پہلے گائے کٹے گی یا بکرا
یہاں زمین پر کانٹوں کی فصل ہو تو ہمیں پھولوں کی بات کہاں اچھی لگے گی۔
یہاں زمین پر کانٹوں کی فصل ہو تو ہمیں پھولوں کی بات کہاں اچھی لگے گی۔ جب آسمان سے سورج قیامت برپا کر رہا ہو تو ٹھنڈی چھاؤں کے قصے کس کا دل بہلائیں گے۔ ہم اپنے پیروں پر پڑے چھالے دکھا رہے ہوں اور وہ ہمیں مستقبل کے خواب دکھائیں تو کیسے نیند آ سکتی ہے۔ جب جسم بھوک مٹانے کے لیے ایک دانا اناج کو ترس رہا ہو تو روح کو سکون کیسے مل سکتا ہے؟ قطرہ قطرہ جمع کر کے جب کوئی اپنی ہتھیلی میں پانی جمع کر لے اور کوئی اُس سے وہ پانی بھی چھین لیں تو پھر ہمارے لیے ڈوبنے کا کون سا مقام رہ جائے گا۔ ہماری غربت کو جب کوئی اپنی عالیشان گاڑی کے قیمتی پہیوں کے نیچے روند دے تو کس مظلوم کے دل سے دعا نکلے گی۔
کسی کے دل سے ایک آہ تک نکلی کے دس روپے کے لیے ایک بھائی کی جان لے لی۔ وہ بھائی جو کہ چھ بہنوں کو دو وقت کی روٹی دیتا تھا۔ کسی نے مجھ سے کہا کہ کیسا معاشرہ ہو گیا ہے کہ دس روپے کے لیے جان لے لی اور اُس نے دس روپے کے لیے جھگڑا کیا اور اپنی جان دے دی۔ میں نے بس اپنی آنکھوں کو زمین میں گاڑ کر آہ بھری اور کہا کہ انھیں کیا معلوم کہ دس روپے سے ایک وقت کا کھانا آ جاتا ہے اور جس کی چھ بہنیں ہوں اُس کے دل سے پوچھیں کہ وہ دن رات اس دس روپے کو جوڑنے کے لیے کیسے اپنا خون پسینے کی طرح بہاتا ہے۔
گزشتہ دنوں یہ سانحہ ساہیوال میں پیش آیا۔ اس چھوٹے سے گاؤں کو انگریزوں نے ایک شہر بنا دیا۔ انگریزوں کے جانے کے بعد ہم نے اس کا نام تبدیل کر کے یہ سمجھ لیا کہ اب یہاں کی تقدیر بدل چکی ہے۔ میں اُسی ساہیوال کی بات کر رہا ہوں جس کی قربت سے بابا فرید الدین گنج شکر کی خوشبو آتی ہے۔ جہاں جنگ آزادی کے کئی معرکے ہوئے۔ ایسی جگہ دل دہلانے والا واقعہ پیش آیا۔
پرویز دن رات رکشہ چلا کر اپنا اور اپنی بہنوں کی زندگی کا پہیہ چلاتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اُس کا ایک ایک لمحہ کتنا قیمتی ہے اور اُس ایک ایک لمحے میں کمایا گیا ایک ایک روپیہ اُس کی بہنوں کے لیے کتنا اہم ہے۔ وہ آج گھر سے یہ سوچ کر نکلا تھا کہ عید قریب آ رہی ہے اور گھر کا خرچہ بڑھ جائے گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ کسی بھی مسافر کو منع نہ کیا جائے اور چاہے جتنے پیسے ملیں بچا کر رکھے جائیں۔ وہ اسی سوچ میں تھا کہ اسے ایک مسافر ملا۔ مسافر انتہائی نشے کی حالت میں تھا لیکن پرویز کو یہ معلوم تھا کہ اُسے ہرصورت میں سواری چاہیے۔ ویسے بھی تو یہاں ہر کوئی کسی نا کسی نشے میں ہے۔ کسی کو طاقت کا نشہ توکسی کو دولت کا نشہ۔
پرویز مسافر سے رقم طے کر کے جانے کے لیے تیار ہو گیا۔ پورے راستے مسافر نشے کی حالت میں کچھ نا کچھ بکواس کرتا رہا۔ جیسے ہی مسافر کی منزل قریب آنے لگی ویسے ہی اُس کی بدتمیزی میں بھی اضافہ ہو گیا۔ پرویز یہ سب برداشت کرتا رہا اور پھر مسافر کی منزل آ گئی۔ پرویز نے کرایے کا مطالبہ کیا تو مسافر نے رقم دینے سے انکار کر دیا۔ جب پرویز نے اصرار کیا تو مسافر نے کچھ رقم دی جس میں دس روپے کم تھے۔ پرویز نے دس روپے کا مطالبہ کیا۔ جس پر مسافر نے اُس سے بدتمیزی شروع کر دی۔
وہ جانتا تھا کہ اُس کے لیے دس روپے کیا اہمیت رکھتے ہیں۔ دس روپے سے روٹی آ سکتی ہے جو کم از کم اُس کی ایک بہن کو ایک وقت کی خوراک دے سکتی ہے۔ اس لیے وہ نہیں چاہتا تھا کہ اپنا حق کو کسی بھی صورت چھوڑے، بات بڑھتی گئی اور اسی دوران مسافر نے اپنے دوستوں کو فون کر دیا۔ وہ اپنی منزل کے قریب تھا اس لیے اس کے دوست فورا وہاں پہنچ گئے اور بری طرح سے پرویز کو مارنا شروع کر دیا۔ وہ اُسے مارتے رہے اور یہ کہتے رہے کہ تمھاری ہمت کیسے ہوئی کہ تم دس روپے مانگو۔ انھوں نے اُسے اُس وقت تک تشدد کا نشانہ بنایا جب تک پرویز میں جان رہی اور پھر وہ ایک قہقہہ لگاتے ہوئے وہاں سے چلے گئے۔
کیا یہ ظلم نہیں ہے؟ کیا یہ بربریت نہیں ہے کہ ایک دس روپے کے لیے ایک معصوم کی جان لے لی گئی۔ کسی نے پرویز کی لاش کو ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال منتقل کیا گیا۔ آیے اب ایک اور ظلم کی کہانی سنتا ہوں۔ یہ دن اتوار کا تھا اور ویسے بھی ہر وقت کام کرنے والے خادم اعلیٰ کا صوبہ ہے۔
اس لیے آپ حیرت میں مت مبتلا ہوں۔ مجھ تک جو اطلاع پہنچی ہے وہ یہ ہے کہ اتوار کا دن چھٹی کا ہوتا ہے اس لیے وہاں اس مظلوم کا پوسٹ مارٹم تک نہ ہو سکا۔ شاید اس کے جیب میں دس روپے نہیں ہونگے اس لیے تو اُس کا پوسٹ مارٹم نہیں ہو سکا۔ دس روپے کی اہمیت کیوں نا ہو جب حکومت بھی تو یہ ہی سمجھتی ہے کہ دس روپے میں اتنے بڑے خاندان کا پیٹ بھر سکتا ہے، کیونکہ اب انھیں دس روپے میں تو پرویز کی چھ بہنوں کو گزارا کرنا ہو گا۔
مگر شرم اس بات کی ہے کہ ایسے خاندانوں کو پنجاب حکومت جو رقم دیتی ہے وہ ایک وقت کے لیے دس روپے ہے۔ ہمارے لیڈر تو لاکھوں کا تیل صرف ہیلی کاپٹر میں خرچ کر دیتے ہیں۔ انھیں کیا معلوم کہ یہ لوگ ہمیں ایک وقت کے کھانے کے لیے صرف دس روپے دیتے ہیں اور اُس کے بدلے جو ہمارا تیل نکالتے ہیں، وہ اپنی عالیشان گاڑیوں میں ڈالنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ حکومت غریب لوگوں کو گزارا الاؤنس کے طور پر دیتی ہے۔
حکومت ایک بہت بہت زیادہ خطیر رقم پرویز جیسے خاندانوں کے لیے استعمال کرتی ہے۔ یہ رقم ہر مہینے کی ہزار روپے ہے۔ اب آپ کو تو معلوم ہو گا کہ یہ لوگ مہینے کے یہ ہزار روپے لے کر عیاشی کرتے ہوں گے۔ آپ خود بتائیں کہ مہینے میں 30 دن ہوتے ہیں اور ہر دن میں تین وقت کا کھانا ہوتا ہے۔ اس لیے یہ رقم ایک وقت کے تیس روپے کی ہوتی ہے۔ آپ اندازہ کیجیے کہ تیس روپے میں ان چھ بہنوں کو اپنا پیٹ بھرنا ہو گا۔
یہ رقم اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ حکومت انھیں ہر مہینے نہیں دیتی بلکہ ہر تین مہینے بعد دیتی ہے کہ کہیں کوئی ان سے لوٹ نا لے، کوئی چور اُن سے چھین نا لے۔ اسی لیے تو پرویز کو معلوم تھا کہ اس دس روپے کی کتنی حیثیت ہے۔
جس طرح سے سڑک پر دس روپے کے لیے پرویز کو مار دیا گیا اور پھر اس کا پوسٹ مارٹم اس لیے نہیں ہو سکا کہ چھٹی کا دن تھا۔ اسی طرح عید کے دن قریب آ چکے ہیں اور غریبوں کے تین مہینے مکمل ہو چکے ہیں۔ میں جب یہ لکھ رہا ہوں اُس وقت تک ان امیر لوگوں کو یہ پیسے بھی نہیں ملے۔ شاید حکومت کو یہ خدشہ ہو کہ اتنی بڑی رقم ملنے کے بعد یہ لوگ بھی صاحب حیثیت نا ہو جائیں اور کوئی بڑی قربانی نا کر لے۔ اس لیے انھوں نے ابھی تک یہ رقم بھی نہیں دی ہے۔
یہ رقم کیونکہ محکمہ زکوۃ دیتا ہے اور وہ صاحبان یہ فرماتے ہیں کہ انھیں یہ فنڈ وفاق سے دو ماہ لیٹ ملا ہے اس لیے انھیں دیر ہو گئی ہے۔ یہاں تو سندھ والے رو رہے ہیں اور پنجاب کا بھی وفاق سے یہ ہی شکوہ ہے لیکن کیونکہ یہاں گھر کی بات ہوتی ہے، اس لیے معاملہ دب جاتا ہے۔ بات مجھے یہ کرنی تھی کہ ہزار روپے مہینہ جتنی بڑی رقم حکومت کا محکمہ زکوۃ دیتا ہے اور یہ رقم صرف انھیں مل سکتی ہے جو یہ لکھ کر دیں کہ وہ مسلمان ہے۔ پاکستان میں جہاں ہندؤوں کی شادی رجسٹریشن کا بہت بڑا مسئلہ ہے وہیں پر گزارا الاوئنس جیسے بہت سے مسئلے ہیں، لیکن ابھی اکثریت کے تو آنسو پونچھ لوں پھر اقلیت کی بھی بات ہو جائے گی۔
یہاں وہاں کی باتیں تو ہم نے بہت کر دی اور اصل مسئلے سے ہٹ گئے۔ اصل مسئلہ نا تو ایک عام آدمی کے لیے دس روپے ہے۔ نا ہی یہ اہم ہے کہ پرویز کے ساتھ یہ واقعہ چھٹی والے دن کیوں ہوا جب وہاں کوئی پوسٹ مارٹم کے لیے نہیں تھا اور نا ہی یہ اہم ہے محکمہ زکوۃ اتنی بڑی رقم گزاراے کے لیے کیوں دیتا ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ پشاور میں پہلے گائے کٹے گی یا کراچی میں بکرا۔
کسی کے دل سے ایک آہ تک نکلی کے دس روپے کے لیے ایک بھائی کی جان لے لی۔ وہ بھائی جو کہ چھ بہنوں کو دو وقت کی روٹی دیتا تھا۔ کسی نے مجھ سے کہا کہ کیسا معاشرہ ہو گیا ہے کہ دس روپے کے لیے جان لے لی اور اُس نے دس روپے کے لیے جھگڑا کیا اور اپنی جان دے دی۔ میں نے بس اپنی آنکھوں کو زمین میں گاڑ کر آہ بھری اور کہا کہ انھیں کیا معلوم کہ دس روپے سے ایک وقت کا کھانا آ جاتا ہے اور جس کی چھ بہنیں ہوں اُس کے دل سے پوچھیں کہ وہ دن رات اس دس روپے کو جوڑنے کے لیے کیسے اپنا خون پسینے کی طرح بہاتا ہے۔
گزشتہ دنوں یہ سانحہ ساہیوال میں پیش آیا۔ اس چھوٹے سے گاؤں کو انگریزوں نے ایک شہر بنا دیا۔ انگریزوں کے جانے کے بعد ہم نے اس کا نام تبدیل کر کے یہ سمجھ لیا کہ اب یہاں کی تقدیر بدل چکی ہے۔ میں اُسی ساہیوال کی بات کر رہا ہوں جس کی قربت سے بابا فرید الدین گنج شکر کی خوشبو آتی ہے۔ جہاں جنگ آزادی کے کئی معرکے ہوئے۔ ایسی جگہ دل دہلانے والا واقعہ پیش آیا۔
پرویز دن رات رکشہ چلا کر اپنا اور اپنی بہنوں کی زندگی کا پہیہ چلاتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اُس کا ایک ایک لمحہ کتنا قیمتی ہے اور اُس ایک ایک لمحے میں کمایا گیا ایک ایک روپیہ اُس کی بہنوں کے لیے کتنا اہم ہے۔ وہ آج گھر سے یہ سوچ کر نکلا تھا کہ عید قریب آ رہی ہے اور گھر کا خرچہ بڑھ جائے گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ کسی بھی مسافر کو منع نہ کیا جائے اور چاہے جتنے پیسے ملیں بچا کر رکھے جائیں۔ وہ اسی سوچ میں تھا کہ اسے ایک مسافر ملا۔ مسافر انتہائی نشے کی حالت میں تھا لیکن پرویز کو یہ معلوم تھا کہ اُسے ہرصورت میں سواری چاہیے۔ ویسے بھی تو یہاں ہر کوئی کسی نا کسی نشے میں ہے۔ کسی کو طاقت کا نشہ توکسی کو دولت کا نشہ۔
پرویز مسافر سے رقم طے کر کے جانے کے لیے تیار ہو گیا۔ پورے راستے مسافر نشے کی حالت میں کچھ نا کچھ بکواس کرتا رہا۔ جیسے ہی مسافر کی منزل قریب آنے لگی ویسے ہی اُس کی بدتمیزی میں بھی اضافہ ہو گیا۔ پرویز یہ سب برداشت کرتا رہا اور پھر مسافر کی منزل آ گئی۔ پرویز نے کرایے کا مطالبہ کیا تو مسافر نے رقم دینے سے انکار کر دیا۔ جب پرویز نے اصرار کیا تو مسافر نے کچھ رقم دی جس میں دس روپے کم تھے۔ پرویز نے دس روپے کا مطالبہ کیا۔ جس پر مسافر نے اُس سے بدتمیزی شروع کر دی۔
وہ جانتا تھا کہ اُس کے لیے دس روپے کیا اہمیت رکھتے ہیں۔ دس روپے سے روٹی آ سکتی ہے جو کم از کم اُس کی ایک بہن کو ایک وقت کی خوراک دے سکتی ہے۔ اس لیے وہ نہیں چاہتا تھا کہ اپنا حق کو کسی بھی صورت چھوڑے، بات بڑھتی گئی اور اسی دوران مسافر نے اپنے دوستوں کو فون کر دیا۔ وہ اپنی منزل کے قریب تھا اس لیے اس کے دوست فورا وہاں پہنچ گئے اور بری طرح سے پرویز کو مارنا شروع کر دیا۔ وہ اُسے مارتے رہے اور یہ کہتے رہے کہ تمھاری ہمت کیسے ہوئی کہ تم دس روپے مانگو۔ انھوں نے اُسے اُس وقت تک تشدد کا نشانہ بنایا جب تک پرویز میں جان رہی اور پھر وہ ایک قہقہہ لگاتے ہوئے وہاں سے چلے گئے۔
کیا یہ ظلم نہیں ہے؟ کیا یہ بربریت نہیں ہے کہ ایک دس روپے کے لیے ایک معصوم کی جان لے لی گئی۔ کسی نے پرویز کی لاش کو ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال منتقل کیا گیا۔ آیے اب ایک اور ظلم کی کہانی سنتا ہوں۔ یہ دن اتوار کا تھا اور ویسے بھی ہر وقت کام کرنے والے خادم اعلیٰ کا صوبہ ہے۔
اس لیے آپ حیرت میں مت مبتلا ہوں۔ مجھ تک جو اطلاع پہنچی ہے وہ یہ ہے کہ اتوار کا دن چھٹی کا ہوتا ہے اس لیے وہاں اس مظلوم کا پوسٹ مارٹم تک نہ ہو سکا۔ شاید اس کے جیب میں دس روپے نہیں ہونگے اس لیے تو اُس کا پوسٹ مارٹم نہیں ہو سکا۔ دس روپے کی اہمیت کیوں نا ہو جب حکومت بھی تو یہ ہی سمجھتی ہے کہ دس روپے میں اتنے بڑے خاندان کا پیٹ بھر سکتا ہے، کیونکہ اب انھیں دس روپے میں تو پرویز کی چھ بہنوں کو گزارا کرنا ہو گا۔
مگر شرم اس بات کی ہے کہ ایسے خاندانوں کو پنجاب حکومت جو رقم دیتی ہے وہ ایک وقت کے لیے دس روپے ہے۔ ہمارے لیڈر تو لاکھوں کا تیل صرف ہیلی کاپٹر میں خرچ کر دیتے ہیں۔ انھیں کیا معلوم کہ یہ لوگ ہمیں ایک وقت کے کھانے کے لیے صرف دس روپے دیتے ہیں اور اُس کے بدلے جو ہمارا تیل نکالتے ہیں، وہ اپنی عالیشان گاڑیوں میں ڈالنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ حکومت غریب لوگوں کو گزارا الاؤنس کے طور پر دیتی ہے۔
حکومت ایک بہت بہت زیادہ خطیر رقم پرویز جیسے خاندانوں کے لیے استعمال کرتی ہے۔ یہ رقم ہر مہینے کی ہزار روپے ہے۔ اب آپ کو تو معلوم ہو گا کہ یہ لوگ مہینے کے یہ ہزار روپے لے کر عیاشی کرتے ہوں گے۔ آپ خود بتائیں کہ مہینے میں 30 دن ہوتے ہیں اور ہر دن میں تین وقت کا کھانا ہوتا ہے۔ اس لیے یہ رقم ایک وقت کے تیس روپے کی ہوتی ہے۔ آپ اندازہ کیجیے کہ تیس روپے میں ان چھ بہنوں کو اپنا پیٹ بھرنا ہو گا۔
یہ رقم اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ حکومت انھیں ہر مہینے نہیں دیتی بلکہ ہر تین مہینے بعد دیتی ہے کہ کہیں کوئی ان سے لوٹ نا لے، کوئی چور اُن سے چھین نا لے۔ اسی لیے تو پرویز کو معلوم تھا کہ اس دس روپے کی کتنی حیثیت ہے۔
جس طرح سے سڑک پر دس روپے کے لیے پرویز کو مار دیا گیا اور پھر اس کا پوسٹ مارٹم اس لیے نہیں ہو سکا کہ چھٹی کا دن تھا۔ اسی طرح عید کے دن قریب آ چکے ہیں اور غریبوں کے تین مہینے مکمل ہو چکے ہیں۔ میں جب یہ لکھ رہا ہوں اُس وقت تک ان امیر لوگوں کو یہ پیسے بھی نہیں ملے۔ شاید حکومت کو یہ خدشہ ہو کہ اتنی بڑی رقم ملنے کے بعد یہ لوگ بھی صاحب حیثیت نا ہو جائیں اور کوئی بڑی قربانی نا کر لے۔ اس لیے انھوں نے ابھی تک یہ رقم بھی نہیں دی ہے۔
یہ رقم کیونکہ محکمہ زکوۃ دیتا ہے اور وہ صاحبان یہ فرماتے ہیں کہ انھیں یہ فنڈ وفاق سے دو ماہ لیٹ ملا ہے اس لیے انھیں دیر ہو گئی ہے۔ یہاں تو سندھ والے رو رہے ہیں اور پنجاب کا بھی وفاق سے یہ ہی شکوہ ہے لیکن کیونکہ یہاں گھر کی بات ہوتی ہے، اس لیے معاملہ دب جاتا ہے۔ بات مجھے یہ کرنی تھی کہ ہزار روپے مہینہ جتنی بڑی رقم حکومت کا محکمہ زکوۃ دیتا ہے اور یہ رقم صرف انھیں مل سکتی ہے جو یہ لکھ کر دیں کہ وہ مسلمان ہے۔ پاکستان میں جہاں ہندؤوں کی شادی رجسٹریشن کا بہت بڑا مسئلہ ہے وہیں پر گزارا الاوئنس جیسے بہت سے مسئلے ہیں، لیکن ابھی اکثریت کے تو آنسو پونچھ لوں پھر اقلیت کی بھی بات ہو جائے گی۔
یہاں وہاں کی باتیں تو ہم نے بہت کر دی اور اصل مسئلے سے ہٹ گئے۔ اصل مسئلہ نا تو ایک عام آدمی کے لیے دس روپے ہے۔ نا ہی یہ اہم ہے کہ پرویز کے ساتھ یہ واقعہ چھٹی والے دن کیوں ہوا جب وہاں کوئی پوسٹ مارٹم کے لیے نہیں تھا اور نا ہی یہ اہم ہے محکمہ زکوۃ اتنی بڑی رقم گزاراے کے لیے کیوں دیتا ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ پشاور میں پہلے گائے کٹے گی یا کراچی میں بکرا۔