عوام اور حکمرانوں میں خلیج کا شکوہ
ستم دیکھیے نہ بجلی، گیس اور بے روزگاری میں کوئی اعتدال آیا، نہ ہی کوئی بنیادی سہولتیں عوام کو ملی ہوں۔
KARACHI:
پاکستان کے نظام حکومت پر اگر نظر ڈالی جائے تو کہیں بھی احساس نہیں ہوتا کہ حکومت اپنے بنیادی فرائض کو بخوبی انجام دے رہی ہے۔ گزشتہ 10 سال سے آج تک کوئی ایسا فلاحی کام نہ ہوا جس میں عوام کو ذرہ برابر ریلیف ملا ہو، سپریم کورٹ کا قول فیصل یہی ہے کہ عوام اور اہل اقتدار میں خلیج حائل ہوگئی ہے، تمام ریاستی اعضا ناکامی کا اعتراف کریں۔
ستم دیکھیے نہ بجلی، گیس اور بے روزگاری میں کوئی اعتدال آیا، نہ ہی کوئی بنیادی سہولتیں عوام کو ملی ہوں۔ بلکہ ہر معاملے میں حکومت اور پرائیوٹ اداروں میں مک مکا تو نظر آتا ہے، کہیں عوام کی سہولتوں پر توجہ و اہمیت نظر نہیں آتی۔ ماہ رواں میں کے الیکٹرک نے اپنے بلوں میں 30 فیصد تک اضافہ کردیا جب کہ پٹرولیم مصنوعات پر بین الاقوامی قیمتوں میں حیرت انگیزکمی آئی ہے، 120 ڈالر بیرل پر فروخت ہونے والی پٹرولیم مصنوعات اب 40 ڈالر پر آگئی مگر بجلی کے بلوں میں بے تحاشا اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
سرچارج ہو، سیلز ٹیکس یا دوسرے ٹیکس، ان بجلی کے بلوں میں شامل کرکے درمیانہ طبقے کے عوام کو معاشی طور پر کچل کر رکھ دیا، محدود آمدنی والا طبقہ نہ اتنی مہنگی بجلی کا متحمل ہوسکتا ہے نہ یوٹیلٹی کے دوسرے اخراجات۔ عوام نے عام انتخابات میں یہ دھوکا کھایا کہ وہ سمجھے مسلم لیگ ن اس ملک کو پچھلے حکمرانوں سے بہتر طریقے سے چلائے گی، مگر لوڈشیڈنگ میں اضافہ ہوا، گیس کی رسد میں بے انتہا کمی ہوئی، مہنگائی بڑھتی رہی، بے روزگاری کے لیے کوئی اسکیم نہ بنائی، بلکہ 60 ارب میں جو میٹرو بس چلائی گئی۔
اس میں جو ٹریک بنایا وہ اس غریب ملک کے لیے بہت مہنگا پڑا، اس 60 ارب کی بسیںچلائی جاتیں، سڑکوں کی تعمیر کی جاتی تو شاید عوام کو ٹرانسپورٹ میں بہت ریلیف ملتا۔کراچی کو دیکھ لیجیے جہاں لوگ بسوں کی چھتوں پر چڑھ کر سفر کرتے ہیں، کئی کئی گھنٹے انتظار کرتے ہیں، جو تکلیف عوام اٹھا رہے ہیں اس کا احساس ان کو کیسے ہو جو شاہانہ محلوں میں رہتے ہوں، شاہی انداز میں حکومت کرتے ہوں، وہ غریب کی مشکلات کیا جانیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ اگر ہماری عدالتیں عوام کے بنیادی مسائل پر سوموٹو ایکشن نہیں لیں گی، تو اہل حکمران اپنا وقت پورا کرکے چلے جائیں گے۔ خدا خدا کرکے بڑی بددلی سے، بڑی مشکل سے حکومت نے عوامی دباؤ میں ملک میں دہشتگردوں، مجرموں، قاتلوں، اغوا کاروں کے خلاف کارروائی کا اختیار فوج اور اس کے ذیلی اداروں کو دیا ہے، جنھوں نے بڑے مثبت نتائج نکالے، اسی شہر کراچی کو کافی حد تک بہتر بنادیا مگر اب بھی ضرورت ہے بلاتفریق ان لوگوں کو بھی گرفتار کیا جائے جو اس دہشت گردی، اس ٹارگٹ کلنگ، لوٹ کھسوٹ، لینڈ مافیا، بھتہ گیری کے حکم دینے والے تھے۔
یہ سارا کام کوئی شخص ذاتی بنیاد پر نہیں کررہا ہے بلکہ اس کے پیچھے منظم مافیا ہے، جس نے سیاست کا لبادہ اوڑھ لیا ہے۔ عام لوگ ان کی چالوں کو نہیں سمجھتے، انھیں کبھی مذہب کی بنیاد پر، کبھی لسانیت کی بنیاد پر اپنا ہمنوا بنالیتے ہیں۔ لیکن یہ حکمرانوں کی ذمے داری ہے ان کی نگرانی کریں، تمام خفیہ ایجنسیوں کو آئینی اور قانونی حق دیا جائے کہ ان جیسے ملک دشمن عناصر چاہے وہ سیاستدان ہوں یا سی پی ایل سی کے سربراہ، چاہے تاجر ہو یا صنعتکار، چاہے کوئی بیوروکریٹ ہو یا مشیر، سب کے خلاف غیر قانونی حرکتوں کے ثبوت یہ خفیہ ایجنسیاں اکٹھی کریں۔ ان پر یہ پابندی کہ وہ سیاستدانوں کی نقل و حرکت، ان کی کالز کو ٹریس نہیں کرسکتیں، ملک میں کرپشن کا راستہ کھولتی ہیں۔
اس لیے پارلیمنٹ کو چاہیے پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کو یہ اختیار دے کہ وہ ہر شہری پر نظر رکھے جو مشکوک حرکت کررہا ہو، چاہے وہ ملک دشمنی ہو یا سماج دشمنی، اس کے ثبوت جمع کرنے کا اختیار ہو تاکہ لوگوں میں یہ احساس ہو کہ ہم مادر پدر آزاد نہیں ہیں۔ ہماری حرکات کو دیکھا جارہا ہے۔اس سے ملک میں کرپشن، دہشتگردی اور جرائم میں کمی ہوگی، تمام سلامتی کے اداروں میں اشتراک ہو اور کرپشن کے خلاف مسلسل جدوجہد جا رہی ہو۔
یہ ملک اللہ کے کرم سے ہر نعمت سے مالا مال ہے۔ بس ہمیں اچھی حکمرانی اور کرپشن سے پاک حکمران ہوں تو یہ ملک دن دگنی رات چوگنی ترقی کرے گا۔ اس قوم میں صلاحیت، یہاں کے سلامتی اداروں میں بھی صلاحیت ہے۔ بس مٹھی بھر سیاستدان جو ملک اور قوم کی خدمت نہیں بلکہ اپنا، اپنے کنبے کا، اپنے عزیزوں کا، اپنے چاہنے والوں کا، اپنے کارکنوں کے فائدے کے لیے سیاست میں اقتدار حاصل کرتے ہیں۔ اگر ہماری عدالتوں کے منصف صاحبان اور سلامتی اداروں کے سربراہان مل کر کوئی ایسا لائحہ عمل تیار کریں، جس میں مسلسل دہشتگردوں، ملک دشمنوں، سماج دشمنوں، قبضہ مافیا، بھتہ مافیا کے خلاف بھرپور کارروائی کی جائے، ان کے لیے زمین تنگ کردی جائے اور عوام کے بنیادی مسائل پر حکومت کو متنبہ کرتے رہیں تاکہ وہ اپنا قبلہ درست کرلیں۔
دونوں ادارے مل کر وہ ساری دولت واپس لیں جو لوگوں نے اربوں اور کھربوں کی شکل میں بینک سے معاف کروائی، اس کام میں اپوزیشن اور ممبر پارلیمنٹ کو چاہیے کرپشن سے پاک، صاف ستھرا پاکستان بنانے کا اپنا فرض ادا کریں، آئینی اور قانونی معاونت کی جائے، ایسا قانون پاس ہو کہ کوئی اس ملک کو لوٹ نہ سکے۔ جنھوں نے لوٹا ہے وہ بچ نہ سکے۔ چاہے اس کے لیے غیر معمولی اختیارات کسی ادارے کو دینا پڑیں۔
پاکستان کے نظام حکومت پر اگر نظر ڈالی جائے تو کہیں بھی احساس نہیں ہوتا کہ حکومت اپنے بنیادی فرائض کو بخوبی انجام دے رہی ہے۔ گزشتہ 10 سال سے آج تک کوئی ایسا فلاحی کام نہ ہوا جس میں عوام کو ذرہ برابر ریلیف ملا ہو، سپریم کورٹ کا قول فیصل یہی ہے کہ عوام اور اہل اقتدار میں خلیج حائل ہوگئی ہے، تمام ریاستی اعضا ناکامی کا اعتراف کریں۔
ستم دیکھیے نہ بجلی، گیس اور بے روزگاری میں کوئی اعتدال آیا، نہ ہی کوئی بنیادی سہولتیں عوام کو ملی ہوں۔ بلکہ ہر معاملے میں حکومت اور پرائیوٹ اداروں میں مک مکا تو نظر آتا ہے، کہیں عوام کی سہولتوں پر توجہ و اہمیت نظر نہیں آتی۔ ماہ رواں میں کے الیکٹرک نے اپنے بلوں میں 30 فیصد تک اضافہ کردیا جب کہ پٹرولیم مصنوعات پر بین الاقوامی قیمتوں میں حیرت انگیزکمی آئی ہے، 120 ڈالر بیرل پر فروخت ہونے والی پٹرولیم مصنوعات اب 40 ڈالر پر آگئی مگر بجلی کے بلوں میں بے تحاشا اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
سرچارج ہو، سیلز ٹیکس یا دوسرے ٹیکس، ان بجلی کے بلوں میں شامل کرکے درمیانہ طبقے کے عوام کو معاشی طور پر کچل کر رکھ دیا، محدود آمدنی والا طبقہ نہ اتنی مہنگی بجلی کا متحمل ہوسکتا ہے نہ یوٹیلٹی کے دوسرے اخراجات۔ عوام نے عام انتخابات میں یہ دھوکا کھایا کہ وہ سمجھے مسلم لیگ ن اس ملک کو پچھلے حکمرانوں سے بہتر طریقے سے چلائے گی، مگر لوڈشیڈنگ میں اضافہ ہوا، گیس کی رسد میں بے انتہا کمی ہوئی، مہنگائی بڑھتی رہی، بے روزگاری کے لیے کوئی اسکیم نہ بنائی، بلکہ 60 ارب میں جو میٹرو بس چلائی گئی۔
اس میں جو ٹریک بنایا وہ اس غریب ملک کے لیے بہت مہنگا پڑا، اس 60 ارب کی بسیںچلائی جاتیں، سڑکوں کی تعمیر کی جاتی تو شاید عوام کو ٹرانسپورٹ میں بہت ریلیف ملتا۔کراچی کو دیکھ لیجیے جہاں لوگ بسوں کی چھتوں پر چڑھ کر سفر کرتے ہیں، کئی کئی گھنٹے انتظار کرتے ہیں، جو تکلیف عوام اٹھا رہے ہیں اس کا احساس ان کو کیسے ہو جو شاہانہ محلوں میں رہتے ہوں، شاہی انداز میں حکومت کرتے ہوں، وہ غریب کی مشکلات کیا جانیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ اگر ہماری عدالتیں عوام کے بنیادی مسائل پر سوموٹو ایکشن نہیں لیں گی، تو اہل حکمران اپنا وقت پورا کرکے چلے جائیں گے۔ خدا خدا کرکے بڑی بددلی سے، بڑی مشکل سے حکومت نے عوامی دباؤ میں ملک میں دہشتگردوں، مجرموں، قاتلوں، اغوا کاروں کے خلاف کارروائی کا اختیار فوج اور اس کے ذیلی اداروں کو دیا ہے، جنھوں نے بڑے مثبت نتائج نکالے، اسی شہر کراچی کو کافی حد تک بہتر بنادیا مگر اب بھی ضرورت ہے بلاتفریق ان لوگوں کو بھی گرفتار کیا جائے جو اس دہشت گردی، اس ٹارگٹ کلنگ، لوٹ کھسوٹ، لینڈ مافیا، بھتہ گیری کے حکم دینے والے تھے۔
یہ سارا کام کوئی شخص ذاتی بنیاد پر نہیں کررہا ہے بلکہ اس کے پیچھے منظم مافیا ہے، جس نے سیاست کا لبادہ اوڑھ لیا ہے۔ عام لوگ ان کی چالوں کو نہیں سمجھتے، انھیں کبھی مذہب کی بنیاد پر، کبھی لسانیت کی بنیاد پر اپنا ہمنوا بنالیتے ہیں۔ لیکن یہ حکمرانوں کی ذمے داری ہے ان کی نگرانی کریں، تمام خفیہ ایجنسیوں کو آئینی اور قانونی حق دیا جائے کہ ان جیسے ملک دشمن عناصر چاہے وہ سیاستدان ہوں یا سی پی ایل سی کے سربراہ، چاہے تاجر ہو یا صنعتکار، چاہے کوئی بیوروکریٹ ہو یا مشیر، سب کے خلاف غیر قانونی حرکتوں کے ثبوت یہ خفیہ ایجنسیاں اکٹھی کریں۔ ان پر یہ پابندی کہ وہ سیاستدانوں کی نقل و حرکت، ان کی کالز کو ٹریس نہیں کرسکتیں، ملک میں کرپشن کا راستہ کھولتی ہیں۔
اس لیے پارلیمنٹ کو چاہیے پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کو یہ اختیار دے کہ وہ ہر شہری پر نظر رکھے جو مشکوک حرکت کررہا ہو، چاہے وہ ملک دشمنی ہو یا سماج دشمنی، اس کے ثبوت جمع کرنے کا اختیار ہو تاکہ لوگوں میں یہ احساس ہو کہ ہم مادر پدر آزاد نہیں ہیں۔ ہماری حرکات کو دیکھا جارہا ہے۔اس سے ملک میں کرپشن، دہشتگردی اور جرائم میں کمی ہوگی، تمام سلامتی کے اداروں میں اشتراک ہو اور کرپشن کے خلاف مسلسل جدوجہد جا رہی ہو۔
یہ ملک اللہ کے کرم سے ہر نعمت سے مالا مال ہے۔ بس ہمیں اچھی حکمرانی اور کرپشن سے پاک حکمران ہوں تو یہ ملک دن دگنی رات چوگنی ترقی کرے گا۔ اس قوم میں صلاحیت، یہاں کے سلامتی اداروں میں بھی صلاحیت ہے۔ بس مٹھی بھر سیاستدان جو ملک اور قوم کی خدمت نہیں بلکہ اپنا، اپنے کنبے کا، اپنے عزیزوں کا، اپنے چاہنے والوں کا، اپنے کارکنوں کے فائدے کے لیے سیاست میں اقتدار حاصل کرتے ہیں۔ اگر ہماری عدالتوں کے منصف صاحبان اور سلامتی اداروں کے سربراہان مل کر کوئی ایسا لائحہ عمل تیار کریں، جس میں مسلسل دہشتگردوں، ملک دشمنوں، سماج دشمنوں، قبضہ مافیا، بھتہ مافیا کے خلاف بھرپور کارروائی کی جائے، ان کے لیے زمین تنگ کردی جائے اور عوام کے بنیادی مسائل پر حکومت کو متنبہ کرتے رہیں تاکہ وہ اپنا قبلہ درست کرلیں۔
دونوں ادارے مل کر وہ ساری دولت واپس لیں جو لوگوں نے اربوں اور کھربوں کی شکل میں بینک سے معاف کروائی، اس کام میں اپوزیشن اور ممبر پارلیمنٹ کو چاہیے کرپشن سے پاک، صاف ستھرا پاکستان بنانے کا اپنا فرض ادا کریں، آئینی اور قانونی معاونت کی جائے، ایسا قانون پاس ہو کہ کوئی اس ملک کو لوٹ نہ سکے۔ جنھوں نے لوٹا ہے وہ بچ نہ سکے۔ چاہے اس کے لیے غیر معمولی اختیارات کسی ادارے کو دینا پڑیں۔