ساہیوال میں اردو نثر کی روایت
ساہیوال ایک ادبی دبستان کی حیثت رکھتا ہے۔ اس دبستان کی نثری روایات تلاش کرنا ایک دقت طلب کام تھا۔
کیا مرتبین کو محقیقین کا درجہ دیا جاسکتا ہے؟ یہ سوال اچانک اس وقت میرے دماغ میں در کر آیا جب اللہ یار ثاقب کے ایم فل کے مقالے پر مبنی کتاب ساہیوال میں اردو نثر کی روایت زیرِ مطالعہ آئی۔
مرتبین، چاہے وہ شعری کتب کے ہوں یا نثر کے، کسی کے مضامین، شاعری، افسانوں کو ترتیب دے کر ایک مضمون ابتدائیہ کے طور پر لکھ کر کتاب کرلیتے ہیں وہ اپنے نام کتاب پر بطور مرتب درج کریں، یہاں تک تو ٹھیک ہے لیکن اگر وہ اپنے آپ کو محقق کہلانا شروع کر دیں اور حقیقی محقیقین کی صف میں آن کھڑے ہوں تو کیا یہ درست رویہ ہے؟
ساہیوال ایک ادبی دبستان کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس دبستان کی نثری روایات تلاش کرنا ایک دقت طلب کام تھا جسے اللہ یار ثاقب نے اس دور میں مکمل کیا ہے جب ساہیوال کے جید ادباء اس دنیا سے رخصت ہوگئے اور ساہیوال میں ڈیڑھ اینٹ کی چند مسجدیں باقی رہ گئیں۔ ایسی صورتِ حال میں اللہ یار ثاقب نے انصاف کرنے کی کوشش کی ہے جس میں وہ بڑی حد تک کامیاب نظر آتے ہیں۔ کہیں کہیں دانستہ یا نا دانستہ کچھ کمیاں بھی نظر آتی ہیں مثلاََ جمیلہ ہاشمی ساہیوال کے حوالے سے ایک اہم نام ہیں، اُن کے ناول دشتِ سوس کا بھرپور جائزہ لیا جانا چاہیئے تھا۔
اردو نثر میں افسانہ اور ناول کے اعتبار سے خالد طور کا نام اہمیت کا حامل ہے۔ ان کا ایک ناول کانی نکاح، نیشنل بک فاونڈیشن کے تعاون سے 1992 میں شائع ہوا، ان کا دوسرا ناول، بالوں کا گچھا، کراچی سے اجمل کمال نے پہلے اپنے سہ ماہی جریدے آج میں شائع کیا بعد میں اسے کتابی شکل بھی دی، خود راقم کی تین نثری کتب، مبادیاتِ تشہیر، حرمین کی گلیوں میں (سفرنامہ) اور حال ہی میں تنقیدی مضامین پر مبنی کتاب، کتابیں بولتی ہیں شائع ہوچکی ہیں، لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ سارے نام مصنف کے نزدیک ساہیوال میں اردو نثر کی روایت کے امین نہیں ہیں یا بتانے والوں نے انہیں ان کا حوالہ ہی نہ دیا ہو۔ کتاب میں جو کچھ درج ہے وہ ایم فل کے مقالے کی حد تک تو ضروریات پوری کرتا ہے لیکن مقالے کو کتابی شکل دینے سے پہلے اللہ یار ثاقب کو اپنی تحقیق کو پھیلانے کی ضرورت تھی۔ ساہیوال کے تاریخی پس منظرِ کے ساتھ ساتھ ادبی تناظر میں بھی ساہیوال کو دیکھنے کی کوشش کی ہے اللہ یار ثاقب نے، وہ لکھتے ہیں کہ
نثری اصنافِ سخن میں ناول، افسانہ، سفر نامہ، سوانح حیات اور مرتبہ کتب کے علاوہ متفرقات کے زمرے میں ہونے والے کام کا احاطہ کیا گیا ہے۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ کام زیادہ تر سن 2005 سے ''کتان'' کی اشاعت تک کے عرصے میں اشاعت پذیر ہوا۔ جبکہ ناز کفیل گیلانی کے ناولوں کی اشاعت کا سلسلہ سن 1972 میں شروع ہوا، اس کے بعد حکیم محمود رضوی کی کتاب ''اقبال اور عقلیت پسندی'' ہے، جو سن 1978 میں منظرِعام پر آئی۔ نثر میں ساہیوال کی تیسری مطبوعہ کتاب راقم کی ''مبادیاتِ تشہیر'' تھی جو سن 1984 میں شائع ہوئی۔ ڈاکٹر الف دال نسیم کا ذکر تو اللہ یار ثاقب نے تفصیل سے کیا ہے لیکن اللہ یار ثاقب نے ڈاکٹر سعادت سعید کا تذکرہ سرسری انداز میں کیا ہے جب کہ ان کا کام تفصیلی ذکر کا متقاضی تھا۔ اس کے علاوہ نثری ادب میں ڈاکٹر الف دال نسیم کے دوسرے صاحبزادے طاہر نسیم کا ذکر موجود نہیں ہے جن کی کتاب ''سرسید کی صحافت'' لگ بھگ اس وقتِ شائع ہوئی مبادیات تشہیر شائع ہوئی۔
کتاب میں یہ کمیاں اپنی جگہ، لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اللہ یار ثاقب نے دستیاب وسائل و معلومات کی بنا پر ساہیوال میں نثر کی روایت کا بڑی حد تک کھوج لگایا ہے اور اسے بڑی محنت و محبت کے ساتھ پیش کیا ہے۔
یہ کتاب 240 صفحات پر مشتمل ہے جسے محمد اختر خاں نے انور سنز پبلشرز پاشا اسٹریٹ ساہیوال سے خوبصورت سرورق میں شائع کیا ہے۔ کتاب کی قیمت 450 روپے ہے۔ ادب کی تاریخ کے ساتھ ساتھ ساہیوال کی ادبی روایت کے حوالے سے پورے ادب کی نثری تاریخ میں اسے بڑی اہمیت حاصل ہوگی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس
مرتبین، چاہے وہ شعری کتب کے ہوں یا نثر کے، کسی کے مضامین، شاعری، افسانوں کو ترتیب دے کر ایک مضمون ابتدائیہ کے طور پر لکھ کر کتاب کرلیتے ہیں وہ اپنے نام کتاب پر بطور مرتب درج کریں، یہاں تک تو ٹھیک ہے لیکن اگر وہ اپنے آپ کو محقق کہلانا شروع کر دیں اور حقیقی محقیقین کی صف میں آن کھڑے ہوں تو کیا یہ درست رویہ ہے؟
ساہیوال ایک ادبی دبستان کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس دبستان کی نثری روایات تلاش کرنا ایک دقت طلب کام تھا جسے اللہ یار ثاقب نے اس دور میں مکمل کیا ہے جب ساہیوال کے جید ادباء اس دنیا سے رخصت ہوگئے اور ساہیوال میں ڈیڑھ اینٹ کی چند مسجدیں باقی رہ گئیں۔ ایسی صورتِ حال میں اللہ یار ثاقب نے انصاف کرنے کی کوشش کی ہے جس میں وہ بڑی حد تک کامیاب نظر آتے ہیں۔ کہیں کہیں دانستہ یا نا دانستہ کچھ کمیاں بھی نظر آتی ہیں مثلاََ جمیلہ ہاشمی ساہیوال کے حوالے سے ایک اہم نام ہیں، اُن کے ناول دشتِ سوس کا بھرپور جائزہ لیا جانا چاہیئے تھا۔
اردو نثر میں افسانہ اور ناول کے اعتبار سے خالد طور کا نام اہمیت کا حامل ہے۔ ان کا ایک ناول کانی نکاح، نیشنل بک فاونڈیشن کے تعاون سے 1992 میں شائع ہوا، ان کا دوسرا ناول، بالوں کا گچھا، کراچی سے اجمل کمال نے پہلے اپنے سہ ماہی جریدے آج میں شائع کیا بعد میں اسے کتابی شکل بھی دی، خود راقم کی تین نثری کتب، مبادیاتِ تشہیر، حرمین کی گلیوں میں (سفرنامہ) اور حال ہی میں تنقیدی مضامین پر مبنی کتاب، کتابیں بولتی ہیں شائع ہوچکی ہیں، لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ سارے نام مصنف کے نزدیک ساہیوال میں اردو نثر کی روایت کے امین نہیں ہیں یا بتانے والوں نے انہیں ان کا حوالہ ہی نہ دیا ہو۔ کتاب میں جو کچھ درج ہے وہ ایم فل کے مقالے کی حد تک تو ضروریات پوری کرتا ہے لیکن مقالے کو کتابی شکل دینے سے پہلے اللہ یار ثاقب کو اپنی تحقیق کو پھیلانے کی ضرورت تھی۔ ساہیوال کے تاریخی پس منظرِ کے ساتھ ساتھ ادبی تناظر میں بھی ساہیوال کو دیکھنے کی کوشش کی ہے اللہ یار ثاقب نے، وہ لکھتے ہیں کہ
''اس خطے کو اگر علمی و ادبی نقطہ نظر سے دیکھا جائے اور کھنڈرات سے دریافت ہونے والی مہروں، نقوش، کتبوں کے علاوہ مختلف اشکال کی بناوٹ کو دیکھا جائے تو یہ بات کہنے میں کوئی عار نہیں کہ دنیا کی پہلی تحریر، دنیائے عالم کا پہلا رسم الخط ہڑپہ سے تعلق رکھتا ہے جو ساہیوال کی دھرتی کے لئے فخر کی بات ہے''۔
نثری اصنافِ سخن میں ناول، افسانہ، سفر نامہ، سوانح حیات اور مرتبہ کتب کے علاوہ متفرقات کے زمرے میں ہونے والے کام کا احاطہ کیا گیا ہے۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ کام زیادہ تر سن 2005 سے ''کتان'' کی اشاعت تک کے عرصے میں اشاعت پذیر ہوا۔ جبکہ ناز کفیل گیلانی کے ناولوں کی اشاعت کا سلسلہ سن 1972 میں شروع ہوا، اس کے بعد حکیم محمود رضوی کی کتاب ''اقبال اور عقلیت پسندی'' ہے، جو سن 1978 میں منظرِعام پر آئی۔ نثر میں ساہیوال کی تیسری مطبوعہ کتاب راقم کی ''مبادیاتِ تشہیر'' تھی جو سن 1984 میں شائع ہوئی۔ ڈاکٹر الف دال نسیم کا ذکر تو اللہ یار ثاقب نے تفصیل سے کیا ہے لیکن اللہ یار ثاقب نے ڈاکٹر سعادت سعید کا تذکرہ سرسری انداز میں کیا ہے جب کہ ان کا کام تفصیلی ذکر کا متقاضی تھا۔ اس کے علاوہ نثری ادب میں ڈاکٹر الف دال نسیم کے دوسرے صاحبزادے طاہر نسیم کا ذکر موجود نہیں ہے جن کی کتاب ''سرسید کی صحافت'' لگ بھگ اس وقتِ شائع ہوئی مبادیات تشہیر شائع ہوئی۔
کتاب میں یہ کمیاں اپنی جگہ، لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اللہ یار ثاقب نے دستیاب وسائل و معلومات کی بنا پر ساہیوال میں نثر کی روایت کا بڑی حد تک کھوج لگایا ہے اور اسے بڑی محنت و محبت کے ساتھ پیش کیا ہے۔
یہ کتاب 240 صفحات پر مشتمل ہے جسے محمد اختر خاں نے انور سنز پبلشرز پاشا اسٹریٹ ساہیوال سے خوبصورت سرورق میں شائع کیا ہے۔ کتاب کی قیمت 450 روپے ہے۔ ادب کی تاریخ کے ساتھ ساتھ ساہیوال کی ادبی روایت کے حوالے سے پورے ادب کی نثری تاریخ میں اسے بڑی اہمیت حاصل ہوگی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس