وہ دن جب قائداعظم کے نظریات کو بھی دفنا دیا گیا

مارچ 1949 میں پہلی قانون ساز اسمبلی نے قرار دادِ مقاصد منظور کی جو قائد اعظم کی 11 اگست 1947 کی تقریر کے منافی تھی۔

12 ستمبر کو قائد اعظم کے سیاسی افکار، مساوات پر مبنی سوچ، تاریخی حقائق اور آزاد پاکستانی ریاست کے تخیل کو بھی ان کے جسدِ خاکی کے ہمراہ کفن میں لپیٹ کر منوں مٹی تلے دبا دیا گیا۔

قائد اعظم کا انتقال 11 ستمبر 1948 کو رات 10 بج کر 20 منٹ پر گورنر جنرل ہاؤس کراچی میں ہوا۔ بابائے قوم کی تدفین اگلے دن 12 ستمبر 1948 کو کراچی ہی میں کی گئی۔ 12 ستمبر کا دن اس لئے بھی اہم ہے کہ تدفین کے عمل میں قائد اعظم کی شخصیت، سیاسی افکار، مساوات پر مبنی سوچ، تاریخی حقائق اور آزاد پاکستانی ریاست کے تخیل کو بھی ان کے جسدِ خاکی کے ہمراہ کفن میں لپیٹ کر منوں مٹی تلے دبا دیا گیا۔ پیچھے بچے وہ قائد اعظم جو شیروانی زیبِ تن کئے اور جناح کیپ سر پر رکھے آج سرکاری دفاتر کی دیواروں پر تصویر کی صورت میں ٹنگے ہم پر مسکراتے نظر آتے ہیں۔

یہ مسکراہٹ کس قدر معنی خیز معلوم ہوسکتی ہے اس کا جواب وہ افراد ضرور دے سکتے ہیں جو تاریخ کا مطالعہ اور سمجھ بوجھ رکھتے ہیں، جو اتنا علم نہ بھی رکھتے ہوں لیکن کم از کم پاکستان کے موجودہ حالات ان کے لئے باعثِ تشویش ہوں اور پاکستان سے محبت کا جذبہ بھی دل کے کسی کونے میں موجود ہو تو ان کو بھی قائد اعظم کی یہ مسکراتی تصویر کسی حد تک شرمندگی کا احساس ضرور دلاتی ہوگی۔ لیکن بات ہے احساس کی! قائداعظم کے پاکستان کی جہت 12 ستمبر کے بعد جس تیزی اور انداز سے تبدیل کی گئی وہ بھی قابلِ دید ہے۔ قائد اعظم کی تدفین کے محض چار ماہ بعد مارچ 1949 میں پہلی قانون ساز اسمبلی نے قرار دادِ مقاصد منظور کی جو قائد اعظم کی 11 اگست 1947 کی تقریر کے منافی تھی۔ وہ تقریر جو پاکستان کے پہلے گورنر جنرل نے اسی قانون ساز اسمبلی سے مخاطب ہوکر کی تھی اور پہلی قانون ساز اسمبلی کے لئے پالیسی بیانیے کا درجہ رکھتی تھی۔ پالیسی بیانیہ تو دور کی بات اس تقریر کو قائداعظم کی زندگی ہی میں ہر قسم کے سرکاری و غیر سرکاری ریکارڈ سے حذف کرنے کی کافی حد تک کامیاب کوشش کی گئی تھی۔

قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ قائداعظم کے سیاسی ہیرو دادا بھائی نوروجی تھے جو پارسی تھے۔ قائد اعظم کے پاکستان میں ریاست کے پہلے وزیر قانون جوگندر ناتھ منڈل تھے۔ایک غیر مسلم کو وزارتِ قانون کا اہم ترین قلمدان سونپنا بذاتِ خود اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ قائد اعظم کے نزدیک ریاست کے لئے تمام شہری مساوی حیثیت رکھتے ہیں اور مذہب کا ریاستی امور اور قانون سازی کے عمل میں کسی قسم کا دخل نہیں ہوسکتا۔ قراردادِ مقاصد نے قائد اعظم کے ریاست کے تصور کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں۔ ریاست کے لئے مذہب کی بنیاد پر شہریوں کے مابین تفریق کی داغ بیل ڈالی گئی۔ جن بنیادوں پر قائد اعظم نے علیحدہ ریاست کا مقدمہ اقلیتوں کے لئے جیتا تھا وہی حالات قائد اعظم کی وفات کے بعد مقتدرِ اعلی نے قراردادِ مقاصد اور دیگر اقدامات کے ذریعے سے پاکستان میں غیر مسلم اقلیتوں کے لئے پیدا کردیے۔

قائداعظم کا حلقہ انتخاب بمبئی تھا جو بھارت کا حصہ بنا۔ قیامِ پاکستان کے بعد پاکستانی علاقوں کے اپنے سیاستدان، جاگیرداراور مذہبی شخصیات جنہوں نے قیامِ پاکستان میں کلیدی کردار ادا کیا تھا اب اپنے مفادات کے حصول کے لئے کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار تھے۔ قائداعظم کے نواب آف ممدوٹ، خان آف قلات، میاں ممتاز دولتانہ اور دیگر علاقائی و صوبائی قائدین سے اختلافات یا ناراضگی یہ اشارہ کرتی ہے کہ ان قائدین کے لئے علاقائی، صوبائی و ذاتی مفادات پاکستانیت پر حاوی تھے۔ قائداعظم ان افراد کے کام کی رفتار، احکامات پر عمل درآمدگی اور طریقہ کار سے بھی ناخوش تھے۔

11 ستمبر 1948 بھی ہمارا کارنامہ ہے جب گورنر جنرل پاکستان کو خراب ایمبولینس فراہم کی گئی جو بیچ سڑک پر جا رکی تھی۔ اس خراب ایمبولینس میں قائداعظم اس بُری حالت میں پڑے تھے کہ اپنے چہرے پر بیٹھنے والی مکھیاں بھی نہیں اڑا پاتے تھے۔ بلاشبہ قائداعظم کی تدفین کا سلسلہ ان کی زندگی ہی میں شروع کیا جا چکا تھا اور یہ سب بھارت میں نہیں بلکہ قائداعظم کی اپنی تخلیق پاکستان میں کیا گیا۔ بس تدفین کی تکمیل 12 ستمبر 1948 کو ہوئی!


آج کا پاکستان کسی زاویے سے بھی قائد اعظم کا پاکستان نہیں۔ آج کا پاکستان دفن شدہ قائداعظم کا پاکستان ہے جن کو ہم نے مخصوص و محدود نظریہ کے حصول کی خاطر اتنا ہی زندہ رکھا ہوا ہے جتنا کہ اس نظریے کے لئے ان کی ضرورت ہے۔ یوں بھی پاکستانی قوم نظریات کے خود ساختہ مقبرے بنانے اور ان پر دن رات دیے روشن کرکے زندہ و جاوید رکھنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔

اگر واقعتاً قائداعظم کے پاکستان کی تعمیر کرنی ہے تو قائد اعظم کو سرکاری دفاتر میں لٹکی ایک تصویر سے نکال کرپاکستانی عوام کے اذہان میں حقیقی معنوں میں زندہ کرنے کی ضرورت ہے! پاکستانی عوام کو حق حاصل ہو کہ قائد اعظم کی زندگی کے ہر پہلو پر کھل کر بحث کرسکیں۔ قائد اعظم کے سیاسی و مذہبی افکار پر بات ہو، ذاتی زندگی کو سمجھا جائے، قیام پاکستان کے بعد سے وفات تک کے واقعات پر بات ہو۔ ہمیں قائداعظم کو قومی سطح پر سچائی سے سمجھنے کی ضرورت ہے وگرنہ قائد اعظم یوں ہی دیوار پر تصویر کی مانند لٹکے مسکراتے رہیں گے کہ کسی دن تو قوم اس مسکراہٹ کا مطلب سمجھ پائے گی۔

[poll id="658"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس
Load Next Story