محسن اردو چیف جسٹس جواد ایس خواجہ

بلاشبہ اﷲ تعالیٰ انھیں اس نیکی کے صلے کے طور پر اجر عظیم سے نوازے گا۔


Shakeel Farooqi September 15, 2015
[email protected]

جواد ایس خواجہ 9 ستمبر کو چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے سے سبکدوش ہوگئے مگر جاتے جاتے وطن عزیز کی عدلیہ کی تاریخ میں اپنی بے لوث اور بے لاگ کارکردگی کی صورت میں انمٹ نقوش چھوڑ گئے۔

اپنی 23 روزہ انتہائی مختصر مدت کے دوران انھوں نے اپنے فرائض منصبی جس قدر حب الوطنی، غیر جانبداری اور بے خوفی سے ادا کیے اسے کبھی بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ ان کے سنہری دورکا اولین فیصلہ بھی جرأت مندانہ تھا اورآخری فیصلہ بھی ان کا سب سے پہلا فیصلہ اس معصوم اور مظلوم پرندے کے حوالے سے تھا جسے عوامی زبان میں تلور کہا جاتا ہے۔ اس بے زبان کی فریاد پرکوئی کان دھرنے کے لیے تیار نہ تھا اور اپنے پرائے سب ہی اس کی جان کے دشمن تھے۔

اﷲ تعالیٰ نے اس بے یارومددگار پرندے کی درد بھری فریاد سننے کا شرف بالآخر چیف جسٹس جواد ایس خواجہ ہی کو عطا فرمایا جنھوں نے اپنے زبردست فیصلے کے ذریعے اس مظلوم پرندے کے کھلے عام شکار پر سخت پابندی عائد کردی اور شکاریوں کو جاری کیے گئے تمام اجازت نامے اور لائسنس بہ یک جنبش قلم منسوخ کردیے۔ ان کے اس رحم دلانہ فیصلے کے حوالے سے یہی کہاجاسکتا ہے کہ:

کرو مہربانی تم اہل زمیں پر
خدا مہرباں ہوگا عرش بریں پر

بلاشبہ اﷲ تعالیٰ انھیں اس نیکی کے صلے کے طور پر اجر عظیم سے نوازے گا۔ چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کا آخری فیصلہ بھی تاریخ ساز اورانتہائی جرأت مندانہ ہے جو بے زبان قومی زبان اردو کے بحیثیت سرکاری زبان نفاذ کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ 1973 میں اردو کو قومی زبان کا درجہ دیتے وقت واضح طور پر اعلان کیا گیا تھا کہ پندرہ برس کے اندر یعنی 1988 تک سرکاری دفاتر میں اس کے نفاذ کا کام مکمل ہوجائے گا لیکن یہ معاملہ مسلسل کھٹائی میں پڑا رہا اور قومی زبان کی فریاد پر کسی بھی حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ ہمارا حال اس صنوبر کا سا ہے جس پر علامہ اقبال کا یہ مصرعہ صادق آتا ہے:

صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے پا بہ گل بھی ہے

آزاد اس اعتبار سے کہ ہم ایک آزاد اور خود مختار مملکت کے شہری ہیں اور پابند اس لحاظ سے کہ ذہنی اعتبار سے ہم ابھی تک انگریز اور انگریزی کی زنجیر غلامی سے آزادی حاصل نہیں کرسکے۔ ہم آزاد ہونے کے باوجود ابھی تک انگریز اور اس کی زبان انگریزی کے ہی گن گاتے رہتے ہیں اور جسے انگریزی نہیں آتی اسے پڑھا لکھا تسلیم کرنے پر بھی آمادہ نہیں ہوتے۔ واضح رہے کہ انگریزی تعلیم حاصل کرنا اور بات ہے اور انگریزی کی برتری اور اس کے دخل درمعقولات کے آگے سرِ تسلیم خم کردینا دیگر بات ہے۔

بد قسمتی سے ہمارے ملک میں انگریزی کی حمایت کرنے والی لابی کو شروع سے ہی غلبہ حاصل رہاہے جسے قومی زبان اردو سے ہمیشہ سے خدا واسطے کا بیر رہاہے۔ اسے بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کے اردو کو قومی زبان قرار دینے کے فیصلے سے شدید اختلاف ہے ،جس کا اظہار مختلف انداز میں وقتاً فوقتاً ہوتا رہا ہے۔

قومی زبان کے نفاذ میں طرح طرح کے روڑے اسی لابی کی وجہ سے اٹکائے جاتے رہے ہیں۔ یہ لابی اپنی انگریزی نوازی کے حوالے سے خواہ مخواہ ایک بے جا احساس برتری کا شکار ہے۔ اس لابی کا بس نہیں چلتا کہ اردو کا وجود ہی ختم کردے۔اردو رسم الخط کو ختم کرکے رومن رسم الخط میں منتقل کرنے اور اردش (Urdush) کے چلن کو عام کرنے کے پس پشت بھی اسی لابی کی سازش کار فرما ہے۔

آج کل ہمارے میڈیا اور بالخصوص ہماری اشتہاری صنعت میں اردو کو انگریزی رسم الخط میں لکھ کر ڈومنائز کرنے کا رجحان بڑی تیزی کے ساتھ زور پکڑ رہا ہے۔ اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے اشتہارات کی بھی انگریزی ہی میں بھرمار دکھائی دے رہی ہے۔ یہ روش اردو کے لیے سم قاتل سے کم نہیں۔ بھارت میں اردو کو دیوناگری رسم الخط میں لکھا جارہاہے اور فلموں میں استعمال ہونے والی زبان کو ہندی کا سرٹیفکیٹ دیا جارہاہے حالانکہ یہ زبان بالکل واضح طور پر اردو ہی ہے۔

اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کے تحقیق شدہ اعداد وشمار کے مطابق سنہ دو ہزار میں چینی زبان بولنے والوں کی تعداد تیرہ سو ملین بتائی گئی تھی جب کہ اردو (ہندوستانی) بولنے اور سمجھنے والوں کی تعداد 465 ملین کے لگ بھگ بتائی گئی تھی۔ اسی سروے کے مطابق دنیا بھرمیں ہسپانوی زبان بولنے والوں کی تعداد 420ملین اور انگریزی بولنے والوں کی تعداد 480 ملین بتائی گئی تھی، ان اعداد و شمار سے صاف ظاہر ہے کہ دنیا میں سب زیادہ بولی اور سمجھی جانے والی زبان اردو ہی ہے۔ بقول شاعر:

سارے جہاں میں دھوم ہماری زبان کی ہے

بڑے دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وطن عزیز میں ایک عرصہ دراز تک قومی زبان کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک ہوتا رہا اور حکومت تو حکومت ہماری عدلیہ میں سے بھی کسی کو قومی زبان کے حق میں آواز بلند کرنے کی ہمت اور توفیق نہیں ہوئی۔ اس کا سہرا چیف جسٹس جواد ایس خواجہ ہی کے سر ہے کہ انھوں نے اپنے بے لاگ اور انتہائی منصفانہ اور جرأت مندانہ آخری فیصلے کے ذریعے یہ حکم صادر فرمایا کہ اردو کو قومی اور دفتری زبان کے طور پر فوراً نافذ کیا جائے۔

یہ کہ وفاقی اور صوبائی دونوں سطحوں پر لاگو ہوتا ہے۔ یہ بات نہایت خوش آیند اور لائق تحسین ہے کہ ہماری قومی اسمبلی نے اس حکم کی تعمیل میں انتہائی سرگرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فوری قدم اٹھایا ہے اور اردو لغت بورڈ سے گزارش کی ہے کہ اردو صنعت کی تمام جلدیں بلا تاخیر اسے فراہم کردی جائیں۔

کمال کی بات یہ ہے کہ سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس جواد ایس خواجہ اور اپنے منصب پر فائز ہونے والے نئے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے رخصتی تقریب کے موقعے پر اپنے اپنے خطاب میں انگریزی زبان کو ترک کرکے اپنی قومی زبان اردو ہی میں اظہار خیال فرماکر نفاذ اردو کو مزید تقویت بخشی۔ اس اعتبار سے اگر چیف جسٹس کو محسن اردو کہا جائے تو دعا بھی مبالغہ نہ ہوگا اردو کو سرکاری زبان کے طور پر فوری نافذ کرنے کا چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کا فیصلہ آئین کے عین مطابق تھا۔ اگر بابائے اردو زندہ ہوتے تو وہ فرطِ مسرت سے خواجہ صاحب کا منہ چوم لیتے۔ تاہم نفاذ اردو کے اس عدالتی فیصلے پر ان کی روح عالم بالا میں ضرور خوش ہورہی ہوگی ۔ہم اردو کے حق میں تاریخ ساز فیصل پر محسن اردو کو اپنے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارکباد اور خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں