آزادی کشمیریوں کا مقدر

پاک بھارت تعلقات کی نوعیت شعلہ وشبنم کی مثال سے عبارت ہے

پاک بھارت تعلقات کی نوعیت شعلہ وشبنم کی مثال سے عبارت ہے۔ جس میں کبھی بات چیت کے لیے میزیں سجائی جاتی ہیں توکبھی ایک چھوٹی سی ملاقات کے لیے دن، تاریخ تک طے کرنا محال نظر آتا ہے۔کبھی دوستی کے بلند وبانگ دعوے کیے جاتے ہیں توکبھی طے شدہ معاہدات کی بساط ہی لپیٹ دی جاتی ہے۔

سر دست مسئلہ کشمیر پاک وبھارت تعلقات کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی کے بعد ایک فلیش پوائنٹ یعنی کہ بڑی جنگ کا باعث بننے والی چنگاری بن چکا ہے۔ جوکسی بھی وقت کسی بھی واقعہ سے پھٹ کر آتش فشاں میں تبدیل ہوسکتا ہے۔ جس سے بر صغیر میں جو تباہی مچنی ہے وہ تو مچے ہی گی مگر گردونواح بھی بری طرح متاثر ہوں گے اور بڑی بڑی طاقتوں کے اپنی جغرافیائی حدود سے باہرکے قومی مفادات بھی بری طرح مجروح ہوں گے۔

اس تناظر میں پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کا بیان کہ ''کشمیر برصغیرکی تقسیم کا نامکمل ایجنڈا ہے، جسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کا وقت آگیا ہے۔'' بالکل درست، مثبت سوچ کا عکاس اور دور رس نتائج کا حامل ہے۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے 1965 کی فتح کی گولڈن جوبلی کی پروقار تقریب میں ببانگ دہل بھارتی آرمی چیف جنرل دلبیر سنگھ کا چیلنج قبول کرتے ہوئے دشمن کو بڑا واضح پیغام دیدیا ہے۔

ماضی میں پرامن کشمیری طلب آزادی کی طوفانی طاقت سے منزل کی جانب بڑھی تو بھارت نے ان پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑ دیے، جس میں سب سے بڑا جنگی جرم بھارتی فوجیوں کا گینگ ریپ کا منظم اورکئی سال تک مسلسل رہنے والا شیطانی کھیل تھا۔ کشمیریوں کی پکار پر پاکستان نے اخلاقی و سیاسی طور پر معاونت فراہم کی تو بھارت نے ''آبیل مجھے مار'' کے مصداق اپنے ایٹمی طاقت کے اسٹیٹس کا ایک بار پھر اظہار کرنے کے لیے 4ایٹمی دھماکے کیے، جس کے جواب میں پاکستان نے بھی 5 ایٹمی دھماکے کرکے دنیا پر ثابت کردیا کہ پاکستان بھی ایٹمی طاقت بن چکا ہے۔ جس کے بعد بھارتی قیادت میں نئے حقائق کے اعتراف کی طاقت پیدا ہوئی اور بھارتی جنتا پارٹی کے وزیر اعظم واجپائی کو مینار پاکستان پر یہ کہنا پڑا کہ ''بھارت قیام پاکستان کی حقیقت کو تسلیم کرتا ہے۔'' بلاشبہ واجپائی کا یہ اقدام حقیقت پسندانہ تھا لیکن ادھورا تھا، ابھی پائیدار امن اور علاقائی استحکام کے لیے ایک اورکڑوی گولی نگلنی تھی ،کیونکہ پاکستان کشمیر کے بغیر مکمل نہیں، یہ بھی تقسیم ہند کی قانونی حقیقت ہے، مسئلہ کشمیر ادھوری پارٹیشن آف انڈیا کی پیداوار ہے۔

جموں وکشمیر کے عوام کی 85 فیصد سے زائد اکثریت مسلمان ہے۔ تقسیم ہند کے اصولوں اور دو قومی نظریے کی رو سے مسلم اکثریت کی اس ریاست کو ہر حال میں پاکستان کا حصہ ہونا چاہیے تھا لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ 27 اکتوبر 1947 ریاستی تاریخ کا وہ سیاہ ترین دن تھا، جس دن بھارت کے ساتھ جموں وکشمیر کے الحاق کا ڈراما رچایا گیا۔کشمیریوں نے بھارت کے ساتھ الحاق کوکبھی دل سے تسلیم نہیں کیا۔ بھارت کی حکومتوں، افواج کے مظالم اور تمام تر ریاستی جبرکے باوجود کشمیریوں کے دل سے پاکستان سے محبت اور وابستگی ختم نہیں کی جاسکی۔ کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق کا نظریہ جہاں دینی، ملی اورشرعی تقاضوں کے عین مطابق ہے، وہاں اقتصادی اور دفاعی پہلوؤں سے بھی یہ الحاق ناگزیر ہے۔


ریاست جموں وکشمیر کی سیکڑوں میل لمبی سرحد پاکستان سے ملتی ہے، جب کہ بھارت کی ریاست سے ملنے والی سرحد کی لمبائی صرف دو سومیل ہے، جس میں چند میل کے میدانی علاقے کو چھوڑکر باقی تمام سرحد ناقابل عبور پہاڑیوں پر مشتمل ہے۔ ریاست جموں وکشمیر کی تینوں جغرافیائی اکائیاں جموں،کشمیر اور شمالی علاقہ جات گلگت، بلتستان اور لداخ براہ راست پاکستان سے منسلک ہیں جب کہ بھارت کے ساتھ صرف جموں کا مختصر علاقہ ملحق ہے، جہاں سے چور دروازہ بناکر بھارت نے 1947 میں کشمیر پر فوج کشی کی تھی۔ ریاست کی باقی جغرافیائی اکائیوں کے ساتھ بھارت کا براہ راست کوئی زمینی رابطہ نہیں۔

ریاست جموں وکشمیر کے تمام قدرتی راستے پاکستان کی طرف نکلتے ہیں جن میں راولپنڈی سری نگر روڈ، جموں سیالکوٹ روڈ اور شاہراہ قراقرام بطور خاص قابل ذکر ہیں جب کہ کشمیر کا کوئی زمینی راستہ بھارت کی طرف نہیں نکلتا۔ ریاست کے تمام دریا، دریائے سندھ، دریائے جہلم، چناب، راوی، دریائے توی وغیرہ پاکستان کی جانب بہتے ہیں، ریاست کے تمام ندی نالوں کا بہاؤ اور پہاڑی سلسلوں کا رخ بھی پاکستان کی جانب ہے۔

یہی وہ وجوہات ہیں جن کو پیش نظر رکھ کر 1947 میں ریاست جموں وکشمیر کے عوام نے مہاراجہ ہری سنگھ پر زور دیا تھا کہ وہ ریاست کا الحاق پاکستان سے کرے۔ 1947 جولائی 19کو اس وقت کی ریاستی عوام کی سب سے بڑی اور نمایندہ تنظیم آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس کی جنرل کونسل نے سری نگر میں ہونیوالے اجلاس میں متفقہ قرارداد کے ذریعے پاکستان سے الحاق کا مطالبہ کیا تھا لیکن اس وقت کے معزول ومفرور مہاراجہ نے کسی اخلاقی وآئینی جواز اور قانونی اختیارکے بغیر ان تمام تاریخی، تہذیبی، نظریاتی، جغرافیائی، سیاسی اوراقتصادی حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے ریاست کا بھارت سے الحاق کرلیا۔

ہندوستان ظلم، جبر اور بندوق کی نوک پر کشمیریوں کو غلام نہیں رکھ سکتا،کشمیریوں نے بندوق سے برستی گولیاں، پولیس، فوج کے لاٹھی چارج، آنسوگیس کی شیلنگ، جیل اور عقوبتوں کی کال کوٹھریوں میں بدترین تشدد کا بہادری سے سامنا کیا اور اپنے آزادی کے مطالبے سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹے۔کشمیری نوجوانوں نے آزادی اور حریت کی راہوں میں اپنے خون سے دیے روشن کیے اور اپنی آیندہ نسلوں کے لیے امیدوں کوکبھی مایوسی کے اندھیرے میں تبدیل نہیں ہونے دیا۔ آزادی کی اس شمع کو بجھانے کی سکت کسی آندھی اور طوفان میں نہیں۔ ''آزادی کشمیر اے وادی کشمیر'' کشمیریوں کا نعرہ اور مقصد زندگی بن چکا ہے،کشمیریوں نے مسلسل قربانیوں سے تحریک آزادی کشمیر کو زندہ رکھا ہوا ہے اور یہ ثابت کردیا ہے کہ بھارت فوجی قبضے اور بندوق کی نوک پر کشمیریوں کو غلام نہیں رکھ سکتا،کشمیری نوجوان تحریک کے ساتھ کھڑے ہیں اور آزادی سے کم کسی حل کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں، آج نہیں توکل آزادی کشمیر، کشمیریوں کا مقدر اور حق ہے۔ آزادی کشمیر تاریخ کا فیصلہ ہے کہ کیونکہ دنیا میں کسی بھی چیز کو حاصل کرنے کے لیے اس کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔کشمیری آزادی کی قیمت اپنے خون سے ادا کرچکے ہیں، کر رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ بہت جلد کشمیریوں کے لیے آزادی کا سورج نوید مسرت بن کر طلوع ہوگا۔

اقوام متحدہ اور عالمی برادری کشمیریوں کو ان کا پیدائشی حق، حق خود ارادیت دلانے کے عہد کی پابند ہے۔ بھارت اقوام متحدہ کی کشمیر پر درجنوں قراردادوں پر عمل نہ کرکے اس عالمی ادارے کی تضحیک کررہا ہے۔ اقوام متحدہ کو اس کا نوٹس لینا چاہیے، ضرورت اس بات کی ہے کہ مسئلہ کشمیر پر عالمی طاقتیں اپنی منافقانہ پالیسیاں اور دہرے معیار ختم کریں۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ تمام اسلامی دنیا کو اعتماد میں لے کر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر پر قرار داد پیش کرے کہ اس تنازع کو جلد از جلد حل کرایا جائے جب تک یہ تنازع حل نہیں ہوتا دونوں ممالک کے درمیان کسی ممکنہ جنگ کے خطرات موجود رہیں گے۔ اس لیے خطے کا مستقل اور پائیدار امن اس مسئلے کے حل کی جانب پہلا قدم ہوگا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل خصوصاً اس کے پانچ مستقل ارکان کا فرض ہے کہ وہ بھارت پر دباؤ ڈال کر تنازعہ کشمیر حل کرائیں تاکہ اس خطے سے جنگ کے بادل چھٹ جائیں۔
Load Next Story