میڈیا ریٹنگ کی کھوکھلی بنیادیں

جس طرح اونٹ کی کوئی کل سیدھی نہیں ہوتی بالکل اسی طرح ریٹننگ کا معیار بھی الٹا سیدھا ہی ہوتا ہے۔


عاطف اشرف September 10, 2015
جس گھر میں میٹرز لگے ہیں کیا وہ ذاتی طور پر کسی چینل سے رابطہ کرکے ریٹنگ پر آزادانہ طریقے سے اثر انداز نہیں ہوسکتے؟

عام تاثر ہے کہ ٹی وی چینلز ریٹنگ کے لئے کام کرتے ہیں اور اکثر اوقات صحافتی اقدار ریٹنگ حاصل کرنے کے چکر میں بڑی بے دردی سے پامال کردی جاتی ہیں۔ جس طرح اونٹ کی کوئی کل سیدھی نہیں ہوتی بالکل اسی طرح ریٹننگ کا معیار بھی الٹا سیدھا ہی ہوتا ہے اور بیس کروڑ آبادی میں سے صرف ایک ہزار کا سیمپل فیصلہ کرتا ہے کہ کون سا چینل نمبر 1 ہے اور کونسا نمبر 10 ہے۔ یوں کہہ لیں کہ اونٹ کے منہ میں زیرے جتنا سیمپل ہی کسی چینل کو ہیرو اور زیرو بنانے کے لئے کافی ہے۔ مگر کیسے؟ اس کے لئے پہلے دیکھتے ہیں کہ ریٹنگ کس بلا کا نام ہے۔
ریٹنگ کیا ہے؟

ٹی وی چینلز کی ویورشپ مانپنے کا نام ریٹنگ ہے۔ یہ عمل پوری دنیا میں نافذ العمل ہے۔ ٹیکنیکل زبان میں اسے 'ٹی آر پیز' یعنی ٹارگٹڈ ریٹنگ پوائنٹس کہتے ہیں۔ ایک ملک میںٕ کون سا چینل کتنا دیکھاجا رہا ہے اس کا فیصلہ ریٹنگ ڈیٹا پر ہوتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ریٹنگ کا ڈیٹا کیسے لیا جاتا ہے؟ اس کے لئے اس ملک کی آبادی کے تناسب سے سیمپلنگ کی جاتی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے ایک ریسرچ کا طالب علم سروے کے لئے سیمپل اکھٹا کرتا ہے۔ یہ وہ سیمپل ہونا چاہیے جو تمام آبادی کی نمائندگی کرے۔ ترقی یافتہ ممالک میٕں ٹی وی ریٹنگ کی سیمپلنگ بھی ایسے ہی کی جاتی ہے لیکن میڈیا لاجک میں کام کرنے والی شائستہ مشتاق کا بیان سن کر عقل حیران رہ گئی، کہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں بیس کروڑ آبادی ہے۔ ٹی وی ریٹنگز کو ماپنے کے لئے صرف ایک ہزار گھروں میںٕ میٹرز لگائے گئے ہیں۔ وہ بھی اپنی مرضی اور من پسند گھروں میں، واہ یعنی ریٹنگ کا فیصلہ ایک ہزار گھروں میں لگے میٹرز کرتے ہیں اور میٹر کس گھر میں لگانا ہے اس کا فیصلہ کمپنی کرتی ہے۔ میڈیا لاجک وہ کمپنی ہے جو چینلز کی ریٹنگ جاری کرتی ہے اور پاکستان کے تمام بڑے چینلز اس ریٹنگ کے کلائنٹس ہیں۔
ریٹنگ کیوں ضروری ہے؟

اب سوال یہ ہے کہ ریٹنگ کیوں ضروری ہے؟ اس کا جواب بہت سادہ ہے۔ ٹی وی چینلز اشتہاروں پر چلتے ہیں اور اشتہاروں کی بنیاد ریٹنگ کے ڈیٹا پر ہوتی ہے اور ریٹنگ کی بنیاد صرف ایک ہزار میٹرز پر جس کے سبب کسی بھی وقت کسی کا بھی میٹر گھمایا جاسکتا ہے۔ اشتہاری کمپنیاں اسی چینل کو اپنے کلائنٹ کا اشتہار دیں گی جس کی ریٹنگ زیادہ ہوگی۔ یعنی فرض کیا جاتا ہے کہ چونکہ فلاں چینل ایک ہزار گھروں میں زیادہ دیکھا جارہا اس لئے پورے پاکستان میں بھی اس کی ایسی ہی ریٹنگ ہوگی، اگر فلاں چینل کو اشتہار دیا گیا تو زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ٹارگٹڈ پروڈکٹ یا سروسز کا پیغام اشتہار کی صورت میں پہنچ جائے گا اور اس کی مارکیٹنگ اچھی ہوجائے گی۔ سیلز پروموشن سے کمپنی کا بزنس بڑھنے سے اشتہاروں کے آرڈر بھی آتے رہیں گے۔ اس لیے اشتہاری کمپنیاں ٹی وی چینلز کی مقبولیت کو پیمانہ ریٹنگ کو بناتی ہیں۔ صرف اس مفروضے پر کہ یہ پیمانہ درست ہوگا۔
چینل ریٹنگ کے پیچھے کیوں بھاگتے ہیں؟

جس طرح اشتہاری کمپنیاں اپنے کلائنٹس کے لئے بہترین چینل کا انتخاب کرتی ہیں بالکل اسی طرح ٹی وی چینلز اپنے ناظرین کے لئے بہترین نیوز کانٹینٹ ڈھونڈتی اور تراشتی ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس چینلز کے پروگرامز کو پسند کریں اور ریٹنگ بڑھنے پر زیادہ بزنس ملے لیکن حیرت کی بات ہے کہ اشتہاری کمپنیاں اور ٹی وی چینلز جس بنیاد پر بزنس کررہے ہیں وہ صرف پاکستان کے 1 ہزار گھر ہیں جو میڈیا لاجک کے پلیٹ فارم سے یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ کون سا چینل نمبر ون ہے، کون سا ایجنڈا پبلک ایجنڈا ہے اور کون سے چینل کو بزنس ملنا چاہیے۔ یوں سمجھ لیں کہ ریٹنگ کی کھوکھلی بنیاد پر پورے پاکستانی میڈیا اور ایڈور ٹائزنگ ایجنسیوں سمیت اپنی مصنوعات اور خدمات بیچنے والی کمپنیاں انحصار کر رہی ہیں۔
یہ ہو کیا رہا ہے؟

اب اس سوال کی طرف آتے ہیں کہ آج کل پاکستانی میڈیا انڈسٹری میں ہو کیا رہا ہے؟ میڈیا لاجک وہ کمپنی ہے جو ٹی وی چینلز کی ریٹنگ کا ڈیٹا دیتی ہے۔ اس کا الزام ہے کہ ایک چینل ایک ہزار میں سے ان چند ایک گھروں پر اثر انداز ہوا جہاں میٹرز لگے تھے اور ان گھر والوں کو کچھ مراعات کے عوض خاص چینل خاص وقت کے لئے ٹیون کرنے کا کہا گیا تاکہ ریٹنگز زیادہ آئے۔ میڈیا لاجک نے اپنی ہی ایک اسٹاف ممبر شائستہ مشتاق پر الزام لگایا کہ اس نے اس چینل کی ایما پر ریٹنگ میں گڑبڑ کی، صرف اس الزام پر میڈیا لاجک نے اس نجی چینل کی ریٹنگ دینا بند کر دی اور اس چینل سے کروڑوں روپوں کا مطالبہ کرکے نہ صرف بلیک میل کرنے کی کوشش کی بلکہ شائستہ مشتاق کو سی آئی اے پولیس کے ذریعے ڈرا دھمکا کر، اس کے دو بھائیوں کو اغوا کرکے سادہ کاغذ پر اعترافی دستخط کروالئے۔ اس ساری کارروائی کا بھانڈا نجی چینل نے اپنی اسکرین پر پھوڑا اور میڈیا لاجک اور سی آئی اے پولیس کے گٹھ جوڑ کے پرخچے اڑا دیے۔

شائستہ مشتاق ان کی والدہ اور دو بھائیوں نے ٹی وی اسکرین پر آکر چپ توڑدی اور اپنے ساتھ ہونے والا ظلم بیان کیا۔ کون صحیح کون غلط اس کا جواب تو شاید جے آئی ٹی ہی دے سکے لیکن اس سارے معاملے نے پاکستانی میڈیا انڈسٹری اور ریٹنگ کے بزنس پر کڑے سوالات ضرور اٹھا دیے ہیں۔
چند سوالات۔۔۔؟


  • جس گھر میں میٹرز لگے ہیں کیا وہ ذاتی طور پر کسی چینل سے رابطہ کرکے ریٹنگ پر آزادانہ طریقے سے اثر انداز نہیں ہوسکتے؟ میڈیا لاجک کے اسٹاف سے ملنے کی کیا ضرورت؟

  • 20 کروڑ آبادی میں صرف 1 ہزار میٹر پورے پاکستان کی نمائندگی کیسے کرسکتے ہیں؟

  • اگر ایک چینل ریٹنگ پر اثر انداز ہو رہا ہے تو ایک ریٹنگ کمپنی اپنے ہی کلائنٹ کو ریٹنگ لسٹ سے نکال کر بھلا اپنا بزنس کیوں خراب کرے گی؟

  • شائستہ مشتاق کے بقول کمپنی اپنی مرضی سے میٹر لگاتی تھی تو یہ عمل تو خود ریٹنگ کمپنی کا ڈیٹا مشکوک نہیں بنا دیتا؟

  • کیا کوئی ریٹنگ کمپنی کسی دوسرے چینل سے ساز باز کرکے میٹرز کے ڈیٹا میں ردوبدل نہیں کرسکتی؟

  • چینلز کی شہرت کا پیمانہ تو ریٹنگ ہے لیکن ریٹنگ کے درست ہونے کا پیمانہ کیا ہے؟


چند تجاویز۔۔۔!

ریٹنگ کا موجودہ نظام ایک نجی کمپنی کے سپرد ہے جس کے اپنے اسٹاف ممبرز کمپنی کی بلیک میلنگ کو بیان کررہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ایسے حساس کام کے لئے نجی اداروں کے ساتھ ساتھ سرکاری طور پر ایک الگ ادارہ تشکیل دیا جائے یا پیمرا میں ایک نظام متعارف کروایا جائے جو ملکی میڈیا کے کوڈ آف کنڈکٹ کو مانیٹر کرنے کے ساتھ ساتھ ریٹنگ کا بھی اندازہ فراہم کرے۔

پاکستان براڈ کاسٹنگ ایسوسی ایشن مل کر بھی ریٹنگ کا نظام متعارف کروا سکتی ہے جو سب کی مشترکہ ملکیت ہو اور سب اس نظام کو مانیٹر کرنے کے مجاز ہوں۔

پیمرا چینلز کو اس بات کا پابند کرے کہ صرف ریٹنگ کے لئے گھٹیا قسم کا نیوز کانٹینٹ نہ چلایا جائے تاکہ ریٹنگ کے نام پر صحافت کرنے کی حوصلہ شکنی ممکن ہو اور صحافت کا معیار بلند ہو۔

صحافی خبر دینے سے پہلے یہ فرض کرتا ہے کہ لوگ اسے پسند کریں گے۔ عام زبان میں یوں سمجھ لیں کہ میڈیا ایجنڈا ہی عوامی نظریہ بنتا ہے لیکن کوئی عوام سے یہ نہیں پوچھتا کہ کیا واقعی وہ ٹی وی چینلز پر چلنے والی نام نہاد ریٹنگ کی دوڑ پر مبنی خبروں کو پسند کرتے ہیں یا نہیں؟ اس کے لئے ٹی وی ناظرین کا ایک سروے بھی کروا لیا جائے تاکہ معلوم ہوسکے کہ عوام کیسی خبروں کو پسند کرتے ہیں اور اس ریٹنگ کے نظام سے عوام کو کوئی سروکار بھی ہے یا محض پروپیگنڈا کے طور پر یہ معاملہ اچھالا جا رہا ہے۔

[poll id="654"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |