شہر بدحالی کا نمونہ لٹیروں کی آماج گاہ
سیاسی پشت پناہی بلدیہ کے کرپٹ افسروں کے خلاف کارروائی میں حائل واسا کے ملازمین کے بعد بلدیہ کا عملہ بھی ہڑتال...
سندھ میں نئے بلدیاتی نظام کے نفاذ کے بعد حیدرآباد وہ پہلا میڑو پولیٹن شہر ہے جس میں باقاعدہ طور پر ایڈمنسٹریٹر کی تقرری کر دی گئی ہے۔
میڑو پولیٹن کارپوریشن کے پہلے ایڈمنسٹریٹر سید برکات احمد رضوی ہیں، جن کا تعلق حیدرآباد شہر سے ہے اور بیورو کریسی کا طویل عرصے پر محیط تجربہ رکھتے ہیں۔ وہ حیدرآباد شہر اور اس کے مضافاتی اضلاع سے گہری واقفیت رکھتے ہیں۔
سید برکات احمد رضوی یہاں مختلف عہدوں پر تعینات رہے اور اچھی شہرت کے حامل ہیں۔ انھوں نے ایک ایسے وقت میں آ کر ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ سنبھالا ہے، جب ایک طرف تو نئے بلدیاتی نظام کے خلاف حکومت مخالف تحاریک کا گڑھ حیدرآباد بنا ہوا ہے، اور دوسری جانب دو سال سے کالعدم بلدیہ اعلٰی حیدرآباد اور اس کے سب ڈویژنوں یا پھر تحصیلوں میں افسران نے لوٹ کھسوٹ کی نئی داستانیں رقم کر رکھی ہیں۔ بلدیہ اعلٰی کے افسران تو 'دس روپے کی سبزی خریدی اور دس روپے سبزی والے کو دیے، یوں بیس روپے خرچ ہوئے' جیسی کہاوت کی عملی مثال پیش کر رہے تھے، لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
ایسے بدعنوان افسران کا خود یہ کہنا تھا کہ سیاسی پشت پناہی کی وجہ سے ان کے خلاف کارروائی نہیں ہو گی۔ بلدیہ کی املاک اونے پونے فروخت کرنے کے ساتھ ساتھ ایندھن کے نام پر بھاری رقم ہڑپ کر لی گئی، بیرون ملک دورے کیے گئے اور جعلی بلز بنا کر سرکاری فائلوں کا پیٹ بھرا گیا۔ میڈیا پر اس بدترین کرپشن اور اس کے ثبوت بھی پیش کیے گئے، لیکن ان افسران کے خلاف کاروائی نہیں ہوئی۔ تین ماہ میں گندے نالے کی صفائی کے نام پر نوے لاکھ روپے کی رقم ٹھیکے داروں کے نام پر افسران ہضم کر گئے، طرفہ ستم یہ کہ 'صفائی' کے باجود پورا جی وارڈ گندے نالے کا تالاب بن گیا۔
اس پر دوبارہ نالے کی صفائی کا فیصلہ کیا گیا۔ اس کے لیے تحصیل سٹی میں اسنارکل کے لیے بجٹ کی رقم نکالی گئی، اور 'صفائی' ہو گئی، لیکن صاحبو، یہ صفائی جی وارڈ کی نہیں بلکہ بجٹ کی ہوئی۔ یہ سارے کام میونسپل کمشنر کی موجودگی میں ہوتے رہے۔ ان حالات میں اسے شہریوں کی بدقسمتی ہی کہیں گے کہ مئی کے مہینے میں سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں میونسپل کمشنر کا ٹرانسفر ہو گیا تھا، لیکن وہ میڑو پولیٹن کارپوریشن کے ایڈمنسٹریٹر کی آمد تک نہ صرف بلدیہ اعلٰی میں موجود رہے بلکہ گورنر سندھ کی میٹنگوں میں بلدیہ کی نمائندگی بھی فرماتے رہے۔ اس کی نشان دہی ہونے کے باوجود انھیں وہاں سے نہیں ہٹایا گیا اور نئے ایڈمنسٹریٹر کی تقرری کے بعد ہی شہریوں کو ان سے نجات ملی۔ اس دوران تقریباً ساٹھ سے زاید افراد کو سٹی، لطیف آباد اور قاسم آباد میں جعلی لیٹرز کی بنیاد پر جوائننگ دی گئی، جس سے قومی خزانے کو اب تک کروڑوں روپے کا نقصان پہنچا ہے، لیکن ان کے خلاف کارروائی نہیں ہونے دی گئی۔
ماہ ستمبر کے آخر میں 'ایکسپریس' کی ایک خبر کی بنیاد پر اسسٹنٹ ڈائریکٹر لوکل فنڈ آڈٹ کو سی بی اے یونین نے ایک درخواست دی کہ بعض لوگ جو بہ ظاہر مختلف اضلاع اور لوکل گورنمنٹ ڈپارٹمینٹ سے ٹرانسفر کروا کے بلدیہ اعلی میں جوائننگ دے رہے ہیں، ان کے نہ صرف ٹرانسفر لیٹرز بلکہ اپائمینٹ لیٹرز تک جعلی ہیں۔ اس پر ضابطے کے تحت کاروائی اور ایسے ٹرانسفر آرڈرز کی تحقیقات کی گئیں تو معلوم ہوا کہ کالعدم تحصیل سٹی میں ایسے جعلی لیٹرز کا گویا کاروبار شروع ہو چکا ہے۔ ایک مافیا ہے جو پچاس ہزار سے پانچ لاکھ روپے وصول کر کے چوکی دار، نائب قاصد، جونیر کلرک، اسسٹنٹ، ٹیچرز، سینٹری ورکرز کے جعلی اپائنٹمئنٹ آرڈر اور ٹرانسفر لیٹرز بنا کر دے رہی ہے۔ اس مافیا کا بلدیہ اعلی حیدرآباد کے افسران سے گٹھ جوڑ ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق کالعدم سٹی میں ساٹھ سے زاید افراد کو ایسے ٹرانسفر لیٹرز کی بنیاد پر جوائننگ دی گئی۔
ستمبر کے آخری دنوں میں جعلی ٹرانسفر آرڈرز کا معاملہ کُھلا تو متحدہ قومی موومنٹ کے ایم این اے صلاح الدین نے بلدیہ کے تمام افسران کو طلب کر کے میٹنگ کی۔ اس دوران بلدیہ کا مالی بحران ختم کرنے کے لیے ریکوری کی پوزیشن معلوم کرنے پر افسران نے بتایا کہ انھوں نے اس سلسلے میں تیاری نہیں کی ہے، جس پر طے ہوا کہ بلدیاتی افسران ریکوری، آمدنی، اور اخراجات کی تفصیلات بتائیں گے۔ تاہم ایک ماہ گذر جانے کے باوجود افسران نے جہاں ایم این اے صلاح الدین کو تفصیلات نہیں دیں، وہیں حکومت سندھ کی ہدایت کے مطابق جعلی ٹرانسفر لیٹرز لانے والوں کے خلاف کاروائی کے احکامات پر بھی عمل نہیں کیا بلکہ دو افراد کے لیٹرز جعلی ثابت ہونے کے بعد دھمکیاں ملی ہیں کہ اگر انھیں تنخواہیں ادا نہ کی گئیں تو نتیجہ اچھا نہیں نکلے گا، اس پر فائر بریگیڈ کے ایک ملازم کو معطل کیا گیا، لیکن ایم این اے کے احکامات اور حکومت سندھ کی ہدایت کو نظر انداز کر دیا گیا۔
ایسے میں مزید آٹھ لیٹرز جعلی ثابت ہوئے ہیں، اس سلسلے میں محکمہ لوکل گورنمنٹ حکومت سندھ کے سیکشن افسر ایڈمن نثار احمد قریشی نے بھرتی کے آرڈر کی تصدیق کے عنوان سے لیٹر نمبر ''ایس او اے ایل جی 4 /(1) 2012'' مورخہ بارہ اکتوبر میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر لوکل فنڈ آڈٹ ضلع حیدرآباد کو ریکارڈ دیکھنے کے بعد بتایا کہ ٹرانسفر اور بھرتی کے لیٹرز کے ساتھ ساتھ کالعدم بلدیہ میں ان لیٹرز کے جمع کرائے گئے تصدیق نامے بھی جعلی ہیں۔ اس لیٹر میں ہدایت کی گئی ہے کہ آٹھوں افراد کے خلاف فوری طور پر ایف آئی آر درج کرائی جائے۔
یہ اتنا بڑا فراڈ ہے کہ شہریوں نے شاید اس کا تصور بھی نہیں کیا ہو گا۔ اصولاً تو ان افراد کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے ساتھ ساتھ ایسے افسران کے خلاف بھی کاروائی ہونی چاہیے، جو جوائننگ میں پیش پیش تھے، لیکن ان کی سیاسی پشت پناہی کی وجہ سے شاید کوئی اس کی جرأت نہیں کر رہا۔
بلدیہ اعلیٰ کے افسران نے لوٹ کھسوٹ میں اس قدر مصروف رہے کہ انھیں شہری امور اور شہریوں کے مسائل کا حل نکالنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ حیدرآباد شہر کچرا گھر بنتا چلا گیا اور افسران ہی ٹھیکے لے کر بلز منظور کرواتے رہے، لیکن کچرا نہیں اٹھایا۔ ورکشاپ کا سامان چوری ہو رہا ہے، لیکن نہ تو متعلقہ افسر نے ایف آئی آر درج کرائی اور نہ ہی اس چوری کو روکنے کی کوشش کی گئی۔ بلدیہ کی گاڑیاں اپنی جگہ سے ہلتی نہیں اور ان کی مرمت کے نام پر ساٹھ ساٹھ لاکھ روپے کے بلز بنتے رہتے ہیں جب کہ یہی گاڑیاں اسکریپ کر دی جاتی ہیں۔
ان حالات میں نئے ایڈمنسٹریٹر برکات احمد رضوی کا امتحان شروع ہو گیا ہے، کیوں کہ بلدیہ میں مالی بحران شدت اختیار کر گیا ہے۔ اس کی وجہ پچھلے سال ذاتی مفاد کی خاطر ٹیکسز کی وصولی نہ کرنا اور ادارے کو مالی نقصان پہنچانا ہے جب کہ رواں سال کے چار ماہ گذر جانے کے باوجود صرف سولہ لاکھ روپے وصول کیے گئے ہیں جب کہ شیڈول کے مطابق اب تک چار کروڑ روپے کی وصولی ہونا تھی۔ سید برکات احمد رضوی نے گورنر سندھ سے ڈیڑھ کروڑ روپے کی خصوصی گرانٹ لے کر شہر کو کچرے سے نجات دلانے کے لیے رات دن ایک کر دیا ہے، جب کہ ٹاؤن سٹی میں افسران ان کے خلاف پروپگنڈا مہم چلا رہے ہیں۔
ٹاؤن سٹی حیدرآباد میں ملازمین کو تین ماہ سے تنخواہ نہیں ملی ہے اور اسٹاف یونین نے مطالبہ کیا ہے کہ 24 اکتوبر تک اگر کرپٹ افسران کے خلاف کاروائی نہ ہوئی اور جعلی لیٹرز جاری اور قبول کرنے والے افسران کے خلاف ایف آئی آر درج نہ کرائی گئی اور تین ماہ تنخواہ نہ دی گئی تو تمام ملازمین، 25 اکتوبر سے کام چھوڑ دیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ عیدالضحیٰ پر آلائشیں نہیں اٹھائی جائیں گی اور اس کا خمیازہ شہریوں کو بھگتنا پڑے گا۔ ادھر واسا میں چھے ماہ سے تنخواہیں نہ ہونے کے باعث ملازمین نے فراہمی و نکاسیِ آب کا نظام مفلوج کر دیا، جس سے پینے کے پانی کا بحران پیدا ہوا اور مختلف علاقوں میں گندا پانی نکل آیا۔ ان حالات میں اگر بلدیہ کے ملازمین بھی ہڑتال پر چلے گئے تو شہر کو بدترین صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا۔
میڑو پولیٹن کارپوریشن کے پہلے ایڈمنسٹریٹر سید برکات احمد رضوی ہیں، جن کا تعلق حیدرآباد شہر سے ہے اور بیورو کریسی کا طویل عرصے پر محیط تجربہ رکھتے ہیں۔ وہ حیدرآباد شہر اور اس کے مضافاتی اضلاع سے گہری واقفیت رکھتے ہیں۔
سید برکات احمد رضوی یہاں مختلف عہدوں پر تعینات رہے اور اچھی شہرت کے حامل ہیں۔ انھوں نے ایک ایسے وقت میں آ کر ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ سنبھالا ہے، جب ایک طرف تو نئے بلدیاتی نظام کے خلاف حکومت مخالف تحاریک کا گڑھ حیدرآباد بنا ہوا ہے، اور دوسری جانب دو سال سے کالعدم بلدیہ اعلٰی حیدرآباد اور اس کے سب ڈویژنوں یا پھر تحصیلوں میں افسران نے لوٹ کھسوٹ کی نئی داستانیں رقم کر رکھی ہیں۔ بلدیہ اعلٰی کے افسران تو 'دس روپے کی سبزی خریدی اور دس روپے سبزی والے کو دیے، یوں بیس روپے خرچ ہوئے' جیسی کہاوت کی عملی مثال پیش کر رہے تھے، لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
ایسے بدعنوان افسران کا خود یہ کہنا تھا کہ سیاسی پشت پناہی کی وجہ سے ان کے خلاف کارروائی نہیں ہو گی۔ بلدیہ کی املاک اونے پونے فروخت کرنے کے ساتھ ساتھ ایندھن کے نام پر بھاری رقم ہڑپ کر لی گئی، بیرون ملک دورے کیے گئے اور جعلی بلز بنا کر سرکاری فائلوں کا پیٹ بھرا گیا۔ میڈیا پر اس بدترین کرپشن اور اس کے ثبوت بھی پیش کیے گئے، لیکن ان افسران کے خلاف کاروائی نہیں ہوئی۔ تین ماہ میں گندے نالے کی صفائی کے نام پر نوے لاکھ روپے کی رقم ٹھیکے داروں کے نام پر افسران ہضم کر گئے، طرفہ ستم یہ کہ 'صفائی' کے باجود پورا جی وارڈ گندے نالے کا تالاب بن گیا۔
اس پر دوبارہ نالے کی صفائی کا فیصلہ کیا گیا۔ اس کے لیے تحصیل سٹی میں اسنارکل کے لیے بجٹ کی رقم نکالی گئی، اور 'صفائی' ہو گئی، لیکن صاحبو، یہ صفائی جی وارڈ کی نہیں بلکہ بجٹ کی ہوئی۔ یہ سارے کام میونسپل کمشنر کی موجودگی میں ہوتے رہے۔ ان حالات میں اسے شہریوں کی بدقسمتی ہی کہیں گے کہ مئی کے مہینے میں سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں میونسپل کمشنر کا ٹرانسفر ہو گیا تھا، لیکن وہ میڑو پولیٹن کارپوریشن کے ایڈمنسٹریٹر کی آمد تک نہ صرف بلدیہ اعلٰی میں موجود رہے بلکہ گورنر سندھ کی میٹنگوں میں بلدیہ کی نمائندگی بھی فرماتے رہے۔ اس کی نشان دہی ہونے کے باوجود انھیں وہاں سے نہیں ہٹایا گیا اور نئے ایڈمنسٹریٹر کی تقرری کے بعد ہی شہریوں کو ان سے نجات ملی۔ اس دوران تقریباً ساٹھ سے زاید افراد کو سٹی، لطیف آباد اور قاسم آباد میں جعلی لیٹرز کی بنیاد پر جوائننگ دی گئی، جس سے قومی خزانے کو اب تک کروڑوں روپے کا نقصان پہنچا ہے، لیکن ان کے خلاف کارروائی نہیں ہونے دی گئی۔
ماہ ستمبر کے آخر میں 'ایکسپریس' کی ایک خبر کی بنیاد پر اسسٹنٹ ڈائریکٹر لوکل فنڈ آڈٹ کو سی بی اے یونین نے ایک درخواست دی کہ بعض لوگ جو بہ ظاہر مختلف اضلاع اور لوکل گورنمنٹ ڈپارٹمینٹ سے ٹرانسفر کروا کے بلدیہ اعلی میں جوائننگ دے رہے ہیں، ان کے نہ صرف ٹرانسفر لیٹرز بلکہ اپائمینٹ لیٹرز تک جعلی ہیں۔ اس پر ضابطے کے تحت کاروائی اور ایسے ٹرانسفر آرڈرز کی تحقیقات کی گئیں تو معلوم ہوا کہ کالعدم تحصیل سٹی میں ایسے جعلی لیٹرز کا گویا کاروبار شروع ہو چکا ہے۔ ایک مافیا ہے جو پچاس ہزار سے پانچ لاکھ روپے وصول کر کے چوکی دار، نائب قاصد، جونیر کلرک، اسسٹنٹ، ٹیچرز، سینٹری ورکرز کے جعلی اپائنٹمئنٹ آرڈر اور ٹرانسفر لیٹرز بنا کر دے رہی ہے۔ اس مافیا کا بلدیہ اعلی حیدرآباد کے افسران سے گٹھ جوڑ ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق کالعدم سٹی میں ساٹھ سے زاید افراد کو ایسے ٹرانسفر لیٹرز کی بنیاد پر جوائننگ دی گئی۔
ستمبر کے آخری دنوں میں جعلی ٹرانسفر آرڈرز کا معاملہ کُھلا تو متحدہ قومی موومنٹ کے ایم این اے صلاح الدین نے بلدیہ کے تمام افسران کو طلب کر کے میٹنگ کی۔ اس دوران بلدیہ کا مالی بحران ختم کرنے کے لیے ریکوری کی پوزیشن معلوم کرنے پر افسران نے بتایا کہ انھوں نے اس سلسلے میں تیاری نہیں کی ہے، جس پر طے ہوا کہ بلدیاتی افسران ریکوری، آمدنی، اور اخراجات کی تفصیلات بتائیں گے۔ تاہم ایک ماہ گذر جانے کے باوجود افسران نے جہاں ایم این اے صلاح الدین کو تفصیلات نہیں دیں، وہیں حکومت سندھ کی ہدایت کے مطابق جعلی ٹرانسفر لیٹرز لانے والوں کے خلاف کاروائی کے احکامات پر بھی عمل نہیں کیا بلکہ دو افراد کے لیٹرز جعلی ثابت ہونے کے بعد دھمکیاں ملی ہیں کہ اگر انھیں تنخواہیں ادا نہ کی گئیں تو نتیجہ اچھا نہیں نکلے گا، اس پر فائر بریگیڈ کے ایک ملازم کو معطل کیا گیا، لیکن ایم این اے کے احکامات اور حکومت سندھ کی ہدایت کو نظر انداز کر دیا گیا۔
ایسے میں مزید آٹھ لیٹرز جعلی ثابت ہوئے ہیں، اس سلسلے میں محکمہ لوکل گورنمنٹ حکومت سندھ کے سیکشن افسر ایڈمن نثار احمد قریشی نے بھرتی کے آرڈر کی تصدیق کے عنوان سے لیٹر نمبر ''ایس او اے ایل جی 4 /(1) 2012'' مورخہ بارہ اکتوبر میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر لوکل فنڈ آڈٹ ضلع حیدرآباد کو ریکارڈ دیکھنے کے بعد بتایا کہ ٹرانسفر اور بھرتی کے لیٹرز کے ساتھ ساتھ کالعدم بلدیہ میں ان لیٹرز کے جمع کرائے گئے تصدیق نامے بھی جعلی ہیں۔ اس لیٹر میں ہدایت کی گئی ہے کہ آٹھوں افراد کے خلاف فوری طور پر ایف آئی آر درج کرائی جائے۔
یہ اتنا بڑا فراڈ ہے کہ شہریوں نے شاید اس کا تصور بھی نہیں کیا ہو گا۔ اصولاً تو ان افراد کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے ساتھ ساتھ ایسے افسران کے خلاف بھی کاروائی ہونی چاہیے، جو جوائننگ میں پیش پیش تھے، لیکن ان کی سیاسی پشت پناہی کی وجہ سے شاید کوئی اس کی جرأت نہیں کر رہا۔
بلدیہ اعلیٰ کے افسران نے لوٹ کھسوٹ میں اس قدر مصروف رہے کہ انھیں شہری امور اور شہریوں کے مسائل کا حل نکالنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ حیدرآباد شہر کچرا گھر بنتا چلا گیا اور افسران ہی ٹھیکے لے کر بلز منظور کرواتے رہے، لیکن کچرا نہیں اٹھایا۔ ورکشاپ کا سامان چوری ہو رہا ہے، لیکن نہ تو متعلقہ افسر نے ایف آئی آر درج کرائی اور نہ ہی اس چوری کو روکنے کی کوشش کی گئی۔ بلدیہ کی گاڑیاں اپنی جگہ سے ہلتی نہیں اور ان کی مرمت کے نام پر ساٹھ ساٹھ لاکھ روپے کے بلز بنتے رہتے ہیں جب کہ یہی گاڑیاں اسکریپ کر دی جاتی ہیں۔
ان حالات میں نئے ایڈمنسٹریٹر برکات احمد رضوی کا امتحان شروع ہو گیا ہے، کیوں کہ بلدیہ میں مالی بحران شدت اختیار کر گیا ہے۔ اس کی وجہ پچھلے سال ذاتی مفاد کی خاطر ٹیکسز کی وصولی نہ کرنا اور ادارے کو مالی نقصان پہنچانا ہے جب کہ رواں سال کے چار ماہ گذر جانے کے باوجود صرف سولہ لاکھ روپے وصول کیے گئے ہیں جب کہ شیڈول کے مطابق اب تک چار کروڑ روپے کی وصولی ہونا تھی۔ سید برکات احمد رضوی نے گورنر سندھ سے ڈیڑھ کروڑ روپے کی خصوصی گرانٹ لے کر شہر کو کچرے سے نجات دلانے کے لیے رات دن ایک کر دیا ہے، جب کہ ٹاؤن سٹی میں افسران ان کے خلاف پروپگنڈا مہم چلا رہے ہیں۔
ٹاؤن سٹی حیدرآباد میں ملازمین کو تین ماہ سے تنخواہ نہیں ملی ہے اور اسٹاف یونین نے مطالبہ کیا ہے کہ 24 اکتوبر تک اگر کرپٹ افسران کے خلاف کاروائی نہ ہوئی اور جعلی لیٹرز جاری اور قبول کرنے والے افسران کے خلاف ایف آئی آر درج نہ کرائی گئی اور تین ماہ تنخواہ نہ دی گئی تو تمام ملازمین، 25 اکتوبر سے کام چھوڑ دیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ عیدالضحیٰ پر آلائشیں نہیں اٹھائی جائیں گی اور اس کا خمیازہ شہریوں کو بھگتنا پڑے گا۔ ادھر واسا میں چھے ماہ سے تنخواہیں نہ ہونے کے باعث ملازمین نے فراہمی و نکاسیِ آب کا نظام مفلوج کر دیا، جس سے پینے کے پانی کا بحران پیدا ہوا اور مختلف علاقوں میں گندا پانی نکل آیا۔ ان حالات میں اگر بلدیہ کے ملازمین بھی ہڑتال پر چلے گئے تو شہر کو بدترین صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا۔