ہم اہل ایمان
ہم اہل ایمان جعلی دوائیں نہایت خشوع و خضوع سے بناتے ہیں۔
LOS ANGELES:
بفضلِ خدا ہم اہل ایمان، امت محمدیؐ، ناموس رسالتؐ پہ جان دینے والے۔ کلمہ گو مسلمان، جو بڑے خشوع و خضوع سے یہود و نصاریٰ کو برا بھلا کہنے اور ان پر تبرا بھیجنا جزو ایمان سمجھتے ہیں۔ ان میں اور ہم میں کیا فرق ہے؟ ہم اہل ایمان طمع اور حرص میں حلال و حرام کی تفریق بھلا بیٹھے ہیں۔ اپنے ہی ہم مذہبوں کو گدھوں، گھوڑوں، کتوں، مردہ گائے، بھینسوں مہلک بیماریوں میں مبتلا مرغیوں اور دیگر جانوروں کا گوشت کھلے عام فروخت کرتے ہیں کہ اس مذموم کاروبار میں متعلقہ اداروں کے افسران اور اہل کاروں کے علاوہ خیر سے ہمارا پولیس کا محکمہ تو ہمیشہ ہی سے جرائم پیشہ لوگوں کی بڑے پیمانے پر سرپرستی کر رہا ہے اور آیندہ بھی کرتا رہے گا۔ ہم اہل ایمان جو پنج وقتہ نمازی بھی ہیں، تسبیح کی گردان بھی سرعام اور کھلے بندوں کرتے ہیں، لیکن سڑے ہوئے گندے انڈوں سے بیکری مصنوعات تیار کر کے، خوشنما پیکنگ میں مہنگے داموں بیچتے ہیں۔
ہم اہل ایمان جعلی دوائیں نہایت خشوع و خضوع سے بناتے ہیں۔ کوئی دن نہیں جاتا جب ہم یہودیوں اور عیسائیوں پر الزامات کی بارش نہ کریں۔ کیونکہ ہمارے سینے ایمان کی روشنی سے منور ہیں۔ لیکن عملاً ہم گاڑیوں سے لوگوں کو کچلتے ہوئے اپنی جان بچا کر فرار ہونا ہی اصل اسلام سمجھتے ہیں۔ زخمیوں کو امداد دینے یا اسپتال تک پہنچانے کے بجائے مجمع لگا کر تماشا دیکھنا زیادہ ضروری سمجھتے ہیں۔ ہم مسیحا کے بھیس میں دراصل قصاب ہیں جو ہر ممکن طریقے سے مریض کی کھال کھینچنا جزو ایمان گردانتے ہیں۔
جو فارما سیوٹیکل کمپنی جعلی دواؤں کی ترسیل کے عوض ان بھیڑیے نما مسیحاؤں کو منہ مانگی رشوت، گاڑی، بیرونی دوروں کی سہولت اور۔۔۔ اور بہت کچھ عیاشیوں کے لیے فراہم کرتی ہے۔ ان کی دوائیں یہ مسیحا دھڑا دھڑ نسخوں میں تجویز کرتے ہیں اور خوش رہتے ہیں۔ ہمارے پولیس افسران اور دیگر خفیہ حساس اداروں کے بڑے لوگ کرپشن کے سمندر کے مگرمچھوں اور شارک مچھلیوں کو وفاقی وزرا اور صاحب حیثیت بڑے لوگوں کی مرضی و منشا سے بیرون ملک بھگا دیتے ہیں اور ان کے چھوٹے چھوٹے کارندوں کو محض خانہ پری کے لیے گرفتار کر کے میڈیا پہ چہرہ نمائی بھی کروا دیتے ہیں۔ کیونکہ ہم صاحب ایمان ہیں، کلمہ گو ہیں۔
اور وہ جنھیں ہم غاصب کہتے ہیں، یعنی یہودی اور عیسائی۔ وہاں ایک مرغی اگر سڑک پر بے قابو ہو کر نکل جاتی ہے تو باضمیر لوگ گاڑیاں روک لیتے ہیں۔ پولیس اہل کار اسے جب قابو کر لیتے ہیں تب باشعور شہری گاڑیاں آگے بڑھاتے ہیں۔ یہاں فراٹے بھرتی گاڑیاں لوگوں کو کیڑے مکوڑوں کی طرح روندتی چلی جاتی ہیں۔ وہاں ایک بلی روشن دان میں پھنس جاتی ہے تو فائربریگیڈ کا عملہ اسے بحفاظت اتارنے میں پوری توانائی صرف کر دیتا ہے اور یہاں مظلوم اور بے کس لوگ ناقص تعمیر اور کمزور لفٹوں سے گر کر اور پھنس کر مر جاتے ہیں۔ صرف میڈیا اس کی رپورٹ کر کے اپنی ریٹنگ بڑھاتا ہے۔
وہاں مقررہ تاریخ گزر جانے کے بعد تمام غذائی اشیا بشمول، مکھن، دودھ، مارجرین، کیک، بسکٹ، گرائپ واٹر، دوائیں، انجکشن اور فروزن فوڈ سمیت سب کچھ نہایت ایمانداری سے تلف کر دیا جاتا ہے کہ وہ باضمیر اور باشعور قوم ہیں۔ ان کے حاکم صدر، وزیر اعظم اور دیگر وزرا اور جج صاحبان ریٹائرمنٹ کے بعد عام پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرتے ہیں۔ ان کے بچے بھی عام بچوں کے ساتھ پبلک اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔ ٹیوب میں سفر کرتے ہیں۔ اخبار خرید کر پڑھتے ہیں اور عوام کو عدالت میں جانے کے خوف سے اپنا احتساب خود کرتے ہیں کہ وہ قوم کے خادم ہیں۔
ہم مسلمان ہیں لیکن اسلام یورپ اور امریکا میں نافذ ہے۔ ہم صرف زبانی جمع خرچ کرتے ہیں۔ دھواں دھار تقریریں کرتے ہیں۔ وہ اسپتال، اسکول اور لائبریریاں بناتے ہیں۔ انھوں نے لاؤڈ اسپیکر ایجاد کیا تا کہ مقرر کی آواز پبلک تک پہنچ سکے۔ ہم نے پہلے اسے حرام قرار دیا، پھر مسجدوں میں نہایت زور دار آوازوں میں ان پر دوسرے مذاہب اور کمیونٹی کے لوگوں کو برا بھلا کہنے کا فرض انجام دیا۔ انھوں نے موبائل فون ایجاد کیا، انٹرنیٹ اور کمپیوٹر بنائے، wi-fi بنائے اور ہم نے انھیں صرف سائبر کرائم کے لیے استعمال کیا۔ انھوں نے پولیو کے ٹیکے ایجاد کیے اور ہم نے پولیو زدہ نسلیں پیدا کیں۔
انھوں نے ماحولیاتی آلودگی سے پیدا ہونے والے نقصانات سے آگاہ کیا۔ شجرکاری کو بڑھایا۔ ہم نے جنگل کاٹ کر سیمنٹ کے جنگل آباد کر لیے۔ نایاب نسل کے پرندوں اور جانوروں کی بقا کے بجائے اپنے علاقے کے حکمرانوں کی مرضی و منشا سے طشتری میں رکھ کر ان صحرائی بدوؤں کی خدمت میں پیش کر دیے جو ہر سال یہاں آ کر تیتر، تلیر کا عقاب اور شِکروں کے ذریعے شکار کرتے ہیں۔ تا کہ ہم پاکستانیوں کو بہت کچھ ملتا رہے۔
چاہے ملک صحرا میں تبدیل ہو جائے لیکن صحرائی مہمانوں کی ضیافتوں میں کمی نہ آئے کہ حکمرانوں کے برے وقت میں ان کے محلات پیشگی بک کر دیے گئے ہیں۔ شاہی مہمان بنو۔ مسجد نبویؐ میں عبادت کرو۔ شعبان اور رمضان میں مقامات مقدسہ کے مخصوص دروازے کھلواؤ، دنیا کو دکھانے کے لیے رقت آمیز انداز میں دعائیں مانگو کہ میڈیا تو تمہارا ملازم ہے ہی، اور واپس آ کر اپنے عزیز رشتے داروں کو کرپشن کے سمندر میں تیرنے کے اور گوہر نایاب حاصل کرنے کے نئے نئے گر بتاؤ۔ بلڈر مافیا کو تحفظ دو۔ اور بیس بیس سالوں سے اپنی دکان اور فلیٹ کے قبضے کے منتظر لوگوں کی شکایت سننے کے بجائے بلڈر مافیا کے حصے دار بن جاؤ۔
اپنے اپنے محلات بناؤ، زندگیوں ہی میں اپنے شاندار مقبرے بنواؤ اور فرعون مصر کی طرح ملک کی تمام دولت ان مقبروں میں چھپا دو۔ لوگوں پہ جینا حرام کر دو۔ دودھ فروش، قصاب، شوگر اور فلور ملوں کے مالکان کے آگے سر بسجود ہو جاؤ۔ جس ملک میں دودھ، دہی بیچنے والے ڈیری فارمرز، قصائی اور پرچون فروشوں پہ کسی حکومت کا زور نہ چل سکے اسے کیا کہیں گے؟
کچھ نہیں۔ بس ہم پر حکومت کرنیوالے، دانت نکوس کر عیارانہ مسکراہٹ والے، کروڑوں کی گھڑیاں ہاتھوں پہ باندھنے والے، اقتدار کے لیے باپ بھائی بیوی اور بیٹے کو قتل کروانیوالے۔ ہیں تو اہل ایمان۔ کہ ان کا نام اسلامی ہے اور کرتوت؟ کون نہیں جانتا۔ اور یہ صحافی، یہ کالم نگار، یہ تجزیہ کار یہ سب صاحب ایمان اور کلمہ گو۔ لیکن جھوٹ اور خوشامد کے دیوتا کے چرنوں میں بیٹھنا ہی انھیں راس آتا ہے۔ انسداد پولیو کی مہم میں اپنی دولت مختص کرنے والا۔ اور مدر ٹریسا جیسی عظیم ہستی کا تعلق کس مذہب سے ہے؟ ہمارے جید علما کی نظر میں وہ ہرگز اہل ایمان نہیں۔