چھاج اور تاج کے فوائد و نقصانات
چھاج باندھے جانے کی تقریب میں بھی چوہا بڑا خوش تھا لیکن پرابلم اس وقت ہوئی جب وہ اپنے ’’بل‘‘ میں جانے لگا
دراصل ہمیں اس چوہے کے بارے میں اچھی خاصی معلومات ہیں جسے ''سردار'' بنا کر اس کی دم کے ساتھ چھاج باندھا گیا تھا۔ تمام ''عوام'' چوہوں کا متفقہ فیصلہ تھا کہ سردار بننے کے بعد سردار کی دم کے ساتھ چھاج باندھنا ضروری ہے تاکہ دنیا کو دور سے پتہ چلے کہ دیکھو وہ سردار ہے۔
چھاج باندھے جانے کی تقریب میں بھی چوہا بڑا خوش تھا لیکن پرابلم اس وقت ہوئی جب وہ اپنے ''بل'' میں جانے لگا، خود تو گزر گیا لیکن سرداری کا طرہ امتیاز یا ستارہ امتیاز یا چھاج امتیاز اٹک گیا، تب بے چارے نے چھاج کو ہٹانے کا قصد کیا لیکن عوام الناس چوہوں نے احتجاج کیا کہ پھر سردار اور عام چوہوں میں فرق کیا رہ جائے گا۔
اس کے آگے راویوں نے مزید کچھ نہیں بتایا ہے لیکن ہم اندازے سے کہہ سکتے ہیں کہ بے چارے کو اپنی سرداری کی مدت بل سے باہر پوری کرنا پڑے گی یا سرداری نے استعفا باحسرت ویاس دیا ہو گا اور یقیناً وہ استعفا اس نے ''دینے'' کے لیے دیا ہو گا نہ دینے کے لیے نہیں کیونکہ باوثوق ذرایع سے معلوم ہوا ہے کہ چوہوں میں ثالثین یا تھرڈ امپائر یا تحفظات والے نہیں ہوا کرتے، چنانچہ اس چوہے اور چھاج سے سبق لے کر ہم بھی کوشش کیا کیے کہ کوئی ہماری دم کے ساتھ کوئی ''چھاج'' نہ باندھ سکے اور اس میں اچھے خاصے کام یاب رہے۔
نہایت ہلکی پھلکی دم کے ساتھ جہاں جی چاہتا آتے جاتے رہے لیکن افسوس کچھ لوگوں سے جو خود کو ہمارے خیر خواہ یا ''شبھ چنتک'' کہتے ہیں، اصل میں ہمارے دشمن ہیں، ان سے ہماری ہی بغیر چھاج یا ''ایوارڈلس'' آرام دہ زندگی دیکھی نہیں جاتی، قدم قدم پر طعنے دینے لگے کہ تم سے ''پیڑے پیڑے'' کہیں بعد میں آکر کوئی نہ کوئی ''اٹھنی چونی'' لے گئے اور تم لنڈورے کے لنڈورے ہی رہے۔
یاران تیز گام نے محمل کو جا لیا
تم محو نالہ جرس کارواں رہے
ان لوگوں کو تو بس طعنہ مارنا آتا ہے اور نہیں جانتے کہ ایوارڈ کا ''چھاج'' اپنی دم سے باناھنے کے لیے کیا کیا اور کتنے پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں،کہاں کہاں پر جبہ سائی کرنا پڑتی ہے اور کس کس گدھے کو گھوڑا کہنا پڑتا ہے۔ بات یہ نہیں کہ ہمیں اپنی دم کے ساتھ چھاج پسند نہیں ہے۔ مرحوم قمر راہی بڑے دبنگ آدمی تھے، اکثر ہمیں لتاڑتے رہتے تھے کہ ہم ان سرکاری ''چھاجوں'' سے اتنے الرجک کیوں ہیں، یہ تو ہمارا حق ہے،کوئی ہمیں اپنے پلے سے تو نہیں دے رہا ہے۔
اگر ایسا ہوتا تو یہ لوگ خود ہی سروے کر کے پتہ کرتے کہ کس نے کتنا کام کیا ہے اور کس چیز کا مستحق ہے تو پھر بھی کوئی بات ہوتی لیکن یہاں چاہے آپ آسمان اتار کر زمین پر لائیں یا زمین کو اٹھا کر آفتاب کے ساتھ شانہ بشانہ رکھ دیں ۔
کوئی ٹس سے مس نہیں ہوتا جب تک آپ خود ہی جناب عالی فیض گنجور کی خدمت میں ''فدوی'' بن کر درخواست نہ گزاریں کہ میں نے فلاں فلاں تیر مارا ہے، اس کا ثبوت لف ہذا ہے، اس لیے جناب والا شان کرم فرمائی کر کے فدوی کو اپنی فرزندی میں لے لیں، زندگی بھر، اپنے خاندان اور آنے والی سات پشتوں تک حضور پرنور کا شکر گزار رہوں گا تب تک مجال ہے جو کوئی بچی ہوئی باسی روٹی کا ٹکڑا بھی ڈال دے۔
نصیب در پہ ترے آزمانے آیا ہوں
تجھی کو ''اپنی'' کہانی سنانے آیا ہوں
اور پھر بھی کہاں؟ایسی سادہ درخواستیں یا کاغذی گھوڑے اگر اپنی منزل پر پہنچتے تو پھر غم کس بات کا تھا، اس کی بھی پہلے سے اجازت لینا پڑے گی کہ حضور اگر اجازت ہو تو کچھ عرض کروں، جب تک وہاں سے اذن درخواست نہیں ملتی، آپ درخواست دے بھی دیں تو ہر مدعی کے واسطے دارور سن کہاں اور اس کے بعد جبہ سائی کرتے کرتے جب آپ کی پیشانی پر باقاعدہ ''ثبوت'' نہ ابھر آئے ''قطار'' میں بیٹھنے کی اجازت بھی نہیں ملتی، سب سے بری شرم ناک اور توہین آمیز بات ایک رائٹر ایک فن کار ایک ہنر مند کے لیے اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ ''اپنے کام'' کے بارے میں سرکاری فارم بھی بھرے اور ساتھ ہی یہ درخواست بھی ''لف ہذا'' کرے کہ فدوی کا نام تیس مار خان باپ کا نام ساٹھ مار خان ہے اور بندے نے فلاں فلاں موقع پر فلاں فلاں اخبار میں فلاں فلاں تیر مارے ہیں، فلاں فلاں کتاب بھی چھاپی ہے اور فلاں فلاں ترانہ بھی گایا ہے، اگر حضور فیض گنجور کی طبع نازک پر گراں نہ گزرے تو
گل پھینکے ہیں اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے خانہ بر انداز چمن کچھ تو ادھر بھی
اور ''خانہ بر انداز چمن'' جو ہوتا ہے، اس کی عمر درخواست کنندہ کی خدمات سے نصف بھی نہیں ہوتی لیکن چونکہ سرکار والا مدار کرسی پر بیٹھا ہوا ہوتا ہے اور اس کے ہاتھ میں دستخط کرنے والا قلم دیا ہوتا ہے۔
اس لیے اس کا جو جی چاہے حسن کرشمہ ساز کرے، جب کہ اس اعزاز اور سعادت کے لیے نہ خدمات کی ضرورت ہوتی ہے نہ کارناموں کی نہ فن کی نہ ہنر کی۔ کسی نے کسی وزیر یا سیکریٹری کی شان میں کوئی نظم لکھی تو ''پی پی پیہا'' ہو گیا حالانکہ اس کا کل سرمایہ وہی ایک نظم ہوتی ہے ۔کسی کی بیوی کسی کے الیکشن میں سرگرم ہوئی اور وہ جیت کر وزیر ہو گیا تو کسی نہ کسی پی پی پیہا یا ممتاز و امتیاز کا مستحق ہوا۔
یہ تو ممکن ہی نہیں کہ کسی نے فارم نہ بھرے ہوں، درخواستیں نہیں لکھی ہوں، اپنے کارنامے بقلم خود بیان نہ کیے ہوں اور کسی نہ کسی سرکاری مزار کی مجاوری نہ کی ہو اور وہ ٹھینکا ممتاز یا انگشت ناز یا پی پی کی پیہا پائے، چاہے کسی کی شہرت آسمان کو کیوں نہ چھو رہی ہو یا کارنامے چار دانگ عالم میں گونج رہے ہوں، ہو گا کوئی ۔ عوام کا کیا ہے وہ تو کسی کو بھی سر آنکھوں پر بٹھا لیتے ہیں اور سیکریٹری یا وزیر لوگ عام لوگ تو ہوتے نہیں جو یونہی کسی کی قبولیت عامہ پر دستخط دے ماریں، اس لیے ''قبولیت خاصہ'' چاہے جو کسی کسی کے نصیب میں ہوتی ہے۔
بلکہ اب تو کچھ ایسا لگنے لگا ہے کہ جس کی دم پر چھاج اور سر پر تاج نہ ہو وہی اصل لوگ ہوتے ہیں، اس کا تعارف کسی تقریب میں یوں ہو گا، اب باری ہے جناب محروم العالم محروم کی جسے کسی بھی چھاج یا تاج کا داغ نہیں لگا ہے، ہو سکتا ہے کہ ناموں کے ساتھ بھی کچھ ایسے سابقے اور لاحقے لگنا شروع ہو جائیں، جناب بدبخت (بے ٹھینکا امتیاز) حضرت نکھٹو (بے پی پی پی) وغیرہ، ثبوت اس کا یہ ہے کہ اس سال ایوارڈ آئے بھی دیے دلائے بھی گئے لیکن کسی اخبار میں خبر تک نہیں آئی، حالانکہ پہلے یہ بہت بڑی خبر ہوتے تھے، کئی کئی دن ایوارڈ یافتہ گان کو مبارکبادیں دی جاتی تھیں۔
ان کے اعزاز میں تقریبات برپا کی جاتی تھیں اور اطراف و اکناف میں ڈنکے بجتے تھے۔ ایک شخص کے بیٹا ہوا تو دفتر میں ہنگامہ برپا ہو گیا۔ مبارک بادیں مٹھائیاں قصیدے تحفے اور نہ جانے کیا کیا ۔ جب دوسرا بیٹا ہوا تو صرف مٹھائی تک بات پہنچی، تیسرے پر خالی مبارک باد ، پھر چوتھا پانچواں ساتواں بھی بغیر کسی شور شرابے کے تشریف لایا، آٹھویں پر کسی ماتحت نے صاحب سے کہا کہ مبارک ہو سنا ہے آپ کے ہاں بیٹا ہوا تو وہ ناک بھوں چڑھا کر بولا ، اس میں خاص بات کیا ہے اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔
چھاج باندھے جانے کی تقریب میں بھی چوہا بڑا خوش تھا لیکن پرابلم اس وقت ہوئی جب وہ اپنے ''بل'' میں جانے لگا، خود تو گزر گیا لیکن سرداری کا طرہ امتیاز یا ستارہ امتیاز یا چھاج امتیاز اٹک گیا، تب بے چارے نے چھاج کو ہٹانے کا قصد کیا لیکن عوام الناس چوہوں نے احتجاج کیا کہ پھر سردار اور عام چوہوں میں فرق کیا رہ جائے گا۔
اس کے آگے راویوں نے مزید کچھ نہیں بتایا ہے لیکن ہم اندازے سے کہہ سکتے ہیں کہ بے چارے کو اپنی سرداری کی مدت بل سے باہر پوری کرنا پڑے گی یا سرداری نے استعفا باحسرت ویاس دیا ہو گا اور یقیناً وہ استعفا اس نے ''دینے'' کے لیے دیا ہو گا نہ دینے کے لیے نہیں کیونکہ باوثوق ذرایع سے معلوم ہوا ہے کہ چوہوں میں ثالثین یا تھرڈ امپائر یا تحفظات والے نہیں ہوا کرتے، چنانچہ اس چوہے اور چھاج سے سبق لے کر ہم بھی کوشش کیا کیے کہ کوئی ہماری دم کے ساتھ کوئی ''چھاج'' نہ باندھ سکے اور اس میں اچھے خاصے کام یاب رہے۔
نہایت ہلکی پھلکی دم کے ساتھ جہاں جی چاہتا آتے جاتے رہے لیکن افسوس کچھ لوگوں سے جو خود کو ہمارے خیر خواہ یا ''شبھ چنتک'' کہتے ہیں، اصل میں ہمارے دشمن ہیں، ان سے ہماری ہی بغیر چھاج یا ''ایوارڈلس'' آرام دہ زندگی دیکھی نہیں جاتی، قدم قدم پر طعنے دینے لگے کہ تم سے ''پیڑے پیڑے'' کہیں بعد میں آکر کوئی نہ کوئی ''اٹھنی چونی'' لے گئے اور تم لنڈورے کے لنڈورے ہی رہے۔
یاران تیز گام نے محمل کو جا لیا
تم محو نالہ جرس کارواں رہے
ان لوگوں کو تو بس طعنہ مارنا آتا ہے اور نہیں جانتے کہ ایوارڈ کا ''چھاج'' اپنی دم سے باناھنے کے لیے کیا کیا اور کتنے پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں،کہاں کہاں پر جبہ سائی کرنا پڑتی ہے اور کس کس گدھے کو گھوڑا کہنا پڑتا ہے۔ بات یہ نہیں کہ ہمیں اپنی دم کے ساتھ چھاج پسند نہیں ہے۔ مرحوم قمر راہی بڑے دبنگ آدمی تھے، اکثر ہمیں لتاڑتے رہتے تھے کہ ہم ان سرکاری ''چھاجوں'' سے اتنے الرجک کیوں ہیں، یہ تو ہمارا حق ہے،کوئی ہمیں اپنے پلے سے تو نہیں دے رہا ہے۔
اگر ایسا ہوتا تو یہ لوگ خود ہی سروے کر کے پتہ کرتے کہ کس نے کتنا کام کیا ہے اور کس چیز کا مستحق ہے تو پھر بھی کوئی بات ہوتی لیکن یہاں چاہے آپ آسمان اتار کر زمین پر لائیں یا زمین کو اٹھا کر آفتاب کے ساتھ شانہ بشانہ رکھ دیں ۔
کوئی ٹس سے مس نہیں ہوتا جب تک آپ خود ہی جناب عالی فیض گنجور کی خدمت میں ''فدوی'' بن کر درخواست نہ گزاریں کہ میں نے فلاں فلاں تیر مارا ہے، اس کا ثبوت لف ہذا ہے، اس لیے جناب والا شان کرم فرمائی کر کے فدوی کو اپنی فرزندی میں لے لیں، زندگی بھر، اپنے خاندان اور آنے والی سات پشتوں تک حضور پرنور کا شکر گزار رہوں گا تب تک مجال ہے جو کوئی بچی ہوئی باسی روٹی کا ٹکڑا بھی ڈال دے۔
نصیب در پہ ترے آزمانے آیا ہوں
تجھی کو ''اپنی'' کہانی سنانے آیا ہوں
اور پھر بھی کہاں؟ایسی سادہ درخواستیں یا کاغذی گھوڑے اگر اپنی منزل پر پہنچتے تو پھر غم کس بات کا تھا، اس کی بھی پہلے سے اجازت لینا پڑے گی کہ حضور اگر اجازت ہو تو کچھ عرض کروں، جب تک وہاں سے اذن درخواست نہیں ملتی، آپ درخواست دے بھی دیں تو ہر مدعی کے واسطے دارور سن کہاں اور اس کے بعد جبہ سائی کرتے کرتے جب آپ کی پیشانی پر باقاعدہ ''ثبوت'' نہ ابھر آئے ''قطار'' میں بیٹھنے کی اجازت بھی نہیں ملتی، سب سے بری شرم ناک اور توہین آمیز بات ایک رائٹر ایک فن کار ایک ہنر مند کے لیے اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ ''اپنے کام'' کے بارے میں سرکاری فارم بھی بھرے اور ساتھ ہی یہ درخواست بھی ''لف ہذا'' کرے کہ فدوی کا نام تیس مار خان باپ کا نام ساٹھ مار خان ہے اور بندے نے فلاں فلاں موقع پر فلاں فلاں اخبار میں فلاں فلاں تیر مارے ہیں، فلاں فلاں کتاب بھی چھاپی ہے اور فلاں فلاں ترانہ بھی گایا ہے، اگر حضور فیض گنجور کی طبع نازک پر گراں نہ گزرے تو
گل پھینکے ہیں اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے خانہ بر انداز چمن کچھ تو ادھر بھی
اور ''خانہ بر انداز چمن'' جو ہوتا ہے، اس کی عمر درخواست کنندہ کی خدمات سے نصف بھی نہیں ہوتی لیکن چونکہ سرکار والا مدار کرسی پر بیٹھا ہوا ہوتا ہے اور اس کے ہاتھ میں دستخط کرنے والا قلم دیا ہوتا ہے۔
اس لیے اس کا جو جی چاہے حسن کرشمہ ساز کرے، جب کہ اس اعزاز اور سعادت کے لیے نہ خدمات کی ضرورت ہوتی ہے نہ کارناموں کی نہ فن کی نہ ہنر کی۔ کسی نے کسی وزیر یا سیکریٹری کی شان میں کوئی نظم لکھی تو ''پی پی پیہا'' ہو گیا حالانکہ اس کا کل سرمایہ وہی ایک نظم ہوتی ہے ۔کسی کی بیوی کسی کے الیکشن میں سرگرم ہوئی اور وہ جیت کر وزیر ہو گیا تو کسی نہ کسی پی پی پیہا یا ممتاز و امتیاز کا مستحق ہوا۔
یہ تو ممکن ہی نہیں کہ کسی نے فارم نہ بھرے ہوں، درخواستیں نہیں لکھی ہوں، اپنے کارنامے بقلم خود بیان نہ کیے ہوں اور کسی نہ کسی سرکاری مزار کی مجاوری نہ کی ہو اور وہ ٹھینکا ممتاز یا انگشت ناز یا پی پی کی پیہا پائے، چاہے کسی کی شہرت آسمان کو کیوں نہ چھو رہی ہو یا کارنامے چار دانگ عالم میں گونج رہے ہوں، ہو گا کوئی ۔ عوام کا کیا ہے وہ تو کسی کو بھی سر آنکھوں پر بٹھا لیتے ہیں اور سیکریٹری یا وزیر لوگ عام لوگ تو ہوتے نہیں جو یونہی کسی کی قبولیت عامہ پر دستخط دے ماریں، اس لیے ''قبولیت خاصہ'' چاہے جو کسی کسی کے نصیب میں ہوتی ہے۔
بلکہ اب تو کچھ ایسا لگنے لگا ہے کہ جس کی دم پر چھاج اور سر پر تاج نہ ہو وہی اصل لوگ ہوتے ہیں، اس کا تعارف کسی تقریب میں یوں ہو گا، اب باری ہے جناب محروم العالم محروم کی جسے کسی بھی چھاج یا تاج کا داغ نہیں لگا ہے، ہو سکتا ہے کہ ناموں کے ساتھ بھی کچھ ایسے سابقے اور لاحقے لگنا شروع ہو جائیں، جناب بدبخت (بے ٹھینکا امتیاز) حضرت نکھٹو (بے پی پی پی) وغیرہ، ثبوت اس کا یہ ہے کہ اس سال ایوارڈ آئے بھی دیے دلائے بھی گئے لیکن کسی اخبار میں خبر تک نہیں آئی، حالانکہ پہلے یہ بہت بڑی خبر ہوتے تھے، کئی کئی دن ایوارڈ یافتہ گان کو مبارکبادیں دی جاتی تھیں۔
ان کے اعزاز میں تقریبات برپا کی جاتی تھیں اور اطراف و اکناف میں ڈنکے بجتے تھے۔ ایک شخص کے بیٹا ہوا تو دفتر میں ہنگامہ برپا ہو گیا۔ مبارک بادیں مٹھائیاں قصیدے تحفے اور نہ جانے کیا کیا ۔ جب دوسرا بیٹا ہوا تو صرف مٹھائی تک بات پہنچی، تیسرے پر خالی مبارک باد ، پھر چوتھا پانچواں ساتواں بھی بغیر کسی شور شرابے کے تشریف لایا، آٹھویں پر کسی ماتحت نے صاحب سے کہا کہ مبارک ہو سنا ہے آپ کے ہاں بیٹا ہوا تو وہ ناک بھوں چڑھا کر بولا ، اس میں خاص بات کیا ہے اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔