جیل میں کُھلا اسکول
بھارت میں قیدی ماؤں کے ساتھ اسیری جھیلتے بچوں کو علم سے آشنا کرنے کی کہانی
(کرن بیدی، جو آج بھارت میں اور بھارت سے باہر ایک سیاست داں، سماجی کارکن اور سابق ٹینس پلیئر کی حیثیت سے جانی جاتی ہیں، پولیس آفیسر کی حیثیت سے بھی فرائض انجام دے چکی ہیں۔ اس دوران انھوں نے اپنی قیدی ماؤں کے ساتھ جیل میں زندگی کرتے بچوں کے لیے اپنی کوششوں سے اسکول قائم کیا، ان کی یہ تحریر اسی تابندہ کاوش کی کہانی ہے۔ بھارتی اردو اخبار ہندسماچار میں چھپنے والا یہ مضمون ہمیں بتاتا ہے کہ اگر ارادہ پختہ اور نیت صاف ہو تو سرکاری افسران اپنے طور پر بھی معاشرے کی بہتری کے لیے بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ ہم یہ مضمون ہندسماچار کے شکریے کے ساتھ شایع کر رہے ہیں)
جب ہم آزادی کے 68 سال پورے ہونے کا جشن منارہے ہیں تو مجھے اپنی سروس کے دوران جیل کی ڈیوٹی کے دن یاد ہیں جب میں نے جیل کے اندر بہت سے چھوٹے بچوں کو دیکھا جو مجرم نہیں تھے بلکہ ان کی مائیں جیل میں بند تھیں اور اسی وجہ سے ان کا بچپن بھی جیل کی نذر ہوگیا۔ بھارتی جیل کے قانون میں ماں کو 6 سال کی عمر تک کے بچے اپنے ساتھ رکھنے کی اجازت ہے۔
یہ بچے جیل میں اس لیے پہنچے تھے کہ ان کی مائیں انھیں محفوظ رکھنا چاہتی تھیں۔ کچھ بچوں کی عمر تو اسکول جانے کے قابل تھی پھر بھی گھر میں حفاظت کا کوئی قابل اعتماد انتظام نہ ہونے کی وجہ سے ان کی مائیں انھیں اپنے ساتھ جیل میں لے آئیں۔
آئی جی (جیل) کا چارج سنبھالنے کے بعد جیل کے پہلے دورے کے دوران میں نے سپرنٹنڈنٹ سے پوچھا کہ ان بچوں کو اسکول کیوں نہیں بھیجا جارہا؟ تو اس نے جواب دیا، ''میڈم! یہاں نہ تو کوئی اسکول ہے اور نہ ہی کوئی ٹیچر۔ یہاں تک کہ تعلیم کے لیے بجٹ کا کوئی پر بندھ ہی نہیں، جب کہ جیل کے احاطے میں 9700 سے زیادہ قیدی ہیں۔
میں نے دیکھا کہ اپنی ماں کے ساتھ ساتھ یہ بچے بھی عدالتوں، وکلا اور جرم کی زبان جانتے تھے۔ کیڑے مکوڑوں کو تلاش کرنا اور مسلنا اور ''چاقو، چاقو'' ہی ان کے پسندیدہ کھیل تھے۔ وہ جیب کترنا بھی جانتے تھے۔ یہاں تک کہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے وہ اپنی اس مہارت کا مظاہرہ کرنے کو تیار رہتے تھے۔ ان کے لیے یہ محض ایک کھیل تھا۔ جو کام میں نے فوری طور پر کیے ان میں سے ایک تھا جیل کے اندر نرسری اسکول شروع کرنا۔ ہم نے مہلاوارڈ(خواتین کے وارڈ) میں سے کچھ جگہ الگ کرلی جہاں ہم دن کے وقت بچوں کو ان کی ماؤں سے الگ رکھتے تھے۔
ہم نے جیل سے باہر کی آبادی سے رابطہ کیا اور بچوں کے لیے کتابیں، کھلونے اور اسٹیشنری خریدنے کے لیے عطیہ لینے کی کوشش کی۔ سب کچھ آگیا اور ہم نے اسکول شروع کردیا۔ پڑھی لکھی مہلا (خاتون) قیدیوں کو بچوں کو پڑھانے کی ذمے داری دی گئی۔ اس کے ساتھ ہی کیتھولک ننیں بھی آگئیں، جنھوں نے یہ سروس کرنے کے لیے خود کو رضاکارانہ طور پر پیش کیا۔ اصل میں تو مدرٹریسا خود یہ مقام دیکھنے آئی تھیں۔ ہم نے بچوں کے لیے اسکول کا یونیفارم اور اسکول بیگ خریدے۔ اس سے مہلا جیلوں میں بالکل ایک نیا ہی ماحول پیدا ہوگیا۔
خواتین ا قیدیوں کو حکم دیاگیا کہ وہ اپنے بچوں کو ہر روز صبح 8 بجے اسکول بھیجنے کے لیے تیار کردیا کریں۔ پورے خواتین وارڈ کی زندگی ہی بدل گئی۔ ماؤں کو اپنے بچوں کی تعلیم کا تصور بہت اچھا لگا۔ ہم بچوں کو گھمانے کے لیے بھی لے کر جایا کرتے تھے۔ کبھی پارکوں میں، کبھی کسی عجائب گھر میں تو کبھی چڑیا گھر۔ اپنے جیل کمپلیکس کے اندر تو ہم نے بچوں کو بالکل آزاد کردیا، لیکن اب سوال یہ پیدا ہوگیا تھا کہ جن بچوں کی عمر 6 سال سے زیادہ ہے ان کا کیا کیا جائے۔ جیل میں اپنی ماؤں کے ساتھ بچوں کے ٹھیرنے کی یہی زیادہ سے زیادہ عمر ہے۔ یہ مہلائیں بیٹے، بیٹیوں کو مختلف وجوہات کی بنا پر جیل سے باہر اپنے گھروں میں نہیں بھیجنا چاہتی تھیں۔ سب سے اہم وجہ تو عدم تحفظ ہی تھی۔
اسی دوران تہاڑ جیل کے اندر بنے بچوں کے اسکول کو تنظیمی شکل دے دی گئی اور جب مجھے رمن میکسیسے ایوارڈ ملا تو اس کے بعد اس اسکول کا نام ''انڈیا ویژن اسکول'' رکھا گیا، پھر بھی جب میری بدلی تہاڑ جیل سے باہر ہوگئی تو میں بڑے ہوجانے والے ان بچوں کی تعلیم جاری رکھنے کے لیے محفوظ جگہ کی تلاش کرنے لگی جن کی مائیں اب بھی جیل میں تھیں۔
کئی بار قدرت خود ہی آپ کے لیے راستہ تیار کردیتی ہے اور وہ چیز حاصل ہوجاتی ہے جس کی آپ کو تلاش ہوتی ہے۔ اسیسی کانوینٹ اسکول کی جن کیتھولک ننوں کا ذکر میں اوپر کرچکی ہوں، ایک دن انھوں نے مجھ سے رابطہ کیا اور درخواست کی کہ اگر قیدیوں کی بیٹیوں کو ایسی رہائشی سہولت کی ضرورت ہو جو خاص طور پر بچوں ہی کے لیے تیار کی گئی ہو تو انھیں بتایا جائے۔ ہمیں انھیں صرف ہوسٹل اور اسکول کی فیس دینی تھی۔
اس طرح 1994 میں ہم نے حساس پریوار بال پروجیکٹ کی شروعات کیا۔ یہ پروجیکٹ آج بھی چل رہا ہے اور جیل کے نرسری اسکول اور جیل کے باہر کے مشنری اسکولوں کے درمیان کڑی کا کام کرتا ہے۔ اسیسی کانوینٹ اسکول جیسے کئی اسکولوں کی ایک سیریز ہے۔ آج انڈیا ویژن فاؤنڈیشن4 صوبوں دہلی، یوپی، ہریانہ اور پنجاب میں اسی طرح کے پروگراموں کو منظم کرتے ہوئے تقریباً 300 گھرانوں تک پہنچ چکی ہے، کئی خاندانوں کی درخواست مسلسل ہمیں ملتے رہتے ہیں گذشتہ ہفتے ہم نے پورے پروگرام سے متعلق ان کے بچوں کے لیے پہلی تقریب منعقد کی جنھوں نے ہمارے پہلے بیچ کے تحت تعلیم پوری کرلی تھی۔ اس تقریب میں کُل 70 طالب علموں نے شرکت کی۔ یہ اب بڑی عمر کے ہوچکے ہیں۔ ان میں سے کچھ کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں پڑھتے ہیں، چند نے شادی کرلی ہے اور کچھ نوکریوں پر لگے ہوئے ہیں۔
یہ پروگرام 1994 میں شروع کی گئی محنت کا ایوارڈ تھا، ہم نے اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے صرف اپنی معلومات کے لیے کچھ سوالات پوچھے:
سوال :1: اگر آپ خود کو بچپن میں درپیش کسی حالت میں بدلاؤ لانا چاہتے ہیں تو آپ کو کون سی چیز تبدیل کریں گے؟ اور کیوں؟
کئی جواب حاصل ہوئے۔ مجموعی طور پر ان کا مطلب تھا: وہ تمام اپنے والدین کے ساتھ رہنے کو بے چین تھے۔ جن گھرانوں میں تشدد ہوتا ہے اور عورتوں کی عزت نہیں ہوتی ان کے متبادل سے ہی وہ چونک اٹھتے تھے۔ والد کے شراب پینے کی لت سے انھیں بھاری نقصان پہنچتا تھا۔ سوتیلے باپ بچوں کی کوئی پرواہ نہیں کرتے۔ ایسے بچے غربت سے پریشان ہوتے ہیں اوپر سے رہی سہی کسر بیماری پوری کردیتی ہے۔ یہ تمام بچے چاہتے تھے کہ ان کی طرح دوسرے بچوں کو بھی پیار اور مواقع فراہم ہوں۔
سوال:2: آپ اپنے سر پرستوں کے جرائم والے پس منظر کے مسئلے سے کس طرح نمٹیں گے؟
جواب : ایک بچی نے کہاکہ ''میں نے اپنی آنکھوں سے ماں باپ کو جرم کرتے دیکھا ہے لیکن اس کو نظر انداز کیا۔ میں ابھی بھی ان سے پیار کرتی ہوں'' دوسرے نے کہا ''جب میرے ہم جماعتوں کو پتا چلا کہ میرے سرپرست جیل میں تھے تو مجھے بہت پریشانی ہوئی، کچھ وقت کے بعد میں نے یہ سوچنا شروع کردیا کہ کوئی بھی بات بلا وجہ نہیں ہوتی۔ اگر وہ جیل میں نہ گئے ہوتے تو شاید مجھے اچھے اسکول میں پڑھنے کا موقع ہی نہ ملا ہوتا۔''
پرانے طالب علموں کی اس تقریب سے ہم نے یہ سیکھا کہ ابتدائی عمر میں جن بچوں کو بہت زیادہ دکھ جھیلنے پڑتے ہیں وہ زندگی بھر انھیں بھلا نہیں پاتے اور ہاتھ سے نکلے مواقع کا پچھتاوا انھیں کچوکے لگا رہتا ہے۔ وہ ہمیشہ والدین کے پیار کے لیے ترستے رہتے ہیں اور ان کے قریب رہنا چاہتے ہیں۔ جیل میں بند مجرموں کے تمام بچے انگریزی اسکولوں میں پڑھنا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر وہ صرف ہندی ہی پڑھیں گے تو ان کے روزگار کے مواقع محدود ہوںگے۔
اہم بات یہ ہے کہ ہر بچے کی اپنی زندگی ہوتی ہے اور اس کے خاص حالات ہوتے ہیں۔ جب سرپرست اور ٹیچر اپنی ذمے داریاں پوری کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو بچوں کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے اور بہت مشقتیں برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ ایسے حالات میں تمام بچے چاہتے ہیں کہ کوئی ان کی انگلی پکڑے لیکن ہر کوئی اتنا خوش قسمت نہیں ہوتا۔
بچے ہی ہمارا مستقبل ہیں۔ اس مستقبل کی جڑوں میں تیل مت ڈالیں۔ بچوں سے ان کا بچپن نہ چھینیں۔
جب ہم آزادی کے 68 سال پورے ہونے کا جشن منارہے ہیں تو مجھے اپنی سروس کے دوران جیل کی ڈیوٹی کے دن یاد ہیں جب میں نے جیل کے اندر بہت سے چھوٹے بچوں کو دیکھا جو مجرم نہیں تھے بلکہ ان کی مائیں جیل میں بند تھیں اور اسی وجہ سے ان کا بچپن بھی جیل کی نذر ہوگیا۔ بھارتی جیل کے قانون میں ماں کو 6 سال کی عمر تک کے بچے اپنے ساتھ رکھنے کی اجازت ہے۔
یہ بچے جیل میں اس لیے پہنچے تھے کہ ان کی مائیں انھیں محفوظ رکھنا چاہتی تھیں۔ کچھ بچوں کی عمر تو اسکول جانے کے قابل تھی پھر بھی گھر میں حفاظت کا کوئی قابل اعتماد انتظام نہ ہونے کی وجہ سے ان کی مائیں انھیں اپنے ساتھ جیل میں لے آئیں۔
آئی جی (جیل) کا چارج سنبھالنے کے بعد جیل کے پہلے دورے کے دوران میں نے سپرنٹنڈنٹ سے پوچھا کہ ان بچوں کو اسکول کیوں نہیں بھیجا جارہا؟ تو اس نے جواب دیا، ''میڈم! یہاں نہ تو کوئی اسکول ہے اور نہ ہی کوئی ٹیچر۔ یہاں تک کہ تعلیم کے لیے بجٹ کا کوئی پر بندھ ہی نہیں، جب کہ جیل کے احاطے میں 9700 سے زیادہ قیدی ہیں۔
میں نے دیکھا کہ اپنی ماں کے ساتھ ساتھ یہ بچے بھی عدالتوں، وکلا اور جرم کی زبان جانتے تھے۔ کیڑے مکوڑوں کو تلاش کرنا اور مسلنا اور ''چاقو، چاقو'' ہی ان کے پسندیدہ کھیل تھے۔ وہ جیب کترنا بھی جانتے تھے۔ یہاں تک کہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے وہ اپنی اس مہارت کا مظاہرہ کرنے کو تیار رہتے تھے۔ ان کے لیے یہ محض ایک کھیل تھا۔ جو کام میں نے فوری طور پر کیے ان میں سے ایک تھا جیل کے اندر نرسری اسکول شروع کرنا۔ ہم نے مہلاوارڈ(خواتین کے وارڈ) میں سے کچھ جگہ الگ کرلی جہاں ہم دن کے وقت بچوں کو ان کی ماؤں سے الگ رکھتے تھے۔
ہم نے جیل سے باہر کی آبادی سے رابطہ کیا اور بچوں کے لیے کتابیں، کھلونے اور اسٹیشنری خریدنے کے لیے عطیہ لینے کی کوشش کی۔ سب کچھ آگیا اور ہم نے اسکول شروع کردیا۔ پڑھی لکھی مہلا (خاتون) قیدیوں کو بچوں کو پڑھانے کی ذمے داری دی گئی۔ اس کے ساتھ ہی کیتھولک ننیں بھی آگئیں، جنھوں نے یہ سروس کرنے کے لیے خود کو رضاکارانہ طور پر پیش کیا۔ اصل میں تو مدرٹریسا خود یہ مقام دیکھنے آئی تھیں۔ ہم نے بچوں کے لیے اسکول کا یونیفارم اور اسکول بیگ خریدے۔ اس سے مہلا جیلوں میں بالکل ایک نیا ہی ماحول پیدا ہوگیا۔
خواتین ا قیدیوں کو حکم دیاگیا کہ وہ اپنے بچوں کو ہر روز صبح 8 بجے اسکول بھیجنے کے لیے تیار کردیا کریں۔ پورے خواتین وارڈ کی زندگی ہی بدل گئی۔ ماؤں کو اپنے بچوں کی تعلیم کا تصور بہت اچھا لگا۔ ہم بچوں کو گھمانے کے لیے بھی لے کر جایا کرتے تھے۔ کبھی پارکوں میں، کبھی کسی عجائب گھر میں تو کبھی چڑیا گھر۔ اپنے جیل کمپلیکس کے اندر تو ہم نے بچوں کو بالکل آزاد کردیا، لیکن اب سوال یہ پیدا ہوگیا تھا کہ جن بچوں کی عمر 6 سال سے زیادہ ہے ان کا کیا کیا جائے۔ جیل میں اپنی ماؤں کے ساتھ بچوں کے ٹھیرنے کی یہی زیادہ سے زیادہ عمر ہے۔ یہ مہلائیں بیٹے، بیٹیوں کو مختلف وجوہات کی بنا پر جیل سے باہر اپنے گھروں میں نہیں بھیجنا چاہتی تھیں۔ سب سے اہم وجہ تو عدم تحفظ ہی تھی۔
اسی دوران تہاڑ جیل کے اندر بنے بچوں کے اسکول کو تنظیمی شکل دے دی گئی اور جب مجھے رمن میکسیسے ایوارڈ ملا تو اس کے بعد اس اسکول کا نام ''انڈیا ویژن اسکول'' رکھا گیا، پھر بھی جب میری بدلی تہاڑ جیل سے باہر ہوگئی تو میں بڑے ہوجانے والے ان بچوں کی تعلیم جاری رکھنے کے لیے محفوظ جگہ کی تلاش کرنے لگی جن کی مائیں اب بھی جیل میں تھیں۔
کئی بار قدرت خود ہی آپ کے لیے راستہ تیار کردیتی ہے اور وہ چیز حاصل ہوجاتی ہے جس کی آپ کو تلاش ہوتی ہے۔ اسیسی کانوینٹ اسکول کی جن کیتھولک ننوں کا ذکر میں اوپر کرچکی ہوں، ایک دن انھوں نے مجھ سے رابطہ کیا اور درخواست کی کہ اگر قیدیوں کی بیٹیوں کو ایسی رہائشی سہولت کی ضرورت ہو جو خاص طور پر بچوں ہی کے لیے تیار کی گئی ہو تو انھیں بتایا جائے۔ ہمیں انھیں صرف ہوسٹل اور اسکول کی فیس دینی تھی۔
اس طرح 1994 میں ہم نے حساس پریوار بال پروجیکٹ کی شروعات کیا۔ یہ پروجیکٹ آج بھی چل رہا ہے اور جیل کے نرسری اسکول اور جیل کے باہر کے مشنری اسکولوں کے درمیان کڑی کا کام کرتا ہے۔ اسیسی کانوینٹ اسکول جیسے کئی اسکولوں کی ایک سیریز ہے۔ آج انڈیا ویژن فاؤنڈیشن4 صوبوں دہلی، یوپی، ہریانہ اور پنجاب میں اسی طرح کے پروگراموں کو منظم کرتے ہوئے تقریباً 300 گھرانوں تک پہنچ چکی ہے، کئی خاندانوں کی درخواست مسلسل ہمیں ملتے رہتے ہیں گذشتہ ہفتے ہم نے پورے پروگرام سے متعلق ان کے بچوں کے لیے پہلی تقریب منعقد کی جنھوں نے ہمارے پہلے بیچ کے تحت تعلیم پوری کرلی تھی۔ اس تقریب میں کُل 70 طالب علموں نے شرکت کی۔ یہ اب بڑی عمر کے ہوچکے ہیں۔ ان میں سے کچھ کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں پڑھتے ہیں، چند نے شادی کرلی ہے اور کچھ نوکریوں پر لگے ہوئے ہیں۔
یہ پروگرام 1994 میں شروع کی گئی محنت کا ایوارڈ تھا، ہم نے اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے صرف اپنی معلومات کے لیے کچھ سوالات پوچھے:
سوال :1: اگر آپ خود کو بچپن میں درپیش کسی حالت میں بدلاؤ لانا چاہتے ہیں تو آپ کو کون سی چیز تبدیل کریں گے؟ اور کیوں؟
کئی جواب حاصل ہوئے۔ مجموعی طور پر ان کا مطلب تھا: وہ تمام اپنے والدین کے ساتھ رہنے کو بے چین تھے۔ جن گھرانوں میں تشدد ہوتا ہے اور عورتوں کی عزت نہیں ہوتی ان کے متبادل سے ہی وہ چونک اٹھتے تھے۔ والد کے شراب پینے کی لت سے انھیں بھاری نقصان پہنچتا تھا۔ سوتیلے باپ بچوں کی کوئی پرواہ نہیں کرتے۔ ایسے بچے غربت سے پریشان ہوتے ہیں اوپر سے رہی سہی کسر بیماری پوری کردیتی ہے۔ یہ تمام بچے چاہتے تھے کہ ان کی طرح دوسرے بچوں کو بھی پیار اور مواقع فراہم ہوں۔
سوال:2: آپ اپنے سر پرستوں کے جرائم والے پس منظر کے مسئلے سے کس طرح نمٹیں گے؟
جواب : ایک بچی نے کہاکہ ''میں نے اپنی آنکھوں سے ماں باپ کو جرم کرتے دیکھا ہے لیکن اس کو نظر انداز کیا۔ میں ابھی بھی ان سے پیار کرتی ہوں'' دوسرے نے کہا ''جب میرے ہم جماعتوں کو پتا چلا کہ میرے سرپرست جیل میں تھے تو مجھے بہت پریشانی ہوئی، کچھ وقت کے بعد میں نے یہ سوچنا شروع کردیا کہ کوئی بھی بات بلا وجہ نہیں ہوتی۔ اگر وہ جیل میں نہ گئے ہوتے تو شاید مجھے اچھے اسکول میں پڑھنے کا موقع ہی نہ ملا ہوتا۔''
پرانے طالب علموں کی اس تقریب سے ہم نے یہ سیکھا کہ ابتدائی عمر میں جن بچوں کو بہت زیادہ دکھ جھیلنے پڑتے ہیں وہ زندگی بھر انھیں بھلا نہیں پاتے اور ہاتھ سے نکلے مواقع کا پچھتاوا انھیں کچوکے لگا رہتا ہے۔ وہ ہمیشہ والدین کے پیار کے لیے ترستے رہتے ہیں اور ان کے قریب رہنا چاہتے ہیں۔ جیل میں بند مجرموں کے تمام بچے انگریزی اسکولوں میں پڑھنا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر وہ صرف ہندی ہی پڑھیں گے تو ان کے روزگار کے مواقع محدود ہوںگے۔
اہم بات یہ ہے کہ ہر بچے کی اپنی زندگی ہوتی ہے اور اس کے خاص حالات ہوتے ہیں۔ جب سرپرست اور ٹیچر اپنی ذمے داریاں پوری کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو بچوں کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے اور بہت مشقتیں برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ ایسے حالات میں تمام بچے چاہتے ہیں کہ کوئی ان کی انگلی پکڑے لیکن ہر کوئی اتنا خوش قسمت نہیں ہوتا۔
بچے ہی ہمارا مستقبل ہیں۔ اس مستقبل کی جڑوں میں تیل مت ڈالیں۔ بچوں سے ان کا بچپن نہ چھینیں۔