بنگلہ دیش میں سیکولر بلاگرز کیوں قتل ہورہے ہیں

ہلاکتوں کا سبب توہین مذہب ہے یا کچھ اور؟ وزیراعظم حسینہ واجد خاموش تماشائی کیوں؟


عبید اللہ عابد September 13, 2015
ہلاکتوں کا سبب توہین مذہب ہے یا کچھ اور؟ وزیراعظم حسینہ واجد خاموش تماشائی کیوں؟ ۔ فوٹو : فائل

BEIRUT: بنگلہ دیش میں سال 2015ء کے ابتدائی آٹھ مہینوں کے دوران چار بلاگرز قتل کئے جاچکے ہیں۔ چوتھا قتل گزشتہ ہفتے نیلوئے نیل نامی ایک بلاگر کا ہوا جسے مسلح افراد نے تیز دھار خنجروں کے وار کرکے ہلاک کیا۔ چھ حملہ آور نیلوئے کے مکان میں یہ کہہ کر داخل ہونے میں کامیاب ہوئے کہ انھیں کرائے پر مکان کی تلاش ہے۔ان میں سے دو نیلوئے کو دوسرے کمرے میں لے گئے اور وہاں اسے ذبح کر دیا۔' 'اس کی اہلیہ فلیٹ میں تھی جسے حملہ آوروں نے دوسرے کمرے میں بند کررکھاتھا۔ نیلوئے کا تعلق ایک ہندو خاندان سے تھا، تاہم وہ ہندومت پر یقین نہیں رکھتاتھا بلکہ لامذہب تھا۔ وہ ڈھاکہ میں قتل ہونے والا تیسرا اور مجموعی طورپر چوتھا بلاگر ہے۔

اس سے قبل بنگلہ دیشی نژاد امریکی بلاگر اویجیت رائے کو بھی فروری 2015ء میں ڈھاکہ ہی میں قتل کردیا گیا تھا۔ وہ 'مکتو مونا' نامی ویب سائٹ کے آٹھ منتظمین میں سے ایک تھا۔ یادرہے کہ ہمایوں آزاد بھی ان میں شامل تھا جسے 2004ء میں جرمنی کے شہر میونخ میں قتل کردیاگیاتھا۔ ہمایوں آزاد نے ایک متنازعہ کتاب'' پاک سرزمین شاد باد'' بھی لکھی تھی ،بنگلہ دیشی پارلیمنٹ میں اس کتاب کے خلاف آوازیں بلند ہوئیں اور مطالبہ کیاگیاکہ مصنف نے اسلام کے خلاف اشتعال انگیز کتاب لکھی ہے، اس لئے اس پر پابندی عائد کی جائے۔



اویجیت رائے کی کتابوں میں بھی اسلام کا تمسخر اڑایاگیا۔ جب اسکی کتابوں پر تنقید سے صورت حال سنگین ہونے لگی توکتابیں فروخت کرنے والوں نے اس کی کتابیں بیچنے سے انکارکردیا۔تب سلمان رشدی، تسلیمہ نسرین جیسے لوگ اس کی حمایت میں میدان میں اترآئے۔ قارئین کو بخوبی یاد ہوگا کہ مذکورہ بالا دونوں افراد توہین اسلام ورسالت کا ارتکاب ڈٹ کر کرتے رہے ہیں۔ ایک کو مغرب نے اپنی خصوصی حفاظت میں لے لیا ، دوسری کو بھارتی حکومت نے گود میں بٹھارکھاہے۔

اویجیت رائے کے ساتھی اسے بنگلہ دیش میں آزادی اظہار کا علمبردار قراردیتے ہیں۔ وہ دہریہ تھا اور بنگلہ دیش اورجنوبی ایشیا کے دوسرے ممالک سے تعلق رکھنے والے ہم خیال لوگوں کو اس ویب سائٹ پر جمع کررہاتھا۔ وہ بنگلہ زبان کی آٹھ کتابوں کا مصنف تھا، جن میں' دی فلاسفی آف ڈس بیلیف' اور' دی وائرس آف فیتھ' بھی شامل تھیں۔

اویجیت رائے ایک کتب میلہ میں شرکت کرنے کے لئے اہلیہ کے ساتھ ڈھاکہ شہر گیا۔ میلہ سے فراغت پاکر دونوں میاں بیوی سائیکل رکشہ پر گھر جارہے تھے کہ دوحملہ آوروں نے ان کا رکشہ روکا، دونوں کو نیچے اتارا اور اویجیت رائے کو خنجروں کے وار کرکے شدید زخمی کردیا، بعدازاں وہ ہسپتال میں چل بسا۔ اس کی بیوی کہتی ہے کہ پولیس اہلکار جائے وقوعہ پر موجود تھے لیکن وہ تماشہ دیکھتے رہے۔ بنگلہ دیشی میڈیا کے مطابق 'انصاراللہ بنگلہ سیون ' نامی ایک تنظیم نے اس کے قتل کی ذمہ داری قبول کی تھی، بعض دیگرتنظیموں نے اس واقعہ پر خوشی کا اظہارکیاتھا کہ اسلام کے خلاف اشتعال انگیزی کرنے والے ایک فرد کا خاتمہ کردیاگیا۔ ایک تنظیم نے کہا کہ ایسی ہی اشتعال انگیزی کرنے والے باقی بلاگرز کا انجام بھی ایسا ہی ہوگا۔

اگلے ہی ماہ 30 مارچ کو ایک اور بلاگر وشیق الرحمٰن کو بھی ڈھاکہ میں ہلاک کردیاگیا۔ وہ گھر سے نکلا تو حملہ آوروں نے اس کا پیچھا شروع کردیا اور 500گز کی دوری پر اسے دبوچ لیا۔ وہ بھی دہریہ تھا اور ایک قلمی نام سے بلاگ لکھتاتھا تاہم اس کے باوجود قاتل اس تک پہنچ گئے۔ اسے 'بابو' بھی کہاجاتاتھا۔

مقتول نے حال ہی میں اپنی تعلیم مکمل کی تھی اور ایک ٹریول ایجنسی میں نوکری شروع کی تھی۔ بابو کے فیس بک پیج پر لکھی تحریروں سے اندازہ ہوتاہے کہ وہ اویجیت رائے کا ساتھی تھا۔ اگرچہ وہ بہت زیادہ معروف بلاگرنہیں تھا تاہم بلاگرز اینڈ آن لائن ایکٹوسٹس نیٹ ورک بنگلہ دیش کے سربراہ عمران سرکار کے بقول اسے قتل کرنے کامقصد ایسے ہی دیگربلاگرز کو پیغام دیناتھا کہ اسلام اور رسول اکرم ﷺ کی توہین کرنے والے کسی بلاگر کو زندہ نہیں چھوڑا جائے گا۔ عمران کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں کی رسائی میں جب بھی اور جو بھی بلاگر آتاہے، وہ اسے قتل کردیتے ہیں۔

اکتیس سالہ آننت بیجوئے داس کو مئی میں بنگلہ دیش کے شمال مشرقی شہرسلہٹ میں نقاب پوش چاقو اور خنجر بردار حملہ آوروں نے دن دیہاڑے نشانہ بنایا۔آننت بیجوئے داس مقامی روشن خیال جریدے 'جکتی' اور 'مکتو مونا' ویب سائٹ کے لیے لکھتا تھا۔ وہ سہلٹ میں قائم ایک ادارے' سائنس اینڈ ریشنلسٹ کونسل' کا سربراہ بھی تھا۔

کہاجارہاہے کہ بنگلہ دیش میں ایسے ہی مزید 80 افراد کی فہرست عام ہوچکی ہے جنھیں قتل کیاجانامقصود ہے۔ بلاگرز پر ایک بھرپورمہم کی صورت میں حملے 2013ء میں احمد رجب حیدر نامی ایک بلاگر کے قتل سے شروع ہوئے۔ وہ' شاہ باغ موومنٹ' کا بانی تھا، یہ ان بلاگرز کی تحریک تھی جسے وہاں کے اسلام پسند'مذہب دشمن تحریک' قراردیتے ہیں۔ یہ لوگ اسلام اور پیغمبرِ اسلامﷺ کے خلاف توہین آمیز مضامین اور تبصرے لکھتے تھے۔ جب احمد رجب حیدر قتل ہواتھا ، اس کے حامی سڑکوں پر آگئے، وہ جماعت اسلامی ، اس کی طلبہ تنظیم اسلامی چھاتروشبر اور دیگر اسلامی جماعتوں پر پابندی کا مطالبہ کررہے تھے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ کسی اسلامی پارٹی کو سیاست میں حصہ لینے کی اجازت نہ دی جائے۔

' شاہ باغ موومنٹ' نے ملک کے اسلام پسندوں کو ایک ہونے پر مجبور کردیا۔ نتیجتاً 6 اپریل2013ء کو دارالحکومت ڈھاکہ میں 10لاکھ سے زائد اسلام پسندوں نے'حفاظتِ اسلام مارچ' کی صورت میں اکھٹے ہوکے حکمران جماعت عوامی لیگ سے اسلام اور رسول اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والے بلاگرز کو پھانسی دینے کا مطالبہ کیا۔ ایک درجن سے زائد اسلامی جماعتوں پر مشتمل 'حفاظتِ اسلام' نامی اتحاد25,000 سے زائد دینی مدارس کے اساتذہ اور طلبا پر مشتمل ہے۔ 'حفاظت اسلام مارچ' میں بعض رہنماؤں نے حکومت کی طرف سے کارروائی نہ ہونے کی صورت میں اسلام اور رسول اکرم ﷺ کی شان اقدس میں گستاخی کرنے والوں کے سروں کی قیمتیں بھی مقررکردیں۔

اس موقع پر پولیس اور اسلام پسند مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں کم از کم 15 افراد ہلاک اور 60 سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔ جس کے بعد مظاہرین نے پولیس کی گاڑیوں اور سرکاری عمارتوں پر حملے کیے۔ تصادم کی یہ فضا دو روز تک جاری رہی۔ جب حسینہ واجد حکومت نے حالات کو سنگین سے سنگین تر ہوتے دیکھا تو متعدد بلاگرز کو قید میں ڈال دیا۔ تاہم اسلام پسند حلقوں کا کہناتھا کہ حکومت نے انھیں حفاظتی تحویل میں لیاہے جس کے بعد انھیں بیرون ملک روانہ کردیاجائے گا۔

حفاظت اسلام محاذ کامطالبہ تھا کہ ملکی آئین میں اللہ تعالیٰ کے اقتداراعلیٰ کا اقرارکیاجائے، اسلام کی توہین کرنے والے کے لئے سزائے موت طے کی جائے، 'شاہ باغ موومنٹ' کے بلاگرز کو سخت ترین سزادی جائے جنھوں نے رسول اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی کی، ایسے بلاگز وغیرہ لکھنے پر پابندی عائد کی جائے، ملک میں غیرملکی ثقافت کو روکنے کا انتظام کیاجائے جو ملک میں آزادی اظہار کے نام پر بے حیائی پھیلارہی ہے، زنا اور مخلوط محافل کو جرم قراردیاجائے، ملک میں اس امر کا اہتمام کیاجائے کہ خواتین کو ہراساں نہ کیاجاسکے۔

خواتین پر گھریلوتشدد کو بھی جرم قراردیاجائے، جہیز پر پابندی عائد کی جائے، پرائمری سے ہائی سکول تک دینی تعلیم کو لازمی قراردیاجائے، ملک میں مذہب مخالف تعلیم پر پابندی عائد کی جائے، قادیانیوں کو غیرمسلم قراردیاجائے،مخلوط تعلیمی اداروں کے قیام پر پابندی عائد کی جائے، ملک کی مختلف مساجد میں مختلف علماء پر نماز کی ادائیگی پر پابندی عائد ہے، اسے ختم کیاجائے، میڈیا پر اسلاموفوبیا کی روک تھام کی جائے، ملک میں این جی اوز کی اسلام مخالف سرگرمیوں پر پابندی عائد کی جائے، علماء کے ماورائے عدالت قتل روکے جائیں، دینی مدارس کے علما اور طلبا کو ہراساں کرنے کا سلسلہ بند کیاجائے، گرفتار علما اور طلبا پر تمام مقدمات ختم کرتے ہوئے انھیں رہاکیاجائے، اس ضمن میں متاثرین کو معاوضہ دیاجائے، اور غلط مقدمات قائم کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیاجائے۔

ان سارے مطالبات سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہاں کا دینی طبقہ کیا چاہتاہے۔ تاہم ملک کے سیکولرحلقے 'حفاظت اسلام محاذ' کے 13مطالبات کو خطرناک قراردے رہے تھے اور اسلام پسندوں کے خلاف مختلف اندازمیں مہمات چلاتے رہے۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ تیسری طرف حکومت کا طرزعمل محض تماشائی کا ہے۔ اس رویہ کے سبب آنے والے دنوں میں مزید بلاگرز کا خون بہا۔ سوشیالوجی کے ایک پروفیسر شفیع الاسلام بھی اسی کشمکش کی بھینٹ چڑھے۔

جبکہ متعدد بلاگرز جان سے تو نہ گئے البتہ ملک سے باہرجانے پر مجبورضرور ہوگئے۔ ان میں ایک آصف محیی الدین بھی تھا جس پر اس کے گھر کے باہر چار نوجوانوں نے حملہ کردیا۔ اس نے بھی اپنے بلاگ پر اسلام اور رسول اکرم ﷺ کی ذات مبارکہ پر اشتعال انگیز تحریریں لکھیں، بنگلہ دیش ٹیلی کمیونیکشن ریگولیٹری کمیشن نے اس کا بلاگ بند کردیا اور اسے گرفتار کرکے جیل بھیج دیا۔ بعدازاں اس کو خرابی صحت کی بنیاد پر رہا کردیا۔ چند دنوں بعد وہ بنگلہ دیش چھوڑ گیا، اب میونخ ، جرمنی میں رہائش پذیر ہے۔ایک اور سنیورالرحمن جس نے اپنا نام 'ناستک نبی' یعنی 'لامذہب نبی' رکھاہواتھا، پربھی خنجروں سے حملہ ہوا اور اسے بھی قتل کیاگیا۔

شاید حسینہ واجد حکومت اب بھی سمجھتی ہے کہ چند بلاگرز کو گرفتار کرکے اور دفاع اسلام محاذ کے مطالبات کو نظرانداز کرکے صورت حال پر قابو پالے گی۔ سوال یہ ہے کہ کیا مسئلے کا یہی حل ہے؟ کیا یہ مناسب نہیں کہ آزادی اظہار اور اشتعال انگیزی میں ایک لکیر کھینچ کر معاشرے کو فساد اور بدامنی سے بچایاجائے؟

بنگلہ دیش پولیس کے انسپکٹرجنرل اے کے ایم شہیدالحق کہتے ہیں:'' اگربلاگرز چاہتے ہیں کہ انھیں قتل نہ کیاجائے یا انھیں کوئی زخم نہ پہنچے تو انھیں بھی لوگوں کے مذہبی جذبات سے نہیں کھیلناچاہئے۔ کسی کو بھی حد عبور نہیں کرنی چاہئے''۔



ملک کے کثیرالاشاعت اخبار 'ڈھاکہ ٹریبیون' کے ایڈیٹرانچیف ظفرسبحان کہتے ہیں:'' یہ سب بلاگرز انفرادی سطح پر تمام مذاہب کے خلاف اور مذہب کے معاشرے میں کردار پر سوالات اٹھارہے ہیں، انھوں نے ایک ویب سائٹ کو اپنا پلیٹ فارم بنایاہواہے''۔ ان کا کہناہے'' یہ کہنا مشکل ہے کہ القاعدہ ان کے قتل کی ذمہ دار ہے۔

کوئی بھی ذمہ داری قبول کرسکتاہے اور ہرکوئی اپنے آپ کو کچھ بھی کہہ سکتاہے۔ رہی بات 'انصاراللہ بنگلہ ' کی، اس کا القاعدہ سے تعلق بھی مشکل سے ثابت کیاجاسکتاہے۔ یہاں مختلف گروہ مختلف ناموں کے ساتھ ابھرتے ، ڈوبتے رہتے ہیں''۔ وہ کہتے ہیں'' دنیا کے دیگر ممالک کی طرح بنگلہ دیش میں بھی آزادی اظہار کی حدودوقیود موجود ہیں۔ آپ مذہب کی توہین یا اسے برا نہیں کہہ سکتے۔ ظفرسبحان آئی جی پولیس شہیدالحق کے اس بیان پر تنقید کرتے ہیں، ان کا کہناہے کہ یہ امن وامان کا مسئلہ ہے، پولیس کے سربراہ کو اس طرح کا بیان نہیں دیناچاہئے۔ تاہم یہ بیان ظاہر کرتاہے کہ بنگلہ دیش کے قانون نافذ کرنے والے اداروں میں بھی کیا اور کیسی سوچ موجود ہے''۔

ویسے بعض حلقوں کا خیال ہے کہ یہ کچھ اور ہی معاملہ ہے ۔ بلاگرز کو مذہب کی توہین میں قتل نہیں کیاجارہا، ان حلقوں کا سوال یہ ہے کہ یہ لوگ اتنے عرصہ سے آزادی اظہار کے مزے اٹھا رہے تھے، آخر اب قتل کیوں ہوئے؟بنگلہ دیش میں بڑی تعداد میں لامذہب افراد اپنی یہ شناخت ظاہر کرکے بھی پرسکون زندگی بسر کررہے ہیں۔ ان کی طرف کسی نے آج تک میلی نظر نہیں ڈالی۔ ان میں سے بعض وزارت کے منصب پر بھی فائز ہیں لیکن کسی نے انھیں اس بنیاد پر وزارت سے برطرف کرنے کا مطالبہ بھی نہیں کیا۔

یہ حلقے اسے حسینہ واجد کی 'سیاست ' قراردیتے ہیں، جو اپنے سیاسی مخالفین کو ہمیشہ کے لئے کچلنے میں مصروف ہے، دوسری طرف اس کی پالیسیاں عوام کی بدحالی سے نکالنے والی نہیں ہیں۔ حسینہ واجد چاہتی ہے کہ معاشرے میں کچھ ایسا ہوتا رہے کہ عوام حکومت کی طرف توجہ ہی نہ کرسکیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں