لہوکی فصیل
ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فیصلہ کن مراحل میں داخل ہوچکے ہیں
ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فیصلہ کن مراحل میں داخل ہوچکے ہیں۔یہ محض فوج کاامتحان نہیں بلکہ ہرقومی ادارے کی اصل اورعملی پرکھ ہے۔ بیانات، ملاقاتیں اورپریس کانفرنسوں کی حیثیت محض ثانوی ہے۔ کئی اعتبارسے بے معنی بھی۔اس لڑائی میں صرف فوج مکمل طورپرسنجیدہ نظرآتی ہے۔سیاسی قیادت کی باربار یقین دہانی کے باوجود، ہر باخبر انسان جانتاہے کہ صرف اورصرف دفاعی ادارے اس جنگ کو ریاست کی جنگ سمجھ کر لڑرہے ہیں۔
ہرصاحب الرائے انسان کواب نیشنل ایکشن پلان (National Action Plan) پر غور کرنا چاہیے۔ منطقی نتیجے تک پہنچنابہت آسان ہوجائیگا۔سمجھ آجائیگی کہ رکاوٹ کہاں اورکیسی ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ رکاوٹ کودور کرنے میں تاخیرکیوں کی جارہی ہے۔یہ ہماری بقاء کی جنگ ہے۔
اگرکسی کے ذہن میں کوئی مختلف گمان ہے،تواسے فوری طورپردرست کرناچاہیے۔کیاہم قوم کی حیثیت سے یہ جنگ ہارنے کے متحمل ہوسکتے ہیں؟ صاحبان!بالکل نہیں، ہرگز نہیں۔دہشت گردوں کی سوچ کوحقیقت نہ بننے کی وجہ صرف اورصرف فوج اور اس کی لڑنے کی استطاعت ہے۔باقی سب کچھ زیب داستان ہے جوہماراقومی فن ہے۔
بیس نکات پرمشتمل نیشنل ایکشن پلان کی کامیابی ہماری بقاء کی آخری ضمانت ہے۔ میں یہ الفاظ سوچ سمجھ کرلکھ رہا ہوں۔مگرحیرت انگیزبات یہ ہے،کہ اس کوسوفیصدکامیابی سے ہمکنارہونے سے روکنے کے لیے تمام کوششیںکی جارہی ہیں، بشمول چندملکی اوربیرونی طاقتیں بھی۔مضبوط اور بھرپور پاکستان کئی اہم اورنادیدہ عناصرکے مفادات کے خلاف ہے۔یہی مسئلہ کی جڑ ہے۔مجھے یقین ہے کہ ضرب عضب کامیاب ہوگی۔ مگر اس ضرب عضب کا کامیاب ہونا کئی حلقوں کے لیے ایک ڈراؤناخواب ہے۔
برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل نے کہاتھاکہ"ہم لوگ رات کوصرف اس لیے آرام سے سوتے ہیںکہ ہمارے سپاہی ان افرادپرقیامت برپاکرسکتے ہیںجو ہمیں نقصان پہنچاناچاہتے ہیں"۔ہمالیہ جیسی مسلسل غلطیاں کرنے کے بعد،ہم اب اس مرحلہ میں داخل ہوچکے ہیںکہ دہشت گردی کے ناسورکوجڑسے اکھاڑ پھینکیں۔میری دانست میںہم ایک صبرآزما اور طویل جنگ میں داخل ہیں۔مگرسوال یہ ہے،کیاہم واقعی قیامت خیزبلاکے تناسب سے وسائل مہیاکررہے ہیں۔
اس اہم سوال کاجواب نفی میں ہے۔ 1.9بلین ڈالرمیں سے ضرب عضب پر270ملین ڈالرخرچ کیے گئے ہیں۔جس میں اصل ادائیگی تقریباًنصف کے قریب ہے۔ 530ملین ڈالر دفاعی اسطاعت کوبڑھانے کے لیے خرچ کیے گئے ہیں۔اس کے علاوہ تمام رقم آئی ڈی پیز (I.D.P's) کے لیے مختص ہے۔ وسائل مہیاکرنادرحقیقت کسی قسم کامسئلہ نہیں۔مگریہ اس وقت ام المسائل بن جاتاہے جب آپ نے لیت ولعل سے کام لیناہو۔ ملک کی بقاء اورسالمیت کے لیے جنگ کے مقابلہ میں کون سی چیزاتنی اہم ہے کہ ہم اپنے پورے قومی وسائل اس فریضہ کے حوالے نہیں کرسکتے۔
نپولین جیسا زیرک جنرل کہاکرتاتھاکہ"افواج اپنے پیٹ پرچلتیں ہیں"۔مطلب یہ ہے کہ آپ کوباقی تمام کام چھوڑکرجنگ کے دوران فوج کی ضرورتوں کاحددرجہ خیال رکھناپڑتا ہے۔ خدانخواستہ اگرہم یہ جنگ ہارگئے، جسکاکوئی امکان نہیں تو سیاسی بنیادوں پرشروع کیے گئے سفیدہاتھی جیسے ترقیاتی منصوبوں سے کچھ حاصل ہوپائے گا۔لوٹ مار اور بحری قزاقی پرمبنی نظام اس وقت طاقت کے گھوڑے پرسرپٹ دوڑرہاہے۔کسی اہم رہنما کے پاس وقت ہی نہیں کہ وہ اپنے مفاداورذات سے اٹھ کرکسی قسم کاکوئی فیصلہ کرسکے۔
اس وقت ضرب عضب پرفوج کے علاوہ سب فریق بھرپورسیاست کررہے ہیں۔ہماری دشمن قوتیں اس بے ترتیبی سے خوب لطف اٹھارہی ہیں۔وہم تویہ بھی ہے کہ یہ تمام کسی خاص منصوبہ بندی کے تحت ہورہا ہے۔ مگرملکی قیادت کاذاتی مالیاتی رخ دیکھ کرکبھی کبھی یقین ساہونے لگتاہے۔
ایک اورزاویہ سے بھی گزارش کروں گا۔ تمام مدارس اور مذہبی جماعتیں،دہشت گردوں کی نرسری ہرگز نہیں ہے۔ایک ایساملک جس میں اقتصادی اورسماجی انصاف موجودنہیں ہے، اس میں مدارس ایک بے مثال خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔ ان میں صرف غریب آدمی کے بچے جاتے ہیں،اس لیے مدارس پرتنقیدکرناایک رسم یافیشن بن گیاہے۔مدارس ہمارے ملک کی سب سے بڑی اورموثراین جی اوز ہیں۔
یہ غریب بچوں کوتعلیم،تحفظ اورکھانافراہم کرتے ہیں جو دراصل ریاستی ذمے داری ہے۔ برصغیرمیں سات اورآٹھ صدیوں کی شاندارروایات اس اَمرکی تصدیق کرتی ہیں کہ انھوں نے کبھی بھی دہشت گردی میں حصہ نہیں لیا۔ 1977ء کے بعدچندمدارس کوقومی اورعالمی قوتوں نے اپنے ذاتی فائدے کے لیے استعمال کیا۔عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ تمام مدارس کوتختہ مشق بنانے سے پہلے ہزار بار غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے۔
ان کے طلباء اورطالبات زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہنے پرمجبورہوچکے ہیں۔یہ سوچنا لازم ہے کہ مدارس سے فارغ التحصیل بچوں اوربچیوں کو باعزت روزگارکیسے مہیاکیا جائے؟ اس مرحلہ پرسیاسی قیادت کارول مرکزی حیثیت اختیار کر جاتاہے۔ یہ ایک ایسافیصلہ ہے جووزیراعظم اوران کی ٹیم نے لیناہے۔اس فیصلے کے بغیر، ہمارے ملک میں معاملات بگڑنے کے واضح امکانات ہیں۔ مدارس پرہاتھ بہت سوچ سمجھ کے بعدڈالناچاہیے۔فی الحال مجھے ایک پختہ سیاسی سوچ کافقدان نظرآرہاہے۔شائداب سیاسی لوڈشیڈنگ کاوقت آن پہنچاہے!
آپ"نیشنل ایکشن پلان"کی جانب آئیے۔بیس نکات میں ہرنکتہ اپنی جگہ انتہائی اہمیت کاحامل ہے۔ویسے توخیرسے کسی نکتہ پربھی بھرپورطریقے سے کام نہیں ہورہا۔ مگر کچھ نکات کے متعلق توبات بھی نہیں ہوتی۔اس خاموش فہرست میں ملکی نظام عدل"Criminal Justice System"بھی شامل ہے۔درج ہے کہ اس پورے نظام کو تبدیل(Rewamp)کیاجائے گااوراسے بہتر (Reform)بنایاجائیگا۔یہ نکتہ ازحداہم ہے۔ کیونکہ "کریمنل جسٹس سسٹم"کوموثربنائے بغیرہم اپنی کامیابیوں کو بھی اندھیرے میں تبدیل کرسکتے ہیں۔ اس کے متعدد جزو ہیں۔ پولیس، پروسیکیوشن (Prosecution)،عدالتیں اور جیلیں، اس پورے نظام میں شامل ہیں۔
مگرمجھے کہیں بھی بہتری کے آثارنظرنہیں آرہے۔ہم پولیس اورجیلوں کی زبوں حالی کاماتم کرتے رہتے ہیں۔مگرخدارا،عدالتوں کوبھی بہتربنانے کی اَشدضرورت ہے۔عدالتی نظام پرجتناکم لکھاجائے،اتناہی بہترہے۔جسٹس(ر) جواد ایس خواجہ نے اپنے ادارے کی کوتاہیوں کابرملاذکر کیا ہے۔
کیایہ حقیقت نہیں،کہ دہشت گردوں کے مقدمات کوسننے کے لیے کئی جج تیارنہیں ہوتے۔کیایہ سچ نہیں کہ دس سے بیس سال پرانے دہشت گردی کے مقدمات حتمی انجام تک نہیں پہنچ پائے۔کیایہ جھوٹ ہے کہ جیلوں کے منتظم، دہشت گردوں سے ڈرتے اورگھبراتے ہیں۔غورکامقام ہے۔ جب تک آپ عدالتی نظام کوتبدیلی اورتغیرکے عمل سے ہمکنار نہیں کرتے،آپ ملکی سالمیت کے لیے جاری اس جنگ کومنطقی انجام تک نہیں پہنچاسکتے۔ایک روزقبل،حلف لینے والے نئے محترم چیف جسٹس کے لیے یہ مشکل کام ابھی باقی ہے۔
ایک اورنکتہ بھی توجہ طلب ہے۔وہ یہ کہ دہشت گردوں کومیڈیاپرGlorifyنہیں کیاجائیگا۔ انگریزی لفظ اس مجبوری کے تحت استعمال کررہاہوں کہ متبادل اردو زبان میں کوئی لفظ نہیں مل رہا۔ہمارے پاس ایسے دانشوروں کی کمی نہیںجوبالواسطہ یابلاواسطہ،دہشت گردوں کومذہبی عقیدت کی چادرپہنانے میں مہارت رکھتے ہیں۔کمال یہ ہے کہ انھوں نے ملک کے دہشت گردوں کواسلام جیسے عظیم اور انقلابی مذہب کے زاویہ سے پیش کرناشروع کررکھاہے۔آپ کسی بھی فرقہ کے جیدعلماء سے بات کیجیے۔اکثریت آپکو دہشت گردی سے کوسوں دورنظرآئیگی۔
ہمارے مذہب میں"دہشت گردی"کی قطعاًکوئی گنجائش نہیں۔مظلوم اورمعصوم شہریوں کوشہیدکرنے کی کوئی اجازت نہیں۔آپ پاکستانی دہشت گردوں کے ذکرسے ہٹ کرغور کیجیے۔ "داعش" جیسی ظالم تنظیم کی بھی دبے دبے الفاظ میں تعریف کرنے والوں کی کمی نہیں۔میرامشورہ یہ ہے کہ نیپ میں درج اس نکتہ پربھی توجہ کرنے کی اتنی ضرورت ہے، جتنی دوسری اہم نکات پر۔
دہشت گردوں کواقتصادی کمک پہنچاننے والوں پربھی توجہ کیجیے۔اس میں کئی ایسے شرفاء شامل ہیں جوآج بھی اس نیک کام کے ذریعے جنت کمانے پر مصر ہیں۔ طالب علم کی دانست میں اس نکتہ کے دائرہ کارکوبہت وسیع کرناچاہیے۔اس میںجوبھی سفید پوش یابرقع پوش افرادشامل ہوں،انکوبھی قانون کے شکنجے میں لانااز حد ضروری ہے۔اس میں ہمارے چندسیاسی مہرے اور چندتاجرحضرات بھی شامل نظرآتے ہیں۔ حوروں اور جنت کمانے کے شوق میں،وہ ہمارے ملک کو جہنم بنانے کی مذموم سازش میں شامل ہیں۔
میں نیشنل ایکشن پلان(N.A.P)کوفقط ایک منصوبہ نہیں سمجھتا۔یہ محض ایک کاغذکاٹکڑانھیں ہے۔ اس کا ہر لفظ ہمارے دفاعی ادارے اپنے خون سے لکھ رہے ہیں۔یہ دراصل ہماری قومی سالمیت اورآزادی کی جنگ ہے۔میں اس کے ایک ایک لفظ کومقدس گردانتاہوں۔اَن دیکھے ہاتھ اور سیاسی مصلحتیں،ہمارے شہیدوں کے لہوسے بنی ہوئی فصیل کو عبورنہیں کرسکتے۔مجھے کسی قسم کاکوئی شک یا تشویش نہیں۔ ہم ہرقیمت پرکامیاب ہونگے۔میں مطمئن ہوں۔پرمیں مطمئن نہیں ہوں!