مہاجرین کا عالمی بحران اور ہم
ایک چھوٹے سے ملک اسرائیل نے مسلمانوں میں نفاق کے دروازے کھول دیے
انسانی تاریخ جنگ و جدل کی داستان ہے ہر ایک گروہ کہیں، فرد یا افراد و قوم کا اجتماع دوسرے کو محکوم بنانے کی کوششیں کرتا رہا۔ جب کہ پروردگار مصلح، اوتار اور پیغمبروں کو بھیجتا رہا تا کہ مسائل کا منطقی حل تلاش کیا جا سکے۔
مگر ان صاحبان فہم کو طرح طرح کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں۔ ابن مریم کو بظاہر سولی پر چڑھایا گیا مگر ہوس زر نے انسان کی اعلیٰ صفات کو تہس نہس کر دیا۔ اپنے ہی ملک کو دیکھیں! منی لانڈرنگ میں محکوم عوام نہیں، حاکم اپنے ملک کا زر کثیر دوسرے ملکوں میں جمع کر رہے ہیں اور اس کو عوام کی خدمت کا نام دے رہے ہیں۔ ہر ایک نئے نعرے کے ساتھ لوٹنے نکلا ہے یہ تو تھے انفرادی اور اجتماعی کام۔ نوآبادیاتی نظام کا دور تو دوسری جنگ عظیم کے بعد اور سوویت یونین اور عوامی جمہوریہ چین کے افق پر نظارے کے بعد ختم ہو گیا مگر سامراجی گماشتوں کا دور جاری رہا۔ بھارت میں نہرو نے اپنے ملک میں جاگیرداری کی کمر توڑ دی مگر پاکستان میں اس کی بیخ کنی نہ ہوئی۔
جاگیرداری نظام تقویت پاتا رہا۔ جاگیردار چھوٹے کاروباری روپیہ بناتے رہے اور وقت کے ساتھ معیشت ادھار کی رقم سے چلتی رہی۔ گزشتہ 15 برسوں سے لسانیات، نسل پرستی، مذہبی منافرت نے پاؤں جما لیے، اب جس کے خلاف فوج جنگ میں نبرد آزما ہے۔ ایک ایسا وقت آیا جب پاکستان میں بیشتر چینلوں پر طالبان کے نمایندوں کے تجزیہ کار بیٹھے ان کی قوت کی مدح سرائی میں مصروف رہتے تھے اور آج یہ ان کے خلاف اور ضرب عضب کے قصیدے پڑھ رہے ہیں کیونکہ یہ لوگ وقت کے ساتھی اور معیشت کے یار ہیں ملک میں جب سے دھن کا راج ہوا ہے من کی دنیا سونی پڑ گئی ہر طرف جنگ زر گری جاری ہے خصوصیت کے ساتھ مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ کے مسلم ممالک آپس میں دست و گریباں اور گردنیں کاٹ رہے ہیں۔
مگر اسرائیل کی سرحد پر ایک گولہ پھینکنے کے لیے تیار نہیں ہیں بلکہ نیتن یاہو نے ایک موقع پر خلفشار اور کشت و خون کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی۔ مشرق وسطیٰ میں تو جنگ کی اذیت کاری جاری تھی لیبیا کو بھی خوں ریزی نے بڑے پیمانے پر اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے لیبیا پر سکون تھا مگر نیٹو ممالک کی افواج نے جس میں فرانس پیش پیش تھا کرنل قذافی کی افواج کی تباہی کے لیے باغیوں کو ہر قسم کا اسلحہ وافر مقدار میں مہیا کیا۔
آج لیبیا میں مختلف گروہوں ملیشیا اور القاعدہ کے گروپوں کی حکومت ہے۔ مجموعی طور پر کوئی خارجہ پالیسی نہیں ہے۔ نیٹو نے جو منصوبہ بندی کی تھی کہ ارزاں تیل ملتا رہے گا وہ کسی حد تک تو مل رہا ہے۔ مگر کوئی مرکزی خارجہ پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے نقصانات نسبتاً زیادہ ہوئے۔ امریکی سفارت کار اور ان کے سفارت خانے غیر محفوظ ہیں۔ کئی بار ان پر حملے ہو چکے ہیں۔ شام کی جنگ کو 4 برس سے زیادہ اور عراق کی جنگ ختم نہ ہونے والی کہانی ہے۔
اس کی کئی جہتیں ہیں۔ کرد عراق جنگ، کرد آئی ایس ایس، کرد ترکی تنازعہ، داعش شیعہ وار، شام داعش جنگ، اب یہ جنگ مزید نئی اور مختلف تنازعات کا پیش خیمہ بنی جا رہی ہے۔ سعودی عرب براہ راست اب تک کسی جنگ میں شامل نہ تھا مگر حالیہ دو ہفتوں سے سعودی عرب اور یمن براہ راست شدید جنگ میں مصروف ہیں۔ سعودی اور خلیجی ممالک کی افواج کی شمولیت اور بمباری اور یمنی ٹینک شکن اسلحے کا استعمال جنگ کو نئے موڑ پر لے آیا ہے۔
اب ذرا غور فرمائیے۔ اتنے ممالک میں خانہ جنگی، پڑوسی پڑوسی پر حملہ آور، دو مخالف فوجیں ایک شہر میں برسر پیکار تو پھر زندگی کیا اور کیسی ہو گی۔ جنگ رکنے کا نام نہیں لے رہی اسلام کے نام پر قتل عام درحقیقت یہ جنگیں اسلام دشمن قوتوں کو خوش کر رہی ہیں۔ کیونکہ مسلمانوں کی جنگ نے اسرائیل کو چین کی بانسری بجانے پر لگا رکھا ہے۔ مسلمانوں کا یہ نظری اور فکری اختلاف کئی صدیوں سے تھا مگر اس میں نمایاں تیزی کس کے ایما پر آئی۔ کیا معاشی اور سماجی بے چینی پہلے نہ تھیں۔ جب سے حکومتوں نے فرقہ پرستی کے عفریت کی سرپرستی شروع کی ہے تب سے یہ معاملات پیچیدہ ہو گئے ہیں۔
اگر آپ مطالعہ کریں تو معلوم ہو گا کہ نیٹو ممالک اس فکری اور مذہبی گروہ بندی میں نمایاں تھے۔ داعش کی اچانک آمد، فوجی گاڑیاں، اسلحہ، فوج یہ سب کہاں سے آیا۔ یہ تو کہیے کہ پاک فوج نے یہ سب بڑی جلدی بھانپ لیا کہ یہاں بھی دوسرے قسم کے معروضی حالات پیدا کیے جا رہے ہیں۔ شوال سے کراچی تک ایک جنگ کا اندیشہ ہے۔ لہٰذا اس کا توڑ کیا گیا بہرصورت آپ سوچیں کہ مشرق اوسط کے کئی ممالک جب اس میں دھنس گئے ہیں تو ملک سے فرار ہی راہ نجات ہے غریب کو تو مرنا تھا وہ اپنے ملک میں مرنے پر مجبور ہیں صاحب ثروت لوگ اپنا گھر اور اثاثے چھوڑ کر راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہوئے۔
کشتیوں میں سوار سیکڑوں ڈوبے، تقریباً 2 ہزار بچے، بوڑھے اپریل سے اب تک ڈوب چکے۔ مگر ایک ربڑ کی ہوا بھرنے والی کشتی کے ڈوب جانے نے عوام کے دلوں میں طغیانی پیدا کر دی۔ ایک عام راستہ جو اپنایا گیا، شام سے ترکی اور ترکی سے یونان۔ گزشتہ ہفتے یونان کے ساحل پر دو اور تین برس کے بچے کی لاش جب سمندر نے ساحل پر پھینک دی تو رائے عامہ میں کہرام مچ گیا۔ یہ دونوں بچے اچھے کپڑوں میں ملبوس پاؤں میں جوتے، جب ایک بچہ ساحل پر آیا فوٹو گرافر نے اس کو اخبارات کی زینت بنایا تو اہل دل کے لیے لمحہ فکریہ تھا۔ ابن مریم کے ماننے والوں نے ایک پرجوش عمل کیا۔
شہروں میں کہرام مچ گیا۔ بائیں بازو کی تنظیموں نے اول اور پھر چرچ کے رکھوالوں اور عام آدمیوں نے حکومتوں کو مجبور کیا کہ وہ اپنی پالیسیوں میں تبدیلی پیدا کریں انگلینڈ جہاں کی قیادت نے بہت قدغن لگا رکھی تھی اس کو بھی 20 ہزار تارکین وطن کو مجبوراً رکھنے کے لیے تیار ہونا پڑا۔ سوچیے تو سہی کسی مسلم ملک نے دامن کشادہ نہ کیا۔ کیونکہ مسلمانوں میں عالمی فرقہ پرستی زرگری کی تحریک جاری، اور یہ سب دین کے پردے میں ہو رہی ہے ابھی تو کئی لاکھ اور چل پڑے ہیں۔
جرمنی، فرانس، فن لینڈ، آسٹریا، اس سلسلے میں ہنگری کا کردار اچھا نہ تھا وہاں سے لوگ پیدل قافلے کی صورت میں 30 میل یا اس سے زائد کا سفر طے کر بیٹھے البتہ مسلمان سیکولر برادر ملک ترکی کے ساحل اور اطراف میں نوسر بازوں کا اجتماع دیکھنے میں آیا غیر ملکی رپورٹروں کے بقول ترکی میں ایسے عناصر سرگرم ہو گئے ہیں، جو موقع سے فائدہ اٹھاکر لوگوں کو ٹھگ رہے ہیں۔ فرانس کے لاٹ پادری نے اپنا ایک مکان پناہ گزینوں کو دے دیا اور لوگوں سے اپیل کی کہ وہ کم ازکم تین ماہ کے لیے ایک خاندان کو پناہ دیں مغرب میں وہی ہوا چلی جو 1947 کی تقسیم ہند کے بعد ہمارے خطے میں چلی تھی۔ اور یہ رسم وفا 1949 تک جاری رہی۔ مگر وہاں مذہبی عنصر اور مسلم ریاست کی وجہ سے تھا۔
مگر یہاں تو معاملہ برعکس ہے مسلمان وہاں کی ڈیموگرافی (Demography) تبدیل کر رہے ہیں عورتوں کے سروں پر اسکارف پورا جسم لباس میں ڈھکا ہوا، زبان عربی، پھر بھی وہ انسانیت کے نام پر اٹھے۔ یہ الگ بات ہے اس تباہی کا سبب تو نیٹو ممالک ہی ہیں۔ مگر عام آدمی کا کردار دیکھیں کہ وہ مدد کے لیے رنگ، نسل، مذہب سے بالاتر ہو کر یہ عمل کر رہے ہیں۔ اپنے کردار سے وہ اسوۃ حسنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کر رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ اللہ کی رحمتیں ان ممالک پر ہیں ہم نے اپنی راہ بدل دی ہے اسی پر علامہ اقبال کا یہ شعر یاد آتا ہے:
تھے وہ آبا ہی تمہارے مگر تم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو
پھر علامہ فرماتے ہیں:
تھی بڑی بات اگر ہوتے جو مسلمان بھی ایک
فرقہ پرستی اور منفی جذبات کی پرورش کرنے والوں نے چھوٹی چھوٹی باتوں کو اچھال کر جمع کے بجائے تفریق اور تقسیم کا سبق پڑھانا شروع کر دیا۔ ابھی جو امن نظر آ رہا ہے یہ امن ہمارے یہاں ڈنڈے کے زور پر ہے۔ ذرا ڈھیلا پن نظر آئے تو پھر وہی کشت و خون، کیونکہ ذہن میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔
ایک چھوٹے سے ملک اسرائیل نے مسلمانوں میں نفاق کے دروازے کھول دیے اور اپنے نظریات ہم پر ٹھونس دیے اپنی قوت سے نہیں بلکہ قوت زر سے۔ مگر اب تک مسلمانوں کو ادراک نہیں کہ یہ سب کیوں ہو رہا ہے اور خصوصاً پاکستان بال بال بچ گیا لہٰذا برصغیر میں جنگ کے شعلوں سے محفوظ رہے یہی اس کے حق میں اچھا ہے۔
اٹھ کہ خورشید کا سامان سفر تازہ کریں
نفس سوختہ شام و سحر تازہ کریں
(اقبال)
مگر ان صاحبان فہم کو طرح طرح کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں۔ ابن مریم کو بظاہر سولی پر چڑھایا گیا مگر ہوس زر نے انسان کی اعلیٰ صفات کو تہس نہس کر دیا۔ اپنے ہی ملک کو دیکھیں! منی لانڈرنگ میں محکوم عوام نہیں، حاکم اپنے ملک کا زر کثیر دوسرے ملکوں میں جمع کر رہے ہیں اور اس کو عوام کی خدمت کا نام دے رہے ہیں۔ ہر ایک نئے نعرے کے ساتھ لوٹنے نکلا ہے یہ تو تھے انفرادی اور اجتماعی کام۔ نوآبادیاتی نظام کا دور تو دوسری جنگ عظیم کے بعد اور سوویت یونین اور عوامی جمہوریہ چین کے افق پر نظارے کے بعد ختم ہو گیا مگر سامراجی گماشتوں کا دور جاری رہا۔ بھارت میں نہرو نے اپنے ملک میں جاگیرداری کی کمر توڑ دی مگر پاکستان میں اس کی بیخ کنی نہ ہوئی۔
جاگیرداری نظام تقویت پاتا رہا۔ جاگیردار چھوٹے کاروباری روپیہ بناتے رہے اور وقت کے ساتھ معیشت ادھار کی رقم سے چلتی رہی۔ گزشتہ 15 برسوں سے لسانیات، نسل پرستی، مذہبی منافرت نے پاؤں جما لیے، اب جس کے خلاف فوج جنگ میں نبرد آزما ہے۔ ایک ایسا وقت آیا جب پاکستان میں بیشتر چینلوں پر طالبان کے نمایندوں کے تجزیہ کار بیٹھے ان کی قوت کی مدح سرائی میں مصروف رہتے تھے اور آج یہ ان کے خلاف اور ضرب عضب کے قصیدے پڑھ رہے ہیں کیونکہ یہ لوگ وقت کے ساتھی اور معیشت کے یار ہیں ملک میں جب سے دھن کا راج ہوا ہے من کی دنیا سونی پڑ گئی ہر طرف جنگ زر گری جاری ہے خصوصیت کے ساتھ مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ کے مسلم ممالک آپس میں دست و گریباں اور گردنیں کاٹ رہے ہیں۔
مگر اسرائیل کی سرحد پر ایک گولہ پھینکنے کے لیے تیار نہیں ہیں بلکہ نیتن یاہو نے ایک موقع پر خلفشار اور کشت و خون کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی۔ مشرق وسطیٰ میں تو جنگ کی اذیت کاری جاری تھی لیبیا کو بھی خوں ریزی نے بڑے پیمانے پر اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے لیبیا پر سکون تھا مگر نیٹو ممالک کی افواج نے جس میں فرانس پیش پیش تھا کرنل قذافی کی افواج کی تباہی کے لیے باغیوں کو ہر قسم کا اسلحہ وافر مقدار میں مہیا کیا۔
آج لیبیا میں مختلف گروہوں ملیشیا اور القاعدہ کے گروپوں کی حکومت ہے۔ مجموعی طور پر کوئی خارجہ پالیسی نہیں ہے۔ نیٹو نے جو منصوبہ بندی کی تھی کہ ارزاں تیل ملتا رہے گا وہ کسی حد تک تو مل رہا ہے۔ مگر کوئی مرکزی خارجہ پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے نقصانات نسبتاً زیادہ ہوئے۔ امریکی سفارت کار اور ان کے سفارت خانے غیر محفوظ ہیں۔ کئی بار ان پر حملے ہو چکے ہیں۔ شام کی جنگ کو 4 برس سے زیادہ اور عراق کی جنگ ختم نہ ہونے والی کہانی ہے۔
اس کی کئی جہتیں ہیں۔ کرد عراق جنگ، کرد آئی ایس ایس، کرد ترکی تنازعہ، داعش شیعہ وار، شام داعش جنگ، اب یہ جنگ مزید نئی اور مختلف تنازعات کا پیش خیمہ بنی جا رہی ہے۔ سعودی عرب براہ راست اب تک کسی جنگ میں شامل نہ تھا مگر حالیہ دو ہفتوں سے سعودی عرب اور یمن براہ راست شدید جنگ میں مصروف ہیں۔ سعودی اور خلیجی ممالک کی افواج کی شمولیت اور بمباری اور یمنی ٹینک شکن اسلحے کا استعمال جنگ کو نئے موڑ پر لے آیا ہے۔
اب ذرا غور فرمائیے۔ اتنے ممالک میں خانہ جنگی، پڑوسی پڑوسی پر حملہ آور، دو مخالف فوجیں ایک شہر میں برسر پیکار تو پھر زندگی کیا اور کیسی ہو گی۔ جنگ رکنے کا نام نہیں لے رہی اسلام کے نام پر قتل عام درحقیقت یہ جنگیں اسلام دشمن قوتوں کو خوش کر رہی ہیں۔ کیونکہ مسلمانوں کی جنگ نے اسرائیل کو چین کی بانسری بجانے پر لگا رکھا ہے۔ مسلمانوں کا یہ نظری اور فکری اختلاف کئی صدیوں سے تھا مگر اس میں نمایاں تیزی کس کے ایما پر آئی۔ کیا معاشی اور سماجی بے چینی پہلے نہ تھیں۔ جب سے حکومتوں نے فرقہ پرستی کے عفریت کی سرپرستی شروع کی ہے تب سے یہ معاملات پیچیدہ ہو گئے ہیں۔
اگر آپ مطالعہ کریں تو معلوم ہو گا کہ نیٹو ممالک اس فکری اور مذہبی گروہ بندی میں نمایاں تھے۔ داعش کی اچانک آمد، فوجی گاڑیاں، اسلحہ، فوج یہ سب کہاں سے آیا۔ یہ تو کہیے کہ پاک فوج نے یہ سب بڑی جلدی بھانپ لیا کہ یہاں بھی دوسرے قسم کے معروضی حالات پیدا کیے جا رہے ہیں۔ شوال سے کراچی تک ایک جنگ کا اندیشہ ہے۔ لہٰذا اس کا توڑ کیا گیا بہرصورت آپ سوچیں کہ مشرق اوسط کے کئی ممالک جب اس میں دھنس گئے ہیں تو ملک سے فرار ہی راہ نجات ہے غریب کو تو مرنا تھا وہ اپنے ملک میں مرنے پر مجبور ہیں صاحب ثروت لوگ اپنا گھر اور اثاثے چھوڑ کر راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہوئے۔
کشتیوں میں سوار سیکڑوں ڈوبے، تقریباً 2 ہزار بچے، بوڑھے اپریل سے اب تک ڈوب چکے۔ مگر ایک ربڑ کی ہوا بھرنے والی کشتی کے ڈوب جانے نے عوام کے دلوں میں طغیانی پیدا کر دی۔ ایک عام راستہ جو اپنایا گیا، شام سے ترکی اور ترکی سے یونان۔ گزشتہ ہفتے یونان کے ساحل پر دو اور تین برس کے بچے کی لاش جب سمندر نے ساحل پر پھینک دی تو رائے عامہ میں کہرام مچ گیا۔ یہ دونوں بچے اچھے کپڑوں میں ملبوس پاؤں میں جوتے، جب ایک بچہ ساحل پر آیا فوٹو گرافر نے اس کو اخبارات کی زینت بنایا تو اہل دل کے لیے لمحہ فکریہ تھا۔ ابن مریم کے ماننے والوں نے ایک پرجوش عمل کیا۔
شہروں میں کہرام مچ گیا۔ بائیں بازو کی تنظیموں نے اول اور پھر چرچ کے رکھوالوں اور عام آدمیوں نے حکومتوں کو مجبور کیا کہ وہ اپنی پالیسیوں میں تبدیلی پیدا کریں انگلینڈ جہاں کی قیادت نے بہت قدغن لگا رکھی تھی اس کو بھی 20 ہزار تارکین وطن کو مجبوراً رکھنے کے لیے تیار ہونا پڑا۔ سوچیے تو سہی کسی مسلم ملک نے دامن کشادہ نہ کیا۔ کیونکہ مسلمانوں میں عالمی فرقہ پرستی زرگری کی تحریک جاری، اور یہ سب دین کے پردے میں ہو رہی ہے ابھی تو کئی لاکھ اور چل پڑے ہیں۔
جرمنی، فرانس، فن لینڈ، آسٹریا، اس سلسلے میں ہنگری کا کردار اچھا نہ تھا وہاں سے لوگ پیدل قافلے کی صورت میں 30 میل یا اس سے زائد کا سفر طے کر بیٹھے البتہ مسلمان سیکولر برادر ملک ترکی کے ساحل اور اطراف میں نوسر بازوں کا اجتماع دیکھنے میں آیا غیر ملکی رپورٹروں کے بقول ترکی میں ایسے عناصر سرگرم ہو گئے ہیں، جو موقع سے فائدہ اٹھاکر لوگوں کو ٹھگ رہے ہیں۔ فرانس کے لاٹ پادری نے اپنا ایک مکان پناہ گزینوں کو دے دیا اور لوگوں سے اپیل کی کہ وہ کم ازکم تین ماہ کے لیے ایک خاندان کو پناہ دیں مغرب میں وہی ہوا چلی جو 1947 کی تقسیم ہند کے بعد ہمارے خطے میں چلی تھی۔ اور یہ رسم وفا 1949 تک جاری رہی۔ مگر وہاں مذہبی عنصر اور مسلم ریاست کی وجہ سے تھا۔
مگر یہاں تو معاملہ برعکس ہے مسلمان وہاں کی ڈیموگرافی (Demography) تبدیل کر رہے ہیں عورتوں کے سروں پر اسکارف پورا جسم لباس میں ڈھکا ہوا، زبان عربی، پھر بھی وہ انسانیت کے نام پر اٹھے۔ یہ الگ بات ہے اس تباہی کا سبب تو نیٹو ممالک ہی ہیں۔ مگر عام آدمی کا کردار دیکھیں کہ وہ مدد کے لیے رنگ، نسل، مذہب سے بالاتر ہو کر یہ عمل کر رہے ہیں۔ اپنے کردار سے وہ اسوۃ حسنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کر رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ اللہ کی رحمتیں ان ممالک پر ہیں ہم نے اپنی راہ بدل دی ہے اسی پر علامہ اقبال کا یہ شعر یاد آتا ہے:
تھے وہ آبا ہی تمہارے مگر تم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو
پھر علامہ فرماتے ہیں:
تھی بڑی بات اگر ہوتے جو مسلمان بھی ایک
فرقہ پرستی اور منفی جذبات کی پرورش کرنے والوں نے چھوٹی چھوٹی باتوں کو اچھال کر جمع کے بجائے تفریق اور تقسیم کا سبق پڑھانا شروع کر دیا۔ ابھی جو امن نظر آ رہا ہے یہ امن ہمارے یہاں ڈنڈے کے زور پر ہے۔ ذرا ڈھیلا پن نظر آئے تو پھر وہی کشت و خون، کیونکہ ذہن میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔
ایک چھوٹے سے ملک اسرائیل نے مسلمانوں میں نفاق کے دروازے کھول دیے اور اپنے نظریات ہم پر ٹھونس دیے اپنی قوت سے نہیں بلکہ قوت زر سے۔ مگر اب تک مسلمانوں کو ادراک نہیں کہ یہ سب کیوں ہو رہا ہے اور خصوصاً پاکستان بال بال بچ گیا لہٰذا برصغیر میں جنگ کے شعلوں سے محفوظ رہے یہی اس کے حق میں اچھا ہے۔
اٹھ کہ خورشید کا سامان سفر تازہ کریں
نفس سوختہ شام و سحر تازہ کریں
(اقبال)