دنیا جو نظر آتی ہے
اسی ہجرت میں نائپال کے نانا کپیل دیو مہراج بھی کلکتہ سے 3 مہینوں کا سفر کرکے یہاں پہنچے
میں کوشش کرتا ہوں کہ جو بھی کتاب پڑھوں، وہ اپنے قارئین سے ضرور شیئر کروں۔آیئے ایک اور کتاب پر نظر۔'' دی ورلڈ از واٹ اٹ از'' ، لکھنے والے ایڈنبرا یونیورسٹی سے ادب پڑھے ہوئے، دی لبرٹی آف ڈیتھ اور تبت نامی کتابوں کے خالق، سمرسیٹ ماہم ایوارڈ سمیت کئی ایورڈ جیتنے والے، انگلینڈکے باسی پیٹرک فرینچ ہیں۔
2001میں نوبل پرائز حاصل کرنیوالے دبنگ رائٹر وی۔ایس نائپال کی بایوگرافی ویسے نائپال کو توکافی رائٹرز نے پیش کش کی کہ وہ ان کی بایوگرافی لکھیں لیکن قرعہ فال نکلا اس گورے نوجوان کے نام ۔ نائپال کے انٹرویوز، ٹلسا یونیورسٹی اوکلوہاما امریکا میںمحفوظ ان کے متعلق دستاویزات کا معائنہ، امریکا، یورپ، لیٹن امریکا، افریقا، ہندوستان اور پاکستان کی مسافتیں، رابطے واسطے اور گپ شپ، دردرکے دھکے کھا کر پھر جاکر یہ کتاب لکھی ہے۔
نائپال کو جب 2001 میں نوبل انعام ملا تو ہر طرف ہنگامہ ہوگیا۔ برطانیہ کے وزیر اعظم سے لے کر بالی ووڈ اسٹار امیتابھ بچن تک، کئی ملکوں کے سربراہوں، ادباء، خاندانی دوستوں اور مداحوں نے مبارکباد کے پیغامات بھیجے، دنیا کے بڑے اخبارات گارجین، نیویارک ٹائمز وغیرہ میں ذکرہوا لیکن اس موقعے پر انگلینڈ کے مسلمان رہنمائوں نے انھیں اچھی خاصی پھینٹی لگائی، وجہ اسلام کے خلاف متعصبانہ خیالات۔اس موقعے پر نائپال کے دیے ہوئے نوبل خطاب سے اقتباس حاضر ہے، ''میراخاندانی پس منظر بھی عجیب ہے، جب برطانوی راج میں غلامی کی زنجیریں ٹوٹ رہی تھیں توکالونیل ویسٹ انڈیز میں فصل اگانے کے لیے غلاموں کی ضرورت تھی ۔ ہندوستان میں سے بھی ان کے آبائواجداد کو اسی سزا کے تحت ہاتھ پائوں باندھ کر ویسٹ انڈیز بھیجا گیا، جو غلامی کی ایک نئی شکل تھی۔''
1932میں ٹرینڈاڈ کے دیہات میںتنگدستی کے ماحول میں جنم لینے والے ودیا دھرسورج پرساد نائپال، بیسویں صدی کا ایک بڑا لکھاری ہے، لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ اس نے جو لکھا ہے وہ سب سونا ہے ، بہرحال اس کی کچھ تصانیف ایسا شاہکار ہیں کہ ان کے کئی ہمعصر رائٹرز بھی معترف ہیں۔
ان کی تصنیفات میں سادہ جملے اورمشکل موضوعات پر ہاتھ ڈالاگیا ہے، جیسے انتہاپسندی، ہجرتیں، سیاسی اور مذہبی شناخت، نسلی تعصب، افریقا کی جہالت، ایشیا میں تشدد اور بڑی بڑی سلطنتوں کے خاتمے کے بعد یورپ کا دوبارہ ابھرنا شامل ہے، وہ جو شاندار تہذیب، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کی بات کرتا ہے۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ افریقا کے مستقبل کو تاریک ، فرانس کو دھوکے باز اور انٹرویو لینے والوں کو ادھرادھر جمپ لگانیوالے بندر سمجھتا ہے۔
ان کے ایک بڑے نقاد ٹیری ایگلٹن اسے '' ایک بڑا فنکار لیکن بیہودہ آدمی''کہتا ہے، ایک اور نقاد ویسی جانسن کے مطابق نائپال کا لکھنے میں ثانی نہیں لیکن بولنے میں بلکل بدتمیز ہے۔ٹرینڈاڈ میں پیدا ہونے کے باوجود وہ اپنے آپ کو ہندوستان اور انگلینڈ سے تعلق جوڑتا ہے، والد کی وفات کے بعد اس نے ہمیشہ کے لیے ٹرینڈاڈ سے اپنی راہیں الگ کرلیں، یہ اور بات ہے کہ اس کے طنز ومزاح کا انداز آج بھی ٹرینڈاڈ کے لوگوں کی طرح ہے۔
انھوں نے نہ صرف شاندارفکشن لکھی، بلکہ بی بی سی کی کیریبین سروس سے لے کرکتابوں پر تبصرے، انڈیا، افریقا، یورپ، امریکا کے سیاسی، سماجی اور اقتصادی حالات پر دنیا کے بڑے اخبارات نیویارک ٹائمز، گارجین وغیرہ میں آرٹیکلز بھی لکھے۔ وہ ایک ہی وقت میں کچھ لوگوں کے محبوب لکھاری تو کچھ کے لیے بالکل ٹیڑا آدمی رہا ہے۔ بایوگرافی لکھنے کے متعلق وہ کہتا ہے کہ کسی بھی رائٹرکی بایوگرافی، اس کی زندگی، دوستانے، دشمنیوں کے متعلق معلومات دیتی ہے لیکن لکھنے کے رازکی پہیلی بوجھ نہیں سکتی۔ اس لیے اس میں ہمیشہ نامکمل ہونے کا عنصر موجود رہتا ہے، لیکن بقول پیٹرک فرینچ، اچھی بایوگرافی وہ ہے، جو متعلقہ شخصیت کی زندگی اور لکھنے کے فن کوبہتر اجاگر کرسکے۔
اس کتاب میں ویسٹ انڈیز کے جزیروں کے آباد ہونے کے اوائلی دور کی نشاندہی کی گئی ہے۔1498 میں کس طرح کرسٹوفرکولمبس ایشیاکی تلاش میں بھٹک کر ان جزائر پر آپہنچے یا16 صدی میں کس طرح یہاں کے مقامی لوگوں کو ہاتھ پائوں باندھ کر اسپین نے اپنے کالونیل ملکوں کی طرف بھیجا۔1797 میں جب اسپین نے برطانیہ کے سامنے یہاں ہتھیار ڈالے تو کس طرح 19ویں صدی میں سستی لیبر کے بہانے انڈیا کے لوگوں کو بحری جہازوں پر لادکر یہاں اتارا گیا۔
اسی ہجرت میں نائپال کے نانا کپیل دیو مہراج بھی کلکتہ سے 3 مہینوں کا سفر کرکے یہاں پہنچے، جب کہ نائپال کے والد شوپرساد نائپال بھی 16 سال کی جوانی میں اکیلے اور تنہا ٹرینڈاڈ پہنچائے گئے۔ یوں جب کپیل دیو مہراج نے شوپرساد کو اپنی بیٹی کا رشتہ دیا تو مہراج کے زمینوں کی نگرانی شو پرساد نائپال کے حوالے کردی گئی۔ لیکن جوائنٹ فیملی ہونے کی وجہ سے گھر میں چپقلش بڑھنے لگی توخود دارشوپرساد نائپال نے اپنی فیملی کے لیے الگ گھر لینے کا فیصلہ کیا تاکہ ان کے بچے کسی احساس محرومی کا شکار نہ ہوں۔ انھوں نے بچوں کے لیے شاعری کی اورکہانیاں لکھیں،کیریبین ٹائمزکے لیے مضامین لکھے۔
وہ اپنے چھوٹے بچے وی۔ ایس نائپال کو چارلس کنگ سلے، کونارڈ، ماہم اورگاندھی کی لکھی ہوئی کتابوں میں سے اقتباسات پڑھ کر سناتے تھے، اس لیے شاید اپنے والد سے متاثر ہو کروی۔ایس نائپال بھی رائٹر بننا چاہتے تھے۔ 1950 میں نائپال نے انگلینڈ کی اسکالرشپ حاصل کی اور آکسفورڈ میں آکر ڈیرا جمایا۔اسی دوران انھوں نے ایک انگریز لڑکی پٹریشیا سے شادی بھی کی۔ اپنے ننھیال کے گھر لائن ہائوس سے لے کر، اپنے والد کے خرید کیے ہوئے نئے گھر، بچپن کی یادوں، ٹرینڈاڈ میں کوئنزکالج میں پڑھنے والے عرصے ، ٹرینڈاڈ کی گلیوں، راستوں،کثیر نسلی آبادی ، والدکی ذہنی پریشانی اور غربت پر شاندار ناول لکھا''اے ہائوس فار مسٹر بسواس''، جس نے عالمی ادب میں تہلکہ مچایا۔ نائپال کے لکھنے کا انداز ہی اپنا، جس کا اظہار انھوں نے تہلکہ کو دیے گئے انٹرویو میں کیا ''جملے مختصر اور ان میں روانی ہونی چاہیے۔
جس میں مقصد واضع ہو۔مشکل خیالات کو بھی آسان زبان میں بیان کرنا چاہیے، جن الفاظ کے معنیٰ کی خبر نہ ہو، وہ استعمال نہیں کرنے چاہییں۔''نائپال جب لندن پہنچے تو وہ دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کا زمانہ تھا، شہر اور شہریوں کے حال بے حال تھے، تباہ شدہ بلڈنگیں، غذا کی کمی اور ملک امریکا کے قرضوں پر چل رہا تھا۔ابتدائی دور میں وہ مشکلات میں پھنسا ہوا، فضول انگریزی روایات ، فنکشنز، وہاں کے ٹیچرز کے مدہ خارج خیالات میں گھرا ہوا نظر آتا ہے۔1955میں جب اس کے قلم میں روانی آئی تو کسی پبلشر نے لفٹ نہ کرائی، یہاں تک کہ شارٹ اسٹوریز پر مشتمل کتاب ''مگئل اسٹریٹ'' کووہ لفٹ نہ ملی تو اس نے پہلا بھرپور ناول ''مسٹک میئر'' لکھنا شروع کیا۔یوں وہ ناول اور آرٹیکلز لکھتے ہی گئے اور ساتھ میں دنیا کے چکر بھی لگاتے رہے۔
ان کی تصانیف معنی خیز، طنزومزاح سے بھرپورہیں، یہ اسلوب اسے دوسروں سے ممتاز بناتا ہے۔ناولز ممک مین،ان اے فری اسٹیٹ، دی لاس آف ایلڈوراڈو، گوریلا،اے بینڈ ان رورافریقی ماحول ، تو دی انائما آف اراول ، یورپین ماحول کی عکاسی کرتے ہیں۔انڈین گورڈ میئر نے لکھا''نائپال ایک ایسے فن کا بادشاہ ہے، جوآپ کو ہنسنے پر مجبور کرتا ہے لیکن پھر اچانک ہنسنے پر شرمندہ بھی کرتا ہے۔وہ اپنی جنم بھومی ٹرینڈاڈ سے نفرت کرتا ہے کیونکہ وہ اسے غلامی کی علامت سمجھتا ہے، جب کہ ابائوو اجداد کے دیس انڈیا اور حال مقیم انگلینڈ کے بیچ لٹکا ہوا ہے۔
وہ آکسفورڈ میں پڑھائے جانے والے انگریزی ادب پر بھی کھل کرطنزکرتا ہے ''انگریزی ادب کا مطلب مرے ہوئے گورے لوگوں ایڈمنڈ اسپینسر، ولیم شیکسپیئر، جارج ہربرٹ، جان ڈریڈن، جوناتھن سوئفٹ، الیگزینڈرپوپ، ہینزی فیلڈنگ اور ولیم ورڈس ورتھ جیسے مرے ہوئے بوڑھوں کاسولہویں صدی سے انیسویں صدی کا جتھا، باقی جدت پسند ٹی۔ایس ایلیٹ، ورجینا وولف، جیمس جوائس کا نام نہ نشان، یہ اور بات ہے کہ جدیدیت بطور تحریک مجھے کبھی سمجھ میں نہ آئی۔ ''آہستہ آہستہ ان کی کتابوں نے شہرت کی بلندیوں کو چھوا اورمختلف ایوارڈز بھی حاصل کیے۔
ان کی شہرت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب انھوں نے نیواسٹیٹس مین جیسے معتبر رسالے میں لکھنا شروع کیا تواس کی سرکولیشن بھی لاکھوں تک پہنچ گئی۔وہ رشین ماسٹرزکو پسند کرتا ہے لیکن کونارڈ اور دوسرے ہم عصر فرانسیسی ناول نگاروں کو ناپسند کرتا ہے۔ شہرت کی بلندیوں کے بعد وہ دنیا میں جہاں بھی گئے ان کو ریاستی پذیرائی ملی۔ انھوں نے انڈیا پر ''انڈیا اے وونڈڈ سولائیزیشن '' کتاب لکھی، جس پر اس وقت انڈیا میں پابندی لگادی گئی ۔
بعد میںاسی تسلسل میں''اے ملین آف میوٹنیز'' لکھی۔ انھوں نے ایران، پاکستان ، انڈونیشیا اور ملائیشیا کا دورہ بھی کیا، جس کا ذکر انھوں نے '' امنگ دی بلیورز'' میں کیا ہے۔وہ علاقائی تہذیبوں کی بجائے ایک یونیورسل تہذیب کی بات کرتا ہے، اس لیے ایڈورڈ سعید سے مخاصمت پائی جاتی ہے۔پاکستان کے دورے کے دوران انھوں نے بہاول پور سے تعلق رکھنے والی صحافی نادرہ سے ملاقات کی تو ایک دوسرے کے قریب آگئے۔ یوں یہ ملاقاتیں شادی میں تبدیل ہو گئیں۔کئی نقاد انھیں ماسٹرآف ناول کہتے ہیں۔
نائپال کی تلخ طبیعت کے باعث اس کے جتنے حلیف ہیں، اتنے رقیب بھی۔ان کی دوستی امریکن رائٹر پال تھیرو سے مشہور ہوئی، جو تیس سال پر محیط تھی۔ اسی دوستی کی یادوں اور نائپال کی بے رخی پر پال تھیرو نے اپنی مشہورکتاب لکھی ''سرودیاز شیڈو''۔لیکن وہ ہی نائپال جب اپنی مرحومہ پہلی بیوی پٹریشیا کی قبر پر حاضری دیتا ہے تو وی۔ ایس نائپال رائٹر ، ودھیا کی آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑتے ہیں۔ آخرمیں مجھے ان کے ناول ''اے بینڈ ان رور'' میںلکھا ہوا زبردست جملہ یاد آتا ہے کہ''دنیا وہ ہی ہے جو آنکھوں کے سامنے دکھائی دیتی ہے، جو لوگ معمولی ہیں وہ معمولی ہی رہے، جن کے لیے اس دنیا میں کوئی جگہ نہیں۔ ''