بھارتی تاریخ مسخ کرنے کی کوشش

یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ عبادت گاہیں، جن میں مسجد‘ مندر‘ گرجا‘ گوردوارہ وغیرہ آتے ہیں


کلدیپ نئیر September 11, 2015

KARACHI/PAKISTAN: جنتا پارٹی کی حکومت نے نئی دہلی میں تین مورتی کے مقام پر قائم ''دی جواہر لال نہرو میوزیم'' کو ''جدید'' بنانے کا جو فیصلہ کیا ہے بلاشبہ اس سے میرے دل میں ایک دہشت پیدا ہو گئی ہے۔ بی جے پی کے ترجمان نے وضاحت کی ہے کہ موجودہ میوزیم جدوجہد آزادی کو صرف نہرو اور ان کے حامیوں کی نظر سے پیش کرتا ہے، پوری کہانی بیان نہیں کرتا۔ اور تلخ حقیقت یہ ہے جن افراد نے یہ مطالبہ پیش کیا ہے ان موصوف کا قومی تحریک میں ذرہ بھر بھی حصہ نہیں بلکہ اگر کوئی حصہ ہے تو برطانوی حکمرانوں کی مدد میں حصہ ہے۔ کیا بی جے پی اس میوزیم کو بھی ''جوگیا رنگ'' میں رنگنا چاہتی ہے۔

اس پارٹی نے اسی قسم کی ایک کوشش اس وقت بھی کی تھی جب اٹل بہاری واجپائی وزیر اعظم تھے اور سارے اختیارات بھی انھی کے پاس تھے۔ تاہم انھوں نے تاریخ کی ازسرنو تشریح کے حوالے سے کسی بھی کوشش کی سختی سے مزاحمت کی۔ انھوں نے نہرو کے اس کردار کو تسلیم کیا جو انھوں نے تحریک آزادی میں ادا کیا تھا اور اس کا انھیں پورا کریڈٹ دیا۔ لیکن وزیر اعظم نریندر مودی مختلف قسم کے آدمی ہیں۔

وہ برسر عام آر ایس ایس سے رہنمائی مانگتے ہیں جو کہ قومی جدوجہد پر یقین ہی نہیں رکھتی۔ مودی کی زیر نگرانی میوزیم میں تبدیلیوں کا مطلب یہ ہو گا کہ تاریخ میں اذکار رفتہ خیالات کو شامل کیا جائے۔ نہرو نے آزادی کے بعد قوم کو ایک نئے سانچے میں ڈھالا اور اس کی تشکیل سائنسی بنیادوں پر کی۔ نہرو کا سب سے بڑا کارنامہ ملک کے لیے سیکولر ازم کا نظریہ پیش کرنا تھا۔ تقسیم کے وقت جب پاکستان نے اسلامی ریاست بننے کا انتخاب کیا' نہرو نے بھارت کو سیکولر رکھا۔ شاید یہی وہ چیز ہے جو بی جے پی کو پسند نہیں اور اسی وجہ سے وہ میوزیم کے اصل کردار کو بھی بدل دینا چاہتی ہے۔ آخر بی جے پی اپنا علیحدہ میوزیم کیوں نہیں بناتی جس میں وہ جس طرح چاہے تاریخ کو پیش کرے۔

زیادہ عرصہ نہیں ہوا جب میں پونا گیا تو مجھے یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوا کہ آغا خان پیلس، جہاں انگریز دور میں ہماری تحریک آزادی کی اہم ترین شخصیات نظر بند رہیں، جن میں مہاتما گاندھی، جواہر لعل نہرو' سردار پٹیل اور مولانا ابو الکلام آزاد بھی شامل تھے، اس محل کو توڑ کر اب ماحولیاتی پارک میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔

مجھے پارکوں سے کوئی مخالفت نہیں لیکن ایسی جگہیں جو قوم کے خون میں رواں دواں ہوں ان کو تو ان کی اصل شکل میں قائم رکھنا چاہیے تا کہ آنے والی نسلیں بھی ان مقامات کو دیکھ سکیں۔ تزئین و آرائش خواہ کتنی ہی نیک نیتی سے کیوں نہ کی جائے اس سے عمارت کی اصلی روح معدوم ہو جاتی ہے۔

اس کے برعکس امرت سر کے جلیانوالہ باغ کو اسی شکل اور اسی حالت میں قائم رکھا گیا ہے۔ اس سے ایک تو وہاں پر ہونے والی بے گناہ اموات کی یاد تازہ ہوتی ہے جب کہ عین درمیان میں وہ کنواں بھی موجود ہے جو لاشوں سے بھر گیا تھا۔ جب اس کنوئیں کو دیکھا جائے تو وہ منظر ذہن میں گھومنے لگتا ہے جب برطانوی حکام کے حکم پر فوجیوں نے باغ میں موجود لوگوں پر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی تھی اور لوگ اپنی جان بچانے کے لیے کنوئیں میں چھلانگ لگا رہے تھے۔

آخر ان لوگوں کو کس بات کی سزا دی گئی تھی؟ اصل میں بعض افراد نے بازار سے گزرنے والی ایک برطانوی عورت پر کوئی فقرہ کسا تھا۔ جلیانوالہ باغ میں مظاہرین برطانوی حکمرانی کے خلاف احتجاج کر رہے تھے، کیونکہ ملک بھر میں آزادی کی جدوجہد جاری تھی اور زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ سیکڑوں لوگوں کو ہلاک کرنے کے بعد ایک برطانوی فوجی نے کہا ''کاش کہ ہماری بندوقوں کی گولیاں ختم نہ ہوتیں''۔

یہ حقیقت ہے کہ جلیانوالہ باغ جیسی جگہیں حقیقی معنوں میں مقدس مقامات ہیں۔ یہ ہمیں ہماری قومی جدوجہد آزادی کے دوران پیش آنیوالے مصائب و آلام کی یاد دلاتے ہیں اور ان قربانیوں کی جو ہم نے برطانوی حکمرانی کے خلاف دیں۔ یہ جگہیں ان مقدس تحریروں سے کم تقدس مآب نہیں جنھیں ہم سر آنکھوں پر رکھتے ہیں۔

یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ عبادت گاہیں، جن میں مسجد، مندر، گرجا، گوردوارہ وغیرہ آتے ہیں، ان کی تعداد روز افزوں ہے لیکن ان کی تزئین و آرائش سلیقے اور خوش ذوقی سے عاری ہے۔ مذاہب کے پیروکار اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ قیمتی پتھر اور سونا چاندی لگانے سے ان کا آستانہ عبادت گزاروں کے لیے زیادہ مقبول ہو جائے گا۔

بدقستمی سے جن عمارتوں کا جدوجہد آزادی سے رتی بھر بھی تعلق نہیں ان کو خواہ مخواہ کی اہمیت دیدی گئی ہے اور اس سے بھی زیادہ یہ بات افسوس ناک ہے کہ تقسیم کے وقت اجتماعیت اور باہمی افہام و تفہیم کے جو وعدے کیے گئے تھے ان کو فراموش کر دیا گیا۔ میرے لیے تو یہ بات ناقابل تصور ہے کہ کوئی پارٹی یا شخص مہاتما گاندھی کے قاتل نتھورام گوڈسے کو خراج عقیدت پیش کرنے کی خاطر اس کی یاد گار تعمیر کرنے کا مطالبہ کرے۔ بی جے پی ایک ایسی جماعت ہے جو ''ہندوتوا''کے جذبات کی ترویج کرتی ہے۔ مگر اسے مسلمانوں کے جذبات کا بھی احساس کرنا چاہیے۔

اس بات سے قطع نظر کہ مسلمانوں نے پاکستان کا مطالبہ کیا تھا۔ لیکن70سال قبل ہونیوالے کسی واقعے پر آج کے بھارتی مسلمانوں کو کس طرح ذمے دار قرار دیا جا سکتا ہے؟ جب ہم اس نسل پر الزام نہیں لگا رہے جنہوں نے برطانوی حکومت کی حمایت کی تو بھلا ہم مسلمانوں کو کس بنیاد پر مورد الزام ٹھہرائیں جن کے آباؤ اجداد نے پاکستان بنانے میں مدد کی تھی؟ ایک عام ہندو نے مسلمانوں کو معاف نہیں کیا کیونکہ انھوں نے ان کے نزدیک ''بھارت ماتا'' کو تقسیم کیا تھا۔

پاکستان کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہوں تو اب بھی زیادہ تر ہندو مسلمانوں کو شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ویسے بھی ہندو مسلمانوں سے ایک خاص فاصلہ رکھتے ہیں۔ ان دونوں کمیونٹیوں میں سماجی تعلقات کم سے کم ہیں اور دونوں اپنی اپنی دنیا میں رہتے ہیں۔ میری نسل میں ایسا نہیں تھا۔ ہم ایک دوسرے کے گھروں میں آتے جاتے اور اکٹھے بیٹھ کر کھاتے پیتے تھے اور ہمیں کبھی یہ احساس نہیں ہوا تھا کہ ہم کوئی غیر معمولی کام کر رہے ہیں۔

آج حالات تبدیل ہو گئے ہیں۔ ایک مسلمان خاتون پروفیسر نے مجھے بتایا کہ اس کی کلاس میں چند ہندو لڑکیاں کھڑی ہو گئیں اور اسے کہا کہ وہ کیوں پاکستان نہیں چلی گئی تھیں۔ لیکن کلاس میں کسی طالبہ نے ان لڑکیوں کی بات پر اعتراض نہ کیا۔ میں تعلیمی نظام پر تو الزام نہیں دے سکتی لیکن میں ان ٹیچرز کو ضرور مورد الزام ٹھہراؤنگی جنہوں نے ایسا ماحول پیدا کر دیا ہے جہاں پر طالبات اپنی پروفیسروں سے اس قسم کے سوال کر رہی ہیں۔

یہ درست ہے کہ مذہب کی بنیاد پر تقسیم سے بھارت کے سیکولر ازم کے دعوے کو زک پہنچی ہے کیونکہ اس قسم کے جذبات ہمارے آئین کی روح کے بھی خلاف ہیں اور اس سے بھارت کے معاملات میں مسلمانوں کی اہمیت میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ ہمیں ہمیشہ یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ہمارا ملک ہندو ملک نہیں بلکہ ایک سیکولر ملک ہے جو جمہوری اقدار پر یقین رکھتا ہے جس پر ہمارے آئین کے دیباچے میں زور دیا گیا ہے۔

بی جے پی کو اس بات کا بھی کوئی احساس نہیں کہ ان کی پارٹی میں کوئی نامور مسلمان شامل نہیں ہے۔ میری خواہش ہے کہ حالات بہتر ہو جائیں لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے جب حکمران بی جے پی ہندوتوا پھیلانا چاہتی ہے اور مسلمان برادری سے فاصلہ رکھنا چاہتی ہے۔ افسوس کہ یہ پارٹی ملک کے تمام وعدوں کو نظر انداز کر رہی ہے۔ ہماری جدوجہد آزادی کے دوران جب پاکستان کا مطالبہ بطور ایک مسلم ریاست کے سامنے آیا تب بھی ہمارا اعلان یہی تھا کہ بھارت ایک سیکولر ریاست ہو گی۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں