قصہ طیارے پر جا کر قرض لینے کا

عرض یہ کررہے تھے کہ ہم اپنا موازنہ دوسری قوموں سے کرنے کے بجائے خود اپنے آپ سے کرنے کی عادت اختیار کرلی



ہم ہر بار دنیا بھر سے اپنے آپ کا موازنہ کرتے ہیں اورخاصے شرمندہ خود بھی ہوتے ہیں اور ہمارے ساتھ یقینا قارئین بھی ہوتے ہوں گے کیوں کہ جو بھی پاکستان کا ''حقیقی درد'' رکھتا ہے وہ ضرور شرمندگی محسوس کرے گا کیوں کہ دامن پر آئے ہوئے دھبے یا پورے دامن کے داغدار ہونے میں دانستہ یا نادانستہ ایک SPOT اس کے حصے میں بھی آتا ہے ، جسے ''چھینٹ'' یا عام زبان میں ''چھینٹا'' کہتے ہیں۔

کیا کریں کہ کالم نگاری کے ضمن میں اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کی ''فنکاری'' ہمیں نہیں آتی اور نہ ہم اس ''فنکارانہ اسکول'' کے طالب علم ہونا چاہتے ہیں جب تک زمین پر ہیں۔ ''بوریا'' کافی ہے اور جب زمین کے نیچے جانا ہوگا تو وہاں بھی وہی مالک ہوگا جس نے یہاں ''بوریا'' دیا ہے۔ اپنی ریڈیو پاکستان کی ''زندگی ملازمت'' میں بھی یہی طور طریقے تھے اور ہمیشہ ''مالی مادی'' نقصان اٹھایا مگر ''روح سرشار رہی کہ سچ کھڑا ؤں'' میں پاؤں رہے سخت تو تھی مگر سفر کا لطف آگیا۔ خیر تو عرض کررہے تھے کچھ اور درمیان میں ''جملہ معترضہ'' آگیا تو اس موازنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے۔

یہ بھی ایک سوال ہے اس کا جواب تو اس بات میں بھی ہے جو ابھی عرض کی یعنی اس کے برعکس عمل کرتے لبادہ کوئی اور اوڑھتے اور عمل کچھ اور ہوتا تو بہت فائدہ ہوتا مگر ہم نے دیکھا کہ ایسے عمل سے آپ چھوٹے چھوٹے ''سچے'' پودے لگادیتے ہیں جن کو زمانے کا ''سرد و گرم'' یا تو تناور درخت بنادیتا ہے اور اگر وہ اس کا مقابلہ نہ کرسکیں تو خس و خاشاک کا حصہ بننا ان کا مقدر ٹھہرتا ہے اور ہرچیزکا ایک انجام ایک مقدر تو طے شدہ ہے نا۔

تو پاکستان کے درد کا ذکرکیا تھا ہم نے ویسے تو پاکستان اب ''دردستان'' ہی ہے موجودہ دور میں اردو اس کے دوبارہ پاکستان بننے میں نہ جائے کتنا وقت لگے یہ دیوانے کی ''بڑ'' سمجھیں یا ایک حقیقت یہ آپ کا اختیار ہے کیوں کہ ہم ریت میں سر چھپانے اور دل ہی دل میں بہتر مستقبل کے خواب کا ذکر کرنے یا شاید دل میں دیکھنے کے عادی ہوچکے ہیں۔

حقیقتوں سے دور خواب وخیال میں رہنے والی پاکستانی قوم جس کی 'گڈری'' چپکے چپکے کوئی کیا بہت سے ''کوئی'' مل کر دھیرے دھیرے سرکار دور لے جارہے ہیں اور جاگتے نہیں ہیں۔ علامہ اقبال نے جس نیند کا ذکر کیا تھا وہی نیند اس قوم پر طاری ہے یا ''طاری'' کردی گئی ہے۔ موبائل فون ٹیبلٹ، انٹرنیٹ اور نہ جانے کیا کیا چیزیں ڈال کر اس کے خمیر میں۔ لوگ کہتے ہیں کہ آج کے بچے بڑے کمال کے ہیں۔

چھوٹا سا بچہ نیٹ چلالیتا ہے، موبائل فون چلالیتا ہے، فون کے LOCK کھول لیتا ہے اور اس قسم کے بہت سے کام آج کا ''ننھا'' انجام دے لیتا ہے اور آپ اس کے فوٹوسوشل میڈیا پر POST کرکے خوش ہوتے رہتے ہیں تو سوال یہ ہے کہ یہ بچہ ہے کس کا، یہ ''ننھا'' یا ''ننھی'' قبول کسی کے آپ نے NET سے تو ڈاؤن لوڈ نہیں کیے یہ آپ کے شب و روز کا نتیجہ ہے اور آپ کے شب و روز کیا ہیں اس پر آپ کے اپنے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم بیان کریںگے تو ''منٹو نام'' ہونے کا خطرہ ہے اور ہر قسم کے مولانا ہماری ''گوش مالی'' حسن سعادت سمجھیںگے۔

عرض یہ کررہے تھے کہ ہم اپنا موازنہ دوسری قوموں سے کرنے کے بجائے خود اپنے آپ سے کرنے کی عادت اختیار کرلیں بشمول خود میرے تو شاید اتنا اوپر سے بار بار نہ گریں۔ 21 تاریخ ہے اگست کی اخبار میں کہ برطانیہ کے لوگ حیران رہ گئے جب انھوں نے ایک عام طیارے میں وزیراعظم برطانیہ ڈیوڈ کیمرون کو اپنے ساتھ سفر کرتے دیکھا۔ ایک لڑکی نے ان کی ''سیلفی'' بناکر سوشل میڈیا پر پوسٹ کردی اور ہماری اخباری و صحافتی زبان میں ''سوشل میڈیا پر ڈال دی'' اور لکھا کہ میں حیرت زدہ ہوں کہ مجھ سے تیسری سیٹ پر برطانیہ کا وزیراعظم موجود ہے اور وہی عام ناشتہ بھی کررہا ہے جو دوسرے مسافر کررہے ہیں۔

یقین جانیے میرا بڑا دل چاہا کہ یہاں ڈیوڈ کیمرون کا نام نہ ہوتا خبر وہیں سے آتی جہاز وہی ہوتا مگر نام پاکستان کے وزیراعظم کا ہوتا۔ کاش، کاش ایسا ہوتا مگر کبھی نہیں ہوگا ہم ایک سسٹم کا حصہ ہیں اور اس سسٹم کا مقصد ہماری بربادی ہے۔ ''آبادی'' نہیں ایسے ''نوآبادیاتی'' کا نام دے دے کر خوب اچھالاگیا، بدنام کیا گیا مگر اب دوستو! یہ کہانی پرانی ہوگئی اب کوئی اور نام موجود اس دھوکے اور فراڈ کے لیے کیوں کہ اس خبر کے ساتھ ہی دو تین روز پہلے کی ایک خبر بھی یاد آگئی کہ پاکستان کے '' وزیر'' ایک ملک میں کسی معاہدے پر دستخط کرنے گئے ہیں تو وزیراعظم پاکستان کا طیارہ لے کر گئے ۔

اس میں سفر کیا ہے اس معاہدے کے لیے جو ملک کے مفاد میں ہونے کا امکان شاید کم اور ذاتی فائدے کا سودا زیادہ لگتا ہے ہوسکتا ہے کہ میری بات کی تردید ہوجائے خبر میری نہیں اخبار کی ہے رائے میری، خیال میرا غلط ہوسکتا ہے مگر ایک بات سوچنے کی ہے کہ چاہے وہ کوئی بھی کام ہو اگر اپنا ذاتی ہے یا سرکاری وزیراعظم کا طیارہ کیوں استعمال ہوا؟ اتنے لوگ کیوں گئے کہ طیارے کا سہارا لینا پڑا اور یہ کہ یہ سب لوگ عام طیارے سے کیوں نہیں گئے۔

جو ملک دن رات قرضے لے رہا ہے جو قرضوں سے خزانہ بھرکر ذخائر دکھا رہا ہے اور عوام کو بے وقوف بنارہاہے اس ملک کے عوام کے خون پسینے کی کمائی سے یہ طیارہ خریدا گیا ہے، ایک ووٹ دے کر عوام نے یہ طیارہ وزیراعظم کے لیے خریدنے کی اجازت نہیں دی تھی۔

پاکستان کے صدر اور وزیراعظم کو ملک کے معاشی حالات کو دیکھتے ہوئے یہ طیارے ہوائی کمپنی کو فروخت کر کے پیسہ سرکاری خزانے میں جمع کرانا چاہیے اور کفایت شعاری اختیار کرنے کی مثال قائم کرنی چاہیے مگر ایسا ہوگا نہیں۔ میٹرو میں وزیراعلیٰ سفر کرے تو یہ دکھانے پر ہی الگ اخراجات ہوجاتے ہیں۔ میٹروکا ٹکٹ تو 20 روپے کا تھا اس وقت وزیراعلیٰ کیا اپنی کار میں میٹرو تک آئے تھے اور واپسی پر اپنی کار میں تشریف لے گئے اور کیا اکیلے تھے؟

تو یہ حال ہے ہمارے ملک کا ایک مقروض ملک کا۔ '' وزیر'' وزیراعظم کا طیارہ استعمال کررہے ہیں۔ دوسرے ملکوں میں اس پر عدالتیں، سزائیں دے رہی ہیں ہمارے ملک میں انعام، عوام سے ٹیکس وصولی کے کارنامے کا اعلان روز نئے انداز میں اور وصولی اس کا انعام ''ہندوسوں کے ہیر پھیر'' کا یہ بادشاہ پاکستان کی معیشت کا بھی ''بے تاج'' بادشاہ ہے اس وقت کسی وقت پنجاب میں ایک ''جگا ٹیکس'' مشہور تھا اور اسے بد قماش و بد معاش لوگ لیا کرتے تھے مگر ان کا انجام ٹھیک نہیں ہوتا اور آخر کار وہ ''پولیس مقابلے'' میں مارے جاتے تھے۔

اب شاید یہ ٹیکس سرکاری ہے، ہر روز نئے انداز کا ہے اور کیوں کہ ٹیکس لینے والے کا کوئی کچھ نہیں بگاڑسکتا نہ اسمبلی نہ قانون لہٰذا ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑسکتا وہ ٹیکس کے نت نئے انداز کے موجد بھی اور وہ یہ اختیار بھی رکھتے ہیں کہ وزیراعظم کی طرح وزیراعظم کا طیارہ استعمال کر کے ایک مقروض ملک کے لیے کہیں سے اور ''قرض'' لانے کا بندوبست کرسکتے ہیں، اے بوریہ نشینو! مبارک ہو ہم آج آسمانوں میں ہیں صرف آسمان کی تعریف آپ خود کرلیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں