ہم نفسانِ خوش گزراں
شخصی خاکے لکھنے والے کے اپنے ذکرکے بغیر مکمل نہیں ہوتے
شخصی خاکے لکھنے والے کے اپنے ذکرکے بغیر مکمل نہیں ہوتے۔ حمزہ فاروقی کے لکھے گئے شخصی خاکوں میں ان کی تصویر بھی نمایاں ہے، ان کا معیار خوب و زشت، ان کی پسند و ناپسند، دوستی اور دشمنی کے پیمانے، تصورات و توہمات سب نظر آتے ہیں۔ ان کی کتاب ''ہم نفسانِ خوش گزراں'' کا وہ باب جس میں ان کی جامعہ اور ان کے استادوں کا بیان ہے اس ضمن میں قابل ذکر ہے۔ اسلامیہ کالج کراچی سے انٹرمیڈیٹ کر کے جب انھوں نے کراچی یونیورسٹی میں بی اے آنرز میں داخلہ لیا تو لکھتے ہیں:
''یونیورسٹی میں داخلے سے قبل میں خود ساختہ انسان تھا۔ میری طبع غیوردھوبی، نائی، حمامچی اور درزی کا احسان مند ہونا گوارا نہ کرتی تھی لیکن اب میں ایک نئی دنیا کا باسی تھا۔ رفتہ رفتہ جمالِ ہم نشیں اثر انداز ہونے لگے۔ پری چہرہ لڑکیوں کے جھرمٹ میں رہ کر مجھے اجلے کپڑوں کی یاد آئی۔ بال ترشوانے کے لیے باربر شاپ کا رخ کیا اور ریش تراشی کے لیے ریزرکو زحمت دینے لگا۔ آدمی کی جون میں آنے کے لیے جمعے کے جمعہ نہانے لگا۔''
درحقیقت وہ زمانہ ہی ایسا تھا۔ جامعہ کراچی کا یہ زیریں دور تھا۔ حمزہ کہتے ہیں کہ یونیورسٹی کی انتظامیہ جس سے طلبا کا سب سے پہلے واسطہ پڑتا تھا، ہر ممکن طریقے سے طلبا کی مدد کرتی تھی۔ ہمدردی سے پیش آتی تھی، علم اوراخلاق کی پذیرائی تھی، اساتذہ کی عزت کی جاتی تھی، ان کے علم و فضل کا احترام کیا جاتا تھا، اساتذہ نوجوانوں کی تعلیم وتربیت میں دلچسپی لیتے تھے، تعلیم کا معیار قائم رکھنے کا اصرارکرتے تھے۔
ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی وائس چانسلر تھے۔وہ خود پڑھے لکھے،مخلص اوردرد مند شخص تھے اور انھوں نے منتخب روزگاراساتذہ کو یونیورسٹی میں جمع کرلیا تھا۔ ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی، ڈاکٹر محمود حسین، ڈاکٹر افضال قادری، ڈاکٹر امیر حسن صدیقی، ڈاکٹر محمود احمد، مولانا منتخب الحق اور مولانا ابن حسن جارچوی جیسی شخصیات یونیورسٹی سے وابستہ تھیں۔ ان کے علم و فضل میں کسے کلام تھا۔
محمد حمزہ فاروقی نے شعبہ اردو میں داخلہ لیا تھا۔ اس شعبے کے سربراہ ان دنوں ڈاکٹر ابواللیث صدیقی تھے جن کے بارے میں حمزہ کی رائے ان کے اس تبصرے سے ظاہر ہوتی ہے کہ ''وہ خیالی پلاؤ پکاتے اور سامعین سے توقع کرتے کہ وہ اس پلاؤ کو خوشامد کا بگھار دیں۔ اپنی ذات میں وہ خوبیاں تلاش کرتے جو دوسروں کو نظر نہ آتی تھیں۔'' ان کے علاوہ شعبہ اردو میں ایک استاد سیدابوالخیر کشفی بھی تھے۔ حمزہ فاروقی نے اپنی کتاب میں ان پر خاکہ لکھا ہے۔ لکھتے ہیں ''کشفی صاحب کا مزاج شعلہ و شبنم کا امتزاج تھا لیکن یہ طے کرنا محال تھا کہ وہ کس وقت شعلہ بداماں اورکب شبنم افشاں ہوتے ہیں۔ ان کا مطالعہ اور مشاہدہ وسیع تھا لیکن وہ آوارہ خوانی کو ترجیح دیتے تھے۔ ان کے لیکچروں میں خاص جذب وکیف پایا جاتا تھا۔''
جامعہ کراچی کے انگریزی کے شعبے میں ڈاکٹر سید اشرف علی اور مسز مایا جمیل کی شخصیت نمایاں تھی۔ فارسی کے صدر شعبہ، علی گڑھ یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ ڈاکٹر غلام سرور تھے جن کی لیاقت کے معترف علمائے ایران بھی تھے۔ جنرل ہسٹری میں حمزہ کے ایک استاد ڈاکٹر رئیس احمد خان تھے۔ان کے بارے میں وہ لکھتے ہیں ''انھیں سن کر یہ احساس ابھرتا تھا کہ تاریخ محض واقعات کی کھتونی یا بادشاہوں کی سوانح کا نام نہیں بلکہ ان عوامل کے تجزیے کا علم ہے، جو اہم واقعات اور انقلابات کو جنم دیتے ہیں۔''
حمزہ فاروقی بتاتے ہیں کہ ان کے دور میں جامعہ کے مختلف شعبوں میں علمی مجالس اور تہذیبی سرگرمیاں کثرت سے تھیں اور ہر محفل میں کھانے پینے کو خوب ملتا تھا۔ یونیورسٹی میں کانوکیشن دھوم دھام سے منعقد ہوتا تھا۔ تقریروں کے سالانہ مقابلے ہوتے تھے۔ان دنوں جنید فاروقی، ظہور بھوپالی، دوست محمد فیضی، یونس شرر، مظفر حسین شاہ، جاوید جبار، سعدیہ صدیقی اور راشدہ افضال مقرروں میں ممتاز مقام رکھتے تھے۔ طلبا کی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز یونیورسٹی کی کینٹین تھی۔ یونین کے انتخابات کے ایام ہنگامہ خیز ہوتے تھے مگر یوں یونیورسٹی کا ماحول پرسکون تھا۔
حمزہ فاروقی لکھتے ہیں ''جامعہ کا دور اپنی دل فریب یادوں کے ساتھ رخصت ہوا اور دل میں ایک کسک چھوڑگیا۔ پھر نہ وہ آزادی میسر آئی اور نہ وہ ایام بے فکری ملے۔''
''ہم نفسانِ خوش گزراں'' میں جتنی قلمی تصویریں ہیں سب ہی ہلکے اورگہرے رنگوں کے امتزاج سے خوش منظر ہیں۔ کچھ فنکار کی چابکدستی سے البتہ زیادہ نمایاں ہوگئی ہیں۔
ڈاکٹر شوکت سبزواری کا ذکر کرتے ہوئے حمزہ لکھتے ہیں کہ ان کی طبیعت میں منافقت بالکل نہ تھی۔ ایک مرتبہ ادبی انعاموں کے منصف کی حیثیت سے انھوں نے ایک خاتون کے ناول کو انعام کا مستحق ٹھہرایا۔ حمزہ ان کے پاس گئے اورکہا ''فنی اعتبار سے تو ناول انعام کا حقدار نہ تھا۔'' ڈاکٹر صاحب نے فرمایا ''بھئی! مجھے پسند ہے۔'' حمزہ نے پوچھا ''ناول یا اس کی مصنفہ؟'' کہنے لگے ''پہلے مصنفہ پر دل آیا، پھر ناول انعام کا سزاوار ٹھہرا۔''
حمزہ پروفیسر مرزا محمد منصور سے اپنی پہلی ملاقات کا حال لکھتے ہیں''مختصر سی بات چیت کے دوران انکشاف ہوا کہ ہمارے خیالات اور امراض میں خاصی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ مثلاً وہ دمہ کے مریض تھے اور مجھے بھی کبھی کبھی سانس کی تکلیف ہوتی تھی۔ تبادلہ مرض و خیالات کے بعد آپ نے مجھے اپنا ہم دمہ ساتھی قرار دیا۔''
شاہ حسن عطا سے حمزہ فاروقی کا تعارف اس وقت ہوا جب وہ اسلامیہ کالج میں سال اول کے طالب علم تھے۔ لکھتے ہیں ''ان کے مزاج میں نہ عالموں کی پیوست تھی اور نہ ملاؤں کی خشونت بلکہ خاصی دلچسپ اور دل آویز شخصیت محسوس ہوئی اور اس بات نے مجھے ان سے بار بار ملنے کا حوصلہ بخشا۔'' حمزہ کہتے ہیں کہ انھوں نے شاہ حسن عطا کے شاعرانہ کمال کو دو موقعوں پر شدت سے محسوس کیا۔ ایک اپنی تعریف کے وقت اور دوسرے مخالفین کا ذکر کرتے ہوئے۔ وہ لکھتے ہیں ''شاہ صاحب جہاں اپنے کمالات کے اظہار میں باکمال تھے، مخالفین کی ہجو میں بھی مبالغہ آرائی سے کام لیتے تھے۔ ضروری نہ تھا کہ وہ شخص پردہ غیب میں ہو، اکثر حاضرین بھی ان کا تختہ مشق بنتے۔ ان کے مخالفین و ممدوحین اس تیزی سے بدلتے کہ شاید یورپی اداکارائیں بھی اس عجلت سے شوہر نہ بدلتی ہوں۔''
مولانا حسن مثنیٰ ندوی سے حمزہ فاروقی کی شناسائی اس وقت ہوئی جب وہ اخبار ''حریت'' کی ایڈیٹری سے سبکدوش ہوچکے تھے۔کراچی میں اور پھر یہ دونوں ایک وقت میں لندن میں تھے ان کی ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ حمزہ لکھتے ہیں''مولانا ندوی کی باتوں میں بے پناہ جاذبیت تھی۔ گفتگو کے دوران وقت گزرنے کا احساس نہ رہتا۔ وسیع ومتنوع تجربات اور واقعات رنگا رنگ کپڑے کے تھان کی مانند کھلتے چلے جاتے۔ وہ ادب شناساؤں میں ادیب، عالموں میں عالم اور صوفیوں میں صوفی تھے۔''
کلام اقبال کے شارح پروفیسر یوسف سلیم چشتی سے بھی حمزہ فاروقی کا نیازمندی کا تعلق تھا۔ لکھتے ہیں ''میں نے ایک دفعہ مولانا سے عرض کیا کہ آپ کے یہاں ہمہ گیری یا Versatility پائی جاتی ہے۔ مولانا میری حقیقت شناسی اور سعادت مندی سے بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے، ہاں بھئی! میرا شروع ہی سے یہ انداز رہا ہے۔ مجھے فلسفے کے علاوہ تاریخ، سیاسیات، اردو اور فارسی ادبیات سے دلچسپی رہی ہے۔ میں نے عرض کیا کہ اسی ہمہ گیری کا کرشمہ ہے کہ آپ کلام اقبال کی شرح کے دوران مسلم ممالک میں مغرب زدگی اور تجرد کا قصہ لے بیٹھے ہیں اور حسن ازل کی تشریح کے دوران ترک خواتین عالمی مقابلہ حسن میں شرکت کرلیتی ہیں۔ یہ سنتے ہی مولانا نے تیزی سے آنکھیں جھپکائیں اور موضوع بدل دیا۔''
ڈاکٹر وحید قریشی سے حمزہ فاروقی کے تعلقات تین دہائیوں پر پھیلے ہوئے تھے۔ لکھتے ہیں ''ان تیس برسوں میں، میں ڈاکٹر صاحب کی شفقت و دلداری اور فقرہ بازی کا شکار ہوتا رہا۔ ہر زہریلے فقرے کے بعد تعلقات منقطع کرلینے کو جی چاہتا لیکن پھر ان کی بزرگی، خلوص اور علم و فضل آڑے آتے اور تعلقات کا دھارا معمول کے مطابق بہنے لگتا۔''
حمزہ بتاتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب ٹھیٹھ پاکستانی تھے۔ان کی ادیبوں اور شاعروں سے دوستی وطنی بنیاد پر تھی۔ انھیں جہاں دوست داری کا فن آتا تھا، وہیں دشمن سازی میں بھی کمال حاصل تھا۔ انھیں فقرہ بازی کا شوق تھا اور ان کا پہلا پیارکتابوں سے تھا۔
مشفق خواجہ سے حمزہ فاروقی کی ملاقات کا آغاز 1972میں ہوا اور پھر یہ سلسلہ دراز ہوگیا۔ لکھتے ہیں ''ہماری اکثر شامیں کلفٹن کے ساحل پرگزرتیں۔ اس وقت آبادی کم تھی، سڑک دو رویہ کے بجائے اکہری تھی، دور تک خالی میدان سیم زدہ رہتے۔ خواجہ صاحب کو ساحل پر غروب آفتاب کا منظر بہت پسند تھا۔ اسے دیکھتے ہی ان کے اندرکا شاعر جاگتا۔ اس وقت ان کی گل افشانی گفتار کا عالم جدا ہوتا، بھولے بسرے واقعات یاد آنے لگتے اور وہ ماضی کے تعاقب میں دور نکل جاتے۔''
''ہم نفسانِ خوش گزراں'' میں تین ایسی شخصیتوں کے خاکے بھی شامل ہیں جن سے حمزہ فاروقی استنبول میں ملتے رہے ہیں۔ یہ ظفر حسن آیبک، سعید شامل اور ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار تھے۔ ان سے حمزہ کی بہت یادیں وابستہ ہیں۔