معاشی ترقی کا خواب
پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے،اس کی معاشی ترقی کا خواب اس وقت تک شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا
پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے،اس کی معاشی ترقی کا خواب اس وقت تک شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا جب تک پاکستان میں امریکا، یورپ اور وسطی ایشیا سمیت دیگر بیرونی سرمایہ کاروں کے لیے حالات سازگار نہ ہوں ، لیکن اگر ہم ماضی پر نظر ڈالیں تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ ماضی کی حکومتوں کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان نہ صرف دہشتگردی کا شکار رہا بلکہ بیرونی سرمایہ کاری بھی رک گئی تھی ۔ بیرونی سرمایہ کاری رکنے کے باعث پاکستان کو مزید معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے ساتھ ساتھ توانائی سمیت دیگر بحرانوں نے بھی جنم لیا۔
چنددن بیشتر امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے اپنی ایک رپورٹ میں واضح طور پر بتایا ہے کہ دہشتگردی کے واقعات میں نمایاں کمی ہونے کے سبب معاشی ترقی کا عمل موجودہ حکومت کے دور میں بہتری کی جانب گامزن ہوا ہے ، آپریشن ضرب عضب کے باعث نہ صرف دہشت گرد کمزور ہوئے ہیں بلکہ عوام کے دلوں سے خوف بھی دور ہوا ہے اور وہ پبلک مقامات پر آزادانہ اور بے خوف وخطر نقل وحمل کررہے ہیں۔
شاپنگ سینٹرز، پارکس اور ریسٹورانٹ پر رات گئے تک موجود ہوتے ہیں ،کراچی آپریشن کے نتیجے میں بھی حالات بہت بہتر ہوئے ہیں ۔ نوازشریف ایک منجھے اور مدبر سیاستدان کے طور پر مخالفین کی شدید تنقید کو نظر انداز کرتے ہوئے ملک کو معاشی طور پر مضبوط ومستحکم دیکھنا چاہتے ہیں آٹھ سو میل شاہراہیں تعمیر اور چودہ پاور پلانٹس لگانے کا ارادہ رکھتے ہیں،موجودہ حکومت چین کا اعتماد حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوئی ہے اوروسیع پیمانے پر سرمایہ کاری سے بھی مستقبل میں معاشی ترقی کے امکانات روشن نظر آتے ہیں ۔
امریکی اخبارکی مذکورہ بالارپورٹ کی روشنی میں اس بات کے روشن امکانات نظر آرہے ہیں کہ پاکستان جلد اپنی معاشی واقتصادی مشکلات پر قابو پانے میں کامیاب ہوجائے گا ۔ماضی میں نوازشریف نے پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانے کی بھرپورکوشش کی۔ یہ اور بات ہے کہ ان کی حکومت کو مدت پوری کرنے سے پہلے ہی ختم کردیا گیا تھا جس کی وجہ سے پاکستان کے ایشین ٹائیگر بنانے کا خواب ادھورا رہ گیا۔
مئی 2013 میں جب مسلم لیگ ن کی حکومت تیسری بار برسراقتدار آئی تو ایک بار پھر وزیر اعظم محمد نواز شریف نے پاکستان کو توانائی بحران سے نجات دلانے اور پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانے کے اپنے خواب کو پورا کرنے کی کوششیں شروع کردیں۔ وزیر اعظم محمد نوازشریف پاکستان کو معاشی اور اقتصادی لحاظ سے مضبوط اور مستحکم ملک بنانے کے لیے پر عزم دکھائی دیتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ان اہداف کے حصول کے لیے وہ متعدد ممالک کا دورہ کرچکے ہیں ان کے کامیاب بیرونی دوروں کی وجہ سے پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ اس ضمن میں چین اور بعض دیگر ممالک خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ یہ ممالک پاکستان میں تاریخ کی سب سے بڑی سرمایہ کاری کررہے ہیں یہ توقع کی جانی چاہیے اس سے پاکستان جلد ترقی اور خوشحالی کی جانب سفر شروع کردے گا۔
گزشتہ دنوں وزیر اعظم محمد نواشریف نے وسط ایشیائی ملک قازقستان کا دو روزہ دورہ کیا۔ اور قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں اپنے ہم منصب کریم ماسیموف سے اہم ملاقات کی۔ دونوں رہنماؤں نے عالمی اورعلاقائی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔ اس موقعے پر پاکستان اور قازقستان کے درمیان دفاع، تجارت اور سفارت کاروں کی پیشہ ورانہ تربیت کے معاہدوں کے علاوہ مفاہمت کی بعض یاد داشتوں پر بھی دستخط ہوئے، دستخط کی تقریب میں دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم نے بھی شرکت کی۔
اس موقعے پر وزیر اعظم محمد نوازشریف نے دوطرفہ تجارت، توانائی اور انفرااسٹریکچر سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کے فروغ پر زور دیا۔ قازقستان کے وزیر اعظم کریم ماسیموف نے پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت شروع کیے گئے منصوبوں کا حصہ بننے میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا۔ وزیر اعظم محمد نوازشریف نے پاکستان، چین، قازقستان اور کرغیزستان کے درمیان چار افریقی معاہدے کو زمینی رابطوں کے حوالے سے انتہائی اہم قرار دیا۔
اس موقعے پر کہا کہ ہم وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ توانائی اور اقتصادی تعاون کے منصوبوں پرعمل پیرا ہیں حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی بندرگاہیں سینٹرل ایشیا کی ریاستوں کے لیے سمندر تک رسائی کا آسان، سستا اور مختصر ترین راستہ فراہم کرتی ہیں۔ پاکستان چاہتا ہے کہ ان ریاستوں کے ساتھ ریل، سڑک اور فضائی رابطوں کے ذریعے خوشحالی کا مشترکہ ہدف حاصل ہو۔ جو لوگ اعتراضات کرتے ہیں اگر وہ پاکستان کی جغرافیائی اہمیت، مشرق سے بھارت اور مغرب سے افغانستان سے خطرات اور جدید دور میں صنعت و تجارت اور توانائی کے ذریعے ترقی و خوشحالی کا اندازہ کریں تو انھیں یہ احساس ہوگا کہ جدید دور میں دفاعی آلات کی فراوانی اور جنگوں سے زیادہ دوسرے ملکوں پر فتح کا سب سے محفوظ طریقہ اپنی معیشت کا استحکام ہے۔ اس کی بہترین مثال ہمارا پڑوسی ملک اور عظیم دوست چین ہے۔
جس نے اپنی اقتصادی ترقی اورکم قیمت اشیاء کی فراہمی کے ذریعے ساری دنیا پر معاشی غلبہ حاصل کرلیا ہے اسے دوسرے ملکوں کو فتح کرنے کے لیے کسی جنگ کی ضرورت نہیں۔ چین کی مضبوط اقتصادی پوزیشن ہی اس کے لیے کافی ہے۔ پاکستان کی موجودہ اقتصادی صورتحال تسلی بخش نہیں ان حالات میں اس کے پڑوسی ملکوں سے اچھے تعلقات نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ مجھے قوی امید ہے کہ قازقستان اورکرغیزستان کوشامل کرکے پاکستان اور چین اپنے راہداری منصوبے پر آگے بڑھیں تو اس سے پورے خطے پر دوررس نتائج مرتب ہوں گے ۔
سوویت یونین کے خاتمے کے بعد وسط ایشیائی ریاستوں سے پاکستان کے اچھے اور خوشگوار تعلقات پاکستان اور ان ریاستوں کی ترقی و خوشحالی کے ضامن ہوسکتے ہیں۔ وزیر اعظم کے ملکی اور غیر ملکی دوسرے پاکستان کی اقتصادی ترقی کے نقطہ نظر سے بہت اہم ہیں۔ انھیں شک و شبہ کی نظر سے دیکھنا پاکستان کے مفاد میں نہیں۔ دورے کا ایک اہم اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ آستانہ کی سڑکوں پر محمد نوازشریف کی کسی پروٹوکول کے بغیر چار کلومیٹر تک چہل قدمی نے قازق مسلمانوں پر بڑے مثبت اثرات چھوڑے اور انھیں اپنے ملک کی پاکستان سے گہری وابستی کا احساس ہوا۔
یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ہوگی کہ قازقستان رقبے کے اعتبار سے دنیا کا نواں بڑا ملک ہے اس کے تیل و گیس کے ذخائر کسی بھی عرب ملک سے زیادہ ہیں جب کہ زیر زمین اس کے معدنی وسائل کا اب تک شمار ہی نہیں کیا جاسکا۔ اس کی آبادی ایک کروڑ 64 لاکھ ہے ۔ سوویت یونین سے آزادی کے بعد سب سے پہلے پاکستان نے قازقستان کو تسلیم کیا۔
یہی سبب تھا کہ دونوں ریاستوں میں جلد خوشگوار تعلقات قائم ہو گئے۔اور اب ان تعلقات میں کافی گرم جوشی پائی جاتی ہے جب کہ وزیر اعظم محمد نوازشریف کے حالیہ دورہ قازقستان کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان ایک نئے دور کا آغاز ہونے کی توقع ہے ۔ دونوں ملکوں کو اقتصادی ترقی اور خوشحالی کی جانب گامزن ہونے میں قافی مدد ملے گی۔ وزیر اعظم کا حالیہ دورۂ قازقستان خوش آیند امر ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو سوویت یونین سے آزاد ہونے والی دیگر ریاستوں کے ساتھ بھی روابط بڑھانے چاہئیں تاکہ پاکستان خطے کے امن اور ترقی کے لیے اہم کردار ادا کرسکے۔