برطانیہ کی کچھ اور باتیں
جہاں میں نے ملک کی صورتِ حال پر روشنی ڈالی جسے شرکاء نے بڑی دلچسپی اور مسرّت کے ساتھ سنا
ہمارے دوست منیر لون صاحب کا واضح موقّف تھا کہ'' مقصد اگر پاکستانی بھائیوں سے ملنا ہو تو برمنگھم گئے بغیر ولایت یاترا مکمّل نہیں ہوسکتی'' ۔ ہم نے اُنکا موقّف فو راً تسلیم کرلیا اور انھوں نے دوستوں کو اطلاع دے دی۔ برمنگھم پہنچے تو جواں سال پاکستانی نژاد لارڈ میئر سیّد شفیق حسین اپنے دفتر کے باہر ڈاکٹر جاویدحسین، چوہدری اظہر اور منتخب کونسلرز کے ہمراہ ریسیو کرنے کے لیے موجود تھے، دفتر کی پرشکوہ عمارت کا راؤنڈ لگانے کے بعد کانفرنس روم میں آگئے۔
جہاں میں نے ملک کی صورتِ حال پر روشنی ڈالی جسے شرکاء نے بڑی دلچسپی اور مسرّت کے ساتھ سنا۔راقم نے معززّ میزبانوں سے کہا کہ '' آپ نئی نسل کا ملک کے ساتھ تعلق قائم رکھنے کے لیے گروپوں کی صورت میں انھیں پاکستان بھجوائیں جہاں وہ اسلام آبا، لاہور ، کراچی خود گھوم پھر کر دیکھیں تاکہ انہں پتہ چلے کہ اصل پاکستان کیا ہے اور ان کا آبائی ملک کتنا بڑا اور کتنا خوبصورت ہے!'' انھوں نے اتفاق کیا۔ اسی روز برمنگھم کاسالانہ میلہ منعقد ہورہا تھا۔
ہم بھی میلہ دیکھنے پارک چلے گئے، میلے میں بلامبالغہ تیس سے چالیس ہزار افراد شریک تھے، اس میں تمام communities بھرپور حصہ لے رہی تھیں۔ پاکستانی کلچر کے بھرپور مظاہرے بھی دیکھنے کو ملے ،کہیں لوگ گرم گرم جلیبیاں کھارہے تھے، کہیں پہلوان وزن اُٹھانے کا مقابلہ کررہے تھے، کہیں سکھ نوجوان بھنگڑا ڈال رہے تھے اور کہیں لوگ اپنی مصنوعات بیچ رہے تھے۔ غرض کہ میلے اور نمائش کے تمام لوازمات بھرپور طور پر موجود تھے۔
ہر شخص ماحول سے لطف اندوز ہورہا تھا سوائے دو تین اُن مسلمان نوجوانوں کے جو داخلی راستے کے بالکل سامنے لاؤڈاسپیکر پر تقریریں کررہے تھے اور میلے کو غیر اسلامی قرار دے رہے تھے۔ کچھ دیر بعد ہمارا بھی ان سے آمنا سامنا ہوگیا تو ہم نے ان سے مکالمہ شروع کیا پہلے تو ان کا انداز جارحانہ تھا مگر آہستہ آہستہ وہ نرم پڑگئے اور بات سننے پر آمادہ ہوئے ۔ ڈاکٹر جاوید نے کہا ''بیٹا! زندگی کی رونقیں اور رعنائیاں اﷲکی پیدا کردہ ہیں حدود میں رہیں تو یہ کیسے غیر اسلامی ہیں''؟۔منیر لون صاحب نے انھیں سمجھاتے ہوئے کہا کہ ''آپ کا جارحانہ انداز حکمت سے بالکل خالی ہے۔
یہ لوگوں کو offendکررہا ہے''۔ راجہ شہزاد نے کہا" اگرآپ لوگ اس پارک کی صفائی کی ذمے داری سنبھال لیتے تو لوگوں کا آپ کے بارے میں بڑا مثبت تاثرہوتا، آپ کی goodwill بنتی اور پھر آپ لوگوں کو اپنی کتابیں اور لٹریچر دیتے تو اس کا تاثّر بہتر ہوتا ''۔ باریش نوجوان پہلے تو پُرزوربحث کرتے رہے مگر آخر میں انھوں نے سر ہلانے شروع کردیے ۔ وہ قائل ہوئے یا نہیں اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا بہرحال برطانیہ میں رہنے والے مسلمان دانشور سمجھتے ہیں کہ یورپ کے مسلمان گھرانوں کے نوجوان وہاںکی حکومتوں کی امتیازی اور مسلم مخالف پالیسیوں کی وجہ سے Redicalismکی طرف جارہے ہیں۔
ان کی جلد کے رنگ کے باعث انھیں وہاں دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے۔ دوسری جانب مساجد پر ایسے نیم خواندہ مولوی قابض ہوچکے ہیںجو جہالت اور نفرت کی آگ پھیلاتے ہیں ان کی ان نفرت انگیز باتوں سے برطانیہ کا تعلیم یافتہ مسلم نوجوان متنفّر ہوکر اپنی شناخت کے بحران میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ شناخت (identity)کایہ بحران مسلمان نوجوانوں کو انتہا پسند اور دہشت گرد تنظیموں کی جانب دھکیلنے کا باعث بن رہا ہے، اب تک چارسو برطانوی مسلمان (لڑکے اور لڑکیاں) داعش میں شامل ہوکر لڑنے کے لیے شام جاچکے ہیں۔ اس اہم مسئلے پر مسلمان والدین کوبجا طور پر بہت تشویش ہے۔
بیرونِی میڈیا پالیسی کے طور پر پاکستان کے بارے میں صرف منفی خبریں دکھاتا ہے(بدقسمتی سے ملکی میڈیا بھی انھی کی پیروی کررہا ہے) اس لیے پاکستانی سفارتخانوں کا یہ فرض ہے کہ وہ حُب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہوکر اپنے ملک کی خوبیوں اور خوبصورتیوں کی تشہیر کریں اور ملک کے بارے میں پھیلائی جانے والی غلط فہمیوں اور غلط پروپیگنڈے کا موثّر انداز میں جواب دیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قدرت نے وطنِ عزیز کو بے شمارنعمتوں اور وسائل سے مالامال کر رکھا ہے۔
ہمارا باسمتی چاول مڈل ایسٹ اور یورپ میں اشرافیہ کی پسندیدہ ڈش ہے۔ ہمارے آم اور کنّو کا دنیا بھر میں کوئی مقابلہ نہیں۔ پاکستانی آم کو متعارف کرانے کے لیے اکثرپاکستانی سفارتخانے مینگو فیسٹیول منعقّد کراتے ہیںجسمیں آم اور آم سے بنائی جانے والی درجنوں ڈشیں تیارکی جاتی ہیں۔ اسی طرح کِنّو اور رائس فیسٹول بھی منعقد ہونے چاہئیں اور سال میں کم از کم ایک مرتبہ پاکستانی مصنوعات کی نمائش کااہتمام بھی لازمی ہوناچاہیے۔پاکستان کی بہت سی مصنوعات اور embroideryدنیا بھر میںبہت مقبول ہے۔
اس کے علاوہ بانیانِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ؒ اور علاّمہ ا ِقبالؒ کے مقام اور پیغام سے بھی غیرملکی باشندوں کو متعارف کرانا ضروری ہے۔ قائدؒ کی عظمتِ کردار اور اقبالؒ کے آفاقی کلام اور پیغام سے دنیا بھر کے لو گ بے حد inspire ہوتے ہیں۔ ان دونوں شخصیات کے بارے میں سیمینارز بھی منعقد کیے جائیں اور ان کے متعلّق ڈوکومینٹری فلمیں بناکر بھی دکھائی جائیں۔
صوفیانہ موسیقی اورقوالی کو بہت پذیرائی مل سکتی ہے، نصرت فتخ علی مرحوم ان ملکوں میں بھی مقبول تھے جہاں لو گ اردو نہیں سمجھتے۔ راحت اورصابری کی اعلٰی میعار کی قوالیوں کے پروگرام منعقد ہونے چاہئیں۔ مگر کلچر کے نام پر لاہور اور فیصل آباد کے تھیٹروں میں دکھائے جانے والے گھٹیا اور بیہودہ اسٹیج ڈرامے ہرگز باہر نہیں جانے چاہئیں ان پر باہر اور اندر دونوں جگہوں پر پابندی لگنی چاہیے۔۔۔ جس طرح راقم نے اپنی تعیناتی کے دوران ڈھائی سال میں گوجرانوالہ ڈویژن میں اس طرح کی کوئی خرافات نہیں چلنے دی۔
سعودی عرب کی طرح یورپ میں بھی پاکستانی نوجوانوں کے جرائم میں ملوّث ہونے پر پاکستانیوں کا سنجیدہ طبقہ بہت مضطرب ہے۔ سعودی عرب میں جب کسی پاکستانی کی گردن اڑتی ہے یا جب کوئی پاکستانی پاسپورٹ ہولڈر یورپ میں گرفتار ہوتا ہے تو پوری قوم کا سر شرم سے جھک جاتا ہے، ایسے افراد پر نظر رکھنے اوران کی نگرانی کرنے کے سلسلے میں پاکستانی سفارتخانوں اور پاکستانی کمیونیٹی کو فعال کردار ادا کرنا چاہیے۔
قوم کی توہین پر آزردہ ہونے والوں کی اکثریت کا خیال ہے کہ چونکہ ان کے جرائم سے کمائے ہوئے مال سے ان کے گھر والے بھی مستفیض ہوتے ہیں لہٰذا وہ بھی ان کے ساتھ شریکِ جرم ہیں ان سے پاکستان میں پوچھ گچھ ہونی چاہیے اور ان کے پاسپورٹ ضبط ہونے چاہئیں ۔۔۔ ایسا اقدام پاکستان میں رہنے والے سہولت کاروں کو خبردار کرنے اورمجرموں سے لاتعلق کردینے کے لیے بہت ضروری ہے۔
اس بار لندن کی محفلوں میں جس شخصیّت سے مل کر بہت خوشی ہوئی وہ تھے مقبوضہ کشمیر کے انتہائی معزز گھرانے سے تعلق رکھنے والے ہارورڈ کے فارغ التحصیل ڈاکٹرمعراج متّوصاحب، ان کی دو خوبیوں کا اندازہ پہلی ملاقات میں ہی ہو گیا ۔ غیرمعمولی فکر و دانش اور پاکستان کے ساتھ بے پناہ محبّت ، اَن دیکھے پاکستان سے ٹوٹ کر عشق کرنے والے اس صاحبِ دانش کشمیری سے میں نے درخواست کی ہے کہ وہ پاکستان ضرور تشریف لائیں اور آکر اپنے خوابوں کی جنت ضرور دیکھیں، ہم ان کے لیے چشم براہ ہیں۔
لندن میں پیدل سیر کرنا میرا پسندیدہ مشغلہ ہے اس میں ساتھ دینے کے لیے ارشد بھٹی اور لون صاحب کے علاوہ پاکستان سے ہمارے دوست امتیاز وڑائچ بھی اپنے بیٹے رابیل سے ملنے لندن پہنچ گئے تھے۔
رابیل دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں آکسفورڈ اور ہارورڈ کا پڑھا ہوا قابل اور خدمت شعار نوجوان ہے جس نے اپنی صلاحیّتوں کی بناء پر چند سالوں میں ایک معروف کمپنی میں بہت اچھی پوزیشن حاصل کرلی ہے۔ اگست کے سہانے موسم میں کبھی دریائے ٹیمز کے کنارے اور کبھی ہائیڈ پارک اورریجنٹ پارک میں خوب سیر ہوتی رہی۔ طویل سیر کے بعد ایک روزایک ہم سَیر دوست کہہ اٹھا کہ'' بھا جی تُسی ایتھے آکے کُھچّاںای کڈّن آئے سو تے ایہہ کم بغیر کرائے دے اسلام آباد وی ہوسکدا سی''۔ (بھائی جان !یہاں آکر آپ نے ٹانگیں ہی تھکانی تھیں تو یہ کام کرایہ خرچ کیے بغیر اسلام آباد میں بھی ہوسکتا تھا)۔
نوٹ:۔پیپلز پارٹی کے ان لیڈروں کی سادہ دلی پر ہنسی آرہی تھی جو بلاول بھٹو کے ہر جارحانہ فقرے پر خوشی سے اَیسے اُچھل رہے تھے جیسے تقریر ختم ہوتے ہی ہر شہر اور ہر گاؤں میں قبروں کے منہ کھل جائیں گے جن سے مردہ پارٹی نکل کرزندہ ہو جائے گی۔ حضور! آپ کی پارٹی کو مفاہمت نے نہیںآپ کے لیڈروں کی ھو سِ زر نے مارا ہے۔
پارٹی بیچاری کرپشن کی دولت کے انبار تلے دب گئی ہے۔ اس میں جان پڑنے کا امکان تب پیدا ہوسکتا تھا اگر بلاول یہ اعلان کرتا کہ ''میں نے اباّ جی سے کہہ دیا ہے ہُن بس کرو! میں نے پھوپھی جی سے بھی کہہ دیا ہے اب بس بھی کرو!''۔۔۔اگر اُدھر بس نہیں ہوگی تو پارٹی کی اِدھر بس ہی سمجھیں۔ خورشید شاہ صاحب نے غلط کہا کہ بھٹوصاحب پر بھی کرپشن کے الزام لگتے تھے۔ جی نہیں! ذوالفقار علی بھٹو پر کرپشن کا کبھی الزام نہیں لگا، یہ مکروہ دھندہ وارثوں نے شروع کیا اور سب سے بڑی پارٹی کو برباد کرکے رکھ دیا۔ ایک قومی پارٹی کو تباہ کرنے والے پارٹی کے یہ نہیں قوم کے بھی مجرم ہیں!