سپریم کورٹ نفاذ اردو اور افواج پاکستان
قائد اعظم نے اس مملکت خداداد پاکستان کی یک جہتی کی دو علامتیں بتائیں ایک کلمہ طیبہ اور دوسری اردو بحیثیت قومی زبان
لاہور:
1857ء کی جنگ آزادی کو انگریز غدر یا بغاوت کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ انگریز اور اس کے حواری مؤرخین نے اسے ایک ہندوستانی قوم کی مشترکہ جنگ قرار دیا اور وہی تاریخ ہم نے کئی سال اپنی نصابی کتب میں پڑھی۔ لیکن موجودہ دور کا عظیم مؤرخ ولیم ڈارلپل نے جب لاہور میں موجود آرکائیوز میں وہ خط و کتابت اور انگریز فوجی افسران کی رپورٹیں دیکھیں تو حیران رہ گیا۔ اس کی حیرت اس بات پر تھی کہ یہ جنگ آزادی تو صرف اور صرف مسلمانوں نے لڑی تھی۔ سب سے پہلے جامع مسجد دلی کے خطیب نے انگریز کے خلاف جہاد کا فتویٰ اور اعلان جاری کیا تھا اور پھر اس اعلان کے بعد پورے برصغیر سے مسلمان جہاد اور شوق شہادت کی آرزو میں دلی پہنچنا شروع ہوگئے۔
ادھر پورے برصغیر میں موجود انگریز کی چھاؤنیوں سے بھی سپاہی ان جذبہ جہاد سے سرشار متوالوں کا مقابلہ کرنے کے لیے وہاں پہنچنا شروع ہوئے۔ لاہور کے آرکائیوز میں موجود ریکارڈ ان تمام بڑے بڑے چوہدریوں، خانوں، نوابوں، وڈیروں یہاں تک کہ مشائخ عظام اور گدی نشین پیروں کے نام اپنے کاغذات میں چھپائے بیٹھا ہے جنہوں نے چند روپے فی سپاہی کے عوض یہاں سے انگریز کو افراد فراہم کیے جو دلی میں جا کر انگریز کی فتح و نصرت کے لیے لڑے۔ دلی فتح ہوگیا، بہادر شاہ ظفر قلعے سے بھاگ کر ہمایوں کے مقبرے میں جا چھپا۔ مجاہدین قلعے میں محصور ہونے لگے تو ایک سپاہی نے بند ہوتے ہوئے دروازے میں اپنا وجود ڈال کر کھولنے کی کوشش کی۔ اس کی گردن بیچ میں آ گئی جو دو مضبوط دروازوں میں آ کر نیلی ہوگئی' لیکن انگریز فوج کو مہلت مل گئی اور وہ زور لگا کر دروازہ پیچھے دھکیلنے میں کامیاب ہو گئے اور پھر لال قلعہ دلّی پر انگریزی پرچم یونین جیک لہرا دیا گیا۔ آپ ان تمام افراد کی فہرست اٹھا کر دیکھ لیں جنھیں انگریز فوجی افسروں نے پھانسی پر لٹکایا۔
توپوں کے سامنے باندھ کر اڑا دیا گیا، آپ کو اکثریت ہی نہیں مکمل کی مکمل فہرست مسلمانوں کی ملے گی۔ ہزاروں میں سے ایک کسی دوسرے مذہب کا فرد نظر آتا ہے۔ ہندوستان تاج برطانیہ کے ماتحت آ گیا تو دو کام کیے گئے۔ پہلا یہ کہ وفاداری نبھانے والوں کو انعامات اور القابات دیے گئے۔ یہ فہرست بھی ان تمام افراد کے نام بتاتی ہے جنہوں نے KB.E، O.B.E اور سر کے خطاب حاصل کیے۔ یہ سب کے سب اسی زمین کے بیٹے تھے اور ان میں سے اکثریت کی اولاد آج پاکستان کی سیاست کے تخت پر جلوہ گر ہے۔ جس سپاہی نے قلعے کے دروازے میں گردن دی تھی وہ فرنٹیئر فورس رجمنٹ کا تھا، اس کے اعزاز میں اس کی یونٹ کو کہا گیا کہ وہ اپنے کالروں میں نیلی پٹی لگایا کریں۔ دوسرا کام یہ کیا گیا کہ ایک انکوائری کمیشن بٹھایا گیا جو اس بات کی تحقیق کرے کہ برصغیر میں تقریباً ایک سو سال سے انگریزی فتوحات جاری ہیں۔ جہاں جہاں انگریز نے اپنی حکومت قائم کی وہاں بغاوت کا تصور تک نہ تھا۔ رعایا پر امن تھی۔ پھر یہ اچانک آگ کیسے بھڑک اٹھی۔
کمیشن کی رپورٹ تین بڑی بڑی جلدوں میں مرتب کی گئی ہے جسے ''انڈیا میوٹنی رپورٹ'' کہا جاتا ہے۔ اس میں بغاوت کے بہت سے اسباب بتائے گئے' لیکن چند بڑے اسباب میں ایک یہ تھا کہ انگریز افسران اور عام ہندوستانی سپاہیوں کے درمیان زبان کے فرق نے ایک ایسی خلیج قائم کر دی تھی جس سے انھیں ہمیشہ یہ احساس ہوتا رہا کہ ہم کسی غیر ملکی کے تسلط میں ہیں۔ اس کو مزید ہوا ایک غیر مذہب کے عیسائی انگریز حکمران کے تصور نے دی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سپاہیوں اور انگریز حاکموں کے بیچ میں کوئی مقامی آفیسر ایسا نہ تھا جو ان کا ہم قوم ہوتا، ان کی زبان بولتا، لیکن ہمارا وفادار ہوتا اور ہمارے لیے فوج میں ڈسپلن قائم کرتا۔ اس کے بعد دو بہت بڑے اقدام کیے گئے۔ ایک یہ کہ سول سروس اور فوج میں مقامی افسران کو بھرتی کیا جانے لگا۔
فوج میں کمیشن اور سول سروس میں امتحانات۔ دوسری اہم بات یہ ہوئی کہ انگریز نے جو بھی قوانین بنائے فوراً ان کا اردو میں ترجمہ کر دیا گیا۔ اس اہم ترین ذمے داری کو ڈپٹی نذیر احمد نے نبھایا۔ یوں ضابطۂ فوجداری، ضابطۂ دیوانی، تعزیرات ہند، قانون معاملات زمین وغیرہ تمام دفاتر میں مہیا کر دیے گئے۔ چھوٹی سے چھوٹی عدالت میں بھی عرضی نویس کے لائسنس جاری کیے گئے جو عدالتوں کے باہر درخواستیں لکھ کر دیتے تھے جو اردو زبان میں ہوتیں۔ یہ عرضی نویس عموماً وکیلوں کے برابر قانون جانتے تھے اور وہ درخواستوں کو قانونی حوالوں سے اس طرح بہترین بناتے کہ عدالت میں بیٹھے مجسٹریٹ یا جج کو فیصلہ کرنے میں آسانی ہوتی۔ تمام سول افسران کو علاقائی زبان سیکھنے پر علیحدہ وظیفہ دیا جانے لگا اور ان کی کارکردگی میں شمار کی جانے والی صلاحیت بن گئی۔
دوسری جانب فوج چونکہ انگریز کی حکمران فوج تھی۔ اس لیے اس کے مقامی افسران کو معاشرتی، تہذیبی اور رہن سہن کے اعتبار سے مکمل طور پر انگریز افسران کے ہم پلہ بنایا گیا۔ ان کی گھریلو زندگی سے لے کر آفیسرز میس اور کلبوں تک سب کا سب ایسا علاقائی زبان کا علم بنا دیا گیا جیسے ایڈنبیرا کی چھاؤنی ہو یا سینڈھرسٹ کا آرمی کالج۔ یونیفارم سے لاؤنج سوٹ، گھڑ سواری کا لباس، گالف کا کھیل اور میس کے آداب' یہ سب کا سب انگریز تہذیب کی علامتیں تھیں۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ انگریزی کو فوجی زبان کے طور پر مستعمل کر دیا گیا۔ غلط بولو، صحیح بولو لیکن انگریزی بولو تا کہ تم عام سویلین سے الگ نظر آؤ۔ اسی انگریزی تہذیب و ثقافت کا اثر تھا کہ پورے ہندوستان کی افواج میں مسلمان، ہندو، سکھ اور عیسائی کا فرق مٹ گیا۔
یہی وجہ ہے کہ جب پاکستان بن رہا تھا تو مسلمان فوجی افسران کے نمایندہ وفد نے جنرل کری اپا کے ہمراہ قائد اعظم سے ملاقات کی اور کہا کہ ملک تقسیم کر لو لیکن فوج تقسیم نہ کرو ورنہ تم بدامنی اور بدانتظامی کے اندھیروں میں ڈوب جاؤ گے۔ لیکن قائداعظم نے دو ٹوک جواب دیتے ہوئے کہا۔ اگر فوج تقسیم نہ کی گئی تو وہ حلف نہیں اٹھائیں گے۔ اس لیے کہ ان کو علم تھا کہ یہ ایک نظریاتی ملک ہے اور اس کی فوج بھی ایک نظریاتی فوج ہونا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ قائد اعظم نے اس مملکت خداداد پاکستان کی یک جہتی کی دو علامتیں بتائیں ایک کلمہ طیبہ اور دوسری اردو بحیثیت قومی زبان۔
اردو سول عدالتوں اور ڈپٹی کمشنروں کے دفاتر میں تو انگریز کے زمانے سے نافذ رہی اور ہر دفتر میں باقاعدہ ورنیکلر کے نام پر ایک علیحدہ شعبہ تھا۔ واحد ریاستی ذریعہ آمدن مالیہ و آبیانہ تھا۔ اس کا تمام ریکارڈ اردو میں تھا۔ مقامی سطح پر تمام کاروبار اردو میں ہوتا تھا۔ لیکن فوج میں انگریزی ہی کو اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا گیا۔ لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ پاکستان بننے کے بعد ملٹری اکیڈمی کے پہلے انگریز کمانڈنٹ فرانسس ایچ بی اینگل نے یہ احساس کیا کہ یہ فوج اس وقت تک ایک قومی فوج نہیں بن سکتی جب تک اسے اسلامی اصولوں پر استوار نہ کیا جائے۔ ورنہ اس میں اور بھارت کی فوج میں کوئی فرق نہ ہو گا' اس نے کہا کہ جب تک اس فوج میں ایک ''روحانی جذبہ'' نہ ہو گا۔ یہ قربانی کے لیے تیار نہ ہو گی۔ اس نے ''قائد اعظم اون'' کے نام سے کیڈٹ بٹالین بنائی۔ علمائے کرام کے فتوے سے ایک موٹو ترتیب دیا جو ''نصر من اللہ و فتح قریب'' تھا۔ اسی نے اکیڈیمی میگزین کا نام مسلم امہ کے حوالے سے ''Rising Crescent'' ابھرتا ہوا ہلال رکھا۔ اس نے پہلی دفعہ رمضان میں آفیسرز میس بند رکھنے کا اعلان کیا۔ وہ خود سگریٹ پیتا تھا لیکن رمضان کے دوران تمام عملے کو سگریٹ سے منع کیا گیا۔
ایک فرض شناس ماتحت کے طور پر اس نے پاکستان کی فوج کو انھی اصولوں پر منظم کرنے کی کوشش کی جس کے لیے یہ ملک بنا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم وہ بدنصیب قوم ہیں کہ جس کے رہنماؤں نے محکومیت کے احساس کمتری کو اٹھاتے ہوئے آہستہ آہستہ سول محکموں سے اردو کی چھٹی کروا دی۔ دوسری جانب فوج میں تو انگریزی تہذیب اور زبان پلتی بڑھتی اور جواں ہوتی رہی۔ یحییٰ خان کے زمانے میں پریڈ کی آوازوں کو چپ راس وغیرہ میں تبدیل کیا گیا۔ ضیاء الحق نے کھانے کے شروع میں جینٹل مین بسم اللہ اور آخر میں جینٹل مین الحمد للہ کاآغاز کیا۔ مگر آج بھی سب جگہ انگریزی کا راج ہے۔ فوج کو اس زمین کے لیے لڑنا اور اسی کا تحفظ کرنا ہے۔ یہ سید الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بشارتوں کی امین سرزمین کی فوج ہے ۔ ایک فوجی تو کسی سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں علاقائی زبان کے علم کی ڈگریاں وصول نہیں کرتا۔ سپریم کورٹ کا حکم آئین کے مطابق سب پر نافذ العمل ہے۔ آرمی چیف کا صرف ایک فرمان کہ ہم آئین کے احترام اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق کل سے افواج پاکستان کے جی ایچ کیو سے عام بٹالین تک اور ہر ادارے میں اردو زبان کو رائج کرتے ہیں' اس فیصلے پر صرف چند منٹ میں علمدرآمد کرا سکتا ہے۔ کیا راحیل شریف صاحب اس معاملے میں بھی عوام کا دل جیتنے کے لیے تیار ہیں۔
1857ء کی جنگ آزادی کو انگریز غدر یا بغاوت کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ انگریز اور اس کے حواری مؤرخین نے اسے ایک ہندوستانی قوم کی مشترکہ جنگ قرار دیا اور وہی تاریخ ہم نے کئی سال اپنی نصابی کتب میں پڑھی۔ لیکن موجودہ دور کا عظیم مؤرخ ولیم ڈارلپل نے جب لاہور میں موجود آرکائیوز میں وہ خط و کتابت اور انگریز فوجی افسران کی رپورٹیں دیکھیں تو حیران رہ گیا۔ اس کی حیرت اس بات پر تھی کہ یہ جنگ آزادی تو صرف اور صرف مسلمانوں نے لڑی تھی۔ سب سے پہلے جامع مسجد دلی کے خطیب نے انگریز کے خلاف جہاد کا فتویٰ اور اعلان جاری کیا تھا اور پھر اس اعلان کے بعد پورے برصغیر سے مسلمان جہاد اور شوق شہادت کی آرزو میں دلی پہنچنا شروع ہوگئے۔
ادھر پورے برصغیر میں موجود انگریز کی چھاؤنیوں سے بھی سپاہی ان جذبہ جہاد سے سرشار متوالوں کا مقابلہ کرنے کے لیے وہاں پہنچنا شروع ہوئے۔ لاہور کے آرکائیوز میں موجود ریکارڈ ان تمام بڑے بڑے چوہدریوں، خانوں، نوابوں، وڈیروں یہاں تک کہ مشائخ عظام اور گدی نشین پیروں کے نام اپنے کاغذات میں چھپائے بیٹھا ہے جنہوں نے چند روپے فی سپاہی کے عوض یہاں سے انگریز کو افراد فراہم کیے جو دلی میں جا کر انگریز کی فتح و نصرت کے لیے لڑے۔ دلی فتح ہوگیا، بہادر شاہ ظفر قلعے سے بھاگ کر ہمایوں کے مقبرے میں جا چھپا۔ مجاہدین قلعے میں محصور ہونے لگے تو ایک سپاہی نے بند ہوتے ہوئے دروازے میں اپنا وجود ڈال کر کھولنے کی کوشش کی۔ اس کی گردن بیچ میں آ گئی جو دو مضبوط دروازوں میں آ کر نیلی ہوگئی' لیکن انگریز فوج کو مہلت مل گئی اور وہ زور لگا کر دروازہ پیچھے دھکیلنے میں کامیاب ہو گئے اور پھر لال قلعہ دلّی پر انگریزی پرچم یونین جیک لہرا دیا گیا۔ آپ ان تمام افراد کی فہرست اٹھا کر دیکھ لیں جنھیں انگریز فوجی افسروں نے پھانسی پر لٹکایا۔
توپوں کے سامنے باندھ کر اڑا دیا گیا، آپ کو اکثریت ہی نہیں مکمل کی مکمل فہرست مسلمانوں کی ملے گی۔ ہزاروں میں سے ایک کسی دوسرے مذہب کا فرد نظر آتا ہے۔ ہندوستان تاج برطانیہ کے ماتحت آ گیا تو دو کام کیے گئے۔ پہلا یہ کہ وفاداری نبھانے والوں کو انعامات اور القابات دیے گئے۔ یہ فہرست بھی ان تمام افراد کے نام بتاتی ہے جنہوں نے KB.E، O.B.E اور سر کے خطاب حاصل کیے۔ یہ سب کے سب اسی زمین کے بیٹے تھے اور ان میں سے اکثریت کی اولاد آج پاکستان کی سیاست کے تخت پر جلوہ گر ہے۔ جس سپاہی نے قلعے کے دروازے میں گردن دی تھی وہ فرنٹیئر فورس رجمنٹ کا تھا، اس کے اعزاز میں اس کی یونٹ کو کہا گیا کہ وہ اپنے کالروں میں نیلی پٹی لگایا کریں۔ دوسرا کام یہ کیا گیا کہ ایک انکوائری کمیشن بٹھایا گیا جو اس بات کی تحقیق کرے کہ برصغیر میں تقریباً ایک سو سال سے انگریزی فتوحات جاری ہیں۔ جہاں جہاں انگریز نے اپنی حکومت قائم کی وہاں بغاوت کا تصور تک نہ تھا۔ رعایا پر امن تھی۔ پھر یہ اچانک آگ کیسے بھڑک اٹھی۔
کمیشن کی رپورٹ تین بڑی بڑی جلدوں میں مرتب کی گئی ہے جسے ''انڈیا میوٹنی رپورٹ'' کہا جاتا ہے۔ اس میں بغاوت کے بہت سے اسباب بتائے گئے' لیکن چند بڑے اسباب میں ایک یہ تھا کہ انگریز افسران اور عام ہندوستانی سپاہیوں کے درمیان زبان کے فرق نے ایک ایسی خلیج قائم کر دی تھی جس سے انھیں ہمیشہ یہ احساس ہوتا رہا کہ ہم کسی غیر ملکی کے تسلط میں ہیں۔ اس کو مزید ہوا ایک غیر مذہب کے عیسائی انگریز حکمران کے تصور نے دی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سپاہیوں اور انگریز حاکموں کے بیچ میں کوئی مقامی آفیسر ایسا نہ تھا جو ان کا ہم قوم ہوتا، ان کی زبان بولتا، لیکن ہمارا وفادار ہوتا اور ہمارے لیے فوج میں ڈسپلن قائم کرتا۔ اس کے بعد دو بہت بڑے اقدام کیے گئے۔ ایک یہ کہ سول سروس اور فوج میں مقامی افسران کو بھرتی کیا جانے لگا۔
فوج میں کمیشن اور سول سروس میں امتحانات۔ دوسری اہم بات یہ ہوئی کہ انگریز نے جو بھی قوانین بنائے فوراً ان کا اردو میں ترجمہ کر دیا گیا۔ اس اہم ترین ذمے داری کو ڈپٹی نذیر احمد نے نبھایا۔ یوں ضابطۂ فوجداری، ضابطۂ دیوانی، تعزیرات ہند، قانون معاملات زمین وغیرہ تمام دفاتر میں مہیا کر دیے گئے۔ چھوٹی سے چھوٹی عدالت میں بھی عرضی نویس کے لائسنس جاری کیے گئے جو عدالتوں کے باہر درخواستیں لکھ کر دیتے تھے جو اردو زبان میں ہوتیں۔ یہ عرضی نویس عموماً وکیلوں کے برابر قانون جانتے تھے اور وہ درخواستوں کو قانونی حوالوں سے اس طرح بہترین بناتے کہ عدالت میں بیٹھے مجسٹریٹ یا جج کو فیصلہ کرنے میں آسانی ہوتی۔ تمام سول افسران کو علاقائی زبان سیکھنے پر علیحدہ وظیفہ دیا جانے لگا اور ان کی کارکردگی میں شمار کی جانے والی صلاحیت بن گئی۔
دوسری جانب فوج چونکہ انگریز کی حکمران فوج تھی۔ اس لیے اس کے مقامی افسران کو معاشرتی، تہذیبی اور رہن سہن کے اعتبار سے مکمل طور پر انگریز افسران کے ہم پلہ بنایا گیا۔ ان کی گھریلو زندگی سے لے کر آفیسرز میس اور کلبوں تک سب کا سب ایسا علاقائی زبان کا علم بنا دیا گیا جیسے ایڈنبیرا کی چھاؤنی ہو یا سینڈھرسٹ کا آرمی کالج۔ یونیفارم سے لاؤنج سوٹ، گھڑ سواری کا لباس، گالف کا کھیل اور میس کے آداب' یہ سب کا سب انگریز تہذیب کی علامتیں تھیں۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ انگریزی کو فوجی زبان کے طور پر مستعمل کر دیا گیا۔ غلط بولو، صحیح بولو لیکن انگریزی بولو تا کہ تم عام سویلین سے الگ نظر آؤ۔ اسی انگریزی تہذیب و ثقافت کا اثر تھا کہ پورے ہندوستان کی افواج میں مسلمان، ہندو، سکھ اور عیسائی کا فرق مٹ گیا۔
یہی وجہ ہے کہ جب پاکستان بن رہا تھا تو مسلمان فوجی افسران کے نمایندہ وفد نے جنرل کری اپا کے ہمراہ قائد اعظم سے ملاقات کی اور کہا کہ ملک تقسیم کر لو لیکن فوج تقسیم نہ کرو ورنہ تم بدامنی اور بدانتظامی کے اندھیروں میں ڈوب جاؤ گے۔ لیکن قائداعظم نے دو ٹوک جواب دیتے ہوئے کہا۔ اگر فوج تقسیم نہ کی گئی تو وہ حلف نہیں اٹھائیں گے۔ اس لیے کہ ان کو علم تھا کہ یہ ایک نظریاتی ملک ہے اور اس کی فوج بھی ایک نظریاتی فوج ہونا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ قائد اعظم نے اس مملکت خداداد پاکستان کی یک جہتی کی دو علامتیں بتائیں ایک کلمہ طیبہ اور دوسری اردو بحیثیت قومی زبان۔
اردو سول عدالتوں اور ڈپٹی کمشنروں کے دفاتر میں تو انگریز کے زمانے سے نافذ رہی اور ہر دفتر میں باقاعدہ ورنیکلر کے نام پر ایک علیحدہ شعبہ تھا۔ واحد ریاستی ذریعہ آمدن مالیہ و آبیانہ تھا۔ اس کا تمام ریکارڈ اردو میں تھا۔ مقامی سطح پر تمام کاروبار اردو میں ہوتا تھا۔ لیکن فوج میں انگریزی ہی کو اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا گیا۔ لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ پاکستان بننے کے بعد ملٹری اکیڈمی کے پہلے انگریز کمانڈنٹ فرانسس ایچ بی اینگل نے یہ احساس کیا کہ یہ فوج اس وقت تک ایک قومی فوج نہیں بن سکتی جب تک اسے اسلامی اصولوں پر استوار نہ کیا جائے۔ ورنہ اس میں اور بھارت کی فوج میں کوئی فرق نہ ہو گا' اس نے کہا کہ جب تک اس فوج میں ایک ''روحانی جذبہ'' نہ ہو گا۔ یہ قربانی کے لیے تیار نہ ہو گی۔ اس نے ''قائد اعظم اون'' کے نام سے کیڈٹ بٹالین بنائی۔ علمائے کرام کے فتوے سے ایک موٹو ترتیب دیا جو ''نصر من اللہ و فتح قریب'' تھا۔ اسی نے اکیڈیمی میگزین کا نام مسلم امہ کے حوالے سے ''Rising Crescent'' ابھرتا ہوا ہلال رکھا۔ اس نے پہلی دفعہ رمضان میں آفیسرز میس بند رکھنے کا اعلان کیا۔ وہ خود سگریٹ پیتا تھا لیکن رمضان کے دوران تمام عملے کو سگریٹ سے منع کیا گیا۔
ایک فرض شناس ماتحت کے طور پر اس نے پاکستان کی فوج کو انھی اصولوں پر منظم کرنے کی کوشش کی جس کے لیے یہ ملک بنا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم وہ بدنصیب قوم ہیں کہ جس کے رہنماؤں نے محکومیت کے احساس کمتری کو اٹھاتے ہوئے آہستہ آہستہ سول محکموں سے اردو کی چھٹی کروا دی۔ دوسری جانب فوج میں تو انگریزی تہذیب اور زبان پلتی بڑھتی اور جواں ہوتی رہی۔ یحییٰ خان کے زمانے میں پریڈ کی آوازوں کو چپ راس وغیرہ میں تبدیل کیا گیا۔ ضیاء الحق نے کھانے کے شروع میں جینٹل مین بسم اللہ اور آخر میں جینٹل مین الحمد للہ کاآغاز کیا۔ مگر آج بھی سب جگہ انگریزی کا راج ہے۔ فوج کو اس زمین کے لیے لڑنا اور اسی کا تحفظ کرنا ہے۔ یہ سید الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بشارتوں کی امین سرزمین کی فوج ہے ۔ ایک فوجی تو کسی سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں علاقائی زبان کے علم کی ڈگریاں وصول نہیں کرتا۔ سپریم کورٹ کا حکم آئین کے مطابق سب پر نافذ العمل ہے۔ آرمی چیف کا صرف ایک فرمان کہ ہم آئین کے احترام اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق کل سے افواج پاکستان کے جی ایچ کیو سے عام بٹالین تک اور ہر ادارے میں اردو زبان کو رائج کرتے ہیں' اس فیصلے پر صرف چند منٹ میں علمدرآمد کرا سکتا ہے۔ کیا راحیل شریف صاحب اس معاملے میں بھی عوام کا دل جیتنے کے لیے تیار ہیں۔