میں ہوں پاکستان مجھ پر رحم کرو
پچاس برس کا طویل عرصہ گزر چکا ہے، ستمبر 1965ء کی فاتحانہ جنگ کو
پچاس برس کا طویل عرصہ گزر چکا ہے، ستمبر 1965ء کی فاتحانہ جنگ کو۔ ذیل میں اسی جنگ و جدل اور فوج (بری، بحری، فضائیہ) اور عوام کے مشترکہ جذبہ دفاع وطن کے تناظر میں میں آج یہ سطریں لکھ رہا ہوں۔ ممکن ہے قارئین میری کچھ باتوں سے اختلاف بھی کریں مگر میں پھر بھی اُن کا شکرگزار ہوں اور اُن کی دل سے قدر کرتا ہوں۔
اگر ہم عالم انسانی کا مطالعہ و موازنہ معاشی اور اقتصادی طرز سے کرینگے کہ دنیا کی معروف آبادی تین طبقات پر تقسیم ہوتی ہوئی نظر آئیگی۔ (1) امیر و اشرافیہ یا روساء (2) متوسط طبقہ (3) غریب طبقہ۔ 1947ء میں جب اسلام اور جمہوریت کے نام پر پاکستان معرض وجود میں آیا تو وہ مسلمان آبادی نے جو پاکستان کے ہی علاقوں میں پہلے سے رہائش پذیر تھی مسلمان ہونے کے ناتے اپنے ہی علاقوں میں حق ملکیت برقرار رکھا مگر بیشتر افرادی قوت وہ تھی جو ہندوستان کے مختلف علاقوں سے پاکستان کے مختلف علاقوں، شہروں میں ہجرت کر کے یہاں مستقل بنیادوں پر سکونت پذیر ہوئے۔ ہجرت کرنیوالے امیر اشرافیہ اور روساء کے وہ خاندان تھے جو صنعت کے لحاظ سے رتبہ میں بڑے مستحکم تھے۔
انھی کی صنعتوں نے پاکستان میں نئے سفر کا آغاز کرتے ہوئے نو آزاد ریاست کی معیشت کی مضبوط بنیاد رکھی۔ مخصوص طبقہ وہ بھی تھا جو غیر منقسم ہندوستان اور دور تاج برطانیہ کے درباری یا ان کے ماتحت کام کرنیوالے بیشتر خاندانوں کی تھی۔ ان کی درباری انداز میں خدمات کے صلے میں تاج برطانیہ نے ان کو زرعی زمینیں اور باثروت جائیدادوں سے نوازا۔ یہی طبقہ آج ہماری سیاست میں داخل ہو کر کسی نا کسی انداز میں ملک کی ہر آنیوالی حکومت کا اہم حصہ ہونے کے ساتھ ساتھ ملک و قوم کے مستقبل کے ٹھیکیدار بھی بن گئے چونکہ خاندانی اور موروثی رتبے کے لحاظ سے ان کا درجہ ''درباری'' کا ہے اسی لیے امریکا اور عالمی برادری کے حواریوں کے انداز میں ملک کا کاروبار سلطنت بھی چلا رہے ہیں۔
یہی طبقہ بہت طاقتور ہے۔ دوسرا طبقہ متوسط درجے پر مبنی ہے جس کا مجموعی اور عمومی طور پر معاشی انحصار یا تو چھوٹے پیمانے پر کاروبار سے ہے یا ملازمت پر اور ملک کی کثیر آبادی کا احاطہ کرتے ہیں۔ تیسرا درجہ وہ طبقہ ہے جس کے پاس رہنے کے لیے اپنا گھر نہیں ہے اور کچی بستیوں میں اپنی زندگی کسمپرسی کے عالم میں گزار رہے ہیں۔ ان کے پاس اولاد کی بے بہا دولت ہوتی ہے مگر آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ گزشتہ دو دہائیوں سے ملک کی معیشت کافی تیزی سے گری ہے کہ ان طبقات کی معاشی زندگی میں بہت فرق آیا ہے یعنی متوسط طبقہ اپنے معاشی معیار سے گر کر غریب ہو گیا ہے اور جو غریب تھا اس کا معیار زندگی اور زیادہ گر گیا ہے۔
وہ غربت زدہ۔ افلاس زدہ اور بس دنیا میں اس کا وجود کسی سستے ہوٹل، ریستوران یا ڈھابے کی مانند ہے۔ ملک کی بیشتر افلاس زدہ آبادی انھی غریب لوگوں پر مشتمل ہے اسی لیے آپ نے غریبی ہوٹلوں کا نام بھی سنا ہو گا ۔ غریب طبقے کا وجود ہمارے ملک کے نامور معیشت دان، حکمران اور ائر کنڈیشنڈ اسمبلیوں خوبصورت اور دلکش عمارت میں بیٹھے ہوئے عوامی نمایندگان کی غلط حکمت عملیوں، شاہ خرچیوں، بدنیتی، ہوس زرکا نتیجہ ہیں۔ حکومتوں، سیاست کے اکھاڑے کے بدنیت پہلوانوں کی شاہانہ طرزِ زندگی کا موازنہ بین الاقوامی طرز پر کرینگے تو معلوم ہو گا کہ ایشیائی ملک چین جس کی کل آبادی ایک ارب 35 کروڑ ہے لیکن ملک کے انتظا م و انصرام چلانے کے لیے کل14 وزراء ہیں پڑوسی ملک بھارت کی ایک ارب 27 کروڑ کی آبادی پر صرف 32 وزراء ہیں، دنیا کی انتہائی ترقی یافتہ اور سپریم پاور متحدہ ریاست ہائے امریکا کی 32 کروڑ کی آبادی پرصرف 14 وزرا ہیں جب کہ برطانیہ اپنی کل 13 کروڑ کی آبادی کے ساتھ صرف12 وزراء پر مشتمل ملک کا نظم و نسق بڑی کامیابی سے چلا رہے ہیں۔
ان سب کا موازنہ کرتے ہوئے اب آپ 68 سالہ ملک پاکستان میں مشاہدہ کیجیے۔ موصولہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی افرادی قوت 19 کروڑ پر زبردستی قابض وزراء کی تعداد96 ہے۔ مشیران کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔ ایک وزیر کا سالانہ خرچ 16 کروڑ روپے ہے۔ 96 وزیروں کا کل خرچ15 ارب 36 کروڑ بنا۔ ہر وزیر کو ملنے والی بجلی کی مد میں ماہانہ 5ہزار یونٹس بالکل فری اور یوں مجموعی طور پر 7,20,000 یونٹس سالانہ کا خرچ بالکل فری۔ ماہانہ 45 وی آئی پی ٹکٹس بالکل فری۔ ماہانہ ایک لاکھ روپے موبائل بیلنس کی مد میں فراہمی بالکل مفت۔ یہ ملک ہے یا مفتہ گھر۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ ملک اور اس کے اثاثے ان کے باوا حضور چھوڑ گئے تھے۔
اس ملک کی آزادی اور اس کی تعمیر و ترقی میں لاکھوں افراد کی جانیں قربان ہوئیں ہیں اور اس کی بنیادوں میں ان کا لہو شامل ہے۔ یہ ملک انھی کی امانت ہے۔ افسوس کی بات ہے جہاں عوام کو پینے کا صاف پانی نا ملے، بجلی کی لوڈشیڈنگ، زائد بلوں کی ترسیل، اندرونی لوٹ مار، ضرورت کی اشیاء کی قیمتوں میں بلا جواز اضافہ، موٹر سائیکلوں پر ڈبل سواری کی بلا جواز پابندیاں، شہروں میں صفائی کا ناقص انتظام، بے ہنگم ٹریفک، عوام کے لیے سفری سہولیات کا شدید فقدان جنگ چی رکشاؤں پر پابندی، بینکوں سے لین دین پر ودہولڈنگ ٹیکس کا جبری نفاذ، یہ تمام معاملات و مسائل صرف اور صرف عوام کا خون چوسنا ہے اور اسے معاشی و اقتصادی طور پر تباہ حال اور افلاس زدہ بنانا مقصود ہے، دراصل ہمارے یہاں حال اور مستقبل کی پالیسیاں بناتے وقت معاشیات/ اقتصادیات کے ماہرین کی قیمتی آراء سے استفادہ نہیں کیا جاتا۔
سابقہ حکومتوں نے سرکاری سرپرستی پر چلنے والے صنعتی یونٹس نیلامی کے تحت فروخت کے سلسلے کا آغاز کیا تھا، قابلِ افسوس امر یہ ہے کہ ملک کو کارپوریٹ اسٹائل میں ڈھالنے کے بجائے کسی پرچون کی دکان یا ٹھیکیداری انداز میں چلانے کی ناکام کوشش کی جا رہی ہے۔ ملک کا خزانہ ارتکاز دولت کا بری طرح سے شکار ہے اور بندربانٹ کا سلسلہ ہنوز مستمر جاری ہے۔
نجکاری کمیشن کے قیام کا مقصد یہی تھا کہ کشکول فری پاکستان پالیسی کے تحت ایسی بیمار صنعتی یونٹس جو سرکار کی تحویل میں تھے انھیں نجی انڈسڑیل سیکٹر کے حوالے کر دیا جانا تھا مگر صد افسوس نجکاری کمیشن اور خریداروں کے درمیان کس قسم کے معاہدے ہوئے، سمجھ سے بالا تر ہے۔
کمیشن نے ایسے منافع بخش اور ایسے چلتے ہوئے ادارے نیلام کیے کہ عقل کی حیرانی کے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا بالخصوص منافع بخش اداروں کو نجی سیکٹر کے حوالے کرنا عوام کے ساتھ سراسر ناانصافی ہے۔ ان شعبوں سے روپیہ پیسے کی لوٹ مار یہ بات ثابت کرتی ہے کہ ملک کو جان بوجھ کر سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت خانہ جنگی اور تباہی کی طرف لے جایا جا رہا ہے۔ پاکستان میں بجلی کا نظام تباہ کن صورت اختیار کر چکا ہے۔ جب کہ بجلی وافر مقدار میں موجود ہے، ایران، چین، بجلی رعایتی نرخوں پر دینے کے لیے رضامند ہیں مگر لینے والے موجود نہیں۔ دنیا میں پاکستان وہ واحد ملک ہے ۔
جس کی مثال زرخیز اور سرسبزوشاداب اُس کھیت کی ہے جس کی فصل دن کی روشنی میں ڈاکو لٹیرے خوب اجاڑتے ہیں پھر رات ہی میں دوبارہ فصل تیار ہو جاتی ہے۔ خدارا! پاکستان کو ضرور لوٹو مگر یہاں پر آباد غریب عوام کو بنیادی حقوق سے تو محروم نہ کرو۔ جب یہ ملک ہی نہ ہو گا تو تم کہاں لوٹ مار کرو گے۔
کون تمہیں پناہ دے گا۔ چور ڈاکو ؤں کو بیرونی دنیا بھی قبول نہیں کرتی۔ ستمبر 65ء کی جنگ ہماری قوم کی خودداری، محب وطنیت کے بھرپور جذبہ کی سب سے بڑی زندہ مثال ہے کیونکہ محاذ پر دشمن سے لڑنے والوں کے پیچھے یہی طاقتور فورس ہے جس کے سہارے ہمارے فوجی شیروں کی مانند دشمن پر جھپٹتے ہیں۔ سقوط ڈھاکہ اس کی زندہ مثال ہے۔ یاد رہے کہ زندہ، باوفا، غیور قومیں ملکی سالمیت پر ہونے والی کسی بھی سازش یا سودہ بازی کے لیے کسی قیمت پر آمادہ نہیں ہوا کرتیں۔ یہی ہمارا پیغام ہے جہاں تک جائے۔