ہم دشمن سے طاقتور ہیں
ایک بات تو یہ ہے کہ 1965ء میں بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تھا جو نتیجہ نکلا وہ سب کو معلوم ہے
مستند مُسلم دشمن بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ملک سے جو بھی پاکستان آتا ہے یا پاکستان کا ذکر کرتا ہے تو ان دنوں وہ ایک بات خاص طور پر ضرور دہراتا ہے کہ بھارت پاکستان پر حملہ نہیں کرے گا۔
ایک بات تو یہ ہے کہ 1965ء میں بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تھا جو نتیجہ نکلا وہ سب کو معلوم ہے۔ دوسرے بھارتی وزیر اعظم جب ایک بھارتی صوبے کے وزیر اعلیٰ تھے تو انھوں نے اس صوبے میں مسلمانوں کے قتل عام کو رائج کیا تھا اس کے بدلے اس صوبے کی وزارت کے بعد وہ معاً بھارت کے وزیر اعظم بن گئے تو ہر مسلمان کے دل میں معاً یہ احساس جاگ اٹھا کہ مسلمانوں کا ایک قاتل اب پورے بھارت کا حکمران بن گیا ہے اور اب بھارت سمیت اس خطے میں آباد مسلمانوں کی خیر نہیں۔ پاکستان کے حکمرانوں کو بھی ایسے ہی اندیشے لاحق تھے چنانچہ پاکستان نے دفاعی جنگ کی بھر پور تیاری کر لی۔
فوجی چھاؤنیوں اور جنگ کے دوران فوجی جھمگٹوں کو ختم کرنے کے لیے پاکستان نے چھوٹے ایٹم بم بھی تیار کر لیے جو ایک محدود علاقے میں تباہی مچاتے ہیں اور محدود مقاصد حاصل کرتے ہیں۔ بھارت پر پاکستان کی تیاری واضح ہو گئی اور جنگ کی صورت میں اس کی تباہی بھی واضح ہو گئی۔
چنانچہ بھارت کے معمولی سوجھ بوجھ والے باشندے بھی یہ بات سمجھ گئے کہ اب 1965ء کی طرح پاکستان پر چڑھ دوڑنے کا زمانہ گزر گیا اور بھارتی فوجوں کے 'فاتح، جرنیل کی یہ خواہش پاگل پن کی خواہش بن گئی کہ وہ فتح کے جشن میں لاہور جمخانے میں 'آدھا' چڑھائے گا۔ پاکستان کی جنگی تیاریوں اور پاکستانی فوج کی عالی شان تربیت نے بھارتیوں پر پاکستان کے خلاف جنگ کے شوق کو ادھ موا کر دیا اور خود بھارتی وزیر اعظم بھی سنبھل گیا اور اس کی خام خیالی ہوا ہو گئی مگر دل کی آگ زندہ رہی۔
بھارتی وزیر اعظم نے گزشتہ دنوں بڑے فخر کے ساتھ بتایا کہ 1971ء کی جنگ اور بنگلہ دیش کے قیام میں اس نے ایک بھارتی رضا کار کی حیثیت سے عملاً حصہ لیا تھا اور دشمن کو دو ٹکڑوں میں باٹنے کے کارنامے کا ایک تمغہ اس کی واسکٹ پر بھی لہرا رہا ہے۔ اپنے اس کارنامے کو دہرانے میں اسے جو لذت مل رہی تھی وہ ہر پاکستانی محسوس کر رہا تھا اور یہ بات بھی پاکستانی ذہنوں میں تھی کہ بھارتی وزیر اعظم اپنے اس کارنامے کو دہرانے کے انتظار میں ہیں۔
مسٹر نریندر مودی کا ذہن ہم پاکستانیوں کے سامنے بالکل واضح تھا۔ سقوط ڈھاکہ کا صدمہ ہمارے لیے ناقابل برداشت ہے اور اس سانحے کے کردار بھی ہمیں برداشت نہیں ہیں۔ لاہور جمخانے کے کارڈ روم میں جہاں موجودہ آرمی چیف کے والد ماجد میجر شریف باقاعدہ بیٹھتے تھے انھوں نے ایک دن کارڈ روم میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا کہ ڈھاکہ کے سانحے کا کربناک کردار جنرل نیازی وہاں بیٹھا ہے۔ اس ریٹائر میجر کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ ایک نشان حیدر میجر شبیر شریف کے والد نے گرج کر کہا کہ ایک بزدل غدار جو یہاں بیٹھا ہے اگر فوراً باہر نکل نہ گیا تو میں اسے گولی مار دوں گا۔ چنانچہ جنرل نیازی فوراً ہی اٹھ کر باہر چلا گیا۔
سقوط ڈھاکہ تو ہمارے چند غداروں کی وجہ سے ہو گیا اور حالات کی ستم ظریفی ملاحظہ کیجیے کہ ان غداروں میں چند ایک ہمارے حکمران بھی بن گئے اور یحییٰ خان کے نمبر دو ساتھی کی اولاد ان دنوں اچانک پاکستان کی سیاسی پارٹیوں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہو گئی ہے اور سقوط ڈھاکہ اب کتابوں اور اخباروں میں ہی ایک سانحہ بن کر زندہ ہے۔
بھارت کے وزیر اعظم اسی سقوط ڈھاکہ میں حصہ لینے پر فخر کر رہے ہیں اور ان کے دل میں یقینا یہ حسرت زندہ ہو گی کہ انھیں باقی ماندہ پاکستان کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کرنے کا موقع کب ملے گا۔ چنانچہ پاکستان پر حملے کی خواہش جو ان کے دل میں تھی ان کی زبان پر بھی آتی رہی اور بھارت کے اس بلند ترین منصب پر پہنچنے کے باوجود انھوں نے اسے دل میں دبا کر نہیں رکھا، کسی نہ کسی صورت میں ظاہر کر دیا۔ بھارت کے ووٹروں نے انھیں اسی پاکستان اور مسلم دشمنی کی وجہ سے ووٹ دے کر اس اونچے مسند تک پہنچا دیا۔ اس لیے پاکستانیوں کو ہر دم خبردار رہنا چاہیے کہ ان کا پیدائشی دشمن نہ صرف زندہ ہے بلکہ اپنے عزائم پورے کرنے کے لیے بے تاب بھی ہے۔
ہمیں اس شخص کو کبھی ایک لمحہ کے لیے بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے جس نے بم کے مخالف بااثر پاکستانیوں کو کامیاب نہیں ہونے دیا اور ایٹم بم بنا کر قوم کے سپرد کر دیا۔ وہ جب یہ کام کر رہے تھے تو اخرجات کے لیے جو فائل اوپر بھیجتے وہ کافی تاخیر کے بعد کسی اعتراض کے ساتھ واپس آ جاتی۔ چنانچہ تنگ آ کر بھٹو صاحب کے پاس گئے کہ افسر شاہی مجھے کام نہیں کرنے دیتی مجھے واپسی کی اجازت دیجیے۔
بھٹو صاحب نے سیکریٹری خزانہ جناب غلام اسحق خان کو بلایا اور ان سے کہا کہ ڈاکٹر صاحب کی طرف سے جو مطالبہ بھی کیا جائے وہ پورا کیا جائے۔ چنانچہ غلام اسحق خان نے ڈاکٹر صاحب کو کبھی ضرورت مند نہیں رہنے دیا۔ انھوں نے جتنی رقم بھی مانگی وہ دے دی گئی اور وزیر اعظم کے کھاتے میں ڈال دی گئی۔ اس طرح دنیا بھر کی مخالفت کے باوجود پاکستان نے ایٹم بم بنا لیا۔ ہم اسی بم کے نشے میں بھارت کو للکار رہے ہیں اور بھارتی کہہ رہے ہیں کہ بھارت پاکستان پر حملہ نہیں کرے گا۔ ہماری فوج کے بقول بھارت یہ شوق بھی پورا کر لے اور پھر تماشا بھی دیکھ لے۔
یہ بات تو عام ہو چکی ہے کہ غیر ملک میں مقیم ڈاکٹر صاحب نے جب یہ جان لیا کہ وہ بم بنا سکتے ہیں تو انھوں نے بھٹو صاحب کو خط لکھا جو ان تک پہنچ بھی گیا۔ انھیں بلایا گیا اور جب تسلی ہو گئی تو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو اس کام پر لگا دیا گیا۔ خدا نے کامیابی دے دی اور ڈاکٹر صاحب نے ایٹمی توانائی کے جدید ترین طریقے اختیار کیے اور جو بم بنایا وہ اب تک بھارت سے بہت ہی بہتر ہے۔ اسی طرح ہماری میزائل کی سائنس بھی بھارت سے برتر ہے۔
چنانچہ ہم بم اور میزائل دونوں میں اونچے درجے پر ہیں اور ہماری سپاہ کا تو دنیا بھر میں جواب ہی نہیں۔ ہمارے سپہ سالار نے اپنی مختصر تقریر میں بات صاف کر دی ہے اور دنیا کو بتا دیا ہے کہ پاکستان ایک بڑی فوجی طاقت ہے۔ دنیا بھر میں لاجواب۔ پھر جہاں تک ہمارے سپاہی کا تعلق ہے وہ کسی جنگ کا نہیں جہاد کا سپاہی ہے جس میں زندگی اور موت دونوں ابدی حقیقت بن جاتی ہیں۔ ہمارا سپاہی لاجواب ہمارا بم اور اسلحہ لاجواب، ہمارے فوجی سپہ لار لاجواب۔
اللہ سب کو سلامت اور ایمان کے ساتھ رکھے۔