قائداعظم محمد علی جناح کی ذات کے ساتھ 11 اگست 1947 کو دستور ساز اسمبلی میں کی گئی تقریر کچھ یوں منسلک ہوگئی ہے کہ لگتا ہے گویا قائداعظم نے اپنی پوری زندگی میں اس ایک تقریر کے علاوہ کبھی کوئی اور قابل ذکر تقریر کی ہی نہیں۔ کچھ عرصے سے جب بھی یہ ثابت کرنے کی کوشش ہوتی ہے کہ قائداعظم پاکستان کو سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے تو دلیل یہی تقریر بنائی جاتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ منظم سازش کے تحت اس تقریر کو غائب کیا گیا تاکہ لوگ ریاست پاکستان کے حوالے سے قائداعظم کے حقیقی خیالات سے آگاہ نہ ہوسکیں۔
اس تقریرمیں بابائے قوم نے نوزائیدہ مملکت کے حوالے سے صرف اقلیتوں اور مذہبی آزادی ہی نہیں بلکہ دیگر معاشرتی برائیوں اور انکے خاتمے پر بھی بات کی تھی لیکن عموماً لوگ صرف اقلیتوں اور مذہبی آزادی والے الفاظ کا پرچار کرتے ہیں اور وہ تمام نکات جو پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی بنے انکا ذکر اس خطاب کے تناظر میں ہرگز نہیں ہوتا۔
جبکہ تقریر کا مکمل متن پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ قائداعظم نے اس خطاب میں سب سے پہلے فرمایا کہ حکومت کا اولین فرض ہے کہ عوام کے جان و مال اور مذہبی عقائد کا تحفظ یقینی بنائے۔ دوسری اہم ترین چیز جو واضح کی گئی وہ کرپشن اور رشوت ہے جس کو قائد نے زہر قرار دیا اور اس مسئلے سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا عزم کیا۔ قائداعظم روز مرہ کی ضروریاتِ زندگی کی اشیا کی بلیک مارکیٹنگ کو انسانیت کے خلاف سب سے بڑا جرم قرار دیتے ہوئے ایسا کرنیوالوں کے لئے کڑی سزاؤں کی تجویز دیتے ہیں۔ اقربا پروری اور بد دیانتی بھی قائد کی نظروں سے نہیں بچتی وہ بغیر لگی لپٹی رکھے ان دو چیزوں کو برداشت نہ کرنے کا عندیہ دیتے ہیں۔
اس کے بعد قائداعظم تفصیلاً ان عوامل کا ذکر کرتے ہیں جو برصغیر کی تقسیم کا سبب بنے، ساتھ ہی تقسیم کے ناقدین کو واضح الفاظ میں کہتے ہیں کہ تاریخ اس فیصلے کو درست ثابت کریگی۔ اسکے بعد ذکر ہوتا ہے پاکستان میں اقلیتوں کے مقام اور انکی مذہی آزادی کا یعنی ریاست ان کے مذہبی عقائد کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے گی۔ ساتھ ہی نسل، ذات پات کی برابری کا تعین کرتے ہوئے آخر میں قائداعظم انصاف کو اپنا رہنما اصول قرار دیتے ہیں۔
اس بحث سے قطع نظر کہ قائداعظم پاکستان کو سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے یا ایسی ریاست جو اسلامی اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے فلاحی ریاست میں ڈھل جائے جیسا کہ انکی اکثر تقاریر اور اقوال سے واضح ہوجاتا ہے، زیادہ اہم یہ ہے کہ مذکورہ تقریر میں وضع کردہ اصولوں پر عمل ہوجائے تو شاید سیکولر یا اسلامی کی بحث میں الجھے بغیر ہی پاکستان کے مسائل کا حل نکل آئے۔ کیا اسلام اقلیتوں کی آزادی سلب کرتا ہے؟ انہیں بزور طاقت تبدیلی مذہب پر مجبور کرتا ہے؟ کیا اسلام ذات برادری کی تفریق کو ہوا دیتا ہے؟ اگر ان سوالات کا جواب 'نہیں' ہے تو ثابت ہوتا ہے کہ ریاست کا سیکولر ہونا لازمی نہیں بلکہ ریاستی ڈھانچے کا دارومدار انصاف پر ہونا لازم ہے۔
ایک ایسا معاشرہ جہاں اقربا پروری کی بد ترین مثالیں حاکموں سے لیکرعام آدمی تک پھیلی ہوں۔ جہاں ملکی وسائل کرپشن کے پیسے میں تبدیل ہوکر ذاتی اکاؤنٹ میں پہنچ جائیں۔ ملاوٹ، گرانی ذخیرہ اندوزی عام ہو۔ رشوت محکموں کو دیمک کیطرح چاٹ جائے وہاں کا آئین ملک کو سیکولر قرار دیا جائے یا خالص اسلامی کیا فرق پڑتا ہے؟ فرق اس وقت پڑتا ہے جب مساوات ہو، انصاف ہو، تب بنیادی مسائل کے حل کے بعد ایسے مباحث مدلل لگتے ہیں ورنہ محض گفتگو کی چاشنی بڑھانے کا سبب بن جاتے ہیں۔
لوگ یورپ کا رخ کیوں کرتے ہیں؟ اسلئے کہ وہاں یہ تمام جملہ برائیاں جو معاشرے کو گھن کی طرح کھا جاتی ہیں، ناپید ہیں۔ لوگ ترقی کے بہتر مواقع، پرسکون ماحول اور شخصی آزادی کی چاہ میں دیارِغیر میں جا بستے ہیں۔ یورپ بھی تو ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا، وہاں کا سماجی نظام بھی یوں ہی لڑکھڑاتے ہوئے اپنے پیروں پر جم کر کھڑا ہوگیا۔ اور وجہ بنی مخلص لیڈر شپ، مقبول فیصلے، عوامی فلاح کاعزم، تعلیم اور قانون کی عملداری۔
اگر مغربی اقوام یہ کرسکتی ہیں تو ہم پاکستانی کیوں اپنے ذہنوں پر چھایا جمود توڑ کر سوچ اور کردار کی بلندی کو نصب العین نہیں بناتے حالانکہ ہمارا مذہب اور ہمارے وطن کے بانیان ہمیں یہی سکھاتے ہیں، لیکن ہم بھی کمال لوگ ہیں، ہم نے دونوں کی تعلیمات میں سے اپنی مرضی اور مطلب کی چیز ڈھنڈورا پیٹنے کے لئے باہر نکال کر باقی باتوں کو کتابوں تک محدود کردیا ہے اور غلطی سے بھی انکی طرف واپس پلٹ کر نہیں دیکھتے۔ اسی لئے بطور اکائی آگے بڑھنے کے بجائے ابھی تک قیامِ پاکستان اور بطور ریاست پاکستان کے کام کرنے کے حوالے سے اس کے اولین سالوں میں اٹھنے والے بنیادی سوالوں کے گرد ہی چکر کاٹ رہے ہیں۔ ان غیر ضروری اور غیر منطقی باتوں کے بجائے اگر ملک کو قائداعظم کے اقوال اور انکے متعین کردہ اصول و ضوابط جو دیانت، محنت، بےلوث خدمت اور حق اور سچ کی تلقین کرتے ہیں کے مطابق ڈھال لیا جائے تو قوم کا بھلا ہوجائے۔
[poll id="656"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ
[email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس