کسی بھی ادارےکو اس کی مقررہ حدود سے تجاوز کی اجازت نہیں چیف جسٹس آف پاکستان

آئین نے انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کو مخصوص اختیارات تفویض کیے ہیں،انورظہیرجمالی


ویب ڈیسک September 14, 2015
عدلیہ نے ہمیشہ اختیارات کےاستعمال میں آئین و قانون کو مدنظر رکھا، چیف جسٹس فوٹو: فائل

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انورظہیرجمالی کہتے ہیں کہ آئین نےاختیارات کی تقسیم کا اصول وضع کیا اور انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کو مخصوص اختیارات تفویض کیے ہیں جس کے بعد کسی بھی ادارےکو اس کی مقررہ حدود سے تجاوز کی اجازت نہیں۔

سپریم کورٹ اسلام آباد میں نئے عدالتی سال کے سلسلے میں فل کورٹ اجلاس ہوا جس میں عدالت عظمیٰ کے فاضل جج صاحبان، پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے نمائندوں نے شرکت کی۔

اجلاس سے خطاب کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انورظہیرجمالی نے کہا کہ آئین نےاختیارات کی تقسیم کا اصول وضع کیا اور انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کو مخصوص اختیارات تفویض کیے ہیں، تقسیم اختیارات کا اصول جمہوریت کی بنیاد ہے جو اداروں کےمابین توازن کو یقینی بناتا ہے، کسی بھی ادارے کو اس کی مقررہ حدود سے تجاوز کی اجازت نہیں۔

جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ عدلیہ نے ہمیشہ اختیارات کےاستعمال میں آئین و قانون کو مدنظر رکھا اور کسی بھی ادارے کو اس کی مقررہ حدود سے تجاوز کی اجازت نہیں، عدلیہ کی کوشش ہے کہ ایسا حکم دے جس سے غیر قانونی اقدامات کی تصحیح ہو، 18ویں اور21ویں آئینی ترمیم کا عوامی بہبود میں فیصلہ سنایا گیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عوامی اہمیت کےسبب آئینی ترامیم کےمقدمےمیں فل کورٹ بنائی گئی، فل کورٹ تشکیل سے دیگر عام مقدمات کی سماعت پر اثر پڑا، مقدمات کےفیصلےمیں تاخیرسب سےزیادہ تکلیف دہ بات ہے،دھرنے کے باعث کئی ماہ تک وکلا اور سائلین کو عدالت پہنچنےمیں دشواری ہوئی اور مقدمات غیر ضروری طور پر التوا کا شکار ہوتے رہے، تمام جج صاحبان نے زیر التوا مقدمات کی تعداد کم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔زیر التواء مقدمات نمٹانے کے لئے برانچ رجسٹریوں میں بھی بینچ تشکیل دیئے گئے۔

جسٹس انورظہیرجمالی نے مزید کہا کہ حصول انصاف میں تاخیر سے غریب اور نادار طبقے پر انتہائی بُرا اثرپڑتاہے، آئین کی بالادستی ، قانون کی حکمرانی اور عوام کےحقوق کے تحفظ میں بار کا کردار اہم ہے، بار نظام انصاف کا اہم حصہ ہونے کی حیثیت سے اپنا مثبت کردار ادا کرے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں