بھارت کا سیریز کھیلنے سے انکار ’’پلان بی‘‘ آخر ہے کیا

زمبابوے کے ساتھ سال میں تیسری سیریز کا کوئی جواز نہ ہو گا، ایسے میں پاکستانی ٹیم کو فارغ بیٹھنا پڑے گا


Saleem Khaliq September 13, 2015
زمبابوے کے ساتھ سال میں تیسری سیریز کا کوئی جواز نہ ہو گا، ایسے میں پاکستانی ٹیم کو فارغ بیٹھنا پڑے گا:فوٹو : فائل

QUETTA: ''بھارتی ٹیم اگر نہیں آئی تو ہمارے پاس پلان بی موجود ہے، اس پر عمل کریں گے''

قارئین گذشتہ چند ماہ کے دوران آپ نے چیئرمین پی سی بی شہریارخان کا یہ بیان کئی بار پڑھا ہو گا، ایسے میں یہ خیال آنا بھی لازمی ہے کہ آخر یہ پلان بی ہے کیا؟ درحقیقت افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کا کوئی وجود موجود نہیں، کئی ماہ قبل جب میں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ دسمبر میں تمام ٹیمیں مصروف اور صرف بنگلہ دیش اور زمبابوے ہی فارغ ہیں تو بورڈ کو یہ بات پسند نہیں آئی تھی، مگر بعد میں سب کو حقیقت کا علم ہو گیا، اب بنگلہ دیش نے سرخ جھنڈی دکھا دی، وہ اپنی لیگ کرا رہا ہے۔

زمبابوے کے ساتھ سال میں تیسری سیریز کا کوئی جواز نہ ہو گا، ایسے میں پاکستانی ٹیم کو فارغ بیٹھنا پڑے گا، یہ بات سب جانتے ہیں کہ بھارت سے سیریز شیڈول کا اعلان ہونے کے بعد بھی آخری دن تک شکوک کی زد میں رہتی ہے، ایسے میں بورڈ کا یہ فرض تھا کہ کچھ عرصے قبل اصل پلان بی بنا کر بنگلہ دیش سے رابطہ کرتا، ان سے لیگ کی تاریخیں آگے پیچھے کرا کے سیریز کی بات کر لی جاتی تو اچھا رہتا، اب چند ماہ قبل یہ توقع رکھنا کہ وہ اپنا ایونٹ ملتوی کر کے ہم سے سیریز کھیلے گا بالکل فضول بات ہے۔

بالکل ایسا ہی پی سی بی نے یو اے ای کے ساتھ کیا، فروری میں جب اس نے اپنے گراؤنڈز ماسٹرز لیگ کے لیے دے دیے تو کہا گیا کہ ہم پی ایس ایل کرائیں گے معاہدہ ختم کر دیں، یہ کیسے ممکن ہوتا؟ اپنی کوتاہیاں چھپانے کے لیے دوسروں کو امتحان میں ڈالنا مناسب نہیں، اب جوابی کارروائی کے طور پر پی سی بی بنگلہ دیش لیگ میں شاید اپنے پلیئرز کو نہ بھیجے اس سے معاملات مزید خراب ہو سکتے ہیں، اگر ان کی ویمنز ٹیم ٹور پر آمادہ ہو جائے تو پاکستان کو بھی تعلقات کی بہتری پر توجہ دینی چاہیے، ویسے اب افسوس ہی ہوتا ہے کہ بنگلہ دیش جیسے ملک بھی ہمارے ملک کی سیکیورٹی کا جائزہ لینے کے لیے وفود بھیجتے ہیں، اب کچھ حالات میں بہتری تو آ گئی جلد مزید اچھے وقت کی بھی امید ہے۔

یہاں ایک بات اور غور طلب ہے کہ بھارت سے سیریز دسمبر اور پی ایس ایل فروری میں شیڈول ہے، اس کے باوجود شہریارخان کے سوا کسی کو پروا ہی نہیں ہے، نجم سیٹھی کے بھارت میں بڑے تعلقات ہیں انھوں نے کبھی اس حوالے سے کوئی کوشش نہیں کی البتہ لیگ میں وہ انتہائی سرگرم نظر آتے ہیں، سیریز نہ ہونے پر کیا ہوگا یہ کوئی نہیں سوچ رہا البتہ سپرلیگ سے ڈالرز لانے کے خواب سب کو دن میں بھی دکھائی دیتے ہیں، یہ اچھی بات ہے مگر ساتھ بھی ملکی کرکٹ کا بھی سوچنا چاہیے۔

میری بورڈ سے ایک اپیل ہے کہ برائے مہربانی نوجوان کھلاڑیوں کو پی ایس ایل کھیل کر روپے کمانے کے سبز باغ نہ دکھائیں، ہر ٹیم میں 2 ایمرجنگ پلیئرز کا مطلب 5 ٹیموں میں 10 ایسے کھلاڑی شامل ہوں گے، باقی یونس خان اور مصباح الحق جیسے ریٹائرڈ کھلاڑی بھی یہ موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے۔

غیرملکی کرکٹرز بھی ہوں گے، ایسے میں نوجوانوں کو شازونادر ہی چانس مل پائے گا۔ اب تک جو نام سامنے آئے ہیں اس میں ٹی ٹوئنٹی کا کوئی بڑا کرکٹر شامل نہیں، پہلے بھی کئی بار نشاندہی کر چکا کہ لیگ کے دنوں میں سوائے ویسٹ انڈیز کوئی ٹیم فارغ نہیں ہوگی، اب ایسے میں سپراسٹارز کو کیسے لایا جائے یہ بورڈ اور اس کی جانب سے مقرر کیے جانے والے ایونٹ کے سفیروں وسیم اکرم اور رمیز راجہ کے لیے بھی ایک کڑا چیلنج ہے۔

زبانی دعوے اور میڈیا کو نوٹس بھیجنے کی دھمکیاں تو خوب دی گئیں مگر آخرکار شہریارخان اور نجم سیٹھی نے تسلیم کر لیا کہ ڈومیسٹک ٹیموں کی فروخت کے لیے کمپنیز کی جانب سے اچھا رسپانس سامنے نہیں آیا،ہمارے ایونٹس کا معیار کیسا ہے سب جانتے ہیں میچز کے دوران اسٹیڈیم میں اُلو بولتے ہیں ،بڑے کھلاڑی شرکت کو توہین سمجھتے ہیں، ایسے میں کون ٹیموں پر بڑی رقم لگائے گا؟حیرت ہے مارکیٹنگ ڈیپارٹمنٹ نے پہلے یہ نہیں سوچا، امید ہے کہ سپر لیگ میں بورڈ بھاری قیمت پر ''اچھے اداروں'' کو ٹیمیں فروخت کرنے میں کامیاب ہو جائے گا، ورنہ ایک اور خواب بکھر سکتا ہے۔

گذشتہ دنوں بورڈ میں رائٹ سائزنگ کی اطلاعات سامنے آئیں مگر اب خاموشی چھائی ہوئی ہے، شہریارخان وقت سے پہلے اعلان کر کے متاثر ہونے والے لوگوں کو ''حفاظتی اقدامات'' کا موقع فراہم کر دیتے ہیں، پہلے انھوں نے پی سی بی کرکٹ کمیٹی میں سابق کھلاڑیوں کو لانے کا عوامی سطح پر اعلان کر دیا کئی ماہ گذرنے کے باوجود ایسا نہ ہو سکا، اب وہ کئی ''بااثر'' ڈائریکٹرز کی چھٹی کا کہہ چکے مگر دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے، انھیں جو کرنا ہے وہ کرگذریں بعد میں اعلان کرنا ہی مناسب رہے گا۔ اب اگر طویل عرصے سے قابض افراد سے بورڈ کو نجات دلانے کا بیڑا اٹھایا ہے تو ضرور عمل کریں، کئی چیئرمین ایسا نہ کر سکے، شہریار خان کامیاب رہے تو یہ ملکی کرکٹ پر ان کا احسان ہوگا۔

ان دنوں ون ڈے ٹیم میں یونس خان کو واپس لانے کی باتیں ہو رہی ہیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈومیسٹک ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں ان کی 2 نصف سنچریوں کو ایسا بنا کر پیش کیا جا رہا ہے جیسے ڈان بریڈمین کا کوئی ریکارڈ توڑ دیا ہو، اسی ایونٹ میں بیچارے کئی نوجوان کھلاڑی 3ففٹیز بھی بنا چکے انھیں کوئی نہیں پوچھ رہا، چیف سلیکٹر ہارون رشید کی یہ خوبی ہے کہ وہ میڈیا کے مشوروں کو اہمیت دیتے ہیں، آج کل یہ باتیں آ رہی ہیں کہ یونس کو ون ڈے میں کھلانا چاہیے تو وہ بھی ایسا کرنے کا سوچنے لگے، مگر یہ فیصلہ قطعی طور پر درست ثابت نہ ہو گا، یونس کا انداز مختصر طرز کی کرکٹ سے میل نہیں کھاتا، انھیں بے شک مزید 4 سال ٹیسٹ کرکٹ کھلائیں وہ اس کے بہترین بیٹسمین ہیں مگر ون ڈے میں اب صہیب مقصود بھی فٹ ہو چکے دیگر کئی نوجوان بھی موجود ہیں اگر آپ پیچھے کی طرٖف جائیں گے تو پھر کوئی فائدہ نہ ہو گا،یونس کپتانی کی خواہش کا بھی اظہار کر رہے ہیں پہلے کئی بار انکار کر دیا تھا۔

اب اگر انھیں ذمہ داری سونپی تو ٹیم میں مسائل ہو سکتے ہیں، کوچ وقار یونس سے ان کے تعلقات کا سب ہی کو علم ہے، ون ڈے ٹیم نے سری لنکا میں سیریز جیتی، زمبابوے آسان حریف ہے اسے بھی ہرانا مشکل نہ ہوگا، اس سیریز میں نوجوان کھلاڑیوں کو آزمائیں تو مستقبل کے لیے فائدہ ہو سکتا ہے، انگلینڈ سے سیریز میں تو کوئی تجربہ نہیں کیا جا سکتا، ابھی سلیکٹرز ہمت کر لیں تو مناسب رہے گا، اسی طرح ادائیگی حج کے فوری بعد اظہر علی اور سرفراز احمد کے لیے بھی چند روز آرام کرنا مناسب ہے، انھیں ڈرنا نہیں چاہیے ٹیم میں جگہ کو فی الحال کوئی خطرہ نہیں ہے۔

ان دنوں راولپنڈی میں قومی ٹوئنٹی 20 کرکٹ ٹورنامنٹ جاری ہے، بورڈ نے کوالٹی بڑھانے اور تعداد کم کرنے کا دعوی کیا تھا، کیسا ایونٹ ہو رہا ہے، یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، دن میں 5 میچز سے ظاہر ہے کہ تعداد کتنی کم ہوئی، لاہور کی ایک ٹیم باہر ہو گئی مجھے حیرت ہے کہ اس پر کوئی شور نہیں مچا، اگر کراچی کے ساتھ ایل سی سی اے بھی ٹیم کم کرنے پر احتجاج کرتا تو شاید بورڈ فیصلے پر عمل درآمد نہیں کرا سکتا تھا، بڑی آبادی والے شہر لاہور کی صرف ایک ٹیم ایونٹ میں شریک ہونا افسوسناک ہے، اس میں بھی آدھے سے زیادہ ٹیسٹ کرکٹرز ہیں، شہر کے نوجوان کھلاڑی اب قومی ٹورنامنٹ بھی نہیں کھیل سکیں گے تو وہ کہاں جائیں؟ ایل سی سی اے کو بھی اسٹینڈ لینا ہو گا ورنہ آگے مزید مسائل سامنے آئیں گے۔

اسی طرح سلیکٹر باسط علی نے اپنی دانست میں چالاکی کی کہ کوالیفائنگ راؤنڈ کے لیے مضبوط ترین کراچی بلوز کی ٹیم منتخب کر لی، وائٹس میں نئے کھلاڑیوں کو رکھا، اس سے شہر کی 2 ٹیمیں تو ایونٹ میں شریک ہو گئیں مگر وائٹس کی غیرمعیاری کارکردگی کئی سوال کھڑے کر گئی، سلیکشن کی غلطیوں کا ٹیم کو نقصان اٹھانا پڑا، توازن نہ ہونے سے اسکواڈ کا کھیل متاثر ہوا، بورڈ نے ڈومیسٹک نظام میں بہتری کیلے بلند و بانگ دعوے کیے مگر افسوس کہ کوئی خاص فرق پڑتا محسوس نہیں ہوتا، ہو سکتا ہے کہ آئندہ سال شکیل شیخ اینڈ کمپنی نئی فائلز ہاتھوں میں لیے اعلیٰ حکام کے سامنے کھڑی ہوکہ ''سر اب جو نیا نظام بنایا ہے اس کا جواب ہی نہیں ہوگا۔

دیکھئے گا ہماری ڈومیسٹک کرکٹ بھی انگلینڈ اور آسٹریلیا جیسی ہو جائے گی'' بورڈ آفیشلز بھی ان کی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے اسے گورننگ باڈی کے سامنے پیش کریں گے، چائے نوش کرتے ہوئے ارکان ''واہ واہ کیا پلان ہے'' کے نعرے لگا کر ربڑ اسٹیمپ ثبت کرکے گھروں کی راہ لیں گے، نقصان ملکی کرکٹ کا ہی ہوگا، افسوس ابھی اس کے بارے میں کوئی کچھ نہیں سوچ رہا۔

آخر میں کچھ بورڈ کے میڈیا ڈیپارٹمنٹ کا ذکر ہو جائے، گذشتہ دنوں ایک اعلیٰ عہدیدار نے فون پر مجھ سے کہا کہ''آپ کے بارے میں تو پی سی بی میں مشہور ہے کہ اعلان جنگ کر رکھا ہے،ہر روز ہمارے خلاف کوئی خبر یا مضمون ضرور شائع کرتے ہیں'' میں نے انھیں جواب دیاکہ ''ایسا قطعی نہیں ہے، جب کوئی اچھا کام ہوتا ہے تو داد بھی ضرور دیتے ہیں لیکن اگر بورڈ رات کو دن کہے تو اس کی ہاںمیں ہاں نہیں ملائی جا سکتی''گفتگو ختم ہونے کے بعد میں سوچنے لگا کہ '' کیا شہریارخان اور نجم سیٹھی میں اختیارات کی جنگ نہیں چل رہی؟

سپر لیگ کے دنوں میں 8 ٹیموں کے فارغ نہ ہونے کی بات غلط تھی؟کیا ایونٹ کا ملک سے باہر انعقاد درست فیصلہ ہے؟ اس طرح کی کئی باتیں میرے ذہن میں آئیں تو مجھے اطمینان ہوا کہ میں کچھ غلط نہیں کر رہا، اگر میرے مضامین یا خبریں بورڈ میں ''ڈسکس'' ہو رہی ہیں تو یہ میری کامیابی ہے، رہی بات پسند نہ کرنے کی تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، میرے لیے اہم وہ ہزاروں قارئین ہیں جو پذیرائی بخشتے ہیں۔

ان دنوں بورڈ میں مسئلہ یہ ہے کہ میڈیا اور صحافیوں میں بڑی خلیج پیدا کی جا چکی، بعض عمومی نوعیت کی خبروں کو بھی ایسے چھپایا جاتا ہے جیسے ایٹمی راز کی حفاظت ہو رہی ہو، نجم سیٹھی کانوں کے تھوڑے کچے ہیں، اردو اخبارات وہ پڑھنا پسند نہیں کرتے، البتہ بعض خوشامدی افراد انھیں ہر صبح ای میل یا واٹس ایپ کے ذریعے یہ اطلاعات ضرور پہنچا دیتے ہیں کہ آج کس نے ان کیخلاف کیا لکھا، وہ ٹویٹر پر خاصے فعال اور ویب سائٹ پر موجود صحافیوں سے قریبی رابطے میں رہتے ہیں۔

شہریارخان کا انداز الگ ہے، گذشتہ دور میں انھیں عباس زیدی مرحوم نے میڈیا سے قریب رکھا ہوا تھا، اب جو ان کے قریب لوگ ہیں وہ خود میڈیا سے دور ہیں،البتہ مجھے چیئرمین کی یہ بات بہت پسند ہے کہ لگی لپٹی نہیں رکھتے، اگر کوئی ان سے کہے کہ فلاں نے بورڈ کے بارے میں یہ بات لکھی توناراض نہیں ہوتے بلکہ الٹا پوچھتے ہیںکہ ''کیا غلط لکھا، واقعی ایسا نہیں ہے کیا؟ ہمیں اپنی اصلاح کرنی چاہیے'' ان کی پالیسی ہے کہ ''میڈیا کی تنقید کا برا نہ مناؤ ٹیم کی کارکردگی پر توجہ دو، وہ جیتی تو سب تعریف کریں گے ورنہ ہر صورت برائی حصے میں آئے گی''

جب سے کال ریکارڈز کا جائزہ لینے کی بات سامنے آئی بورڈ آفیشلز میڈیا کے ساتھ بات کرنے سے مزید کترانے لگے ہیں، میڈیا ڈپارٹمنٹ میں موجود جی ایم آغا اکبر ویسے ہی غیرفعال ہیں، ڈائریکٹر امجد بھٹی ہر وقت دستیاب نہیں ہوتے جبکہ رضا راشد کو کئی امور میں اعتماد میں ہی نہیں لیا جاتا، اس وجہ سے خبروں کا حصول جوئے شیرلانے کے مترادف ہے، بورڈ کو چاہیے کہ نوٹس بھیجنے یا شکایت کرنے کی دھمکی دینے کے بجائے صحافیوں کو اپنے ساتھ لے کر چلے،آسٹریلیا، انگلینڈ وغیرہ میں بڑی بڑی باتیں فوراً بتا دی جاتی ہیں، ہمارے یہاں چھوٹے امور کو بھی چھپایا جاتا ہے، یہ سلسلہ ختم کرنا ہوگا،اسی صورت بورڈ اور میڈیا میں موجود خلیج ختم ہوگی اور عوام تک کرکٹ کی اچھی خبریں بھی پہنچ سکیں گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں