موٹر سائیکل شو روم کے مالک کا اندھا قتل
پولیس نے کیسے حل کیا۔۔۔ ملک ناصر کے قتل کی رُوداد
عہد حاضر میںیقین کس پر کیاجائے؟ کیوں کہ موٹر سائیکل شوروم کے مالک اور پانچ بچوں کے باپ ملک ناصر کو اس کے اپنے ہی ملازم نے کمیشن نہ دینے پر اپنے بھائی اور دوست سے مل کر اغواء کرنے کے بعد سر میں گولی مار کر قتل کر دیا۔
ظلم یہی نہیں قتل کرنے کے بعد مجرم شوروم سے دو موٹر سائیکلیں بھی لے گئے۔ شوروم مالک کو قتل کرنے کے بعد نعش کو سیم نالے کی نذر کر دیا گیا۔ کہتے ہیں قاتل جتنا بھی ہوشیار ہو پکڑا ضرور جاتا ہے۔ اوپر سے پولیس والوں کا کیا کہنا ، انہوں نے اپنے اوپر سے قتل کا بوجھ اتارنے کے لیے کہانی کو ایک اور رُخ دینے کی کوشش کی لیکن سچ کتنی دیر تک چھپتا ہے، آخر سامنے آ ہی جاتا ہے۔
فیصل آباد کے تھانہ گلبرگ کے علاقہ ماڈل ٹائون بی بلاک میں پیش آنے والے اِس واقعہ کا مقتول چوہڑ ماجرہ غلام محمد آباد کے رہائشی تھے ،تین بیٹیوں اور دو بیٹوں کے باپ چالیس سالہ ملک ناصر نے موٹر سائیکلوں کا شوروم بنا رکھا تھا ، اس نے حیدر آباد، غلام محمد آباد نمبر دو کے رہائشی اشرف کو ملازم رکھ کر اس کا کمیشن مقرر کر دیا تھا۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ناصر نے اسے کمیشن دینا بند کر دیا اور اکثر اسے چھوٹی چھوٹی غلطی پر مارنا پیٹنا شروع کردیا۔ اسی بات سے اشرف پریشان رہتا تھا۔
دو ہفتے قبل اشرف کے بھائی شہزاد نے اس سے اس کی پریشانی کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ اس کا مالک اسے کمیشن بھی نہیں دیتا بلکہ الٹا اسے مارتا بھی ہے جس پر شہزاد نے اپنے بھائی سے مل کر ایک خوف ناک پلان تیار کیا۔ اس نے اپنے مالک ملک ناصر کو موٹر سائیکل خریدنے کے بہانے اپنے عزیزوں کے پاس بلوایا جہاں اسے پوچھا گیا کہ وہ اسے کیوں کمیشن نہیں دیتا اور مارتا کیوں ہے اس منصوبے کے تحت شہزاد نے اپنے بھائی اشرف کو بتایا کہ ایک دودھ فروش کے پاس ہنڈا 125 موٹر سائیکل ہے وہ فروخت کر رہا ہے۔
آپ اپنے مالک کو ساتھ لے کر آئیں موٹر سائیکل سستے داموں میں مل جائے گی جس پر اشرف نے اپنے مالک سے بات کی اور وہ دونوں موٹر سائیکل پر سوار ہو کر حیدر آباد غلام محمد آباد نمبر دو میں چلے گئے جہاں شہزاد ان کو اپنے ایک عزیز کے گھر لے گیا۔ جو کسی مرگ پر گئے ہوئے تھے شہزاد نے اپنے بھائی اشرف کے کمیشن نہ دینے کی بات کرتے ہوئے ملک ناصر کو تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے گھر سے رقم منگوانے کو کہا اشرف نے ملک ناصر کے موبائل فون سے ملک ناصر کے گھر اس کی اہلیہ کو فون کرایا کہ انہوں نے موٹر سائیکل خریدا ہے اس کی رقم چالیس ہزار روپے دینی ہے ہارون آرہا ہے اس کو دے دو جب ہارون ملک ناصر کے گھر گیا تو گھر کو تالا لگا ہوا تھا اور اس کی اہلیہ کسی کام کے سلسلہ میں گھر سے باہر گئی ہوئی تھی ہارون نے وہاں جاکر اشرف کو فون کیا کہ گھر میں کوئی موجود نہ ہے جس کے بعد اشرف نے اپنے بھائی شہزاد کو بتایا جس نے غصہ میں آکر ملک ناصر کے سر میں گولی مار کر اسے قتل کر کے نعش کو ایک بوری میں ڈال کر موٹر سائیکل پر رکھی اوراسے سیم نالہ میں پھینک دیا پھر اشرف شوروم پر آگیا وہاں سے اس نے دو موٹر سائیکلیں نکال کر ایک اپنے بھائی کو دی اور ایک خود رکھی۔
مالک ناصر کے لاپتہ ہونے کی اطلاع اس کے بھائی محمد خالد ولد سلیمان نے ایک درخواست کے ذریعے یکم اکتوبر کو تھانہ گلبرگ میں دی، جس میں لکھا تھا کہ اس کا بھائی محمد ناصر جو موٹر سائیکلوں کی خرید و فروخت کا کام کرتا ہے اور نڑوالا روڈ ماڈل ٹائون بی میں شوروم بنایا ہوا ہے۔ مورخہ 30-9-2012 کو دوپہر کے وقت اپنے ملازم محمد اشرف ولد محمد ارشد کے ہمراہ شوروم پر موجود تھا۔ ملازم محمد اشرف نے ہمیں بتایا کہ دو آدمی ہمارے شوروم پر کار میں آئے، بقول ملازم محمد اشرف ، میرا بھائی اٹھ کر گلے ملا اور ان کو بوتل وغیرہ پلائی کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد میرا بھائی ملازم محمد اشرف کو بتلا کر گیا کہ میں ان کے ساتھ جڑانوالہ جا رہا ہوں وہ سب باہر کھڑی کار میں بیٹھ کر چلے گئے۔ چونکہ میرا بھائی اتوار کو اکثر موٹر سائیکل کی خرید و فروخت کے سلسلہ میں شہر سے باہر جاتا رہتا ہے اس لیے ہمیں شام تک کوئی تشویش نہ ہوئی۔
رات تک واپس نہ آنے پر ہم نے تلاش شروع کر دی تو میرے بھائی کا فون بھی بند جا رہا تھا میرے بھائی کو نامعلوم افراد نے اغواء کر لیا ہے۔ کارروائی کی جائے جس کے بعد پولیس نے دفعہ 365 ت پ کے تحت مقدمہ درج کیا ۔ مقدمہ کے اندراج کے بعد سی پی او بلال صدیق کمیانہ نے ایس پی لائل پور ٹائون زاہد محمود گوندل، ڈی ایس پی گلبرگ عاشق علی جٹ، ایس ایچ او گلبرگ محمد افضل چیمہ اور انوسٹی گیشن انچارج اللہ رکھا کی زیر نگرانی ٹیم تشکیل دی جنہوں نے ملازم محمد اشرف کے بیان کی روشنی میں مغوی کو تلاش کیا تو اس کا بیان مشکوک ہونے پر اس سے پوچھ گچھ شروع کی تو ملازم محمد اشرف اور اس کے دوست ہارون اور بھائی شہزاد نے ڈر کے مارے مسمی جاوید اختر ولد ملک شادی خاں اور عبدالرحمن ولد غلام علی کے پاس جا کر علیحدہ علیحدہ منت سماجت شروع کر دی، ہم نے ناصر علی کو قتل کر دیا ہے جس کے بعد جاوید اختر اور عبدالرحمان نے سارا معاملہ پولیس کو بتایا۔
پولیس نے تینوں کو حراست میں لے ان سے پوچھ گچھ کی تو انہوں نے بتایا کہ ناصر علی مجھے موٹر سائیکلوں کی کمیشن نہ دینے کے ساتھ ساتھ تنخواہ بھی نہ دیتا تھا اور اکثر اوقات غلیظ گالیاں اور معمولی معمولی باتوں پر مارتا پیٹتا تھا۔ میں اس کے تشدد سے بہت تنگ تھا ،میں نے جب سارا ماجرا اپنے بھائی شہزاد اور اپنے دوست ہارون کو بتایا تو ہم تینوں نے اس کو مارنے کا پلان بنایا 30 ستمبر کو طے شدہ پلان کے مطابق محمد اشرف نے ملک محمد ناصر کو دکان پر کہا کہ میرے گھر کے پاس ایک دودھ والا موٹر سائیکل فروخت کرنا چاہتا ہے اور بہت سستی مل رہی ہے تو محمد ناصر اپنے ملازم محمد اشرف کی باتوں میں آگیا اور اس کے ساتھ اس کے گھر واقع محلہ حیدر آباد نزد گندا نالہ چلا گیا۔
محمد اشرف کی خالہ کا گھر خالی تھا پہلے اس گھر میں محمد ناصر کو لے جایا گیا اور وہاں پر پہلے سے موجود محمد شہزاد اور محمد اشرف نے پسٹل کے زور پر اُس کے ہاتھ پائوں باندھ دیے اور اس کو چارپائی پر بٹھا لیا اپنے اوپر تشدد کیے جانے اور بقایا تنخواہ کا مطالبہ کیا تو محمد ناصرنے انکار کیا جب وہ مان گیا تواسے کہا گیا کہ گھر سے پیسے منگوائو تو محمد ناصر نے کہا کہ کسی آدمی کو میرے گھر بھجوا دو تو میری بیوی چالیس ہزار روپے دے دے گی، اس سے فون پر بات کروا دینامحمد اشرف نے محمد ہارون کو بلوایا اور محمد ناصر کے گھر پیسے لینے کے لیے بھجوا دیا ، ہارون پیسے لینے محمد ناصر کے گھر گیا تو محمد ناصر کی بیوی گھر پر موجود نہ ہونے کی وجہ سے پیسے نہ مل سکے۔
محمد ہارون واپس آگیا تو محمد شہزاد نے غصہ میں آکر محمد ناصر کو پسٹل کا فائر کرکے مار دیا ، اس کی نعش کمرہ میں رکھ کر محمد اشرف اور محمد شہزاد دوکان پر آگئے اور محمد ناصر کی دو موٹر سائیکلیں ایک ہنڈا 125 اور ایک CD-70 دکان سے لے آئے، شام کو محمد ناصر کی نعش کو بوری میں بند کر کے محمد اشرف ، محمد شہزاد اور محمد ہارون نے مراد آباد پل پر موٹر سائیکل کھڑی کر کے نعش سیم نالہ میں پھینک دی۔ ملزمان کے اس بیان کی روشنی میں نعش کی تلاش شروع کر دی۔ ڈی ایس پی عاشق علی جٹ نے بذریعہ وائرلیس تمام اضلاع میں پیغام دیا تو چنیوٹ کنٹرول کی معرفت پتہ چلا کہ ایک نعش پل چک نمبر 50 ج ب کے پاس سے سیم نالے میں سے نکالی گئی ہے جو تھانے رجوہا والوں نے بعداز پوسٹ مارٹم چنیوٹ دفن کروا دی تھی، مدعیان کے ذریعے نعش کی شناخت کروائی تو پوسٹ مارٹم رپورٹ میں فائر کا ذکر نہ تھا بلکہ تھانے رجوہا کے ایس ایچ او محمد یار اور چوکی پل 50 ج ب کے عملہ نے بوری بند نعش کا ذکر نہ کیا ہوا تھا بلکہ ڈوب کرمرنے کا ذکر کیا ہوا تھا کیوں کہ پوسٹ مارٹم کنندہ ڈاکٹر نے نعش کا خود ملاحظہ نہ کیا ۔
پولیس کی رپورٹ کے مطابق ہی پوسٹ مارٹم نتیجہ تیار کر دیا گیا تھا ۔ بعد میں نعش کی دوبارہ قبر کشائی کروا کر دوبارہ بذریعہ پوسٹ مارٹم کروایا گیا تو نعش کو بذریعہ فائر قتل کرنا ثابت ہو گیا، مزید تحقیق کی گئی تو علاقہ کے لوگوں نے بتایا کہ نعش بوری میں بند تھی جو بعدازاں بوری چوکی 50 ج ب کے احاطہ سے ڈی ایس پی گلبرگ عاشق علی جٹ کی زیرنگرانی برآمد ہوئی اور اس طرح نعش کی شناخت ہوئی اور ملزمان کے بیان کے مطابق تمام حقائق ثابت ہو گئے اور محمد ناصر کی نعش بعدازاں پوسٹ مارٹم لواحقین نے شناخت کی جو ان کے حوالے کردی ۔ مقتول کے جسم سے اتارے گئے کپڑے مقتول کی بیوی اور درزی جس سے سلوائے ہوئے تھے نے شناخت کر لیے۔ پولیس نے اس کیس کو دن رات محنت کے بعد آخر کار تلاش کر کے تینوں گرفتار ملزمان کو جیل بھجوا دیا ہے۔
اسے کہتے ہیں کہ قاتل جتنا بھی ہوشیار ہو وہ قتل کا کوئی نہ کوئی ثبوت چھوڑ جاتا ہے۔ سی پی او بلال صدیق کمیانہ نے ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ پولیس نے نو ماہ کے دوران درجنوں اندھے قتل ٹریس کر کے ملزمان کو جیل بھجوایا ہے۔ ان کیسوں کو ٹریس کرنے میں ایس پی سی آئی اے رائے ضمیر الحق اور ان کی ٹیم کا کافی ہاتھ ہے۔
ظلم یہی نہیں قتل کرنے کے بعد مجرم شوروم سے دو موٹر سائیکلیں بھی لے گئے۔ شوروم مالک کو قتل کرنے کے بعد نعش کو سیم نالے کی نذر کر دیا گیا۔ کہتے ہیں قاتل جتنا بھی ہوشیار ہو پکڑا ضرور جاتا ہے۔ اوپر سے پولیس والوں کا کیا کہنا ، انہوں نے اپنے اوپر سے قتل کا بوجھ اتارنے کے لیے کہانی کو ایک اور رُخ دینے کی کوشش کی لیکن سچ کتنی دیر تک چھپتا ہے، آخر سامنے آ ہی جاتا ہے۔
فیصل آباد کے تھانہ گلبرگ کے علاقہ ماڈل ٹائون بی بلاک میں پیش آنے والے اِس واقعہ کا مقتول چوہڑ ماجرہ غلام محمد آباد کے رہائشی تھے ،تین بیٹیوں اور دو بیٹوں کے باپ چالیس سالہ ملک ناصر نے موٹر سائیکلوں کا شوروم بنا رکھا تھا ، اس نے حیدر آباد، غلام محمد آباد نمبر دو کے رہائشی اشرف کو ملازم رکھ کر اس کا کمیشن مقرر کر دیا تھا۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ناصر نے اسے کمیشن دینا بند کر دیا اور اکثر اسے چھوٹی چھوٹی غلطی پر مارنا پیٹنا شروع کردیا۔ اسی بات سے اشرف پریشان رہتا تھا۔
دو ہفتے قبل اشرف کے بھائی شہزاد نے اس سے اس کی پریشانی کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ اس کا مالک اسے کمیشن بھی نہیں دیتا بلکہ الٹا اسے مارتا بھی ہے جس پر شہزاد نے اپنے بھائی سے مل کر ایک خوف ناک پلان تیار کیا۔ اس نے اپنے مالک ملک ناصر کو موٹر سائیکل خریدنے کے بہانے اپنے عزیزوں کے پاس بلوایا جہاں اسے پوچھا گیا کہ وہ اسے کیوں کمیشن نہیں دیتا اور مارتا کیوں ہے اس منصوبے کے تحت شہزاد نے اپنے بھائی اشرف کو بتایا کہ ایک دودھ فروش کے پاس ہنڈا 125 موٹر سائیکل ہے وہ فروخت کر رہا ہے۔
آپ اپنے مالک کو ساتھ لے کر آئیں موٹر سائیکل سستے داموں میں مل جائے گی جس پر اشرف نے اپنے مالک سے بات کی اور وہ دونوں موٹر سائیکل پر سوار ہو کر حیدر آباد غلام محمد آباد نمبر دو میں چلے گئے جہاں شہزاد ان کو اپنے ایک عزیز کے گھر لے گیا۔ جو کسی مرگ پر گئے ہوئے تھے شہزاد نے اپنے بھائی اشرف کے کمیشن نہ دینے کی بات کرتے ہوئے ملک ناصر کو تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے گھر سے رقم منگوانے کو کہا اشرف نے ملک ناصر کے موبائل فون سے ملک ناصر کے گھر اس کی اہلیہ کو فون کرایا کہ انہوں نے موٹر سائیکل خریدا ہے اس کی رقم چالیس ہزار روپے دینی ہے ہارون آرہا ہے اس کو دے دو جب ہارون ملک ناصر کے گھر گیا تو گھر کو تالا لگا ہوا تھا اور اس کی اہلیہ کسی کام کے سلسلہ میں گھر سے باہر گئی ہوئی تھی ہارون نے وہاں جاکر اشرف کو فون کیا کہ گھر میں کوئی موجود نہ ہے جس کے بعد اشرف نے اپنے بھائی شہزاد کو بتایا جس نے غصہ میں آکر ملک ناصر کے سر میں گولی مار کر اسے قتل کر کے نعش کو ایک بوری میں ڈال کر موٹر سائیکل پر رکھی اوراسے سیم نالہ میں پھینک دیا پھر اشرف شوروم پر آگیا وہاں سے اس نے دو موٹر سائیکلیں نکال کر ایک اپنے بھائی کو دی اور ایک خود رکھی۔
مالک ناصر کے لاپتہ ہونے کی اطلاع اس کے بھائی محمد خالد ولد سلیمان نے ایک درخواست کے ذریعے یکم اکتوبر کو تھانہ گلبرگ میں دی، جس میں لکھا تھا کہ اس کا بھائی محمد ناصر جو موٹر سائیکلوں کی خرید و فروخت کا کام کرتا ہے اور نڑوالا روڈ ماڈل ٹائون بی میں شوروم بنایا ہوا ہے۔ مورخہ 30-9-2012 کو دوپہر کے وقت اپنے ملازم محمد اشرف ولد محمد ارشد کے ہمراہ شوروم پر موجود تھا۔ ملازم محمد اشرف نے ہمیں بتایا کہ دو آدمی ہمارے شوروم پر کار میں آئے، بقول ملازم محمد اشرف ، میرا بھائی اٹھ کر گلے ملا اور ان کو بوتل وغیرہ پلائی کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد میرا بھائی ملازم محمد اشرف کو بتلا کر گیا کہ میں ان کے ساتھ جڑانوالہ جا رہا ہوں وہ سب باہر کھڑی کار میں بیٹھ کر چلے گئے۔ چونکہ میرا بھائی اتوار کو اکثر موٹر سائیکل کی خرید و فروخت کے سلسلہ میں شہر سے باہر جاتا رہتا ہے اس لیے ہمیں شام تک کوئی تشویش نہ ہوئی۔
رات تک واپس نہ آنے پر ہم نے تلاش شروع کر دی تو میرے بھائی کا فون بھی بند جا رہا تھا میرے بھائی کو نامعلوم افراد نے اغواء کر لیا ہے۔ کارروائی کی جائے جس کے بعد پولیس نے دفعہ 365 ت پ کے تحت مقدمہ درج کیا ۔ مقدمہ کے اندراج کے بعد سی پی او بلال صدیق کمیانہ نے ایس پی لائل پور ٹائون زاہد محمود گوندل، ڈی ایس پی گلبرگ عاشق علی جٹ، ایس ایچ او گلبرگ محمد افضل چیمہ اور انوسٹی گیشن انچارج اللہ رکھا کی زیر نگرانی ٹیم تشکیل دی جنہوں نے ملازم محمد اشرف کے بیان کی روشنی میں مغوی کو تلاش کیا تو اس کا بیان مشکوک ہونے پر اس سے پوچھ گچھ شروع کی تو ملازم محمد اشرف اور اس کے دوست ہارون اور بھائی شہزاد نے ڈر کے مارے مسمی جاوید اختر ولد ملک شادی خاں اور عبدالرحمن ولد غلام علی کے پاس جا کر علیحدہ علیحدہ منت سماجت شروع کر دی، ہم نے ناصر علی کو قتل کر دیا ہے جس کے بعد جاوید اختر اور عبدالرحمان نے سارا معاملہ پولیس کو بتایا۔
پولیس نے تینوں کو حراست میں لے ان سے پوچھ گچھ کی تو انہوں نے بتایا کہ ناصر علی مجھے موٹر سائیکلوں کی کمیشن نہ دینے کے ساتھ ساتھ تنخواہ بھی نہ دیتا تھا اور اکثر اوقات غلیظ گالیاں اور معمولی معمولی باتوں پر مارتا پیٹتا تھا۔ میں اس کے تشدد سے بہت تنگ تھا ،میں نے جب سارا ماجرا اپنے بھائی شہزاد اور اپنے دوست ہارون کو بتایا تو ہم تینوں نے اس کو مارنے کا پلان بنایا 30 ستمبر کو طے شدہ پلان کے مطابق محمد اشرف نے ملک محمد ناصر کو دکان پر کہا کہ میرے گھر کے پاس ایک دودھ والا موٹر سائیکل فروخت کرنا چاہتا ہے اور بہت سستی مل رہی ہے تو محمد ناصر اپنے ملازم محمد اشرف کی باتوں میں آگیا اور اس کے ساتھ اس کے گھر واقع محلہ حیدر آباد نزد گندا نالہ چلا گیا۔
محمد اشرف کی خالہ کا گھر خالی تھا پہلے اس گھر میں محمد ناصر کو لے جایا گیا اور وہاں پر پہلے سے موجود محمد شہزاد اور محمد اشرف نے پسٹل کے زور پر اُس کے ہاتھ پائوں باندھ دیے اور اس کو چارپائی پر بٹھا لیا اپنے اوپر تشدد کیے جانے اور بقایا تنخواہ کا مطالبہ کیا تو محمد ناصرنے انکار کیا جب وہ مان گیا تواسے کہا گیا کہ گھر سے پیسے منگوائو تو محمد ناصر نے کہا کہ کسی آدمی کو میرے گھر بھجوا دو تو میری بیوی چالیس ہزار روپے دے دے گی، اس سے فون پر بات کروا دینامحمد اشرف نے محمد ہارون کو بلوایا اور محمد ناصر کے گھر پیسے لینے کے لیے بھجوا دیا ، ہارون پیسے لینے محمد ناصر کے گھر گیا تو محمد ناصر کی بیوی گھر پر موجود نہ ہونے کی وجہ سے پیسے نہ مل سکے۔
محمد ہارون واپس آگیا تو محمد شہزاد نے غصہ میں آکر محمد ناصر کو پسٹل کا فائر کرکے مار دیا ، اس کی نعش کمرہ میں رکھ کر محمد اشرف اور محمد شہزاد دوکان پر آگئے اور محمد ناصر کی دو موٹر سائیکلیں ایک ہنڈا 125 اور ایک CD-70 دکان سے لے آئے، شام کو محمد ناصر کی نعش کو بوری میں بند کر کے محمد اشرف ، محمد شہزاد اور محمد ہارون نے مراد آباد پل پر موٹر سائیکل کھڑی کر کے نعش سیم نالہ میں پھینک دی۔ ملزمان کے اس بیان کی روشنی میں نعش کی تلاش شروع کر دی۔ ڈی ایس پی عاشق علی جٹ نے بذریعہ وائرلیس تمام اضلاع میں پیغام دیا تو چنیوٹ کنٹرول کی معرفت پتہ چلا کہ ایک نعش پل چک نمبر 50 ج ب کے پاس سے سیم نالے میں سے نکالی گئی ہے جو تھانے رجوہا والوں نے بعداز پوسٹ مارٹم چنیوٹ دفن کروا دی تھی، مدعیان کے ذریعے نعش کی شناخت کروائی تو پوسٹ مارٹم رپورٹ میں فائر کا ذکر نہ تھا بلکہ تھانے رجوہا کے ایس ایچ او محمد یار اور چوکی پل 50 ج ب کے عملہ نے بوری بند نعش کا ذکر نہ کیا ہوا تھا بلکہ ڈوب کرمرنے کا ذکر کیا ہوا تھا کیوں کہ پوسٹ مارٹم کنندہ ڈاکٹر نے نعش کا خود ملاحظہ نہ کیا ۔
پولیس کی رپورٹ کے مطابق ہی پوسٹ مارٹم نتیجہ تیار کر دیا گیا تھا ۔ بعد میں نعش کی دوبارہ قبر کشائی کروا کر دوبارہ بذریعہ پوسٹ مارٹم کروایا گیا تو نعش کو بذریعہ فائر قتل کرنا ثابت ہو گیا، مزید تحقیق کی گئی تو علاقہ کے لوگوں نے بتایا کہ نعش بوری میں بند تھی جو بعدازاں بوری چوکی 50 ج ب کے احاطہ سے ڈی ایس پی گلبرگ عاشق علی جٹ کی زیرنگرانی برآمد ہوئی اور اس طرح نعش کی شناخت ہوئی اور ملزمان کے بیان کے مطابق تمام حقائق ثابت ہو گئے اور محمد ناصر کی نعش بعدازاں پوسٹ مارٹم لواحقین نے شناخت کی جو ان کے حوالے کردی ۔ مقتول کے جسم سے اتارے گئے کپڑے مقتول کی بیوی اور درزی جس سے سلوائے ہوئے تھے نے شناخت کر لیے۔ پولیس نے اس کیس کو دن رات محنت کے بعد آخر کار تلاش کر کے تینوں گرفتار ملزمان کو جیل بھجوا دیا ہے۔
اسے کہتے ہیں کہ قاتل جتنا بھی ہوشیار ہو وہ قتل کا کوئی نہ کوئی ثبوت چھوڑ جاتا ہے۔ سی پی او بلال صدیق کمیانہ نے ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ پولیس نے نو ماہ کے دوران درجنوں اندھے قتل ٹریس کر کے ملزمان کو جیل بھجوایا ہے۔ ان کیسوں کو ٹریس کرنے میں ایس پی سی آئی اے رائے ضمیر الحق اور ان کی ٹیم کا کافی ہاتھ ہے۔