آخری خواہش
’’پاپا! سوری میں جانتی ہوں کہ آپ مجھ سے بہت لَوکرتے ہو
صبح 8 بجے کا وقت ہے، تمام طالب علم اسکول کی اسمبلی میں مصروف ہیں، اچانک فائرنگ کی آواز سنائی دیتی ہیں، جس سے اسکول میں بچوں اور اساتذہ میں بھگدڑ مچ جاتی ہے، فائرنگ کی اطلاع پر پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری اسکول پہنچ کر واقعے کا جائزہ لیتے ہیں، معلوم ہوا کہ میٹرک کلاس کے طالب علم 16 سالہ نوروز نے اپنی ساتھی طالبہ فاطمہ بشیرکو ماتھے پرگولی مارنے کے بعد اپنی کنپٹی پر پستول رکھ کر خود کو گولی مار لی۔ پولیس کو لاشوں کے پاس سے 2 خطوط ملتے ہیں جو مرنے والے دونوں طلبا کے ناموں سے لکھے ہوئے تھے۔
''پاپا! سوری میں جانتی ہوں کہ آپ مجھ سے بہت لَوکرتے ہو، لیکن پاپا ! میں نوروز سے بہت لَو کرتی ہوں، اس لیے میں سوسائیڈ کر رہی ہوں کیونکہ میں جانتی ہوں آپ میری شادی کسی اور کے ساتھ کروگے جو مجھے ایکسپٹ نہیں، میں صرف نوروزکی ہوں، اس جنم میں ہم ایک ساتھ نہیں رہ سکتے، اس لیے ہم مرکر ایک ہوں گے، بائے پاپا ! سوری آئی لَو یو پاپا ! جب میں مر جاؤں نا تو پاپا پلیز میری قبرنوروزکی قبرکے ساتھ ہی بنانا، پلیز پاپا! میری لاسٹ وش ہے، پاپا ! سب کی کیئرکرنا، بائے پاپا!بائے مام! تھینکس گاڈ جی! کہ آپ نے مجھے میرے پیار سے ملا دیا، گاڈ جی! میری ماما اور پاپا کا خیال رکھنا، آئی لَو یو پاپا !'' (فاطمہ بشیر۔)
''ڈیڈی، ممی! سوری آپ لوگوں کو میری جان اچھی نہیں لگتی ہے ۔اس لیے آپ لوگ میری شادی کسی اور کے ساتھ کرنا چاہتے ہو، بٹ (لیکن) مام(ماں) میں صرف فاطمہ کو وائف (بیوی) بنانا چاہتا ہوں جو آپ لوگوں کو منظور نہیں ہے میں فاطمہ کے ساتھ آج اپنی مرضی سے سوسائیڈ کر رہا ہوں کیونکہ جب تک ہم زندہ ہیں آپ لوگ ہمیں ایک ہونے نہیں دیں گے لیکن اللہ کے پاس ہم دونوں ایک ساتھ جانا چاہتے ہیں، بائے ڈیڈی، اینڈ مام! آئی لَو یُو بوتھ۔ بٹ فاطمہ میری جان ہے، میں اس سے الگ ہوکر نہیں رہ سکتا اس لیے سوری بائے بائے، گاڈ! میری مام اینڈ ڈیڈ کا خیال رکھنا۔بائے گاڈ! میں آرہا ہوں آپ کے پاس، مرنے کے بعد میری قبر فاطمہ کی قبر کے ساتھ ہی بنانا، پلیز یہ میری لاسٹ وش ہے، اوکے بائے، آئی لَو یو آل مائی فیملی۔''( نوروز)
رومن اردو میں لکھے ہوئے ان خطوط سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میٹرک کلاس کے یہ دونوں ساتھی ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے لیکن انھیں ایسا لگتا تھا کہ ان کے گھر والے ان دونوں کو ایک ہونے نہیں دیں گے اس لیے انھوں نے یہ سوچ کر خودکشی کرلی کہ اگر ہم ایک ساتھ جی نہیں سکتے، ایک ساتھ مر تو سکتے ہیں۔
ایس ایچ او تھانہ سولجر بازار ارشاد سومرو کا کہنا ہے کہ واقعے میں استعمال ہونے والی نائن ایم ایم پستول طالبہ فاطمہ بشیر کے والد بشیر محمد کے نام پر رجسٹرڈ ہے۔ منگل یکم ستمبر 2015 کو فاطمہ نے اپنے والد کی پستول چھپاکر اپنے اسکول بیگ میں ڈال کر اسکول لائی، تمام صورتحال کو دیکھنے کے بعد ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خودکشی کا یہ واقعہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ کیا گیا ہے جس کے لیے دونوں طالب علم کافی دنوں سے ذہنی طور پر تیار تھے، تاہم وہ موقعے کی تلاش میں تھے جیسے ہی انھیں موقع ملا کارروائی کر بیٹھے۔ واقعے میں مرنے والے دونوں طالب علم پٹیل پاڑہ کے رہائشی تھے۔
یہ واقعہ سولجر بازار تھانے کی حدود گرومندر کے قریب واقع اسکول میں پیش آیا۔ طالب علم نوروز نے خودکشی کرنے سے ایک روز قبل اپنی فیس بک کے کور فوٹو کو تبدیل کرکے اس پر واضح طور پر لکھا تھا کہ "Tomorrow I will Die" اس کور فوٹو پر مزید درج تھا کہ "First Love Never Die"۔ جہاں اس نے ایک تصویر لگائی تھی جس میں لڑکا اور لڑکی گلے میں پھندا ڈال کر لٹکے ہوئے ہیں۔ فاطمہ بشیر کو منگل یکم ستمبر کے دن جب کہ نوروز کو بدھ 2 ستمبر کو بالترتیب میوہ شاہ اور مواچھ گوٹھ قبرستان میں سپردخاک کیا گیا اس طرح دونوں کی قبریں ان کی آخری خواہش کے مطابق ایک ساتھ نہیں بن سکیں۔
مذکورہ واقعے کو تفصیل سے لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ بالاخر محبت کا دن ، محبت کی کہانیوں پر مبنی فلموں ، ڈراموں ،انٹرنیٹ میں محبت پر مبنی پوسٹ اور موبائل فون کے ذریعے اظہار محبت کے بڑھتے ہوئے رجحان نے معاشرے پر انتہائی برے اثرات مرتب کیے ہیں، جس سے عام افراد بالخصوص اسکول و کالج کے طلبا و طالبات کا بچنا مشکل نظر آرہا ہے۔
یہ ایک نفسیاتی مسئلہ ہے جس پر غور و فکر کی ضرورت ہے۔اگر فکر و احساس کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ میڈیا، والدین، اساتذہ سمیت معاشرے کے تمام افراد اس سانحے کے ذمے دار معلوم ہوں گے، میڈیا پیار و محبت اور عشق کی داستانوں کو اس طرح سے بناکر پیش کر رہا ہوتا ہے کہ جیسے زندگی میں اس کے سوا اور کچھ نہیں، بس یہی ایک کام کرنے کو ہے، نوجوانوں کے ذہنوں میں فلمی اور ڈراموں کے ہیرو اور ہیروئن گردش کرتے رہتے ہیں اور وہ مشرقی رسوم و روایات کو فرسودہ قرار دے کر باغی بنے ہوئے ہیں۔
عالمی سطح پر عاشق و معشوق کے دن منائے جانے نے بھی مشرقی معاشرے پر منفی اثرات مرتب کیے ہوئے ہیں اور ہمارے نوجوان اسلامی تعلیمات سے دوری اور مغربی طرز تعلیم حاصل کرنے کے سبب یہ بھول چکے ہیں یا انھیں بتایا نہیں جاتا کہ ہمارے مشرقی معاشرے میں عشق لڑانا معیوب ہے اور بحیثیت مسلمان کے شریعت میں منع کیا گیا ہے تاکہ عزتیں محفوظ رہیں اور کسی ناخوشگوار واقعے سے بچا جاسکے۔
یہ چیز فساد ہے اور معاشرے کے لیے نقصان دہ ہے جیساکہ مذکورہ بالا واقعے کی صورت میں رونما ہوچکا ہے۔ والدین کی ذمے داری ہے کہ وہ اولاد کی تربیت سے غفلت نہ برتیں، ان کی تربیت میں اخلاقیات پر زور دیا جائے اور اپنے بچوں سے عمر کے لحاظ سے مختلف موضوعات پر دوستانہ گفتگو کرتے رہنا چاہیے۔ والدین اور اساتذہ کو چاہیے کہ وہ بچوں کو بتایا کریں کہ ٹی وی اور فلموں پر دکھائی جانے والی پیار محبت کی داستانیں محض فکشن ہیں ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
ہمارا اپنا میڈیا جسے مشرقی روایات کا ترجمان و امین ہونا چاہیے تھا وہ بھی بھارتی میڈیا کی نقالی میں مصروف ہے۔ بھارتی میڈیا کی جو خرافات گھر گھر دیکھی جا رہی ہیں وہ سب ہمارے سامنے ہیں۔
ایک طرف بھارت ہماری سرحدوں پر حملے کرتا ہے اور دوسری جانب ہماری نسل کو بھارتی فلمیں جو نیم عریاں ہوتی ہیں اور ان کے فحش گانے دکھانے کی ترغیب دی جا رہی ہے اور نئی نسل انھیں شوق سے دیکھنے میں مصروف ہے، ان کی اشیا خریدی جاتی ہے ان کے جرائم پر مبنی فلمیں و ڈرامے دیکھے جاتے ہیں جس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ الگ جداگانہ فیملی سسٹم کی وجہ سے بھی گھروں اور خاندانوں میں بزرگوں کا کردار بچوں کی زندگی میں کم سے کم ہوتا جا رہا ہے اس لیے نئی نسل میں تربیت کا فقدان پایا جاتا ہے اور ہماری مشرقی اقدار تباہ ہو رہی ہیں۔ اسکولوں کو والدین کے ساتھ رابطہ رکھنا چاہیے اور بچوں کی کونسلنگ کرنی چاہیے، اتنی کم عمر میں اس قسم کے واقعے کا ہونا لمحہ فکریہ ہے۔
بچوں کے خطوط کے مطابق والدین کو اس بات کا پہلے سے علم تھا، اس لیے والدین کو انھیں اعتماد میں لے کر اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تھی، اس بارے میں کسی کو مورد الزام ٹھہرانا غلط ہے کیونکہ اس طرح کے کیسز میں والدین، اسکول اور میڈیا سب ذمے دار ہیں، اگر والدین اور اسکول بچوں کو صحیح تربیت دیں اور والدین اسکول کے ساتھ رابطے میں رہیں اور میڈیا غیروں کی تہذیب وثقافت کی بجائے ہماری اپنی مشرقی اقدار کا پرچار کریں تو ایسے واقعات سے بچا جاسکتا ہے۔ نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ میڈیا کے فکشن سے اس قدر متاثر نہ ہوں کہ ان سے ان کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو۔
ہر ایک انسانی جان قیمتی ہے۔ ہر مذہب میں خودکشی حرام ہے، اسلام میں خودکشی کرنے کے جرم کی سزا دوزخ ہے اور قانونی طور پر بھی جرم ہے۔کم عمری کے ماہ و سال تعلیم حاصل کرنے کے ہوتے ہیں، پھر اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کا وقت آتا ہے تب والدین اپنی ذمے داری کو نبھاتے ہوئے اولاد کی شادی کرتے ہیں، اس میں اولاد کی پسند بھی دیکھی جاتی ہے جو رشتہ والدین پسند کرتے ہیں اس میں اولاد کی بھلائی ہوتی ہے۔
نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے بزرگوں سے اپنے والدین سے اچھا انسان بننے کی تربیت لیں جو ان کی کامیابی کا سبب بنے گا ورنہ خودسری میں نقصان کے سوا کچھ بھی ہاتھ نہیں آئے گا۔ اللہ نوروز اور فاطمہ کی مغفرت کرے اور ان کے والدین اور لواحقین کو صبر و جمیل عطا کرے، یہ قومی المیہ ہے اس موضوع پر غور و فکر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔