میڈیا آپ کا آئینہ ہے دیکھ کر گھبراتے کیوں ہو

گولی اور بندوق کے ذریعے بات منوانے والے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ اس طرح وہ کسی کے دل میں اپنی عزت ہرگز نہیں بنا سکیں گے۔

اگر بظاہر دیکھا جائے تو میڈیا کسی معاشرے کا آئینہ ہوتا ہے۔ آئینے میں وہی نظر آئے گا جو حقیقت میں ہوگا۔

ارشد علی جعفری اور آفتاب عالم نے پاکستان میں صحافت سے منسلک ایسے افراد کی فہرست میں اضافہ کیا ہے، جو اپنے پیشہ وارانہ فرائض انجام دیتے ہوئے جان کی بازی ہار گئے۔ ان سے قبل اس فہرست میں اضافہ بننے والے میڈیا ورکرز میں ارشد مستوئی ، شان ڈاہر، اسلم درانی، ثاقب خان اور ولی بابر خان خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ ویب سائٹ کو اگر دیکھا جائے تو اس ذرائع ابلاغ سے وابستہ ایسے افراد کی ایک لمبی لائن ملے گی جو خبر دیتے دیتے خود ایک افسوس ناک خبر بن گئے۔

کراچی میں یکے بعد دیگرے دو صحافیوں کی ٹارگٹ کلنگ اس بات کا ثبوت ہے کہ کچھ عناصر ایسے موجود ہیں جو اب بھی یہ چاہتے ہیں کہ میڈیا کھل کر نہ بولے۔ میڈیا سے وابستہ افراد پر حملے سیدھا سا پیغام ہوتے ہیں کہ تمہاری زبان زیادہ چلنے لگ گئی ہے۔ محتاط نہ ہوئے تو انجام دیکھ لو۔۔۔۔۔۔

مختلف واقعات کی رپورٹنگ کے علاوہ صحافی ملک کی مختلف سیاسی و سماجی جماعتوں کی سرگرمیاں اور ان کا موقف بھی عوام تک میڈیا کے ذریعے پہنچا رہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح پاکستانی معاشرے میں پائی جانے والی ناانصافیوں اور بدعنوانیوں کو آزادانہ طور پر پیش کیا جاتا ہے اور اکثر اوقات اُن کی روشنی میں متعلقہ حکومتی ادارے نوٹس بھی لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

اگر بظاہر دیکھا جائے تو میڈیا کسی معاشرے کا آئینہ ہوتا ہے۔ آئینے میں وہی نظر آئے گا جو حقیقت میں ہوگا۔ جو افراد اس آئینے کو توڑنا چاہتے ہیں وہ اس بات کو ہرگز نہ بھولیں کہ آئینہ توڑ دینے سے ان کا بھیانک چہرہ کچھ دن تک تو لوگوں کے سامنے بے نقاب ہونے سے بچ سکتا ہے لیکن اس کی یہ بدصورتی ناصرف کبھی ختم نہیں ہوگی بلکہ ایک دن ضرور آئے جب سب کے سامنے اُن کا گندہ چہرہ عیاں بھی ہوجائے گا۔

ٹی وی چینلز، اخبارات، نیوز ویب سائٹس اور ریڈیو کے نمائندے دن رات ایک کرکے عوام تک خبریں پہنچانے کے فرائض انجام دیتے ہیں۔ پاکستان کے اہم بنیادی ستونوں میں شمار ہونے کے باوجود، صحافت سے وابستہ افراد ہروقت ایک انجانے خوف میں مبتلا رہتے ہیں۔ حالانکہ سائنس کی ترقی کے بدولت اب ذرائع ابلاغ میں اتنی بہتری آچکی ہے کہ میڈیا کو بہت فعال انداز میں چلایا جا سکتا ہے لیکن اس کے باوجود بھی پاکستانی عوام کا ایک بڑا حصہ میڈیا کے کردار سے خفا نظر آتا ہے۔ شکوہ عموماً یہ کیا جاتا ہے کہ صحافی حضرات فلاں فلاں مسائل کو کسی کمی بیشی کے بغیر میڈیا پر کیوں نہیں لاتے۔

اکثر نشستوں میں جب بھی صحافت سے وابستہ افراد کے ساتھ بیٹھنے کا موقع ملا، کچھ اس طرح کی گفتگو کسی نہ کسی طرح ضرور سننے کو ملتی ہے کہ

'یار وہ فلاں جماعت والے اپنی خبر لگوانے کے لیے دبائو ڈال رہے ہیں'،

'آج فلاں ادارے والے بڑے ناراض تھے'،


'فلاں نے ڈائریکٹر کو کال کرکے کہا ہے کہ اس کی پارٹی کا ذکر فلاں کیس میں نہ آئے'،

'آج فلاں لوگ گرفتار ہوئے ہیں اور سیاسی جماعت نے چینل کو دھمکی دی ہے کہ ان کی وابستگی کسی بھی طور پر ان سے نہ جوڑی جائے'۔

یہ وہ چند جملے اور الفاظ ہیں جو اکثر صحافیوں کی زبان پر ہوتے ہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ صحافیوں کو اس طرح کی باتوں کا سامنا آئے روز کرنا پڑتا ہے۔

اگر فون کرکے دھمکیاں دینے والے اور گالی گلوچ کرنے والے ذرا سا بھی احساس رکھیں تو انہیں لازمی اپنے کیے پر ندامت ہوگی۔ اگر وہ اس بات کو سوچیں کہ یہ صحافی جس کو میں نے ہراساں کرنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی ،آخر یہ بھی کسی ادارے کا ملازم ہے۔ اس سے اوپر بھی بہت سے لوگ ہیں جو اس کی دی ہوئی خبر پر اثر انداز ہوکر اسے نمایاں کرسکتے ہیں یا اشاعت سے روک سکتے ہیں۔ ایسا کرنے والے یہ بھی سوچ سکتے ہیں کہ آج ایک خبر کے نہ لگنے پر ہم برہم ہورہے ہیں۔ لیکن یہی شخص ہمارے اور ذرائع ابلاغ کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہے۔ ہماری بہت سی خبریں صرف اسی کے توسط سے شایع بھی ہوئی ہیں۔ دل میں احساس ہو تو یہ بھی سوچا جاسکتا ہے کہ جب سب لوگ آرام کر رہے ہوتے ہیں تو یہ اپنے گھر اور بیوی بچوں سے دور، خطرات میں گھرے اور بہت ہی کم اجرت کی ملازمت کے تحت آپ کے کسی بھی ایونٹ کی کوریج کے لیے پہنچتے ہیں، خود اپنی جان پر کھیل کر یہ شورش زدہ علاقے کی صورتحال سے ہمیں آگاہ کر تے ہیں۔

گولی اور بندوق کے ذریعے اپنی بات منوانے والے آخر یہ کیوں نہیں سوچتے کہ اس طرح وہ کسی کے دل میں اپنی عزت و جگہ ہرگز نہیں بناسکیں گے۔ آج جو طاقت و اختیارات میں ہونے کے باعث اپنے ناجائز دبائو کے ذریعے کوئی ناجائز کام کروا بھی رہے ہیں تو نہ یہ طاقت زیادہ دیر تک رہتی ہے اور نہ وقت ایک جیسا رہتا ہے۔ پھر جن کو آپ طاقت کے بل بوتے پر دبائیں گے جب بھی ان کو موقع ملا وہ گزشتہ قرض سمیت اس کا حساب چکا دیں گے۔ ایسے میں بنی ہوئی ساکھ اور ملی ہوئی عزت سب ختم ہوجائے گی۔

اگر میڈیا اداروں کے مالکان اور حکومت کی جانب سے صحافیوں کے تحفظ کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں تو وہ بہت سی بدعنوانیوں اور جرائم کو منظر عام پر لاسکتے ہیں۔ صحافت کے شعبے میں دیانتدار، ایماندار اور دردِ پاکستان رکھنے والے صحافیوں کی ہرگز کمی نہیں ہے جو اپنے اس پیشے (صحافت) کو ایک مقدس پیشہ اور قوم کی امانت سمجھ کر اس کے ساتھ پورا پورا انصاف کررہے ہیں مگر بعض اوقات وہ بیچارے سچ کو سچ نہ لکھنے کے لیے مجبور ہوجاتے ہیں۔ اگر لکھتے ہیں تو پھر اس کا جو نتیجہ ہوتا ہے وہ اب کسی سے بھی پوشیدہ نہیں رہا ہے۔

اس صورتحال میں صحافیوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیموں اور حکومت کو چاہیے کہ وہ میڈیا سے وابستہ افراد کے لیے عملی اقدامات کریں کیونکہ ملک سے بدامنی، جرائم اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے آزاد صحافت کا ہونا ضروری ہے۔

[poll id="657"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس
Load Next Story