سیاست میں نوجوانوں کی عدم دلچسپی
کبھی سیاست ’خدمت برائے انسانیت‘ کے طور پر کی جاتی تھی جب کہ دور حاضر میں اسے کاروبار کا بہترین ذریعہ سمجھا جاتا ہے
September 09, 2015
کبھی سیاست 'خدمت برائے انسانیت' کے طور پر کی جاتی تھی جب کہ دور حاضر میں اسے کاروبار کا بہترین ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ اب بڑے صنعتکاروں اور بزنس مینوں کا پاکستانی سیاست میں اثر و رسوخ ہے۔ اس بنیاد پر 'سیاست برائے خدمت انسانیت' کا فلسفہ مر چکا ہے۔ بزنس مین سیاستدانوں کی وجہ سے سیاست پیسے والوں کا مشغلہ بن کر رہ گیا ہے۔
پڑھا لکھا نوجوان طبقہ ملکی سیاست سے مکمل کنارہ کش ہوتا نظر آتا ہے کیونکہ اُن کی نظر میں سیاست کسی کا حق مارنے اور ملکی دولت کو لوٹنے کا نام ہے۔ میں یہاں ایک واقعہ بتاتی چلوں۔ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنے دور حکومت میں ایک درسگاہ کا دورہ کیا۔
اس دوران انھوں نے چند لمحوں کے لیے لیکچرار کے فرائض بھی سرانجام دیے اور طالبعلموں سے دوستانہ ماحول میں بات چیت کرتے ہوئے اُن سے اپنے کی مستقبل کی منصوبہ بندی کے بابت پوچھا۔ مستقبل کے معماروں نے دنیا جہاں کے شعبوں میں اپنی دلچسپی ظاہر کی، تاہم سیاست کے موضوع کا ذکر بھی نہیں کیا۔ یوسف رضا گیلانی حیرانی کے ساتھ اس کی وجہ دریافت کی جس پر وہاں موجود طالبعلموں نے سیاست میں نہ آنے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں قوم کو سنہری خواب نہیں دکھانے، اُن سے جھوٹ نہیں بولنا اور نہ ہی ہمیں اپنی آدھی عمر جیل میں بسر کرنی ہے۔ تاہم گیلانی صاحب نے نوجوانوں کو اپنے لیکچر کے ذریعے سیاست میں آنے کی پُرزور نصیحت کی۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ نوجوانوں کا سیاست میں آنا پاکستان کی سیاست کو ماڈرن کریگا جس سے ہم مستقبل میں مثبت نتائج حاصل کر سکتے ہیں، اس کے کچھ عرصے بعد یوسف رضا گیلانی امریکا تشریف لے گئے اور وہاں ایک انٹرویو کے دوران بڑے فخر سے یہ کہتے نظر آئے 'جو پاکستان سے باہر جانا چاہتا ہے جائے، روکا کس نے ہے' کاش، یوسف رضا گیلانی اس درسگاہ میں لیکچر دینے کے دوران حیرت کے سمندر میں غوطہ زن ہونے سے ہی کچھ سبق حاصل کر لیتے۔
انھوں نے یقینا نوجوانوں سے مخاطب ہونے کے بعد ان کی نظر میں سیاستدانوں کی پوزیشن کا اندازہ تو لگا ہی لیا ہو گا۔ تاہم بعد ازاں وہ خود ہی اپنی نصیحتوں کا بھرم نہیں رکھ سکے اور امریکا میں اس قسم کا بیان دینے کے بعد کئی دن شہ سرخیوں کی زینت بنے رہے۔نوجوانوں کا سیاستدانوں پر سے اعتماد اُٹھنے کی بنیادی وجہ بھی یہ ہی ہے کہ آج کوئی بھی سیاسی جماعت و قائدین اپنے ہی نظریے کی حٖفاظت خود ہی نہیں کر پا رہے ہیں یہاں اگر ہم سیاستدانوں کے دعوؤں کو سامنے رکھتے ہوئے implementation تلاش کریں تو غبارے میں سے ہوا نکلتی ہوئی نظر آتی ہے۔
برسراقتدار جماعت 2 سال گزر جانے کے باوجود اپنے وعدوں کا بھرم قائم رکھنے میں کامیاب نظر نہیں آئی۔ دوسری پارٹی میں جاگیردارنہ نظام کی اجارہ داری نے عوامی جماعت کو متنازعہ بنا دیا ہے۔ تحریک کی 60 سالہ نوجوان قیادت نے حقیقی نوجوانوں کو پیچھے دھکیل دیا ہے ان وجوہات کی بنا پر نوجوان طبقہ سیاسی میدان میں طبع آزمائی سے گریز کرتا ہے۔ میری اس موضوع پر نوجوانوں سے گفت و شنید ہوئی جن میں سے کثیر تعداد کا کہنا تھا 'ہمارے سیاستدان برسر اقتدار آنے کے بعد اُن سارے سیاسی وعدوں کو فراموش کر دیتے ہیں جن کو وفا کرنے کا انھیں مینڈیٹ دیا جاتا ہے۔'
ہمارے کتنے ہی سیاستدان و سابق حکمران ایسے ہیں جو قوم کے مقروض ہیں، اپنے followers کے خوابوں کے قاتل ہیں اور پاکستان سے باہر لگژری لائف بسر کر رہے ہیں۔ وہ کیوں نہیں عوام کی عدالت میں خود کو پیش کرتے؟ پاکستان کے سیاستدانوں نے اپنے کردار کی بدولت نا صرف پڑھے لکھے نوجوانوں کو بدظن کیا ہے بلکہ میدان سیاست کو بھی وہ حمام بنا دیا ہے جس میں ہر ایک کی صورتحال ایک جیسی ہے۔
اگر موجودہ حالات کے تناظر میں ماضی کے جھرونکوں میں جھانکا جائے اور 1947ء سے پہلے کے واقعات کی منظر کشی کی جائے تو ہم پر یہ حقیقت آشکار ہو جائے گی کہ پاکستان کو معرض وجود میں لانے کا سہرا نوجوانوں کے سر پر جاتا ہے۔ مملکت پاکستان علی گڑھ کے نوجوانوں کی انتھک محنت و جدوجہد کا ثمر ہے۔
یہ وہ نوجوان تھے جنھوں اپنے مستقبل کو 'پاکستان' کا نام دیا تھا۔ ان نوجوانوں نے آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کر کے یا مسلم لیگ سے اظہار ہمدردی کے طور پر رضاکارانہ خدمات سر انجام دیں، 1930ء میں مسلم لیگ ہندوستان کے سیاسی میدان میں مضبوط قلعہ بن کر سامنے آئی۔بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے نوجوانوں پر اعتماد کرتے ہوئے انھیں تحریک آزادی کی سیاسی سرگرمیوں میں سرگرم رہنے کے لیے مکمل موقع دیا۔
یہ قائداعظم کا نوجوانوں پر اعتماد کا نتیجہ ہے کہ 14 اگست 1947ء کو پاکستان معرض وجود میں آ گیا تاہم قیام پاکستان کے بعدسیاست دانوں کی غلط پالیسوں کی بدولت نوجوانوں نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور یہ تاثر عام ہو گیا کہ میدان سیاست جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کا مشغلہ ہے یعنی سیاست برائے عوامی خدمت کے معنی دم توڑ گئے۔ 1978ء میں شہر قائد (کراچی) کی سیاست میں نیا موڑ آیا اور کراچی یونیورسٹی میں آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا قیام عمل میں آیا بعد ازاں یہ آرگنائزیشن مہاجر قومی موومنٹ کی شکل اختیار کر گئی۔
اس جماعت کی ابتداء میں ہم نے دیکھا کہ 1980ء کا پڑھا لکھا نوجوان اس جماعت کی جانب مائل ہوا اور اس جماعت کی قیادت کو اپنا سنہرا کل تصور کرنے لگا مگر ذاتی مفادات کی جنگ کی بدولت اس تحریک نے بھی نوجوانوں کے یقین کا خون کیا۔ طویل خاموشی کے بعد 2013ء میں نوجوانوں کی سوچ نے پلٹا کھایا۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کچھ عرصے کے لیے نوجوانوں کی توجہ کا مرکز تحریک انصاف بنی رہی، تاہم پی ٹی آئی کی غلط حکمت علمی کی وجہ سے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو مایوسی ہوئی۔
اس صورتحال میں یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ سیاستدانوں اور حکمرانوں کی پے درپے غلط پالیسوں کی وجہ سے پاکستان کی سیاست ناپسندیدہ کھیل بن گئی ہے، جب کہ سیاستدانوں کا کہنا ہے کہ ڈکٹیٹرز (فوجی آمروں) نے پاکستان کی سیاست کا ستیاناس کیا۔ آج کا نوجوان ان سے سوال کرتا ہے کہ آخر کیوں سیاستدان اور حکمران آمروں کے ہاتھوں بلیک میل ہوئے؟ آخر کیوں فوجی آمر کے مشن کو پورا کرنے کے لیے سیاسی رہنما بے چین تھا؟ آخر کیوں سیاسی قوتیں شہری معاملات میں بہتری کے لیے سرحد پر کھڑے جوانوں کو دخل اندازی کی دعوت دیتی ہیں یا اپنے سیاسی حریف کو 'امپائر' کے نام سے خوفزدہ کرتے ہیں؟ پاکستان کے نوجوان ذہین ہیں موجودہ سیاسی دگرگوں صورتحال کی عکاسی کے بعد سیاست منفی پیشہ اختیار کر گیا ہے۔
لہذا نوجوانوں میں یہ تاثر عام ہو گیا ہے کہ وطن عزیز میں سیاست 'خدمت خلق' کا نہیں اپنے 'بینک اکاؤنٹ' کو بھرنے اور اندرون و بیرونی ممالک میں جائیدایں بنانے کا بہترین ذریعہ ہیں۔ ہمارے سیاست دان طاقت و اقتدار کے نشے میں آ کر انتہائی شرمناک فعل سرانجام دیتے ہیں جس کے باعث قانون کی گرفت ان کا گھیرا تنگ کر دیتی ہے۔ پھر بیماری کا بہانہ بنا کر ملک سے راہ فرار اختیار کرنی پڑتی ہے یا حساس اداروں کے ساتھ درپرد ہ دوستی کر کے40 سال پرانے دوستانہ تعلقات منقطع کرنے پڑتے ہیں۔ ان ہی وجوہات کی بنا پر نوجوان اپنے آپ کو اس dirty game کا حصہ بننے نہیں دیتے۔
اگر ہمارے سیاست دان بزنس مین کے بجائے واقعتا 'لیڈر' بن جائیں تو یقینا پاکستان کی سیاست 'نوجوان' ہو جائے مگر بدقسمتی سے پاکستان کے سیاستدان پڑھے لکھے نوجوانوں پر سے اپنا اعتماد کھو چکے ہیں جس کی بنیاد پر سیاستدانوں کی اولادیں ہی سیاست کا حصہ بنتی نظر آ رہی ہیں، تاہم متوسط طبقے کا تعلیم یافتہ نوجوان سیاسی میدان میں خیمہ زن ہونے کا قطعی ارادہ نہیں رکھتے کیونکہ اُن کے نزدیک سیاست کسی کے حقوق غصب کرنے، جائیداد بنانے، جھوٹے وعدے کرنے، ناقص حکمت عملی کے باعث 'کسی کی' نظر میں اپنا الو سیدھا کرنے کا نام ہیں۔ جس کے باعث نوجوانوں کی نظر میں سیاست میں آنے کا خیال بھی 'شجر ممنوعہ' قرار پایا ہے۔