خورشید قصوری کی کتاب اور ’’وزرات خارجہ‘‘
ایک مشہور کہاوت ہے کہ لفظوں کے نشتر قوموں کی زندگی میں انقلاب برپا کر دیتے ہیں ۔
ایک مشہور کہاوت ہے کہ لفظوں کے نشتر قوموں کی زندگی میں انقلاب برپا کر دیتے ہیں ۔ یہ بھی مشہور ہے کہ کوئی بات وقت پر نہ کہی جائے تو بعد میں کہنا بے سود ہوتا ہے، اگر کوئی کام بروقت انجام نہ دیا جائے تو وہ اپنی افادیت کھو دیتا ہے۔
''Neither A Hawk Nor A Dove'' خورشید محمود قصوری کی ایسی کتاب ہے جو وقت کی مناسبت سے ایسے وقت پر لکھی گئی ہے جب پاک بھارت تعلقات نازک دور سے گزر رہے ہیں۔ نریندر مودی کی حکومت جس کا امن کے حوالے سے کوئی ''وژن'' ہی نہیں ہے اور پاکستان دشمنی میں ہذیانی کیفیت کا شکار ہو کر دنیا میں فی الواقع ''طوفان بدتمیزی'' مچا رکھا ہے۔ اس کتاب کی سب سے اہم بات کہ خورشید محمود قصوری نے بڑی خوبصورتی سے بھارتی سازشوں کو سفارتی محاذ پر بے نقاب کرنے کا کارنامہ سرانجام دیا ہے۔
برطانوی آکسفورڈ یونیورسٹی پریس اور پینگوئن پبلشرز کے زیراہتمام شایع ہونے والی 850 سے زائد صفحات کی یہ کتاب اتنی بروقت اور برمحل ہے کہ شاید اس کا اندازہ خورشید قصوری کو بھی نہیں تھا ۔انھوں نے چار سال کے عرصہ میں اپنی یہ کتاب مکمل کی ہے اور احتیاط اتنی برتی ہے کہ کسی بھی معاملہ میں محض سنی سنائی باتوں پر تکیہ نہیں کیا بلکہ ریسرچ کرکے اصل حقائق کا کھوج لگایا ہے اور پھر انھیں کتاب میں شامل کیا ہے۔کتاب لکھتے وقت ان کی ٹیبل پر سیکڑوں کتابیں ہر وقت بکھری پڑی رہتیں۔ جنھیں وہ کھنگالتے اور ایک ایک جملہ سوچ سمجھ کر لکھتے۔ اس کتاب میں جہاں پاکستان کے خلاف بھارتی جارحانہ ''کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن''کے جواب میں پاکستان کی ''ٹیکٹیکل نیوکلیئر ویپنز'' والی دفاعی حکمت عملی کو اجاگر کرکے بھارت کی شاطرانہ چالوں پر اسے ہزیمت اٹھاتے دکھایا گیا ہے وہیں پاکستان اور کشمیر کیس بھی مضبوطی کے ساتھ پیش کرکے کشمیر کو ہڑپ کرنے کی مودی سرکار کی سازشوں کا توڑ کیا گیا ہے۔
قصوری پہلے وزیر خارجہ ہیں جنہوں نے پاکستان بھارت تعلقات اور خارجہ پالیسی کے حوالے سے ایک مفصل کتاب لکھی ہے۔ حالانکہ پاکستان کے پہلے وزیر حارجہ محمد ظفر اللہ خان نے بھی متعدد کتابیں لکھی تھیں لیکن اس طرز کی کوئی کتاب نہیں ہے۔ اس حوالے سے سابق بھارتی وزیر خارجہ نٹور سنگھ بڑے لکھاری سمجھے جاتے ہیں جنہوں نے 10سے زائد کتابیں لکھی ہیں۔ انھوں نے گزشتہ سال ایک کتاب ''One Life is Not Enough'' کے عنوان سے اپنی آپ بیتی بھی شایع کی تھی۔ انھوں نے بھی کبھی اس حساس موضوع پر کبھی کتاب لانے کا فیصلہ نہیں کیا۔ لیکن خورشید قصوری نے میرے خیال میں یہ بہت اچھا کام کیا ہے اور ایسے وقت پر کیا ہے کہ جب ہماری حکومت کے پاس کوئی وزیر خارجہ ہی نہیں ہے۔ اس کتاب میں خورشید قصوری نے اپنے وہ تمام واقعات لکھے ہیں جو مشرف کے دنوں میں پانچ سال تک پاکستان کا وزیر خارجہ رہتے ہوئے ان کے سامنے رونما ہوئے۔ مشرف دور حکومت میں ان کے ذریعے بھارت کے ساتھ شروع کی گئی بیک چینل ڈپلومیسی، مشرف واجپائی آگرہ ملاقات اور پھر مشرف کے چار نکاتی کشمیر فارمولا سمیت پاک بھارت تنازعات کے حل کے معاملہ میں پاکستان کی جانب سے کی جانے والی کوششوں اور ہر دور کی بھارتی ہٹ دھرمی کی ساری تفصیلات موجود ہیں۔
اتنی وسیع و بلیغ کتاب کو چند دنوں میں مکمل تو نہیں پڑھ سکا لیکن جتنے ابواب کا مطالعہ کیا اس سے مجھے قصوری صاحب کی حب الوطنی کا خاصا اندازہ ہوا کہ ان کے اندر دوسرے سیاستدانوں کی طرح کس قدر پاکستانیت موجود ہے۔انھوں نے اس کتاب میں پاک بھارت تعلقات کا گہرائی سے جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ کتاب میں پاکستان کے امریکا، چین اور افغانستان کے علاوہ اہم مسلم ممالک بالخصوص سعودی عرب، ایران اور ترکی کے ساتھ تعلقات کا بھی احاطہ کیا ہے۔
انھوں نے مودی سرکار کو واضح پیغام دیا ہے اور کہا ہے کہ خارجہ پالیسی کا شعبہ کسی بھی ملک کے لیے کتنا حساس ہوتا ہے اور خارجہ پالیسی نہ تو بچوں کا کھیل ہے اور نہ ہی اس میں بچگانہ ضد سے چلایا جا سکتا ہے۔ مودی شاید یہ نہیں جانتا کہ
وطن چمکتے ہوئے کنکروں کا نام نہیں
یہ تیرے جسم تیری روح سے عبارت ہے
وہ اپنے تین بھارتی ہم منصبوں ،موجودہ صدر پرنام مکھر جی،یشونت سنہااور نٹور سنگھ کے ساتھ پاک بھارت امور پر ہونے والی بات چیت کا بھی تفصیلی ذکر کرتے ہیں۔ اور پہلی مرتبہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بنائے جانے والے مجوزہ خاکے کی تمام تفصیلات بھی بیان کی ہیں۔
میرے خیال میں خورشید قصوری نے قوم کو اور خاص طور پر امور خارجہ کی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو اس کتاب کی صورت میں ایک تحفہ دیا ہے ۔ کتاب کی شاندار تقریب اور اس کے مہمان خصوصی مانی شنکر آئر نے جس انداز میں کتاب کی اہمیت کو اجاگر کیا اس کا ذکر میں پھر کسی کالم میں کروں گا لیکن یہاں جس بات کا ذکر کرنا میں مناسب سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ آج ہمارے حکمرانوں نے چھوٹی سے چھوٹی وزارت کے لیے وزیر رکھا ہوا ہے لیکن اس شعبہ کو اپنی آستینوں میں چھپا کر رکھا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف خارجہ پالیسی کے کم و بیش سارے کام خود ہی سرانجام دیتے نظر آتے ہیں۔ انھوں نے وزارت خارجہ کا قلمدان اپنے پاس گروی رکھا ہوا ہے۔ وہ خارجہ سطح کی ملاقاتیں جو خارجہ سطح تک ہی اچھی لگتی ہیں، ہمارے وزیر اعظم خود کرتے ہیں۔ امریکا، افغانستان، ایران، روس سبھی وزیروں سے خود مل کر نہ جانے کون سی ملکی خدمت سر انجام دے رہے ہیں۔ واللہ علم۔۔۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ بات شاید ''قومی'' لطیفہ بن جائے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ حکومت نے اہم ترین وزارت خارجہ کے بغیر کام چلایا۔ آج کے نازک دور میں وزارت خارجہ ہی وہ وزارت ہے جس کے ذریعہ کسی ملک کے عالمی تعلقات اور حیثیت کا اندازہ ہوتا ہے اور یہ وزارت ملک کی ساکھ برقرار رکھتی ہے۔ آج سے پہلے یہ ملک کبھی وزارت خارجہ جیسے اہم ترین شعبے کی وزارت سے محروم نہیں رہا، خیر حکمران بہتر جانتے ہیں کہ شاید اس میں بھی ان کی چھپی ہوئی کوئی ''حکمت عملی'' ضرور ہو گی۔ کہ انھوں نے اس سیٹ کو بھی بیوروکریسی و مشیروں کے لیے رکھا ہوا ہے۔ بقول شاعر
آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی
پارلیمنٹ میں 180سے زیادہ ایم این ایز موجود ہیں اور سنیٹرز کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔ کیا ان تمام عوامی نمایندوں میں سے کوئی بھی اس قابل نہیں کہ وہ وزارت خارجہ چلا سکے۔ وزیر اعظم نوازشریف کو میں یہ باور کرانا چاہتا ہوں کہ دنیا کی جب پہلی نظر پاکستان پر پڑتی ہے تو وہ اسے کیا اور کیسا دیکھتی ہے؟ یہ سوال آپ کسی بیرونی سفارت کار سے پوچھیں تو وہ سب سے پہلے وزیر خارجہ کی طرف انگلی اُٹھائے گا۔ آج پاکستان کے پاس کوئی ہمہ وقتی وزیر خارجہ نہیں ہے، دیکھا جائے تو پاکستان مکمل طور پر گھیرا جا چکا ہے۔
چین پاکستان کا دوست ہے۔ اس کی طرف سرمایہ کاری کی نظر سے ضرور دیکھو لیکن وہ ہمیشہ کہتا ہے کہ پاکستان سے شدت پسند خنجراب ہائی وے کے راستے مغربی چین میں داخل ہورہے ہیں۔ افغانستان کی بڑی شکایت یہی رہی ہے کہ افغان طالبان کے ٹھکانے پاکستانی سرحدی علاقوں میں ہیں۔ سلامتی کے لحاظ سے پاکستان کی مرکزی نگاہ کشمیر معاملے پر اصلی حریف ہندوستان پر رہتی ہے لیکن خود ہندوستان ایک اور ممبئی سانحے کے اندیشوں میں مبتلا ہے۔ امریکا کو ایک اور نائن الیون کا خوف ہے اور تعاقب میں وہ قبائلی علاقوں تک پہنچ گیا ۔ برطانیہ کو ایک اور سیون سیون جیسے حملوں کا خطرہ ہے۔ روس کو وسط ایشیا کے اپنے زیرِ اثر علاقوں میں اسلام پسندوں کے داخلے کی فکر لاحق ہے اور یہ فہرست یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ اس وقت ہر ملک کے سامنے پاکستان کا وقار داؤ پر لگا ہے۔
امریکا کے وزیر خارجہ کی طاقت اس کے صدر کے برابر ہوتی ہے۔ اگر دنیا بھر کے وزارت خارجہ کے شعبے متعلقہ ایکسپرٹ چلا رہے ہیں تو ہمارے حکمران اس شعبے میں گزشتہ ڈھائی سال سے ٹانگ کیوں اڑا کر بیٹھے ہیں؟ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی مقصد ملکی آزادی، خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی حفاظت ہے۔ پاکستان کے اہم سیاسی اور اقتصادی مقاصد اور پاکستان کی نظریاتی اساس کی ترویج، تشریح، دفاع اور بیرون ملک پاکستان کے شہریوں کی سرپرستی اور جان و مال کا تحفظ اس کی ذمے داری ہے۔ وزیراعظم صاحب! آپ شائد بھول رہے ہیں کہ جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو قائداعظم نے پاکستان کے لیے آزاد علاقائی اور بین الاقوامی امن کی حامی اور تمام ممالک کے ساتھ برابری کی بنیاد پر دوستی کا تصور خارجہ پالیسی کے لیے دیا تھا۔ آپ سے گزارش ہے کہ قصوری صاحب کی کتاب کا مطالعہ کریں تاکہ آپ کو اس نازک وزارت کی اہمیت کا اندازہ ہو کیوں کہ مجھ جیسے کم علم شخص نے بھی اس کتاب سے خاصا استفادہ حاصل کیا ہے۔