صرف عائشہ ممتاز ہی کیوں
مضر صحت اشیا کے ہاتھوں بیمار ہونے والے افراد جب دواؤں میں پناہ ڈھونڈتے ہیں
ملک میں عمومی دہشت گردی کے ساتھ ساتھ مذہبی و سیاسی انتہا پسندی، سماجی و معاشی تخریب کاری، انسانی و اخلاقی ابتری نے بحیثیت مجموعی پاکستانی قوم کا پہلے ہی شیرازہ بکھیر رکھا ہے اور اب غذائی دہشت گردی کی لعنت نے بھی صحت عامہ پر خودکش حملے شروع کر دیے ہیں۔
ملک بھر میں سرکاری و نجی اسپتالوں اور دوا خانوں پر مریضوں کے میلے دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے پاکستان میں کوئی خطرناک وبا پھوٹ پڑی ہے اور گھروں کے گھر طاعون زدہ ہو گئے ہیں۔ شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو گا جس میں کوئی مریض نہ ہو بلکہ یوں کہئے کہ شاذو نادر ہی کوئی خوش نصیب گھرانہ ہو گا جسکا کوئی ایک فرد مکمل طور پر تندرست ہو۔ حکمرانوں کی مجرمانہ غفلت کے نتیجے میں پینے کے ناقص پانی اور غیر صحت بخش غذائی اجناس کے سبب ہر چوتھے سے دسواں پاکستانی ہپاٹائٹس، شوگر، کینسر اور معدے کے عارضوں میں مبتلا ہے، رہی سہی کسر ملاوٹ مافیا نے پوری کر دی ہے جو نمک، مرچ سے لے کر خور و نوش کی ہمہ نوع اشیا میں قبیح حد تک آمیزش کر کے عوام الناس کی جانوں سے کھیل رہا ہے۔
اس پر ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ مضر صحت اشیا کے ہاتھوں بیمار ہونے والے افراد جب دواؤں میں پناہ ڈھونڈتے ہیں تو ادویات بھی ان پر اثر نہیں کرتیں کیونکہ ان میں بھی ملاوٹ ہوتی ہے، جعلی ادویات روگیوں کو صحت یاب کرنے کے بجائے الٹا انہیں موت کے منہ دھکیل رہی ہیں، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ غذائی دہشت گردوں اور طبی قصابوں نے مکروہ گٹھ جوڑ کر رکھا ہے جن کی نظر میں انسانی زندگی کی کوئی قدر و قیمت نہیں، ان کا مطمع نظر صرف اور صرف پیسے کا حصول ہے۔
المیہ تو یہ ہے کہ یہ ہوسِ زر کے پجاری پاکستان کے مستقبل سے کھیل رہے ہیں اور ان کے ہاتھوں حکومت اور اس کے ذمے دار ادارے یرغمال بنے ہوئے ہیں۔ عبرتناک سزائیں نہ ہونے اور موجود قوانین پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے ان موت کے سوداگروں کے حوصلے پست ہونے کی بجائے مزید بلند ہو رہے ہیں اور اب تو ماس منڈیوں میں گدھے، گھوڑے اور کتے کا گوشت مردار گوشت میں مدغم کر کے فروخت کیا جا رہا ہے جسے باربی کیو اور سستے ڈھابوں پر مرغن او مصالحہ دار بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
گزشتہ دنوں ایک رونگٹے کھڑے کر دینے والی خبر سامنے آئی کہ گدھے نایاب ہونے کی وجہ سے حرام جانوروں کے تاجروں نے واہگہ کے راستے خنزیر کا گوشت اسمگل کرنا شروع کر دیا ہے اور امرتسر کی سؤر منڈی میں آج کل اسی وجہ سے پوکر کی ایکسپورٹ زوروں پر ہے۔ بے حسی کی یہ آخری حد ہے ، اس سے آگے تمام سوچوں کے دَر بند ہوجاتے ہیں۔ اگر گدھوں کی کھالیں اُتارنے والوں کو سنگین سزائیں دی جاتیں تو آج وہ ...اُودھے... کا ماس مسلمانوں کو نہ کھلا رہے ہوتے۔
ابھی تھوڑا ہی عرصہ ہوا سپریم کورٹ میں مرغیوں کی خوراک میں سؤر کی چربی کی ملاوٹ کا مقدمہ بھی پیش ہوا تھا جس میں عدالت نے تمام ملاوٹ شدہ خوراک تلف کرنے کا حکم دیا تھا، اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ مرغیوں کی خوراک درآمد کرنیوالی 14 کمپنیوں کے ملاوٹ شدہ خوراک کے 150 کنٹینر کراچی میں پکڑے گئے تھے جن میں سے زیادہ تر کنٹینرز کو ڈی پورٹ کر دیا گیا، جان بوجھ کر ایسی خوراک درآمد کرنا سنگین جرم اور قابل سزا اقدام ہے جسکے پیش نظر پولٹری فیڈ میں سؤر کے گوشت کے اجزاء کی ملاوٹ ثابت ہونے پر پولٹری فیڈ درآمد کرنیوالی 14 کمپنیوں پر جرمانہ عائد کیا گیا تھا۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایک مسلمان ملک میں ایسے پلید جانور کا لحمیاتی روغن مرغیوں کی خوراک میں ملا کر برآمد و درآمد کرنا جسے اسلام میں سخت ممنوع قرار دیا گیا ہے، ایک چھوٹا سا جرم ہے، کیا دنیا کا کوئی مذہب کسی بھی لحاظ سے یہ اجازت دیتا ہے کہ جو چیز دوسرے مذہب میں حرام قرار دی گئی ہو اسے دھوکہ دہی سے اس کے ماننے والوں کو کھلایا یا پلایا جائے؟ اس کی مثال تو وہی ہے کہ ہندوؤں کو فریب نظر کر کے ان کی بھوجن وستوؤں میں گاؤ ماتا کے اجزائے لحمیہ حلول کر دیے جائیں۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ایسے غیر مذہبی، شیطانی اور غیر انسانی فعل پر محض جرمانہ عائد کر دینا یا زیادہ سے زیادہ کمپنیوں کو بلیک لسٹ کر دینا ناکافی ہی نہیں بلکہ ایک مسلم معاشرے کے ساتھ مذاق بھی ہے۔ اگر سعودی عرب جیسے دوست اسلامی ملک میں منشیات اسمگلنگ کے جرم میں پاکستانی شہریوں کی گردنیں ماری جا سکتی ہیں تو کیا منشیات سے بھی بڑے جرم میں غیرملکی کمپنیوں کے چند غیر مذہبوں یا مقامی ایجنسیوں کے مالکان کو سزائے موت نہیں دی جا سکتی تھی؟ مرغیوں کی فیڈ میں ناپاک جانوروں کی چربی ملانے والوں کا مقدمہ اتنا عام نہیں تھا جتنا اسے تصور کر لیا گیا، ہمارے خیال میں یہ کیس سپریم کورٹ کا نہیں بلکہ شریعت کورٹ کا تھا، اگر اسے شرعی عدالت میں پیش کیا جاتا تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ اس سنگین معاملہ کے ارتکاب کنندگان سزائے موت سے بچ پاتے۔
دوسری سب سے اہم بات یہ ہے کہ مقامی مافیا کی ملی بھگت کے بغیر غیر ممالک کی کارپوریٹ کمپنیاں اپنے حرام کاروبار کو اس طرح بڑھاوا نہیں دے سکتیں۔ غور کیا جائے تو پاکستان میں باہر کی بزنس کمپنیوں کا سارا نیٹ ورک پاکستانی ہی چلا رہے ہیں، یہ وہی مافیائے اشرافیہ ہے جسکے پاس بدیسی کمپنیوں کے بڑے بڑے شیئرز ہیں۔ اس مظلوم ملک میں کالا دھندہ اور موت کا کاروبار کرنیوالے مادرپدر آزاد ہیں اور صحیح معنوں میں پاکستان ان کے لیے ایک جنت کا درجہ رکھتا ہے جہاں وہ صبح و شام خمار زدہ رہتے ہیں اور سیکڑوں، ہزاروں اور لاکھوں معصوم شہریوں کی جانیں لینے پر بھی قانون ان کا بال بیکا نہیں کر سکتا بلکہ الٹا انہیں تحفظ فراہم کرتا ہے، اسی لیے تو ان کے حوصلے بلند ہیں اور وہ دبنگ انداز میں مقامی اور ولایتی اشیائے خور و نوش کو زہرآلود بنا بنا کر بیچ رہے ہیں اور خوراک و ادویہ کی سیاہ مایا سے چاندی کے باغ اُگا رہے ہیں۔
یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا، یہ گھناؤنا کاروبار کرنیوالی اس غیر انسانی مخلوق کا حوصلہ تو تبھی بڑھ گیا تھا جب اس نے نمک میں میں چونا اور پتھر پیس کر ملایا تھا، جب اس نے لہسن کا وزن بڑھانے کے لیے اسے تیزاب میں ڈبویا تھا، جب اس نے آٹے میں میدے کی آمیزش کی تھی اور میدے میں سنگھاڑے کا پاؤڈر ملایا تھا، اس کی ہمت تو تبھی بڑھ گئی تھی جب اس نے زہریلے کیمیکل اور ڈیٹرجنٹ پاؤڈر سے دودھ بنانا شروع کیا تھا، اسے ایک غذائی دہشت گرد بننے کا تبھی موقع مل گیا تھا جب اس نے حفظانِ صحت کے اُصولوں کا قتل کرتے ہوئے خور و نوش کی ہر چیز میں زہریلے مواد اور جان لیوا کیمیائی مادوں کی ملاوٹ کی تھی۔
جس ملک میں چنے کے چھلکے پیس کر چائے کی پتی تیار کی جائے، پھر اس چھلکے پر رنگ کر کے چائے میں ملا دیا جائے وہاں بیماریاں کیوں نہ ہونگی؟ جس دیس میں مرچوں میں چوکر ملا دی جائے وہاں صحت خراب نہ ہو تو پھر کیا ہو؟ ہلدی میں میدہ اور چاول کا آٹا رنگ کر کے ڈال دیا جائے تو بیماریاں کیونکر نہ بڑھیں؟ ٹماٹروں کے بجائے آلو، کدو، اراروٹ اور رنگ ڈال کر مضر صحت کیچپ تیار کیا جائے تو لوگ کیسے صحتمند رہیں؟ دودھ میں پانی کی ملاوٹ تو عام تھی ہی، 21 ویں صدی میں ملاوٹ بھی جدیدترین طریقے سے کی جا رہی ہے، اب یورپ سے درآمدکردہ چکنائی نکال کر بنایا گیا خشک دودھ دو کلو اور ایک کلو کوکنگ آئل ملا کر اس میں 37 کلو پانی ڈال دیا جاتا ہے۔
یہ محلول دودھیا رنگ اختیار کر جاتا ہے، پھر اسے شیشے کی بوتلوں میں بھر کر دودھ کے نام پر بیچا جاتا ہے۔ گوشت کا تو ذکر ہی کیا، گوشت کا وزن بڑھانے کے لیے ذبیحہ کی شہ رگ میں پانی ڈالا جاتا ہے اور مردہ جانوروں کی چربی سے گھی تیار کیا جاتا ہے۔ ادرک کو تیزاب میں ڈبو کر صاف کرنا، نالوں کا پانی دودھ اور مشروبات میں ملانا، چمڑے کو رنگنے والے زہریلے رنگوں کوکھانے کی اشیاء میں استعمال کرنا خصوصاً بچوں کی اشیاء، گاڑیوں کے تیل کو گھی اور کھانے کے تیل میں ملانا اور ان سے پکوڑے اور سموسے تیار کرنا بھی ہمارے چھوٹے چھوٹے چھابڑا فروشوں تک کا معمول بن چکا ہے۔
منافع خوری کرنے والوں نے توسبزیوں کی ہنگامی پیداوار کے لیے بھی آکسی ٹوسن نامی انجیکشن کا استعمال معمو ل بنا لیا ہے، ماہرین کے مطابق اس طرح قدرتی طورسے سبزیوں اور پھلوں کو لائق استعمال ہونے میں تقریباً دس سے پندرہ دن لگ جاتے ہیں۔ پھلوں میں سیکرین نامی کیمیکل ڈالا جا رہا ہے جس سے پھل کا ذائقہ زیادہ میٹھاتو ہو جاتا ہے لیکن سیکرین کے استعمال سے یہ پھل صحت کے لیے انتہائی مضر ہو جاتا ہے۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ آکسی ٹوسن کا استعمال عام طور پر حمل ڈلیوری میں پریشانی کے وقت کیا جاتا ہے، اس کے علاوہ اس دوا کا کوئی استعمال معروف نہیں۔ ڈاکٹروں کی یہ بھی رائے ہے کہ آکسی ٹوسن سے تیار کی جانے والی سبزیوں سے لوگ پیٹ اور دیگر خطرناک عارضوں کا شکار ہو سکتے ہیں بلکہ کینسر تک کی بیماری لاحق ہو سکتی ہے۔
ملاوٹ کی دل خراش کہانیاں بیان کرنے کا جگر کہاں سے لائیں؟ یہاں تو بلیوں کو پلایا جانے والا امپورٹڈ جوس (وسکس) بازار میں مینگو جوس کے نام سے فروخت کیا جاتا رہا ہے، یورپی ممالک میں جو خوراک زائد المیعاد ہو جاتی ہے اسے اسکریپ کے ساتھ پاکستان درآمد کر کے یہاں اس کا لیبل تبدیل کر دیا جاتا ہے، پھر تازہ تاریخ کے ساتھ اسے مارکیٹ میں کھلے عام بیچا جاتا ہے۔ پاکستان میں فروخت ہونیوالی 40 سے 50 فیصد ادویہ بھی جعلی ہیں جن سے دل کے مریضوں سمیت ہر سال ہزاروں لوگ لقمہ اَجل بن جاتے ہیں۔ تو کیا کہئے گا کہ یہ سب رات کی تاریکی میں ہو رہا ہے؟
یہ سب کچھ دن کے اُجالے اور حکومتی عہدیداروں کی آنکھوں کے سامنے بلکہ ان کی سرپرستی میں ہوتا ہے۔ ہم کیسے تصور کر لیں کہ مسلمان اس پست اخلاقی کے مرتکب ہو سکتے ہیں، افسوسناک اَمر تو یہ ہے کہ ان لرزہ براندام جرائم میں ملوث لوگ مسلمان ہونے کے دعویدار ہیں جب کہ حقیقت میں وہ مسلمان تو کیا انسان کہلانے کے بھی حقدار نہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو مسلمانیت کا لبادہ اوڑھ کر اسلام کا تشخص مجروح کر رہے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے کبیرہ گناہوں کی پردہ پوشی کے لیے مذہبی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ ان غذائی دہشت گردوں کے روح فرسا جرائم جاری ہیں اور ان میںہر آنیوالے پہر کے ساتھ اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے کیونکہ حکومت اس سلسلے میں کوئی موثر اقدام نہیں اٹھا رہی اور بے حس تماشائی بنی ہوئی ہے۔ اس میں عدلیہ کی جانب سے مقدموں کی سماعت میں تاخیر اور سخت سزاؤں کے فقدان نے بھی بڑا کردار ادا کیا ہے۔
آج بات اگر ناپاک جانوروں تک آ پہنچی ہے تو اس میں قصور ان حکمرانوں کا ہے جنکے سفارشیوں کی ایک فون کال پر انسانیت کے ان قاتلوں کو وی آئی پی پروٹوکول کے ساتھ تھانوں سے بغیر ایف آئی آر کے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ آج بات اگر مسلمانیت کو مجروح کرنے تک آ پہنچی ہے تو اس میں قصور ان عدالتوں کا ہے جو گدھوں اور دیگر حرام جانوروں کے ساتھ ساتھ مرداروں کا گوشت بیچنے والوں کو پہلی ہی پیشی پر ضمانتوں پر رہا کر دیتی ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں ایوب خان کے علاوہ کوئی حاکم ایسا نہیں گزرا جو اجناس میں ملاوٹ کرنیوالوں، ذخیرہ اندوزںاور زہر فروشوں کو نشانِ عبرت بنا سکے۔
مَردوں کا یہ بیڑا آج جب ایک عورت نے اٹھانے کو کمر ِہمت باندھی ہے تو ہمیں اس کام کے اصل ذمے دار مرد حضرات کی مردانگی پر شرم آنے لگی ہے۔ پنجاب میں ان دنوں محکمہ خوراک کی ''بسنتی،، عائشہ ممتاز کے بڑے چرچے ہیں جن کا دبنگ ایکشن عوام میں بے حد پذیرائی حاصل کر رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ فوڈ کی ڈائریکٹر آپریشنز کے طو رپر اپنی قابلیت اور استطاعت کے مطابق حفظانِ صحت کے لیے غلاظت فروشوں کے خلاف شبانہ روز جہاد کر رہی ہیں اور بڑے بڑے ہوٹلوں، بیکریوں اور فوڈ انڈسٹریز پر ان کے مسلسل چھاپوں نے عوام الناس کی زندگیوں سے کھیلنے والوں کی راتوں کی نیندیں حرام کر کے رکھ دیں مگر ہم سمجھتے ہیں کہ محض ہوٹل اور بیکریاں سیل کر دینے یا لاکھ دو لاکھ جرمانہ عائد کر دینے سے ان کی صحت پر کچھ خاص اثر نہیں پڑنے والا جب تک کہ انہیں کڑی سے کڑی اور عبرتناک سزاؤں سے نہیں گزارا جاتا۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر عائشہ ممتاز محکمہ خوراک کی خدائی فوجدار بن کر اپنے فرضِ منصبی کا بھرم رکھنے کے لیے میدانِ عمل میں اُتری ہیں تو وہ ان کی ذاتی کاوش کا نتیجہ ہے۔ اگر شہباز شریف اتنے مردِ مجاہد ہوتے تو آج پنجاب کے ہر ادارے میں ہزاروں عائشہ ممتاز ہوتیں۔ صحیح معنوں میں تو آئیڈیل اور غیرمعمولی صلاحیتوں کی حامل افسر عائشہ ممتاز کو ڈائریکٹر آپریشنز نہیں بلکہ صحت، لائیواسٹاک اور خوارک کے محکموں کی سربراہ ہونا چاہیے تھا تا کہ وہ صوبے بھر میں اسی جذبہ کے ساتھ کریک ڈاؤن کرتیں جس جذبے کے ساتھ انھوں نے لاہور میں فوڈ مافیا کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے۔
پنجاب کے وزراء کی مایوس کن کارکردگی کا تو یہ حال ہے کہ وہ اتوار بازاروں کا معائنہ کرنے کے لیے بھی سرکاری ہیلی کاپٹر کا استعمال کرتے ہیں۔ وہ سبزی منڈیوں اور اتوار بازاروں میں صرف فوٹو سیشن کروانے جاتے ہیں اور جنھیں ایک فوٹو سیشن آلو پیاز کی قوتِ خرید نہ رکھنے والے عوام کو لاکھوں کروڑوں میں پڑتا ہے۔ اب تو حکمرانوں کے بعض طبلچی حضرات عائشہ ممتاز کی جانفشانی اور بڑھتی ہوئی شہرت سے اسقدر خائف ہیں کہ کئی بار وزیر اعلیٰ سے شکایت کر چکے ہیں کہ عائشہ ممتاز کے ہوتے ان کی دوڑدھوپ کسی کو نظر نہیں آ رہی لہٰذا جتنی جلد ممکن ہو سکے محترمہ کو کسی اور محکمہ میں ڈیپورٹ کر دیا جائے یا لاہور بدر کر دیا جائے۔
عام شہریوں کی صحت کے بارے میں وفاقی حکومت تو اس درجہ غیرسنجیدہ ہے کہ وفاق میںکل وقتی ہیلتھ منسٹر کا قلمدان خارجہ اور دفاع کی وزارتوں کی طرح تہی نشست پڑا ہے۔ وزیر مملکت برائے صحت بھی ایک ایسی خاتون کو لگایا گیا ہے جن کی اپنی صحت ہی اکثر خراب رہتی ہے۔ اکیلی عائشہ ممتاز تو پاکستان کو صحتمند نہیں بنا سکتی جس کے لیے اکیلا لاہور جیسا میٹروپولٹن شہرہی بہت بڑا چیلنج ہے جہاں فوڈ ڈیپارٹمنٹ اور میونسپلٹی کے کرپٹ ملازمین نے قصابوں اور چھابڑا فروشوں تک کے ساتھ گٹھ جوڑ کر رکھا ہے۔
اس سلسلے میں ضلعی انتظامیہ، انسدادِ ملاوٹ کمیٹیوں، ڈویژنل ٹاسک فورس، ڈسٹرکٹ ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ، ڈسٹرکٹ فوڈ انسپیکشن ٹیم، ڈسٹرکٹ فوڈ کوالٹی کنٹرول، پرائس کنٹرول کمیٹی اور دفتر ضلعی ماحولیات بھی صرف فوٹو سیشن کی حد تک ہی متحرک ہیں، عملی طور پر وہ بھی اس غلیظ نیٹ ورک کا باقاعدہ ایک حصہ ہیں۔ مضر صحت گوشت اور حلال حرام پر نظر رکھنے کے لیے محکمہ لائیو اسٹاک بھی کوئی قابل فخر کردار ادا کرتا نظر نہیں آتا۔ صرف دکھاوے کی حد تک غیر معیاری، بیمار، مردار اور حرام جانوروں کا گوشت فروخت کرنیوالوں کے خلاف صوبہ بھر میں ''کارروائیاں،، جاری ہیں تاہم یہ مکروہ دھندہ پورے زور وشور سے جاری ہے اور اس میں ملوث ناپاک درندے حسب معمول سرگرمِ عمل ہیں۔
غیر معیاری، ناقص ، ملاوٹ والی اشیاء اور حرام گوشت فروخت کرنیوالے عناصر معاشرے کا ناسور بنے ہوئے ہیں جو مثالی اور سخت ترین سزا کے حقدار ہیں مگر متعلقہ ادارے اس غلیظ کاروبار کے مکمل خاتمے کے لیے مربوط انداز میں کام نہیں کر رہے اور عوام کو حفظانِ صحت کے اُصولوں کے مطابق معیاری گوشت اور اشیائے خور و نوش کی فراہمی کی ذمے داری بطریق احسن ادا نہیں کی جا رہی، یہی وجہ ہے کہ یہ انسانیت دشمن عناصر انسانی زندگیوں کے ساتھ کھل کر کھیل رہے ہیں۔
پنجاب میں انسداد ِملاوٹ مہم کے لیے جو ٹاسک فورسز تشکیل دی گئی ہیں ان کی ذمے داری تو یہ بنتی تھی کہ وہ عوام کو حفظانِ صحت کے اُصولوں کے مطابق اشیائے خور و نوش کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے اپنا موثر کردار ادا کرتیں، عوام کی صحت سے کھیلنے والے عناصر کو قانون کے کٹہرے میں لانے کے لیے اپنی تمام تر توانائیاں بروئے کار لاتیں اور خوراک کے نام پر زہر کی تیاری و فروخت کا دھندہ بند کرواتیں مگر عملی طور پر انھوں نے آج تک کوئی ایسا قابل قدر کارنامہ سرانجام نہیں دیا جو عوام میں پذیرائی کا حامل ہو۔ کھانے پینے کے نام پر عوام کو زہرآلود اشیاء کھلانا انسانیت کے خلاف ناقابل معافی جرم ہے جسے کسی بھی مہذب معاشرے میں کسی صورت برداشت نہیں کیا جا سکتا۔
غیر معیاری اور مضر صحت اشیاء کی فروخت کرنیوالوں کے ساتھ مینو فیکچرنگ یونٹس کے مالکان کے خلاف بھی بھرپور کریک ڈاؤن کی ضرورت ہے مگر افسوس کہ عائشہ ممتاز کے علاوہ کسی بھی ادارے کا کوئی ذمے دار افسر اس جہاد کا حصہ بننے میں سنجیدہ نہیں۔ یہ تاثر بھی عام ہے کہ کچھ پس پردہ مہاکلاکاروں نے عائشہ ممتاز کی راہ میں روڑے اَٹکانا شروع کر دیے ہیں جس سے ان کی کارکردگی بری طرح متاثر ہو سکتی ہے، اگر ایسا ہوا تو یہ بات یقینی ہے کہ غذائی عدم تحفظ میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
نیشنل نیوٹریشنل سروے کے مطابق پاکستان کی 60 فیصد سے زائد آبادی غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے اور ہر سال فوڈ پوائزننگ کی وجہ سے 10 کروڑ پاکستانی بیمار ہو جاتے ہیں۔ ملاوٹ کرنیوالوں کو خدا کا خوف ہے نہ آخرت کی فکر۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گندم کے ایک ڈھیر میں ہاتھ ڈالا تو وہ نیچے سے بھیگا ہوا نکلا۔ فرمایا، ''جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں،،۔ تو حضورِ والا! جو لوگ ہم میں سے نہیں، یعنی مسلمانوں میں سے نہیں وہ خود کو کس بنیاد پر مسلمان کہتے ہیں؟ وہ کیسے پاکستانی ہیں جو پاکستانیوں کی جانیں لے رہے ہیں؟
وہ کیسے انسان ہیں جنکے ہولناک کارناموں سے انسانیت بھی شرما رہی ہے؟ وہ نہ تو مسلمان ہیں، نہ پاکستانی اور نہ ہی انسان، وہ صرف اور صرف درندے ہیں، ایسے وحشی درندے جن سے اصل درندوں کو بھی خوف آتا ہے۔ ملاوٹ کرنیوالوں اور ناجائز فروشوں کے خلاف قانون موجود ہے مگر طبیعت میں خباثت ہوتو قانون کی حیثیت ہی کیا رہ جاتی ہے۔ مردہ ضمیر لوگ چند پیسوں کے لالچ میں انسانی زندگیوں سے کھیلتے ہی چلے جا رہے ہیں اور ایسا صرف پاکستان میں ہوتا ہے، دوسرے معاشروں میں ایسی مثالیں دیکھنے کو کم ہی ملتی ہیں۔ چین میں 2008ء میں ناقص اور خطرناک دودھ کا ایک سکینڈل سامنے آیا تھا۔
تین لاکھ بچوں میں سے میلامائن اور دیگر کیمیکلز سے آلودہ دودھ سے آٹھ سو ساٹھ بچے اسپتال میں داخل ہوئے جب کہ چھ ہلاک ہو گئے جس پر حکومت نے سکینڈل کی ذمے دار کمپنی ''سنلو،، کو فوراً ملک چھوڑنے کو کہہ دیا، پھر عدالت میں مقدمہ چلایا گیا اور ذمے دار اہلکاروں کو فائرنگ اسکواڈ نے گولی مار دی، ہم حیران ہیں کہ پاکستان میں انسانی استعمال کی خوراک، کھاد اور ادویات میں ملاوٹ اور جعلی تیاری و فروخت پر قتل کی دفعہ 302 عائد کیوں نہیں کی جا سکتی، بس زیادہ سے زیادہ لائسنس منسوخ یا مجرمانہ غفلت کا مقدمہ بن سکتا ہے جس کی سزا بھی واجبی سی ہے جو پوری ہونے سے پہلے ہی مجرم کو رہائی مل جاتی ہے۔ آج جسے دیکھئے خالص پن کا رونا روتا نظر آتا ہے مگر اس دور میں نہ تو انسان خالص ہے۔
نہ اس کے رشتے اور نہ ہی اس کے کارنامے۔ کچھ عرصہ پہلے تک دیہات کے لوگوں پر رشک آتا تھا کہ وہ لوگ اچھے ہیں اور خالص غذائیں استعمال کرتے ہیں مگر اب تو دیہاتیوں کے چہروں کی لالی بھی شدھ غذائیں نہ ہونے کے کارن نقلی مہندی کے عارضی رنگ کی طرح غائب ہو چکی ہے۔ ہمارے بزرگ کہتے تھے انگریز یہاں سے چلا گیا اور دو بیماریاں یہیں چھوڑ گیا، ''ڈالڈا اور چائے،،۔ مگر آج ہمارے کاٹھے انگریزوں نے جو بیماریاں ہمیں لگا دی ہیں ان کی گنتی اور تشخیص کرنا ہمارے بس کا روگ نہیں رہا۔ ان سب ناجائز کاموں کے پیچھے کون سے مقاصد کارفرما ہیں، اسے ہر آدمی بخوبی سمجھتا ہے۔
آج دنیا جہاں ایک طرف ترقی کے سارے ریکارڈ توڑ رہی ہے، نت نئے انکشافات ہو رہے ہیں، وہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان دونوں ہاتھوں سے ناجائز دولت سمیٹنے کے لیے ہر وہ قدم اٹھانے کے لیے کوشاں ہے جس کی منزل ''حصولِ زر،، کے علاوہ کچھ نہیں۔ لمبی چوڑی کمائی کی لالچ اور انسان کی خودغرضی نے اسے اسقدر حریص بنا دیا ہے کہ وہ انسانیت کی تمام حدیں پار کر رہا ہے، شارٹ کٹ کے ذریعے امیر ترین بننے کی تمنا نے آدمی سے آدمیت کا لبادہ چھین لیا ہے۔
ظاہر ہے ملاوٹ اور نقلی اشیاء تیار کرنے کا مقصد اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ کم پونجی میں زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کیا جائے، شہریوں کی صحت اور جان کو خطرے میں ڈالنے والے ایسے خنّاث نیٹ ورک کے خلاف پاکستان میںکوئی قابل اطمینان قوانین موجود نہیں تاہم جو چند کمزور قوانین موجود ہیں ان پر بھی سنجیدگی سے عمل نہیں کیا جاتا۔ کنزیومر پروٹیکشن ایکٹ ہر صوبہ میں موجود ہے، پنجاب میں بھی صارفین کے حقوق و مفادات کے تحفظ اور غیرمعیاری اور ناقص اشیائے خور و نوش، مصنوعات اور پبلک سروسز کے متعلق شکایات کے ازالہ کے لیے کنزیومر پروٹیکشن ایکٹ 2005ء نافذالعمل ہے لیکن صارفین جب اس بارے میں شکایت اور قانونی کارروائی بھی کر تے ہیں تو انہیں مایوسی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے حالانکہ تحفظ صارفین ایکٹ شہریوں کی اصرافی شکایات کے ازالہ کے لیے ہی بنایا گیا ہے۔
تعزیراتِ پاکستان کے باب 14 میں بھی اس حوالے سے قانون سازی موجود ہے اور پیور فوڈ آرڈیننس 1960ء میں بھی سزائیں تجویز کی گئی ہیں مگر ان سزاؤں کے باوجود ملاوٹ مافیا بدستور سنگین جرائم میں ملوث ہے اور اس سلسلے میں انہیںکوئی پوچھنے والا نہیں۔ ملاوٹ اور حرام فروشی کے جو قصے ہم نے آپ کے گوش گزارے ہیں وہ اصل حقائق کا عشر عشیر بھی نہیں۔ جس طرح مقامی اور ولایتی اشیائے خور و نوش میں ناپاک چیزوں کی آمیزش کی جاتی ہے، اسے سن کر شاید لوگ کھانا پینا ہی ترک کر دیں۔ پاکستان کو اگر خطرہ ہے تو صرف اور صرف لوکل فوڈ سے ہے، یہاں یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ لوکل فوڈ کا صارف فقط متوسط اور نچلا طبقہ ہے، مصالحوں سے لے کر مٹن تک اور پانی سے لے کر دودھ تک ہر خاص وعام کی ضرورت ہے۔
خطرناک شرح سے بڑھتی آبادی کی وجہ سے اشیائے مصرفہ میں ہر سطح پر قلت آ چکی ہے جس سے فائدہ اٹھا کر تاجر اور دکاندار طبقے نے انسانیت کو بالائے طاق رکھ دیا ہے اور حرام مال بنانے کے لیے ملاوٹ اور ناجائز فروشی میں دن رات مصروف ہے، یہ سب کچھ جاننے کے باوجودبھی حکمران اور متعلقہ ادارے مجرمانہ وظالمانہ غفلت میں ناک ناک ڈوبے ہوئے ہیں۔ ایک مسلمان ملک میں لوگوں کو مردار اور حرام گوشت کھلانا اور خالص خوراک کے نام پر سرعام زہر فروخت کرنا اور غریب شہریوں کی معصوم زندگیوں سے کھلواڑ کرنا قتل، زنا، ڈکیتی اور اغوا برائے تاوان سے بڑا جرم ہے جس کی سزا موت سے کم نہیں ہونی چاہیے۔ عوام اس خوفناک مافیا کے ہاتھوں لحظہ لحظہ بیمار ہو رہے ہیں۔
لمحہ لمحہ قتل ہو رہے ہیں اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو وہ دن دُور نہیں جب پاکستانی قوم اس قسط وار موت کی بھینٹ چڑھ کر صفحۂ ہستی سے ہی معدوم ہو جائے گی۔ یہ غذائی دہشتگرد طالبان اور داعش سے بھی زیادہ خطرناک ہیں، انہیں نکیل ڈالنے کے لیے حکومت، عدلیہ، انتظامیہ اور وکلا برادری کو مل بیٹھ کر ہنگامی بنیادوں پر قانون سازی کرنے کی ضرورت ہے ورنہ پاکستان سے اسلام اور انسانیت کا جنازہ اٹھ جائے گا اور ماتم کرنے کے لیے صرف کیڑے مکوڑے رہ جائینگے۔
وکلاء کی تنظیمیں اگر یہ فیصلہ کر لیں کہ ان ظالموں، قاتلوں اور قوم کو لاغر بنانے والوں کی ضمانت یا سزا کے لیے کوئی وکالت نہیں کریگا اور عوام بھی ایسے ہوٹلوں اور دکانداروں کا سماجی بائیکاٹ کر دیں اور ایسے قبیح کام پر کڑی نظر رکھیں تو پھر کوئی بھی ایسا گھناؤنا کاروبار کرنے کی جرأت نہیں کریگا۔ ہماری رائے ہے کہ ان غذائی دہشتگردوں کو قومی ایکشن پلان کے دائرۂ کار میں لایا جائے اور فوجی عدالتوں میں ان کا سمری ٹرائل کر کے تین مہینے کے اندر اندر انہیں سرعام گولی سے اُڑائے جانے کی سزا سنائی جائے تا کہ پاکستانی شہریوں کوجنرل ٹیررازم کے ساتھ ساتھ فوڈ ٹیررازم سے بھی نجات مل سکے۔