اسپتالوں کی تاریخ
گزشتہ کالم میں ڈاکٹروں اور اسپتالوں کا تذکرہ تھا، چند استفسارات کے حوالے سے چند مزید گزارشات پیش خدمت ہیں۔
ISLAMABAD:
گزشتہ کالم میں ڈاکٹروں اور اسپتالوں کا تذکرہ تھا، چند استفسارات کے حوالے سے چند مزید گزارشات پیش خدمت ہیں۔ اسپتال کا ذکر قبل مسیح کی تواریخ میں ملتا ہے۔ مصر اور یونان کے معبد خانوں میں لوگوں کے علاج معالجے کی روایت موجود تھی۔ یونانی معبدوں یہ تصور تھا کہ شفا کا دیوتا ''ایسکلیپئیس'' صحتیابی عطا کرتا تھا۔ وہاں کے عقیدے کے مطابق طریقۂ علاج کی جانب رہنمائی خواب کے ذریعے عطا کی جاتی تھی۔ رومیوں کے یہاں بھی اسی طرز کے شفا خانے تھے۔
سری لنکا میں سنہالیوں کے یہاں حضرت عیسیٰؑ کی آمد سے چار صدی قبل اسپتالوں کا سراغ ملتا ہے۔ فارس میں جندی شاہ پور کا مرکز طبی ایک اہم ادارہ تھا جہاں سے عرب میں طب کا فن پہنچا۔ جندی شاہ پور کی اکیڈیمی طب کی تدریس کا پہلا باقاعدہ ادارہ تھا، لیکن بحیثیت مجموعی دنیا کی سترہ تہذیبوں میں لوگوں کی صحت عمدہ رہی لہٰذا جس قسم کے اسپتال عہد حاضر میں کھمبیوں کی طرح طبی ترقی کے نام پر ابل رہے ہیں اور کھربوں روپے لوٹ رہے ہیں، ایسے اداروں کا پوری تاریخ انسانی میں کوئی سراغ نہیں ملتا۔ دنیا کی سترہ تہذیبوں میں معالج بھی ہوتے تھے، اسپتال بھی تھے۔ خصوصاً جنگوں میں سفری اسپتال قائم کیے جاتے تھے تا کہ زخمیوں کا علاج کر سکیں۔
عیسائی زائرین کے لیے بیت المقدس میں1032ء میں ظاہر باللہ فاطمی خلیفہ کی اجازت سے عیسائیوں نے ایک عمدہ شفاخانہ قائم کیا تھا، جو زائران بیت المقدس کے علاج معالجے کا مفت انتظام کرتا تھا۔ غزوات و سرایہ میں صحابہ کرامؓ کے ساتھ جنگی سفری بیمارستان نقل و حرکت کرتے تھے۔ یہ اونٹوں اور خچروں پر مشتمل ہوتے ان کو ''مارستانات نقالہ'' کہا جاتا تھا یعنی سفری شفاخانے (مارستان فارسی کے بیمارستان کا معرب ہے)۔ سلطان محمود سلجوق کی فوج کا سفری شفاخانہ چالیس اونٹوں پر مشتمل تھا۔ مورخین اسلام نے عموماً جنگوں کی تفصیل میں سفری شفاخانوں کا حال بھی لکھا ہے ۔
تاریخ آل سلجوق میں اس کے نظائر بہ کثرت ملتے ہیں۔ ابن اثیر، ابو الفداء اور مقریزی کی تصریحات اگر جمع کی جائیں تو ایک مفصل رسالہ مرتب ہو سکتا ہے۔ لیکن ان تواریخ میں مستقل نوعیت کے ہزاروں اسپتال جہاں لاکھوں بیماروں کی قطاریں لگی ہوں، انواع و اقسام کے امراض پھل پھول اور پھیل رہے ہوں اور ہر روز نِت نئی بیماری دریافت کی جا رہی ہو تو سترہ تہذیبوں کی تاریخ کے اوراق آپ کو اس سے خالی ملیں گے۔
جدید طرز زندگی کے مسلط ہونے سے پہلے مریض بھی کم تھے، شفاخانے برائے نام تھے بیماریاں نہ ہونے کے برابر تھیں۔ صرف ایک مرض ان سترہ تہذیبوں میں عام تھا مرض الموت۔ پیدل سفر کرنے والے، اونٹ، گھوڑے، خچر پر سواری کرنے والوں کو وہ بیماریاں لاحق ہی نہیں ہوتیں جو عیش و عشرت کا حاصل ہیں۔ تمام جدید خطر ناک موذی مہلک بیماریاں جدید طرز زندگی کا فطری نتیجہ ہیں۔ مگر دنیا کا ہر شخص جدید طرز زندگی کو ترک کرنا توکجا اس کے بارے میں ایک سطر کی تنقید بھی سننے کے تیار نہیں۔
تاریخ بتاتی ہے کہ دور ِقدیم میں کسی طبیب نے مرض کی تشخیص کے لیے لوگوں سے کبھی پیسے کا مطالبہ نہیں کیا۔ نہ ہی غرباء کو صرف اس لیے تشخیص سے محروم رکھا کہ وہ پیسے دینے کے قابل نہ تھے۔ عہد حاضر میں کوئی ڈاکٹر خواہ کتنا ہی مذہبی ہو مریض سے پیسے لینا فریضۂ اولیٰ سمجھتا ہے۔ ظاہر ہے ڈاکٹر ی کی یہ تعلیم لاکھوں روپے میں اسے ملی ہے۔ اس کا معاشرے میں ایک اہم رتبہ ہے۔ اسے نئی گاڑی، نئی کوٹھی، زندگی کے تمام تعیشات درکار ہیں۔
اگر وہ لوگوں سے فیس نہ لے تو کیا بھوکا مرے؟ اس مابعد الطبیعیات کے ساتھ جب دینی ذہن رکھنے والے ڈاکٹر بھی مجبور ہو جاتے ہیں تو یہ ڈاکٹر صبح سے رات گئے تک مریضوں کا علاج کر کے پیسے بٹورتے ہیں۔ ان میں ایک ڈاکٹر بھی ایسا نہیں جو ہفتے میں مہینے میں سال میں ایک دن غریبوں کے لیے وقف کرے یا کم از کم آدھا دن مال کمانے کے لیے،آدھا دن مخلوق کی خدمت کے لیے۔ یہ دینی مزاج رکھنے والوں کا حال ہے۔
غیر دینی مزاج رکھنے والے تو اب کسی مریض کا گردہ نکال لیتے ہیں بلاوجہ اپنڈکس کا آپریشن کر دیتے ہیں آپریشن کی ضرورت نہ ہو تب بھی آپریشن کا بتا کر پیٹ کھول کر سی دیتے ہیں۔ آپ کو کوئی ڈاکٹر ایسا نہیں ملے گا جو مریض کا علاج بغیر فیس کے کرتا ہو یا فیس کے تعین کا اختیار مریض کی صوابدید پر چھوڑتا ہو یا غریبوں کو دوا بھی اپنے پاس سے دیتا ہو۔
یہ تمام ڈاکٹر لوگوں سے بھاری معاوضے لیتے ہیں اور اپنے روزانہ اوقات میں غریبوں کے لیے ایک گھنٹہ ہفتے میں ایک دن اور مہینے میں ایک ہفتہ بھی نہیں نکالتے۔ اس کے باوجود سب متقی بھی کہلاتے ہیں۔ عہد حاضر میں تقویٰ کا مفہوم تک بدل دیا گیا ہے۔ طالب دنیا، غریبوں سے فیس لینے والا اور غریبوں کو فیس کے بغیر دیکھنے سے انکار کرنے والا کبھی دین دار بھی ہو سکتا ہے؟ دنیا کی تاریخ دین داروں کے اس جدید تصور سے عاری ہے۔ رزق کو لوگوں کی جیب سے وابستہ سمجھنا خالص جدید تصور ہے جو مشرق میں جدیدیت کے فروغ کے بعد ترقی کے اژدہے کی صورت میں منظر پر چھا گیا ہے۔
یورپ کے ازمنہ وسطیٰ میں اسپتالوں کا اسلوب وہی تھا جو بازنطینی سلطنت میں تھا۔ معبدوں اور شفاخانوں میں بیماروں کا علاج کیا جاتا تھا۔ اسپتال معبدگاہوں کے ساتھ منسلک ہوتے تھے۔ یورپ میں بڑے اسپتال کلیسا کے زیر انتظام تھے۔
پہلا اسپتال اسپین میں کیتھولک چرچ کے تحت ''میری ڈا'' میں 580 عیسوی میں ''ژینو ڈوکئیم''میں کھولا گیا۔ اس کا نقشہ مہمان خانے کے طرز پر تھا۔ جو کلیسا کی زیارت کے لیے آنے والے زائرین کی رہائش گاہ کے ساتھ ساتھ بیمارستان کا فریضہ بھی انجام دیتا تھا۔ زائرین اور بیماروں کی مہمانداری کے لیے اس کی عمارت کے ساتھ کھیت اور باغات بھی موجود تھے۔
امریکا میں پہلا اسپتال ''سین نکولس ڈی بیری'' کے نام سے 1519ء میں کھولا گیا جو چرچ سے ملحق تھا۔ 1524ء میں غرباء کی دیکھ بھال کے لیے میکسیکو سٹی میں اسپتال کھولا گیا۔ اٹھارہویں صدی سے جدید اسپتال بننے شروع ہوئے۔ برلن کا اسپتال چرائٹ جو 1710ء میں قائم ہوا اس کی اولین مثال ہے۔
1724ء کے بعد برطانیہ میں بے شمار اسپتال کھلے۔1948ء میں برطانیہ میں نیشنل ہیلتھ کیئر سروس کا آغاز ہوا جس کے تحت تمام شہریوں کو مفت طبی امداد مہیا کی جاتی ہے۔ امریکا میں روایتی اسپتال بلا منافع مذہبی اداروں کی سرپرستی میں کام کرتے تھے، لیکن ایسے اسپتال اب مفقود ہیں۔ ہیلتھ انشورنس لازمی ہے جس کی عدم موجودگی میں امریکا میں سالانہ پانچ لاکھ افراد بغیر علاج کے مر جاتے ہیں۔ اگر پیسہ نہیں ہے تو زندہ رہنے کا حق بھی آپ کو نہیں۔ اسپتال موجود ہو اور مریض کو علاج کی سہولت نہ ملے یہ تصور دنیا کی کسی تاریخ میں نہیں ملتا۔ یہ خالص سویلائزڈ سوسائٹی کا تصور ہے جو انیسویں صدی میں سرمایہ داری نے پیدا کیا۔ یعنی جو کمانے، سرمایہ اکٹھے کرنے کے قابل نہیں اسے مر جانا چاہیے۔
یورپ میں طبی سہولتیں سرکار مہیا کرتی ہے مگر اب اسے محدود کیا جا رہا ہے برطانیہ میں جہاں 1948ء میں مفت طبی سہولتوں کا نظام متعارف کرایا گیا تھا، سنگین مسائل کا شکار ہے۔ لہٰذا جوانوں کا علاج پہلے ہوتا ہے اور بوڑھو ں کا بعد میں مثلاً آپریشن ہونا ہے اور فہرست طویل ہے تو سرجن پہلے جوانوں کو ترجیح دے گا کہ یہ کارآمد لوگ ہیں اور سرمائے کی دوڑ میں شریک ہو سکتے ہیں۔ بوڑھے بے کار لوگ ہیں، اگر مر بھی گئے توکیا فر ق پڑے گا؟
تاریخ انسانی میں کبھی کوئی تہذیب ایسی نہیں تھی جس میں جوانوں کو بوڑھوں پر ترجیح دی گئی ہو۔ مغربی تہذیب حفظ مراتب کے خاتمے کی تہذیب، دنیا پرستی اور سرمائے کی پرستش کی تہذیب ہے۔ لہٰذا اخلاقیات بھی سرمایہ دارانہ علمیت سے روشنی حاصل کر رہی ہے۔ دنیا کی تاریخ میں علاج کی ضرورت کو صنعت کا درجہ دینا سرمایہ دارانہ نظام کا کمال ہے۔
پوری تاریخ انسانی طب کے معزز پیشے کو ڈاکوؤں کے پیشے کی طرز پر فروغ دینے کی علمیت سے خالی رہی۔ یہ جدیدیت کا کمال ہے اور اس سے بڑا کمال یہ ہے کہ پوری دنیا کے لوگ اسپتالوں کی اس لوٹ مار کو جائز جبر تصور کرتے ہیں۔ حتی کہ مذہبی لوگ بھی ڈاکٹروں کی بھاری فیس کو جائز سمجھتے ہیں۔ حکومت کے خلاف لوگ اکثر جلوس نکالتے ہیں مگر اسپتال کی لوٹ مار کے خلاف نہ کوئی جلوس نکلتا ہے نہ احتجاج ہوتا ہے نہ سیاست دان اس موضوع پر بولتے ہیں۔ اسی کا نام ہے سرمایہ داری کا جبر ہے اور یہ وہ جبر ہے جسے فطری سمجھ کر پوری ''بیمار'' دنیا نے قبول کر لیا ہے۔
گزشتہ کالم میں ڈاکٹروں اور اسپتالوں کا تذکرہ تھا، چند استفسارات کے حوالے سے چند مزید گزارشات پیش خدمت ہیں۔ اسپتال کا ذکر قبل مسیح کی تواریخ میں ملتا ہے۔ مصر اور یونان کے معبد خانوں میں لوگوں کے علاج معالجے کی روایت موجود تھی۔ یونانی معبدوں یہ تصور تھا کہ شفا کا دیوتا ''ایسکلیپئیس'' صحتیابی عطا کرتا تھا۔ وہاں کے عقیدے کے مطابق طریقۂ علاج کی جانب رہنمائی خواب کے ذریعے عطا کی جاتی تھی۔ رومیوں کے یہاں بھی اسی طرز کے شفا خانے تھے۔
سری لنکا میں سنہالیوں کے یہاں حضرت عیسیٰؑ کی آمد سے چار صدی قبل اسپتالوں کا سراغ ملتا ہے۔ فارس میں جندی شاہ پور کا مرکز طبی ایک اہم ادارہ تھا جہاں سے عرب میں طب کا فن پہنچا۔ جندی شاہ پور کی اکیڈیمی طب کی تدریس کا پہلا باقاعدہ ادارہ تھا، لیکن بحیثیت مجموعی دنیا کی سترہ تہذیبوں میں لوگوں کی صحت عمدہ رہی لہٰذا جس قسم کے اسپتال عہد حاضر میں کھمبیوں کی طرح طبی ترقی کے نام پر ابل رہے ہیں اور کھربوں روپے لوٹ رہے ہیں، ایسے اداروں کا پوری تاریخ انسانی میں کوئی سراغ نہیں ملتا۔ دنیا کی سترہ تہذیبوں میں معالج بھی ہوتے تھے، اسپتال بھی تھے۔ خصوصاً جنگوں میں سفری اسپتال قائم کیے جاتے تھے تا کہ زخمیوں کا علاج کر سکیں۔
عیسائی زائرین کے لیے بیت المقدس میں1032ء میں ظاہر باللہ فاطمی خلیفہ کی اجازت سے عیسائیوں نے ایک عمدہ شفاخانہ قائم کیا تھا، جو زائران بیت المقدس کے علاج معالجے کا مفت انتظام کرتا تھا۔ غزوات و سرایہ میں صحابہ کرامؓ کے ساتھ جنگی سفری بیمارستان نقل و حرکت کرتے تھے۔ یہ اونٹوں اور خچروں پر مشتمل ہوتے ان کو ''مارستانات نقالہ'' کہا جاتا تھا یعنی سفری شفاخانے (مارستان فارسی کے بیمارستان کا معرب ہے)۔ سلطان محمود سلجوق کی فوج کا سفری شفاخانہ چالیس اونٹوں پر مشتمل تھا۔ مورخین اسلام نے عموماً جنگوں کی تفصیل میں سفری شفاخانوں کا حال بھی لکھا ہے ۔
تاریخ آل سلجوق میں اس کے نظائر بہ کثرت ملتے ہیں۔ ابن اثیر، ابو الفداء اور مقریزی کی تصریحات اگر جمع کی جائیں تو ایک مفصل رسالہ مرتب ہو سکتا ہے۔ لیکن ان تواریخ میں مستقل نوعیت کے ہزاروں اسپتال جہاں لاکھوں بیماروں کی قطاریں لگی ہوں، انواع و اقسام کے امراض پھل پھول اور پھیل رہے ہوں اور ہر روز نِت نئی بیماری دریافت کی جا رہی ہو تو سترہ تہذیبوں کی تاریخ کے اوراق آپ کو اس سے خالی ملیں گے۔
جدید طرز زندگی کے مسلط ہونے سے پہلے مریض بھی کم تھے، شفاخانے برائے نام تھے بیماریاں نہ ہونے کے برابر تھیں۔ صرف ایک مرض ان سترہ تہذیبوں میں عام تھا مرض الموت۔ پیدل سفر کرنے والے، اونٹ، گھوڑے، خچر پر سواری کرنے والوں کو وہ بیماریاں لاحق ہی نہیں ہوتیں جو عیش و عشرت کا حاصل ہیں۔ تمام جدید خطر ناک موذی مہلک بیماریاں جدید طرز زندگی کا فطری نتیجہ ہیں۔ مگر دنیا کا ہر شخص جدید طرز زندگی کو ترک کرنا توکجا اس کے بارے میں ایک سطر کی تنقید بھی سننے کے تیار نہیں۔
تاریخ بتاتی ہے کہ دور ِقدیم میں کسی طبیب نے مرض کی تشخیص کے لیے لوگوں سے کبھی پیسے کا مطالبہ نہیں کیا۔ نہ ہی غرباء کو صرف اس لیے تشخیص سے محروم رکھا کہ وہ پیسے دینے کے قابل نہ تھے۔ عہد حاضر میں کوئی ڈاکٹر خواہ کتنا ہی مذہبی ہو مریض سے پیسے لینا فریضۂ اولیٰ سمجھتا ہے۔ ظاہر ہے ڈاکٹر ی کی یہ تعلیم لاکھوں روپے میں اسے ملی ہے۔ اس کا معاشرے میں ایک اہم رتبہ ہے۔ اسے نئی گاڑی، نئی کوٹھی، زندگی کے تمام تعیشات درکار ہیں۔
اگر وہ لوگوں سے فیس نہ لے تو کیا بھوکا مرے؟ اس مابعد الطبیعیات کے ساتھ جب دینی ذہن رکھنے والے ڈاکٹر بھی مجبور ہو جاتے ہیں تو یہ ڈاکٹر صبح سے رات گئے تک مریضوں کا علاج کر کے پیسے بٹورتے ہیں۔ ان میں ایک ڈاکٹر بھی ایسا نہیں جو ہفتے میں مہینے میں سال میں ایک دن غریبوں کے لیے وقف کرے یا کم از کم آدھا دن مال کمانے کے لیے،آدھا دن مخلوق کی خدمت کے لیے۔ یہ دینی مزاج رکھنے والوں کا حال ہے۔
غیر دینی مزاج رکھنے والے تو اب کسی مریض کا گردہ نکال لیتے ہیں بلاوجہ اپنڈکس کا آپریشن کر دیتے ہیں آپریشن کی ضرورت نہ ہو تب بھی آپریشن کا بتا کر پیٹ کھول کر سی دیتے ہیں۔ آپ کو کوئی ڈاکٹر ایسا نہیں ملے گا جو مریض کا علاج بغیر فیس کے کرتا ہو یا فیس کے تعین کا اختیار مریض کی صوابدید پر چھوڑتا ہو یا غریبوں کو دوا بھی اپنے پاس سے دیتا ہو۔
یہ تمام ڈاکٹر لوگوں سے بھاری معاوضے لیتے ہیں اور اپنے روزانہ اوقات میں غریبوں کے لیے ایک گھنٹہ ہفتے میں ایک دن اور مہینے میں ایک ہفتہ بھی نہیں نکالتے۔ اس کے باوجود سب متقی بھی کہلاتے ہیں۔ عہد حاضر میں تقویٰ کا مفہوم تک بدل دیا گیا ہے۔ طالب دنیا، غریبوں سے فیس لینے والا اور غریبوں کو فیس کے بغیر دیکھنے سے انکار کرنے والا کبھی دین دار بھی ہو سکتا ہے؟ دنیا کی تاریخ دین داروں کے اس جدید تصور سے عاری ہے۔ رزق کو لوگوں کی جیب سے وابستہ سمجھنا خالص جدید تصور ہے جو مشرق میں جدیدیت کے فروغ کے بعد ترقی کے اژدہے کی صورت میں منظر پر چھا گیا ہے۔
یورپ کے ازمنہ وسطیٰ میں اسپتالوں کا اسلوب وہی تھا جو بازنطینی سلطنت میں تھا۔ معبدوں اور شفاخانوں میں بیماروں کا علاج کیا جاتا تھا۔ اسپتال معبدگاہوں کے ساتھ منسلک ہوتے تھے۔ یورپ میں بڑے اسپتال کلیسا کے زیر انتظام تھے۔
پہلا اسپتال اسپین میں کیتھولک چرچ کے تحت ''میری ڈا'' میں 580 عیسوی میں ''ژینو ڈوکئیم''میں کھولا گیا۔ اس کا نقشہ مہمان خانے کے طرز پر تھا۔ جو کلیسا کی زیارت کے لیے آنے والے زائرین کی رہائش گاہ کے ساتھ ساتھ بیمارستان کا فریضہ بھی انجام دیتا تھا۔ زائرین اور بیماروں کی مہمانداری کے لیے اس کی عمارت کے ساتھ کھیت اور باغات بھی موجود تھے۔
امریکا میں پہلا اسپتال ''سین نکولس ڈی بیری'' کے نام سے 1519ء میں کھولا گیا جو چرچ سے ملحق تھا۔ 1524ء میں غرباء کی دیکھ بھال کے لیے میکسیکو سٹی میں اسپتال کھولا گیا۔ اٹھارہویں صدی سے جدید اسپتال بننے شروع ہوئے۔ برلن کا اسپتال چرائٹ جو 1710ء میں قائم ہوا اس کی اولین مثال ہے۔
1724ء کے بعد برطانیہ میں بے شمار اسپتال کھلے۔1948ء میں برطانیہ میں نیشنل ہیلتھ کیئر سروس کا آغاز ہوا جس کے تحت تمام شہریوں کو مفت طبی امداد مہیا کی جاتی ہے۔ امریکا میں روایتی اسپتال بلا منافع مذہبی اداروں کی سرپرستی میں کام کرتے تھے، لیکن ایسے اسپتال اب مفقود ہیں۔ ہیلتھ انشورنس لازمی ہے جس کی عدم موجودگی میں امریکا میں سالانہ پانچ لاکھ افراد بغیر علاج کے مر جاتے ہیں۔ اگر پیسہ نہیں ہے تو زندہ رہنے کا حق بھی آپ کو نہیں۔ اسپتال موجود ہو اور مریض کو علاج کی سہولت نہ ملے یہ تصور دنیا کی کسی تاریخ میں نہیں ملتا۔ یہ خالص سویلائزڈ سوسائٹی کا تصور ہے جو انیسویں صدی میں سرمایہ داری نے پیدا کیا۔ یعنی جو کمانے، سرمایہ اکٹھے کرنے کے قابل نہیں اسے مر جانا چاہیے۔
یورپ میں طبی سہولتیں سرکار مہیا کرتی ہے مگر اب اسے محدود کیا جا رہا ہے برطانیہ میں جہاں 1948ء میں مفت طبی سہولتوں کا نظام متعارف کرایا گیا تھا، سنگین مسائل کا شکار ہے۔ لہٰذا جوانوں کا علاج پہلے ہوتا ہے اور بوڑھو ں کا بعد میں مثلاً آپریشن ہونا ہے اور فہرست طویل ہے تو سرجن پہلے جوانوں کو ترجیح دے گا کہ یہ کارآمد لوگ ہیں اور سرمائے کی دوڑ میں شریک ہو سکتے ہیں۔ بوڑھے بے کار لوگ ہیں، اگر مر بھی گئے توکیا فر ق پڑے گا؟
تاریخ انسانی میں کبھی کوئی تہذیب ایسی نہیں تھی جس میں جوانوں کو بوڑھوں پر ترجیح دی گئی ہو۔ مغربی تہذیب حفظ مراتب کے خاتمے کی تہذیب، دنیا پرستی اور سرمائے کی پرستش کی تہذیب ہے۔ لہٰذا اخلاقیات بھی سرمایہ دارانہ علمیت سے روشنی حاصل کر رہی ہے۔ دنیا کی تاریخ میں علاج کی ضرورت کو صنعت کا درجہ دینا سرمایہ دارانہ نظام کا کمال ہے۔
پوری تاریخ انسانی طب کے معزز پیشے کو ڈاکوؤں کے پیشے کی طرز پر فروغ دینے کی علمیت سے خالی رہی۔ یہ جدیدیت کا کمال ہے اور اس سے بڑا کمال یہ ہے کہ پوری دنیا کے لوگ اسپتالوں کی اس لوٹ مار کو جائز جبر تصور کرتے ہیں۔ حتی کہ مذہبی لوگ بھی ڈاکٹروں کی بھاری فیس کو جائز سمجھتے ہیں۔ حکومت کے خلاف لوگ اکثر جلوس نکالتے ہیں مگر اسپتال کی لوٹ مار کے خلاف نہ کوئی جلوس نکلتا ہے نہ احتجاج ہوتا ہے نہ سیاست دان اس موضوع پر بولتے ہیں۔ اسی کا نام ہے سرمایہ داری کا جبر ہے اور یہ وہ جبر ہے جسے فطری سمجھ کر پوری ''بیمار'' دنیا نے قبول کر لیا ہے۔