراتا ہے۔دکھ کا یہ کنکر احساس کی لہروں میں تلاطم برپا کر دیتا ہے۔
مگر پھر لہریں ساکن ہو جاتی ہیں۔ ایک حادثہ نظر انداز کر دیا جائے تو اس کے پہلو سے کئی حادثے پھوٹ نکلتے ہیں۔ بدصورت رویوں کو وقت پر روک دینا چاہیے۔ یہ منفی رویے نفرت، حقارت اور بغاوت کے روپ میں رگوں میں گردش کرتے ہیں۔ یہ سالہا سال ذہن و روح میں پلتے ہیں اور یکایک حادثے کا روپ دھار لیتے ہیں۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
معاشرتی زندگی کے کئی تاریک پہلو ہیں۔ دہرا رویہ انسانی زندگی پر ایک مہلک وار ہے۔ جس کی سنگینی سے بے خبری کئی روشن زندگیاں نگل جاتی ہے۔ یہ دہرا معیار جس کا شکار گھر، ادارے اور سیاسی نظام بھی ہے، گھر سے معاشرہ تشکیل پاتا ہے اور معاشرہ سیاسی نظام کی ترویج کرتا ہے۔ سیاسی نظام فرد کی ذاتی ذمے داری اور آگہی کو دیکھتا ہے۔ بے خبری اور کوتاہی دوہرے رویوں کو راستہ دیتی ہے۔ بے حسی اور خود غرضی سے یہ خوب پھلتے و پھولتے ہیں۔
والدین کے جھگڑے ہوں یا خاندانی فتنے درحقیقت بچے بہت تکلیف اٹھاتے ہیں۔ یہ زخم ناسور بن کے معاشرے کو ذہنی طور پر بیمار کر دیتے ہیں۔ حالات کے ستائے ہوئے یہ بچے بڑے ہو کر مجرم بن جاتے ہیں۔ مجرم اس معاشرے میں دو طرح کے ہیں۔
ایک وہ مجرم ہیں، جو سب کے سامنے جرم کرتے ہیں۔ یہ عمل معاشرتی کوتاہیوں کا اعتراف ہوتا ہے۔ مجرموں کی دوسری صف بڑی مہلک ہے۔ یہ خاموشی سے وار کرتے ہیں۔ جس کی نہ کوئی داد ہے نہ کوئی فریاد۔ انھیں جرم کے بجائے معاشرتی اقدار کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ جس کے لیے کوئی سزا مقرر نہیں ہوتی۔
یہ خاموش جرم دوہرے معیار کے سائے میں پلتے ہیں۔ یہ چھپ کے پیٹھ پیچھے وار کرتے ہیں۔ لہٰذا ذہنوں میں نفرت کا لاوا پکتا رہتا ہے۔ خوف، تشویش، ذہنی دباؤ، فکر ہے۔ لیکن انسان کو یاد نہیں رہتا کہ اس نے کس وقت، کس گھڑی، کسے لفظوں کی کاٹ یا رویے کے خنجر سے قتل کیا۔
ایسے معاشروں میں سانس لینے کے عمل کو زندگی کہا جاتا ہے۔ضمیر سویا رہے تو سونے پہ سہاگہ۔ غم پیتے رہیں۔ رویوں کا زہر دل پر انڈیلتے رہیں۔ خاموشی کی چادر غصے پر تان لیں۔ ایک ایسی زندگی جیئیں جو بظاہر پر سکون ہو۔ چاہے کتنے بھنور احساس و خوشی کو ڈبوتے رہیں۔ مگر آخر کب تک؟
یہ خاموشی زیادہ دن نہیں چلتی۔ یہ درد میں ڈوبی چیخ بن جاتی ہے۔ یہ معاشرے کے سوئے ضمیر کو بری طرح جھنجھوڑ ڈالتی ہے۔چند ذی روح جاگ جاتے ہیں۔ اکثریت مصلحت کی خاموشی میں ڈوبی رہتی ہے۔
چیخیں ابھر کر معدوم ہو جاتی ہیں۔ احساس چونک کر لمحے کے لیے حقیقت کو چھوتا ہے اور دوبارہ بے یقینی کی کھائی میں گرنے لگتا ہے۔ غصے کو دبانے کا سلیقہ سکھایا جاتا ہے۔ اگر کوئی چیختا ہے تو بہت سے لوگ اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیتے ہیں۔ اسے کھل کے چیخنے نہیں دیتے۔
اگر کوئی روتا ہے تو طرح طرح کے افسانے منسوب کر دیے جاتے ہیں۔ کوئی بھی دکھ کی نوعیت نہیں سمجھ پاتا۔
معاشرہ سانس لیتی دیواروں کو پنپتا ہے۔ بے حسی سے انھیں سینچتا ہے۔ بے حسی کو خوب سراہتا ہے۔ لاتعلقی پر عطا کرتا ہے، نوازتا ہے پھر دیواروں کا کلچر فروغ پاتا ہے۔ احساس کی مرضی کہ ان سے سر ٹکرا کے خود کو زخمی کرتا رہے یا راستہ بدل دے۔
ہم بچوں سے اظہار کا سلیقہ چھین لیتے ہیں۔ انھیں بار بار خاموش کراتے ہیں۔ انھیں تہذیب کے انداز سکھاتے ہیں۔ ان کے فطری پن کو قبول نہیں کرتے۔ انھیں اچھائی سکھاتے ہیں۔ چاہے خود کتنے ہی برے اور بے عمل کیوں نہ ہوں۔ انھیں جھوٹ سکھاتے ہیں دوہرے رویوں سے اور سچ بولنے کی تلقین کرتے ہیں۔
بچے خود سے برائی نہیں سیکھتے۔ والدین، اساتذہ اور معاشرے سے منفی اثر لیتے ہیں۔ لہجوں کی کاٹ، بے جا سختی، جھوٹے اصول اور دوہرے رویوں سے مر جاتے ہیں۔ مر کے بھی یہ نہیں بتاتے کہ اب یہ فقط سانس لیتی مردہ روحیں ہیں۔ جسم زندہ ہو مگر روح غائب تو انسان انسانیت سے منہ موڑ لیتا ہے۔
بدی کی قوت اس کے احساس میں بسیرا کر لیتی ہے۔ پھر نوروز اور صبا جیسے بچے سامنے آتے ہیں۔ جن کے عمل کے پیچھے والدین، اساتذہ اور معاشرتی لاپرواہی و دہرا معیار نظر آ رہا ہوتا ہے۔ بچوں کی بات نہیں سنی جاتی یہ ٹین ایجر کے روپ میں خطرہ بن کے سامنے آن کھڑے ہوتے ہیں۔ ان کی غلطیوں کو حقیقت پسندی سے نہیں لیا جاتا۔ کوتاہیوں پر انھیں بری سزائیں دی جاتی ہیں۔ انھیں کھل کے اپنی بات کہنے کا موقعہ نہیں دیا جاتا۔
بات کو بیچ میں کاٹ دیا جاتا ہے اگر وہ مزاج کے خلاف ہے۔ تنقید سنی نہیں جاتی۔ غلطی کا اعتراف کھلے دل سے نہیں کیا جاتا۔ تا کہ اصلاح کو راستہ مل سکے۔ سچائی کو چھپایا جاتا ہے نقاب در نقاب۔
حقائق سے منہ موڑ لیا جاتا ہے۔ گناہ پر پردہ ڈال دیا جاتا ہے۔
جس چیز کو جتنا چھپایا جائے گا۔ دبایا جائے گا وہ اور ہی شدت سے ابھر کے سامنے آتی ہے۔ اور ایک دن یہ دبا ہوا لاوا ایک دم پھٹ پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سگمنڈ فرائڈ نے ان تمام مسائل کا حل ٹاک تھیراپی بتایا تھا۔ بات چیت، گفتگو اور اظہار کے ذریعے ذہنی الجھنوں و پریشانیوں کا خاتمہ کرنا۔ اظہار اس وقت ممکن ہے جب اچھے اور سمجھدار سامع موجود ہوں۔
ذات کے اندر بھنور رکھنے والے لوگ کبھی بھی اچھے سامع نہیں بن سکتے۔ اچھا سامع وہ ہو سکتا ہے، جو غیر جانبدار سوچ رکھتا ہو۔ فراغ دل ہو۔ جس کے کان ذہن سے کوسوں دور ہوں۔ وہ دوسرے کے ذہن سے سننے اور سمجھنے کی اہلیت رکھتا ہو۔ دوہرے معیار کو ناپسند کرتا ہو۔ اچھا سامع حقیقت پسند بھی ہوتا ہے۔احساس کمتری و احساس برتری سے مبرا وہ فقط انسانیت کی برتری پر یقین رکھتا ہو۔ ایسے لوگ بہت کم ہیں۔
یا شاید سرے سے وجود ہی نہیں رکھتے۔ لہٰذا ہر طرف ڈپریشن کا شکار لوگ نظر آتے ہیں۔ یہ ڈپریشن کئی ذہنی بیماریوں کا پیش خیمہ بنتا ہے۔ تباہی کی طرف جانے والا پہلا زینہ ہے۔ اس ذہنی عارضے کی تشخیص مشکل سے ہو پاتی ہے۔ لیکن اس کی جڑیں پختہ ہو جاتی ہیں تو یہ مجرموں کو تشکیل دیتا ہے۔ یہ خاموش مجرم معاشرے میں تباہی پھیلا دیتے ہیں۔
جب آپ احساس کو پناہ نہیں دے سکتے تو یہ احساس محرومی جرم کی پشت پناہی کرتا ہے۔ اس کے دو راستے ہیں۔ یا تو انسان مضبوط ہو کے ابھرتا ہے۔ یا پھر یہ مجروح احساس اذیت پسندی کا رجحان لے کر دکھ اور تکلیف بانٹنے لگتا ہے۔
انسانی فطرت یقین و احساس کی نگہبانی چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر بار کہیں نہ کہیں نوروز کی کہانی وقت دہراتا ہے۔دکھ کا یہ کنکر احساس کی لہروں میں تلاطم برپا کر دیتا ہے۔
مگر پھر لہریں ساکن ہو جاتی ہیں۔ ایک حادثہ نظر انداز کر دیا جائے تو اس کے پہلو سے کئی حادثے پھوٹ نکلتے ہیں۔ بدصورت رویوں کو وقت پر روک دینا چاہیے۔ یہ منفی رویے نفرت، حقارت اور بغاوت کے روپ میں رگوں میں گردش کرتے ہیں۔ یہ سالہا سال ذہن و روح میں پلتے ہیں اور یکایک حادثے کا روپ دھار لیتے ہیں۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا