فلسطینی پرچم بھی اقوام متحدہ پر لہرائے گا
فلسطین کو ایک باقاعدہ، خودمختار اور آزاد ریاست کے طور پر اقوام عالم نے تسلیم کر لیا ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر پر دنیا بھر کے ممالک کے پرچموں کے جلو میں فلسطینی پرچم کے لہرائے جانے کی بھاری اکثریت کے ساتھ اجازت دے دی ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ فلسطین کو ایک باقاعدہ، خودمختار اور آزاد ریاست کے طور پر اقوام عالم نے تسلیم کر لیا ہے۔
واضح رہے فلسطینی ریاست کو متعدد یورپی ممالک الگ الگ طور پر تسلیم کر چکے ہیں بلکہ یورپی یونین نے بھی فلسطین کو ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کا اعلان چند ماہ پہلے ہی کر دیا تھا۔ گو کہ کشمیر کی طرح فلسطین کے تنازع کو بھی سات دہائیوں کے لگ بھگ عرصہ گزر چکا ہے جس دوران نہتے فلسطینیوں کو اسرائیل کی جانب سے کشت و خون کا نشانہ بنایا جاتا رہا لیکن مغربی طاقتوں کی اسرائیل کے ساتھ گہری یکجہتی کے باوجود فلسطینیوں نے آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ اور جدوجہد جاری رکھی جو اب اتنے طویل عرصہ کے بعد کامیابی کی منزل تک پہنچتی محسوس ہو رہی ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل کونسل کے رکن ممالک کی تعداد 193 ہے جن میں سے 119 ممالک نے فلسطینی جھنڈا لہرانے کی قرارداد کو بھاری اکثریت سے منظور کر لیا۔ گویا اب یو این ہیڈکوارٹر پر اسرائیل کے آسمانی رنگ کے ''ڈیوڈ اسٹار'' والے پرچم کے ساتھ سبز، سفید اور سیاہ پٹیوں کے ساتھ لال مثلث والا فلسطینی پرچم بھی لہراتا نظر آیا کرے گا۔ اقوام متحدہ کے صدر دفتر پر جو نیویارک میں واقع ہے، 30 ستمبر کو فلسطینی جھنڈا نصب کر دیا جائے گا۔
اس روز فلسطینی صدر محمود عباس اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے کے لیے وہاں پہنچیں گے۔ جن آٹھ ممالک نے فلسطین کے مخالف ووٹ دیا ان میں امریکا اور اسرائیل سرفہرست تھے۔ فی الوقت اقوام متحدہ میں فلسطین کا درجہ ''نان ممبر مبصر ریاست'' کا ہے۔
جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر 28 رکنی یورپی یونین کے بعض رکن ملکوں کے ساتھ 45 ملکوں نے رائے دہندگی میں حصہ نہیں لیا یعنی نہ حمایت کی نہ مخالفت البتہ فرانس کے علاوہ آدھے درجن سے زائد دیگر یورپی ممالک نے بھی فلسطینیوں کے حق میں ووٹ دیا۔ فلسطینیوں کی طرف سے جب پرچم لہرانے کے حوالے سے قرارداد پیش کی گئی تو ان کی کوشش تھی کہ ویٹیکن کی طرف سے پوپ کی حمایت بھی قرارداد کے ساتھ شامل ہو جائے مگر ویٹیکن نے قرارداد میں اشتراک کی تجویز قبول نہیں کی اور قرارداد کے مسودے سے بھی اپنا نام خارج کرنے کی درخواست کی۔
فلسطینی سفارتکاروں نے توقع ظاہر کی ہے کہ 30 ستمبر کو فلسطین کا جھنڈا بھی اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر کی عمارت پر لہرانے لگے گا۔ یورپی یونین کے رکن جن ممالک نے فلسطین کے حق میں ووٹ دیے ان میں فرانس، سویڈن، اٹلی، اسپین، آئرلینڈ، سلوانیہ، لکسمبرگ، بلجیم، مالٹا اور پولینڈ شامل ہیں۔
فرانس نے فلسطین اسرائیل امن مذاکرات بحال کرنے کی اپنی سی کوششیں کیں مگر یہ سلسلہ 2014ء میں ناکام ہو گیا تھا جس کے بعد ابھی تک کوئی نیا سلسلہ شروع نہیں ہو سکا۔ ویسے کتنی عجیب بات ہے کہ جن کے گھر پر زبردستی قبضہ کر لیا گیا وہ اقوام عالم میں بے حیثیت جب کہ قبضہ کرنے والے باحیثیت اور معزز سمجھے جاتے ہیں، فلسطینیوں کی جدوجہد رنگ لا رہی ہے جب فلسطین حقیقی معنوں میں آزاد ریاست ہو گی اور اقوام متحدہ میں اسے مکمل رکنیت مل جائے گی۔
واضح رہے فلسطینی ریاست کو متعدد یورپی ممالک الگ الگ طور پر تسلیم کر چکے ہیں بلکہ یورپی یونین نے بھی فلسطین کو ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کا اعلان چند ماہ پہلے ہی کر دیا تھا۔ گو کہ کشمیر کی طرح فلسطین کے تنازع کو بھی سات دہائیوں کے لگ بھگ عرصہ گزر چکا ہے جس دوران نہتے فلسطینیوں کو اسرائیل کی جانب سے کشت و خون کا نشانہ بنایا جاتا رہا لیکن مغربی طاقتوں کی اسرائیل کے ساتھ گہری یکجہتی کے باوجود فلسطینیوں نے آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ اور جدوجہد جاری رکھی جو اب اتنے طویل عرصہ کے بعد کامیابی کی منزل تک پہنچتی محسوس ہو رہی ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل کونسل کے رکن ممالک کی تعداد 193 ہے جن میں سے 119 ممالک نے فلسطینی جھنڈا لہرانے کی قرارداد کو بھاری اکثریت سے منظور کر لیا۔ گویا اب یو این ہیڈکوارٹر پر اسرائیل کے آسمانی رنگ کے ''ڈیوڈ اسٹار'' والے پرچم کے ساتھ سبز، سفید اور سیاہ پٹیوں کے ساتھ لال مثلث والا فلسطینی پرچم بھی لہراتا نظر آیا کرے گا۔ اقوام متحدہ کے صدر دفتر پر جو نیویارک میں واقع ہے، 30 ستمبر کو فلسطینی جھنڈا نصب کر دیا جائے گا۔
اس روز فلسطینی صدر محمود عباس اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے کے لیے وہاں پہنچیں گے۔ جن آٹھ ممالک نے فلسطین کے مخالف ووٹ دیا ان میں امریکا اور اسرائیل سرفہرست تھے۔ فی الوقت اقوام متحدہ میں فلسطین کا درجہ ''نان ممبر مبصر ریاست'' کا ہے۔
جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر 28 رکنی یورپی یونین کے بعض رکن ملکوں کے ساتھ 45 ملکوں نے رائے دہندگی میں حصہ نہیں لیا یعنی نہ حمایت کی نہ مخالفت البتہ فرانس کے علاوہ آدھے درجن سے زائد دیگر یورپی ممالک نے بھی فلسطینیوں کے حق میں ووٹ دیا۔ فلسطینیوں کی طرف سے جب پرچم لہرانے کے حوالے سے قرارداد پیش کی گئی تو ان کی کوشش تھی کہ ویٹیکن کی طرف سے پوپ کی حمایت بھی قرارداد کے ساتھ شامل ہو جائے مگر ویٹیکن نے قرارداد میں اشتراک کی تجویز قبول نہیں کی اور قرارداد کے مسودے سے بھی اپنا نام خارج کرنے کی درخواست کی۔
فلسطینی سفارتکاروں نے توقع ظاہر کی ہے کہ 30 ستمبر کو فلسطین کا جھنڈا بھی اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر کی عمارت پر لہرانے لگے گا۔ یورپی یونین کے رکن جن ممالک نے فلسطین کے حق میں ووٹ دیے ان میں فرانس، سویڈن، اٹلی، اسپین، آئرلینڈ، سلوانیہ، لکسمبرگ، بلجیم، مالٹا اور پولینڈ شامل ہیں۔
فرانس نے فلسطین اسرائیل امن مذاکرات بحال کرنے کی اپنی سی کوششیں کیں مگر یہ سلسلہ 2014ء میں ناکام ہو گیا تھا جس کے بعد ابھی تک کوئی نیا سلسلہ شروع نہیں ہو سکا۔ ویسے کتنی عجیب بات ہے کہ جن کے گھر پر زبردستی قبضہ کر لیا گیا وہ اقوام عالم میں بے حیثیت جب کہ قبضہ کرنے والے باحیثیت اور معزز سمجھے جاتے ہیں، فلسطینیوں کی جدوجہد رنگ لا رہی ہے جب فلسطین حقیقی معنوں میں آزاد ریاست ہو گی اور اقوام متحدہ میں اسے مکمل رکنیت مل جائے گی۔