آگ لگی پھلواری میں یوں جل گئے سارے پھول

قیامت سے حادثے میں اپنے سارے بچے گنوادینے والے بدنصیب ماں باپ کی دل چیرتی بپتا

قیامت سے حادثے میں اپنے سارے بچے گنوادینے والے بدنصیب ماں باپ کی دل چیرتی بپتا ۔ فوٹو : فائل

یہ کہانی ایسے باپ کی ہے، ایک ایسی ممتا کی ہے، جن سے ایک حادثے نے دنیا کی سب بڑی متاع چھین لی، ان سے ان کے لخت جگر چھین لیے۔ ایک ایسا خوف ناک حادثہ جس میں ان ماں باپ کی پھلواری کے سارے پھول مسلے گئے۔

ان کے چاروں بچے اس حادثے کی نذر ہوگئے اور وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب ان کے کھیلنے کودنے اور شرارتیں کرنے کے دن تھے۔ آج تین سال بعد بھی وہ ان کی یادوں کو سینے سے لگائے ہیں۔ جب وہ کسی سے ان معصوموں کا ذکر چھیڑتے ہیں تو بے اختیار ان کے ساتھ دوسروں کی آنکھوں سے بھی آنسوؤں کی لڑیاں لگ جاتی ہیں اور ان کی دکھ بھری کہانی سننے والا سوچنے لگتا ہے کہ ان غم کے مارے والدین کے شب وروزکس طرح بیتتے ہوں گے، وہ کس کے سہارے جیئیں گے۔

21 اگست 2012ء اور منگل کا دن تھا، جب ان بدقسمت والدین کے ساتھ ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے ان اس جوڑے کو غم اور تنہائی کے صحرا میں دھکیل دیا۔ ایک ایسا دکھ جسے لاکھ بار بھی بھلانے کی کوشش کی جائے نہیں بھولتا اور جب غم چار معصوم پھول جیسے خوب صورت بچوں کی ایک ساتھ جدائی کا ہو تو پھر اس درد کا احساس صرف اور صرف ان والدین ہی کو ہوسکتا ہے، جن پر یہ قیامت گزر گئی ہو۔

پشاور کے نواحی علاقے متنی کے رہائشی اور اسلام آباد میں ایک وفاقی سرکاری ادارے میں ملازم حاجی طارق شاہ جب اپنی اہلیہ اور چار بچوں، جن میں تین بیٹیاں حسینہ شاہ، شمائلہ شاہ اور عائشہ شاہ اور اکلوتا بیٹا مشال شاہ عرف کاشی شامل تھے، کے ساتھ اٹک کے پاس واقع کنڈپارک سے پشاور کے لیے روانہ ہوئے۔

انہوں نے اس دن بہت انجوائے کیا، راستے میں مزے مزے کی باتیں ہوتی رہیں۔ جب پبی سے آگے بڑھے تو شمائلہ شاہ نے فرمائش کرڈالی کہ ''ابو! تاروجبہ کے کباب کھلائیں'' جس پر اس کی والدہ نے کہا کہ پہلے ہی بہت دیر ہوچکی ہے، ہمیں اب گھر پہنچنا ہے، لیکن تمام بچے بہ یک زبان ہوکر بولے کہ ہمیں کباب کھانا ہیں۔ چناں چہ ان کے والد ان کی فرمائش پوری کرتے ہوئے انھیں کباب کھلانے لے گئے۔ انھیں کیا خبر تھی کہ بچوں کی یہ خواہش ان کی آخری فرمائش ثابت ہوگی۔

کباب کھانے کے بعد یہ قافلہ روانہ ہوا۔ کچھ آگے تک جانے کے بعد طارق شاہ نے ایک پیٹرول پمپ پر گاڑی روک لی۔ اس دوران وہ لوگ آپس میں ادھر اُدھر کی باتیں کرنے لگے۔ مشال شاہ نے کہا،''ابو جان! کہیں ایسا نہ ہوکہ آج ہمارا ایکسیڈنٹ ہوجائے اور میں مرجاؤں'' جس پر اس کی والدہ نے ڈانٹتے ہوئے کہا کہ بیٹا ایسی باتیں نہیں کرتے۔ شمائلہ شاہ کہنے لگی کہ آج ہماری ساری خواہشیں پوری کردیں، کیوں کہ زندگی کا کیا بھروسا۔ شاید ان معصوم بچوں نے موت کی آہٹ سُن لی تھی، جب ہی وہ اس طرح کی باتیں کر رہے تھے۔

یوں ہنستے بولتے یہ خاندان اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگیا۔ منزلیں طے کرتے ہوئے ان کی کار تھانہ چمکنی کی حدود میں جی ٹی روڈ پر واقع چغل پورہ پہنچ گئی۔ یہیں ان پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ ایک زور دار آواز آئی، جس کے ساتھ ہی حاجی طارق شاہ نیم اور ان کی اہلیہ پر نیم بے ہوشی طاری ہوگئی۔ ان کی گاڑی سڑک پر کھڑی تعمیراتی کام میں استعمال ہونے والی مسکچرمشین سے جاٹکرائی تھی۔ نیم بے ہوشی کی حالت میں ان دونوں میاں بیوی نے چیخنے چلانے کی آوازیں سنیں۔ یک دم ان کے سامنے ایک شخص آیا، جس نے طارق شاہ کی جیب سے موبائل نکالا اور گاڑی کی تلاشی لینا شروع کردی۔

وہ ان لہولہان افراد کی مدد کرنے کے بجائے ان کی بے بسی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کا سامان چُرا رہا تھا۔ یہ منظر دیکھنے کے بعد حاجی طارق شاہ تو بے ہوش ہوگئے اور کومے میں چلے گئے، لیکن ان کی شریک حیات ابھی ہوش میں تھیں۔ وہ روتی چلاتی رہیں کہ ہماری مددکرو، کوئی ہے جو میرے بچوں کو گاڑی سے نکالے، ایک طرف انسان دم توڑ رہے تھے اور دوسری طرف انسانی روپ میں ایک شیطان اپنا کھیل کھیل رہا تھا۔

اگر اس شیطان صفت انسان نے ان کی بروقت مدد کی ہوتی تو شاید آج حاجی طارق شاہ اور ان کی شریک حیات کے بچے ان کے آنگن میں کھلکھلا رہے ہوتے ۔ اس دوران وہ بے یارومددگار آدھا گھنٹے تک گاڑی میں پھنسے رہے، تڑپتے اور سسکتے رہے۔ آدھا گھنٹے بعد اس راستے سے گزرنے والوں نے گاڑیاں روکیں اور ان کو گاڑی سے نکال کر لیڈی ریڈنگ ہاسپٹل، پشاور پہنچایا گیا، جہاں ان بدقسمت ماں باپ کے چاروں بچوں کی روحیں ایک ایک کرکے ان کے پھول سے جسموں سے پرواز کرگئیں۔

اس دوران یہ خبر بریکنگ نیوز کے طور پر تمام میڈیا پر چلی، عزیزواقارب اسپتال پہنچے، ان کی زندگی کی دعائیں مانگی جانے لگیں، گھروں پر خواتین ختم قرآن شریف کرنے لگیں، لیکن ان معصوموں نے تو جانے کا پکا ارادہ کرلیا تھا۔ وہ کسی کے کہنے اور منت سماجت پر نہیں رکے اور اپنی منزل کی جانب رواں ہوگئے۔ اس دوران طارق شاہ تقریباً ایک ہفتہ کومے میں رہے اور انہیں یہ علم ہی نہیں ہوسکا کہ ان کا آنگن اجڑگیا تھا۔ایک ہی گھر سے چار معصوم کلیوں کے جنازے اٹھنے پر پورا علاقہ سوگوار اور ہر آنکھ اشک بار تھی۔ جنازے میں کثیر تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔

ہوش آنے پر طارق شاہ نے اصرار کیا کہ انھیں بچوں سے ملایا جائے۔ وہ بچوں کو ایک نظر دیکھنے کے لیے روتے تڑپتے رہے۔ کسی میں یہ ہمت نہیں تھی کہ وہ زخمی باپ کو اس سانحے سے آگاہ کرے۔


آخر طارق شاہ کے والد اور چند بزرگ ایک عالم دین کولے کر آئے، جنھوں نے ان کو بتایا کہ اﷲ تعالی نے آپ کو اولاد کی نعمت سے نوازا تھا اور اسی نے آپ کے بچوں کواپنے پاس بلالیا ہے۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ طارق شاہ کے منہ سے بے اختیار چیخ نکل گئی اور وہ پھر بے ہوش ہوگئے۔ ہوش میں آنے کے بعد طارق شاہ دل ودماغ اس سچ کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں تھے۔ دوسری طرف طارق شاہ کی اہلیہ نے یہ قیامت خیز لمحات اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے، اسی لیے وہ آج تک اپنے حواس میں نہیں۔ ہر لمحہ بچوں کا ذکر اور بین کرتی رہتی ہیں۔

اپنے اوپر گزرنے والی قیامت کا ذکر آنسوؤں کے ساتھ کرتے ہوئے طارق شاہ نے کہا کہ اﷲ تعالٰی ہر ماں بہ کو ایسے غم سے بچائے جو ہم پر گزرا ہے۔ اس درد کو الفاظ کے پیرائے میں بیان کرنا ممکن نہیں۔

انھوں نے کہا کہ ہم آج بھی اپنے بچوں کا نام لے کر جی رہے ہیں۔ ہم ہر سال اپنے بچوں کی سال گرہ مناتے ہیں۔ برسی پر بھی مختلف اخبارات اور رسائل میں خبریں شائع کرواتے ہیں، جنھیں فیس بک پر بھی شیئر کرتے ہیں۔ ہم اپنی سب سے چھوٹی بیٹی خوب صورت اور نازک پری عائشہ شاہ کی سال گرہ 15 مئی 2015ء کو مناچکے ہیں۔ اس کی یاد میں شمعیں روشن کی گئیں اور دو منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔ قرآن خوانی اور صدقہ خیرات کیا گیا۔ ہم اپنے بچوں کی برسی مناتے ہوئے سانحہ پشاور آرمی پبلک اسکول کے بچوں کو دعا میں یاد رکھتے ہیں۔ اس سانحے نے ہمارے زخم ہرے کردیے ہیں۔ حسینہ شاہ، شمائلہ شاہ، مشال شاہ عرف کاشی اور عائشہ شاہ کی تیسری برسی 22 اگست 2015ء کو منائی گئی۔

طارق شاہ اور ان کی اہلیہ اپنے بچوں کی یاد سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ آپ کے اپنے جب بچھڑ جاتے ہیں تو آپ سالہا سال یہ حقیقت بھی تسلیم نہیں کر پاتے کہ آپ کے پیارے آپ کے پاس نہیں، یہی کچھ طارق شاہ اور ان کی اہلیہ کے ساتھ بھی ہوا ہے۔ طارق شاہ کی سب سے چھوٹی بیٹی عائشہ شاہ کی پچھلی سال گرہ 15 مئی 2014ء کو سعودی عرب میں مدینہ منورہ میں منائی گئی تھی، کیوں کہ ان دنوں دونوں عمرے کی سعادت حاصل کرنے گئے تھے۔

اب حاجی طارق شاہ اور ان کی شریک حیات کی سب سے بڑی خواہش یہی رہ گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ جنت میں انہیں اپنے بچوں سے ملا دیں۔ حاجی طارق شاہ نے اپنے چاروں بچوں کی قبروں کے قریب ہی اپنی قبر کے لیے جگہ مختص کر رکھی ہے، اس بدنصیب باپ کے لبوں پر ہمیشہ ایک ہی دعا رہتی ہے کہ اللہ کسی کو اولاد کا دکھ نہ دکھائے۔



قریب آؤ دریچوں سے جھانکتی کرنوں کہ ہم توپا بہ رسن ہیں ابھرنہیں سکتے
بقول حاجی طارق شاہ پہلے جب ہم دونوں میاں بیوی میں لڑائی ہوا کرتی تھی تو ہماری بیٹی حسینہ شاہ فوراً صلح کرا دیتی تھی۔ اب تو حسینہ شاہ بھی نہیں کہ ہماری صلح کروائے۔ وہ صلح کرانے والی ہم سے ہمیشہ کے لیے روٹھ کے چلی گئی ہے۔ اگر ان چاروں میں سے کوئی ا یک بھی زندہ ہوتا تو شاید ہماری زندگی ایسی نہ ہوتی۔

''ان کی قبریں شیمپو سے دھوتا ہوں''
آنکھوں سے آنسوؤں کی جاری لڑی کے ساتھ حاجی طارق شاہ نے بتایا کہ میں اپنے بچوں کو کیسے بھول سکتا ہوں۔ حسینہ شاہ سے چھوٹی عائشہ شاہ تک میں خود اپنے ہاتھوں سے بچوں کے سروں پر شیمپو لگا کر ان کے بال دھویا کرتا تھا۔ ان کی پسند کی خریداری کروایا کرتا تھا۔ پارلر میں ان کے بالوں کی سیٹنگ کرواتا تھا۔ ہاتھ پکڑ کر اسکول لے جایا کرتا اور واپس لے کر آتا۔ اب میں ان کی قبروں کو شیمپو سے دھوتا ہوں اور جب تک زندہ ہوں یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ میرے پاس الفاظ نہیں کہ میں ان کے پیار میں کچھ لکھوں، اس لیے میری کوشش ہوتی ہے کہ مختلف اخبارات اور بین الاقوامی جرائد میں مضامین شائع کرواکر اپنے دل کو تھوڑی بہت تسلی دے سکوں۔ فیس بک پر بھی ان کی یادیں اور تصاویر شیئر کرتا ہوں۔ یہ سب کچھ میں صرف اور صرف اپنے بچوں کے پیار میں کرتا ہوں، اس کا اور کوئی مقصد نہیں۔

22 اگست 2015ء بروز ہفتہ حسینہ شاہ، شمائلہ شاہ، مشال شاہ عرف کاشی اور عائشہ شاہ کی تیسری برسی منائی گئی۔ دن کا آغاز قرآن خوانی سے ہوا جس کے بعد طارق شاہ نے اپنے جگر گوشوں کی قبروں پر حاضری دی، صدقہ اور خیرات بھی کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ میری اب بس ایک ہی خواہش ہے کہ یہ دعا میں نے مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ دونوں جگہوں پر مانگی تھی کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنے بچوں سے جنت میں ہمیشہ کے لیے ملوا دیں، بچوں کی امی سمیت۔

وصیت
حاجی طارق شاہ نے اپنے رشتے داروں اور احباب کے نام یہ وصیت کر رکھی ہے:
''میں حاجی طارق شاہ اپنی فیملی، رشتہ داروں اور احباب کے نام وصیت کرتا ہوں کہ میرے مرنے کے بعد مجھے اپنے بچوں کے ساتھ ہی دفنایا جائے، خاص کر چھوٹی عائشہ شاہ کے ساتھ اپنی قبر کی جگہ چھوڑ رکھی ہے، میرے مرنے کے بعد میری یہ خواہش ضرور پوری کی جائے۔''
Load Next Story