ناقابل فہم سیاست
ملک کی تاریخ کا پہلا سیاسی اتحاد سابقہ مشرقی پاکستان میں 1954ء میں متوقع انتخابات کے موقع پر قائم ہوا۔
گزشتہ دنوں یہ خبر اخبارات کی زینت بنی کہ ملک کی 7 جماعتوں نے پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو بلدیاتی انتخابات میں مشکلات سے دوچار کرنے کے لیے انتخابی اتحاد کر لیا ہے۔ ان جماعتوں میں تحریک انصاف، پیپلزپارٹی، جماعت اسلامی، سنی اتحاد کونسل، مجلس وحدت المسلمین، عوامی تحریک اور جمعیت علمائے پاکستان شامل ہیں۔ بعد میں خبر آئی کہ تحریک انصاف اس اتحاد سے الگ ہو گئی۔ اگر وہ اس اتحاد میں شامل رہتی، تب بھی یہ سوال اپنی جگہ موجود رہتا کہ کیا اتحاد میں شامل جماعتیں اپنے دعویٰ کردہ نظریات اور سیاسی اہداف سے دست کش ہو چکی ہیں؟ یا اس اتحاد کا مقصد عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے کسی ایک جماعت کو مشکلات سے دوچار کرنا ہے؟ لہٰذا یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ملکی تاریخ میں قائم ہونے والے اتحادوں سے عوام کو کس حد تک فائدہ پہنچا؟ کیا نقصانات ہوئے؟ اور سیاسی عمل پر ان کے کیا اثرات مرتب ہوئے۔
کہا جاتا ہے کہ ملک کی تاریخ کا پہلا سیاسی اتحاد سابقہ مشرقی پاکستان میں 1954ء میں متوقع انتخابات کے موقع پر قائم ہوا۔ یہ پہلا اتحاد تھا، جو مختلف النظریات جماعتوں پر مشتمل تھا۔ اس اتحاد میں عوامی لیگ، کرشک پرجا پارٹی، گنانتری دل (جمہوری پارٹی) اور نظام اسلام پارٹی شامل تھیں۔ اس زمانے میں عوامی لیگ پر بائیں بازو کے گہرے اثرات تھے۔ کرشک پرجا پارٹی اور گنانتری دل قدرے لبرل جماعتیں تھیں، جب کہ نظام اسلام پارٹی دائیں بازو کی کٹر مذہبی جماعت تھی۔ اس اتحاد کی قیادت تین مقبول رہنما کر رہے تھے۔ ان میں اے کے فضل الحق دائیں بازو سے تعلق رکھتے تھے، حسین شہید سہروردی لبرل تھے، جب کہ مولانا عبدالحمید بھاشانی چین نواز کمیونسٹ تھے۔
اس میں شک نہیں کہ اس اتحاد نے 309 نشستوں کے ایوان میں 223 نشستیں حاصل کر کے مسلم لیگ کو بدترین شکست سے دوچار کیا تھا، جب کہ اتحاد کے مطالبات بھی جائز تھے، یعنی زیادہ سے زیادہ صوبائی خود مختاری، زرعی اصلاحات کا نفاذ وغیرہ۔ چونکہ اس اتحاد کی حکومت قائم ہونے سے قبل ہی اسمبلی تحلیل کر دی گئی تھی، اس لیے اتحاد کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مختلف الخیال قیادت کے ساتھ یہ عوام کو کچھ ڈیلیور کرنے میں کس قدر کامیاب ہوا۔
دوسرا بڑا اتحاد ایوب خان کے خلاف 1968ء میں قائم ہوا۔ لیکن اصل تحریک مغربی پاکستان میں قائم ہونے والی نئی جماعت پیپلز پارٹی اور مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ نے چلائی۔ اس تحریک کے نتیجے میں جمہوریت تو نہ آئی، البتہ جنرل یحییٰ کا مارشل لاء اور پھر مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا زخم سہنا پڑا۔ تیسرا بڑا اتحاد پاکستان قومی اتحاد (PNA) کی شکل میں 1976ء میں وجود میں آیا۔ اس اتحاد میں 9 مختلف الخیال جماعتیں شامل تھیں، جن کا ایک ہی مقصد تھا یعنی بھٹو کو اقتدار سے بے دخل کرنا۔ اس اتحاد نے جنرل ضیاالحق کے مارشل لا کی راہ ہموار کی۔ بعض تجزیہ نگاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ PNA کی تشکیل میں خفیہ ہاتھوں کا عمل دخل تھا۔ بہرحال یہ اتحاد جمہوریت کو پٹری سے 11 برس تک اتارے رکھنے کا باعث بنا۔
چوتھا بڑا اتحاد تحریک بحالی جمہوریت (MRD) تھا۔ جس میں مختلف الخیال جماعتوں نے جمہوریت کی بحالی کے ایک نکاتی ایجنڈے پر اتحاد قائم کیا۔ اس اتحاد نے جنرل ضیاء الحق پر دباؤ بڑھانے میں موثر کردار ادا کیا، جس کے نتیجے میں فوجی آمر انتخابات کرانے اور سیاسی شخصیات کو محدود حد تک ہی سہی شریک اقتدار کرنے پر مجبور ہوا۔ لیکن جنرل ضیاء کی فضائی حادثہ میں ہلاکت اور 1988ء میں انتخابات کے اعلان کے بعد یہ اتحاد بری طرح بکھر گیا۔ بے مروتی کی اس سے بڑی اور کیا مثال ہو گی کہ پیپلز پارٹی نے پاکستان نیشنل پارٹی کے سربراہ میر غوث بخش بزنجو مرحوم کے اس مطالبے تک کو ماننے سے انکار کر دیا کہ MRD میں شامل جماعتوں کے سربراہان کے خلاف کوئی پارٹی اپنے امیدوار کھڑے نہ کرے۔ بلکہ قومی محاذ آزادی کے سربراہ معراج محمد خان کے خلاف انھی کی جماعت چھوڑ کر آنے والے بیرسٹر اقبال حیدر مرحوم کو لانڈھی کے حلقے سے ٹکٹ جاری کر دیا۔
میاں نواز شریف کی دوسری حکومت (فروری 1997ء تا اکتوبر 1999ء) کے خلاف نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم نے پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر ARD کے نام سے اتحاد قائم کیا۔ مگر جب جنرل پرویز مشرف نے میاں صاحب کی حکومت کا خاتمہ کر دیا تو انھیں بھی اس اتحاد میں شامل کر لیا گیا۔ یوں دو ازلی حریف، حلیف بن گئے۔ اسی اتحاد نے میثاق جمہوریت جیسی دستاویز ضرور دی۔ لیکن کچھ حالات و واقعات کی ستم ظریفی اور کچھ دیگر سیاسی قوتوں کے دباؤکے باعث یہ اتحاد بھی جلد ہی غیر فعال ہو گیا۔ اس کے بعد میثاق جمہوریت کی مختلف شقیں بھی یکے بعد دیگرے بے اثر ہوتی چلی گئیں۔ آج پیپلز پارٹی پنجاب میں اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے کی خاطر مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ایک بار پھر مخاصمت کی سیاست پر آمادہ نظر آتی ہے۔
پاکستان کی سیاست بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد سے رفتہ رفتہ بے سمت ہوتی چلی گئی ہے۔ آج اگر پارلیمان میں واضح نمایندگی رکھنے والی تین بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے نظریات کا جائزہ لیا جائے، تو ان کے بارے میں وثوق کے ساتھ کوئی رائے نہیں دی جا سکتی۔ یہ جماعتیں اپنی ساخت اور سرشت میں بھان متی کا کنبہ بن چکی ہیں۔ پیپلز پارٹی، جو دو دہائی قبل تک بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی جماعت کا تشخص رکھتی تھی۔ آج مختلف الخیال سیاستدانوں کو اپنی صفوں میں جگہ دینے کے سبب لبرل اور سیکولر جماعت ہونے کا تصور کھو چکی ہے۔ مسلم لیگ (ن) بھی بھان متی کا کنبہ ہے، جس کے شروع ہی سے کوئی واضح نظریات نہیں ہیں۔ کہا جاتا تھا کہ یہ پنجاب کے تاجروں کی نمایندہ جماعت ہے۔ مگر حالیہ دور اقتدار میں کیے گئے اقدامات اس دعوے کی نفی ہیں۔ اس جماعت میں اگر ایک طرف ایسے عناصر موجود ہیں، جو بھارت سمیت پڑوسیوں سے بہتر تعلقات کے حامی ہیں۔ تو دوسری طرف مذہبی انتہاپسندوں اور کالعدم تنظیموں کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے Hawks بھی اس کی صفوں میں موجود ہیں۔
تحریک انصاف سب سے زیادہ کنفیوزڈ جماعت ہے۔ اس جماعت کے بارے میں کوئی رائے دینا انتہائی مشکل کام ہے، کیونکہ اس کے رہنماؤں کی سوچ شروع ہی سے Unpredictable رہی ہے۔ ایک طرف یہ مذہبی شدت پسند عناصر سے مذاکرات کی پرجوش حامی ہے۔ دوسری نوجوانوں کو متحرک کرنے کے لیے رقص و موسیقی کا بھی سہارا لیتی ہے۔ ایک طرف جمہوریت کے فروغ کا دعویٰ کرتی ہے، تو دوسری طرف جمہوری عمل کو تہہ وبالا کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتی۔ اس جماعت میں اگر کچھ لوگ انتہائی لبرل ہیں، تو کچھ انتہائی قدامت پسند۔ ایک طرف مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے کارکن ہیں، دوسری طرف جہانگیر ترین، اعظم سواتی سمیت درجنوں سرمایہ دار اور شاہ محمود قریشی جیسے روایتی پیر اور جاگیردار اس پارٹی کے منصوبہ ساز ہیں، خود جماعت کے سربراہ بھی واضح نہیں ہیں کہ وہ ملک کو کیا بنانا چاہتے ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ آج کی دنیا میں دائیں اور بائیں بازو کی روایتی تقسیم ختم ہو چکی ہے۔ لیکن دنیا بھر میں ایک نئی تقسیم سامنے آئی ہے، یعنی ایک طرف وہ سیاسی قوتیں ہیں، فکری کثرتیت، سیکولرازم اور حقوق انسانی کا فروغ جن کا مطمع نظر ہے۔ جب کہ دوسری طرف وہ سیاسی قوتیں ہیں، جو عقائد کی بنیاد پر گورننس کے نظام کو چلانے کی خواہشمند ہیں۔ پاکستان میں ہمیں نہ تو خالص سیکولر سیاسی قوتیں نظر آتی ہیں اور نہ ہی ایسی مذہبی قوتیں جو وسیع مذہبی بنیاد رکھتی ہوں اور جن میں تمام مسالک اور فقہہ کے ماننے والے شامل ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں سیاست کا کوئی واضح تصور ابھر کر سامنے نہیں آ رہا۔ اقتدار کی ہوس، طاقت کا بے جا استعمال (Power Abuse) اور موقع پرستی سیاسی جماعتوں کا مطمع نظر بن چکا ہے۔ ایسی صورتحال میں عوامی مسائل کے حل کی توقع مشکل ہی نہیں ناممکن نظر آتی ہے۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنا طرز عمل تبدیل کریں، خود کو جدید تقاضوں کے مطابق ٹرانسفارم کرنے کی کوشش کریں۔ بصورت دیگر عوام کہیں اور دیکھنے پر مجبور ہوں گے، جو جمہوری عمل کے تسلسل کے لیے اچھا شگون نہیں ہو گا۔
کہا جاتا ہے کہ ملک کی تاریخ کا پہلا سیاسی اتحاد سابقہ مشرقی پاکستان میں 1954ء میں متوقع انتخابات کے موقع پر قائم ہوا۔ یہ پہلا اتحاد تھا، جو مختلف النظریات جماعتوں پر مشتمل تھا۔ اس اتحاد میں عوامی لیگ، کرشک پرجا پارٹی، گنانتری دل (جمہوری پارٹی) اور نظام اسلام پارٹی شامل تھیں۔ اس زمانے میں عوامی لیگ پر بائیں بازو کے گہرے اثرات تھے۔ کرشک پرجا پارٹی اور گنانتری دل قدرے لبرل جماعتیں تھیں، جب کہ نظام اسلام پارٹی دائیں بازو کی کٹر مذہبی جماعت تھی۔ اس اتحاد کی قیادت تین مقبول رہنما کر رہے تھے۔ ان میں اے کے فضل الحق دائیں بازو سے تعلق رکھتے تھے، حسین شہید سہروردی لبرل تھے، جب کہ مولانا عبدالحمید بھاشانی چین نواز کمیونسٹ تھے۔
اس میں شک نہیں کہ اس اتحاد نے 309 نشستوں کے ایوان میں 223 نشستیں حاصل کر کے مسلم لیگ کو بدترین شکست سے دوچار کیا تھا، جب کہ اتحاد کے مطالبات بھی جائز تھے، یعنی زیادہ سے زیادہ صوبائی خود مختاری، زرعی اصلاحات کا نفاذ وغیرہ۔ چونکہ اس اتحاد کی حکومت قائم ہونے سے قبل ہی اسمبلی تحلیل کر دی گئی تھی، اس لیے اتحاد کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مختلف الخیال قیادت کے ساتھ یہ عوام کو کچھ ڈیلیور کرنے میں کس قدر کامیاب ہوا۔
دوسرا بڑا اتحاد ایوب خان کے خلاف 1968ء میں قائم ہوا۔ لیکن اصل تحریک مغربی پاکستان میں قائم ہونے والی نئی جماعت پیپلز پارٹی اور مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ نے چلائی۔ اس تحریک کے نتیجے میں جمہوریت تو نہ آئی، البتہ جنرل یحییٰ کا مارشل لاء اور پھر مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا زخم سہنا پڑا۔ تیسرا بڑا اتحاد پاکستان قومی اتحاد (PNA) کی شکل میں 1976ء میں وجود میں آیا۔ اس اتحاد میں 9 مختلف الخیال جماعتیں شامل تھیں، جن کا ایک ہی مقصد تھا یعنی بھٹو کو اقتدار سے بے دخل کرنا۔ اس اتحاد نے جنرل ضیاالحق کے مارشل لا کی راہ ہموار کی۔ بعض تجزیہ نگاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ PNA کی تشکیل میں خفیہ ہاتھوں کا عمل دخل تھا۔ بہرحال یہ اتحاد جمہوریت کو پٹری سے 11 برس تک اتارے رکھنے کا باعث بنا۔
چوتھا بڑا اتحاد تحریک بحالی جمہوریت (MRD) تھا۔ جس میں مختلف الخیال جماعتوں نے جمہوریت کی بحالی کے ایک نکاتی ایجنڈے پر اتحاد قائم کیا۔ اس اتحاد نے جنرل ضیاء الحق پر دباؤ بڑھانے میں موثر کردار ادا کیا، جس کے نتیجے میں فوجی آمر انتخابات کرانے اور سیاسی شخصیات کو محدود حد تک ہی سہی شریک اقتدار کرنے پر مجبور ہوا۔ لیکن جنرل ضیاء کی فضائی حادثہ میں ہلاکت اور 1988ء میں انتخابات کے اعلان کے بعد یہ اتحاد بری طرح بکھر گیا۔ بے مروتی کی اس سے بڑی اور کیا مثال ہو گی کہ پیپلز پارٹی نے پاکستان نیشنل پارٹی کے سربراہ میر غوث بخش بزنجو مرحوم کے اس مطالبے تک کو ماننے سے انکار کر دیا کہ MRD میں شامل جماعتوں کے سربراہان کے خلاف کوئی پارٹی اپنے امیدوار کھڑے نہ کرے۔ بلکہ قومی محاذ آزادی کے سربراہ معراج محمد خان کے خلاف انھی کی جماعت چھوڑ کر آنے والے بیرسٹر اقبال حیدر مرحوم کو لانڈھی کے حلقے سے ٹکٹ جاری کر دیا۔
میاں نواز شریف کی دوسری حکومت (فروری 1997ء تا اکتوبر 1999ء) کے خلاف نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم نے پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر ARD کے نام سے اتحاد قائم کیا۔ مگر جب جنرل پرویز مشرف نے میاں صاحب کی حکومت کا خاتمہ کر دیا تو انھیں بھی اس اتحاد میں شامل کر لیا گیا۔ یوں دو ازلی حریف، حلیف بن گئے۔ اسی اتحاد نے میثاق جمہوریت جیسی دستاویز ضرور دی۔ لیکن کچھ حالات و واقعات کی ستم ظریفی اور کچھ دیگر سیاسی قوتوں کے دباؤکے باعث یہ اتحاد بھی جلد ہی غیر فعال ہو گیا۔ اس کے بعد میثاق جمہوریت کی مختلف شقیں بھی یکے بعد دیگرے بے اثر ہوتی چلی گئیں۔ آج پیپلز پارٹی پنجاب میں اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے کی خاطر مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ایک بار پھر مخاصمت کی سیاست پر آمادہ نظر آتی ہے۔
پاکستان کی سیاست بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد سے رفتہ رفتہ بے سمت ہوتی چلی گئی ہے۔ آج اگر پارلیمان میں واضح نمایندگی رکھنے والی تین بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے نظریات کا جائزہ لیا جائے، تو ان کے بارے میں وثوق کے ساتھ کوئی رائے نہیں دی جا سکتی۔ یہ جماعتیں اپنی ساخت اور سرشت میں بھان متی کا کنبہ بن چکی ہیں۔ پیپلز پارٹی، جو دو دہائی قبل تک بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی جماعت کا تشخص رکھتی تھی۔ آج مختلف الخیال سیاستدانوں کو اپنی صفوں میں جگہ دینے کے سبب لبرل اور سیکولر جماعت ہونے کا تصور کھو چکی ہے۔ مسلم لیگ (ن) بھی بھان متی کا کنبہ ہے، جس کے شروع ہی سے کوئی واضح نظریات نہیں ہیں۔ کہا جاتا تھا کہ یہ پنجاب کے تاجروں کی نمایندہ جماعت ہے۔ مگر حالیہ دور اقتدار میں کیے گئے اقدامات اس دعوے کی نفی ہیں۔ اس جماعت میں اگر ایک طرف ایسے عناصر موجود ہیں، جو بھارت سمیت پڑوسیوں سے بہتر تعلقات کے حامی ہیں۔ تو دوسری طرف مذہبی انتہاپسندوں اور کالعدم تنظیموں کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے Hawks بھی اس کی صفوں میں موجود ہیں۔
تحریک انصاف سب سے زیادہ کنفیوزڈ جماعت ہے۔ اس جماعت کے بارے میں کوئی رائے دینا انتہائی مشکل کام ہے، کیونکہ اس کے رہنماؤں کی سوچ شروع ہی سے Unpredictable رہی ہے۔ ایک طرف یہ مذہبی شدت پسند عناصر سے مذاکرات کی پرجوش حامی ہے۔ دوسری نوجوانوں کو متحرک کرنے کے لیے رقص و موسیقی کا بھی سہارا لیتی ہے۔ ایک طرف جمہوریت کے فروغ کا دعویٰ کرتی ہے، تو دوسری طرف جمہوری عمل کو تہہ وبالا کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتی۔ اس جماعت میں اگر کچھ لوگ انتہائی لبرل ہیں، تو کچھ انتہائی قدامت پسند۔ ایک طرف مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے کارکن ہیں، دوسری طرف جہانگیر ترین، اعظم سواتی سمیت درجنوں سرمایہ دار اور شاہ محمود قریشی جیسے روایتی پیر اور جاگیردار اس پارٹی کے منصوبہ ساز ہیں، خود جماعت کے سربراہ بھی واضح نہیں ہیں کہ وہ ملک کو کیا بنانا چاہتے ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ آج کی دنیا میں دائیں اور بائیں بازو کی روایتی تقسیم ختم ہو چکی ہے۔ لیکن دنیا بھر میں ایک نئی تقسیم سامنے آئی ہے، یعنی ایک طرف وہ سیاسی قوتیں ہیں، فکری کثرتیت، سیکولرازم اور حقوق انسانی کا فروغ جن کا مطمع نظر ہے۔ جب کہ دوسری طرف وہ سیاسی قوتیں ہیں، جو عقائد کی بنیاد پر گورننس کے نظام کو چلانے کی خواہشمند ہیں۔ پاکستان میں ہمیں نہ تو خالص سیکولر سیاسی قوتیں نظر آتی ہیں اور نہ ہی ایسی مذہبی قوتیں جو وسیع مذہبی بنیاد رکھتی ہوں اور جن میں تمام مسالک اور فقہہ کے ماننے والے شامل ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں سیاست کا کوئی واضح تصور ابھر کر سامنے نہیں آ رہا۔ اقتدار کی ہوس، طاقت کا بے جا استعمال (Power Abuse) اور موقع پرستی سیاسی جماعتوں کا مطمع نظر بن چکا ہے۔ ایسی صورتحال میں عوامی مسائل کے حل کی توقع مشکل ہی نہیں ناممکن نظر آتی ہے۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنا طرز عمل تبدیل کریں، خود کو جدید تقاضوں کے مطابق ٹرانسفارم کرنے کی کوشش کریں۔ بصورت دیگر عوام کہیں اور دیکھنے پر مجبور ہوں گے، جو جمہوری عمل کے تسلسل کے لیے اچھا شگون نہیں ہو گا۔