ہم اگر عرض کریں گے
غصہ اور زبان کا آپس میں گہرا تعلق ہوتا ہے اور یہی تعلق معاشرے پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے
JERUSALEM:
غصہ اور زبان کا آپس میں گہرا تعلق ہوتا ہے اور یہی تعلق معاشرے پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غصے کو حرام قرار دیا گیا ہے اور زبان کو قابو میں رکھنے کی تلقین کی گئی ہے۔ لیکن صاحب اب تو ہر شخص غصے ہی میں نظر آتا ہے اور زبان وہ تو دن بہ دن بے قابو ہوتی جا رہی ہے۔
چہرے سے مسکراہٹیں تو غائب ہی ہوتی جا رہی ہیں اب تو صرف ایک دوسرے کو مسائل و مشکلات میں گھرا دیکھ کر طنزیہ مسکراتے ہیں اگر ہم غم و غصے اور نفرت کے جذبے کے ساتھ طنزیہ مسکراتے ہوئے ایک دوسرے کے چہرے دیکھ لیں یا پھر آئینے میں خود اپنا چہرہ دیکھ لیں تو ڈر جائیں۔ مکروہ چہرے ناقابل برداشت۔ ذرا صبر و تحمل کے ساتھ برداشت کا مادہ پیدا کریں اور خوشی خوشی نیک جذبوں کے ساتھ مسکرائیں دیکھیے فرق محسوس کریں چہرے کتنے خوبصورت پیارے پیارے لگتے ہیں اللہ نے دنیا میں ہمیں اسی لیے بھیجا ہے کہ ہم محبت و پیار سے رہیں نا کہ اپنی لمبی لمبی گز گز بھر کی زبانوں سے فتنہ و فساد پیدا کر کے دھرتی کو آلودہ کریں اور ایسی فضا پیدا کریں کہ لوگوں کے لیے زندہ رہنا مشکل ہو جائے۔
زبان اور لہجے کا چولی دامن کا ساتھ ہے بالکل اسی طرح جیسے چور کا چور سے ساتھ ہوتا ہے دونوں ایک دوسرے کا ساتھ خوب نبھاتے ہیں اور اگر غصہ آ جائے تو صاحب زبانیں ایک دوسرے کے خلاف ایسی کھلتی ہیں سارے ہی بھید کھل جاتے ہیں۔ اگر آپ کا غصہ قابو میں ہے تو زبان بھی قابو میں رہے گی اور اپنے اور دوسرے کے عیب بھی پس پردہ رہیں گے ورنہ۔۔۔۔۔
''جو غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کر دیتے ہیں ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں۔'' (سورۃ آل عمران۔3:134)
''جس نے غصے کو روک لیا اللہ تعالیٰ اس سے اپنے عذاب کو روک لیتا ہے اور جو اپنی زبان کو قابو میں رکھتا ہے، اللہ اس کے عیوب کو چھپا لیتا ہے۔''(حدیث نبویؐ)
اور اب ذرا غور کرتے ہیں اپنے بدصورت اعمال پر قصور معاف کرنا تو دور کی بات ہے بے قصور کو قصور وار اور قصور وار کو بے قصور ثابت کرنے میں زبان و بیان کا ایسا جارحانہ استعمال کرتے ہیں کہ محفلیں میدان جنگ کا نقشہ پیش کرنے لگتی ہیں۔ دوسروں کی ذات کو نشانہ بنانا ان کے عیوب تلاش کرنا اور نمک مرچ لگا کر بیان کرنا گویا اب ہمارا مقصد حیات بن گیا ہے۔ اصل مقصد حیات کو تو ہم فراموش ہی کر چکے ہیں۔
لیکن اب ایسا بھی نہیں ہے کہ ہم ہر وقت لڑتے ہی رہتے ہیں کام بھی کرتے ہیں اور بھائی چارے سے بھی کام لیتے ہیں اور کبھی کبھی زبان بندی پر عمل کرتے ہوئے خاموشی بھی اختیار کرتے ہیں، لیکن کب خاموشی اختیار کرتے ہیں اور بھائی چارے سے کام لیتے ہیں جب مصلحت کا تقاضا ہوتا ہے۔ صرف مصلحت ہی نہیں مفاد بھی۔ اگر آپ کا مفاد وابستہ ہو تو تھوڑی دیر چپ رہنے اور زبان کو قابو میں رکھنے میں کیا حرج ہے۔ رہ گیا سوال بھائی چارے کا تو صاحب وقت پڑنے پر تو لوگ گدھے کو بھی۔۔۔۔۔ یہاں اگر زہر اگلنے کے بعد ایک بندہ دوسرے بندے سے ہاتھ ملا لے تو کون سی بری بات ہے ہاں لیکن ذرا غور سے دیکھ لیں۔ آستین میں سانپ یا خنجر تو نہیں چھپا۔ ویسے پیچھے سے وار کرنے کی عادت پرانی ہو گئی ہے۔
خیر عادتوں کا کیا ہے، جب افتاد پڑی ہے تو عادتیں خودبخود بدل جاتی ہیں۔ لیکن صاحب عادتوں کے بدلنے میں بھی وقت لگتا ہے۔ کہتے ہیں چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے۔ اور رہی بات ہیرا پھیری کی تو یہ عادت تو گھٹی میں پڑ گئی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے اپنے گھر کا کچرا دوسرے کے گھر میں پھینکنے کی عادت۔
گندگی کو ٹھکانے لگانے کے بجائے ہم اس کی جگہ بدل دیتے ہیں۔ ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ رکھ دیتے ہیں بالکل اسی طرح جس طرح جب ہم کسی کی کارکردگی سے خوش نہیں ہوتے تو اس کا تبادلہ کر دیتے ہیں۔ معلوم نہیں یہ کیسی عادت ہے۔ اپنے سر کا بوجھ دوسرے کے سر پر ڈالنے کی۔
ہماری ذمے داریاں بھی اب تو بوجھ کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہیں پہلے ہم خوش اسلوبی سے انجام دیتے تھے اور اب۔۔۔۔۔
اور اب۔۔۔۔۔ کے بعد تو بہت کچھ ہے لکھنے کے لیے مثلاً ہم سب جو کبھی ایک دوسرے کے خلاف زہر اگلتے تھے۔ اب مشترکہ دشمن کے خلاف ایک ہو رہے ہیں۔ وہ بھی اس طرح مسکرا مسکرا کر جیسے جنم جنم کے ساتھی ہوں۔ صاحب مال بنانے میں تو ہم سب ایک ہیں لیکن جب مال بانٹنے کی بات آتی ہے تو ہم۔۔۔۔۔۔ہائے بیچ چوراہے پر ہنڈیا کچھ اس طرح پھوٹتی ہے کہ آواز دور دور تک جاتی ہے۔ دھبے خواہ کتنے بھی آئیں ڈرائی کلین ہو کر اس طرح صاف ہو جاتے ہیں کہ بڑے بڑے پارسا رشک کریں۔
پارسائی کی تو بات ہی نہ کریں اگر ذرا سا بھی شک کیا تو گریبان سلامت رکھنا مشکل ہو جائے گا۔
مشکل کا نہ پوچھیں صاف ستھرے علاقے ہوں یا معمولی ہر طرف گٹر بہہ رہے ہیں۔ اور اب تو باقاعدہ کائی کچھ اس طرح جم گئی ہے کہ سبزے کا شبہ ہوتا ہے اگر بدبو نہ آئے۔ دکان ہو یا مکان یا ریستوران ہر طرف گزر گاہ تکلیف دہ ہو گئی ہے۔ نالے تو کچرہ خانے کی شکل اختیار کر گئے ہیں۔ ہر کونے کنارے یا خالی پلاٹ پر کچرہ نظر آئے گا۔
تعفن، پھر بیماری، دکان ڈاکٹر کی چمکتی ہے۔ میڈیکل اسٹورز کی، کلینک کی، ہر ماہ آدھا بجٹ دوا پر آدھا بجٹ کھانے پر۔ پٹرول سستا ہوا، اونٹ کے منہ میں زیرہ۔ دودھ مہنگا، بچے کے منہ سے فیڈر بھی چھین لی گئی۔ یہاں بندے کی طرح قیمت آسمان پر چڑھتی ہے اور اترنے کے معاملے میں بندے کو تو ہم نیچے اتار لیتے ہیں لیکن قیمتیں قابو میں نہیں آتیں۔ یہ ایک ایسا جن ہے جسے قابو میں لانا مشکل نظر آ رہا ہے۔ مشکل کا کیا ہے یہ تو ہر مقام پر ہمارے ساتھ رہتی ہے۔ مشکلات کا حل ڈھونڈنا پڑتا ہے مثلاً اگر بکرا مہنگا ہے تو گائے میں حصے دار ہو جائیں۔ لیکن اگر گائے مہنگی ہے تو سمجھ لیں کہ حصہ بھی مہنگا ہو گا تو پھر سستا کیا ہے۔ ارے صاحب ہر چیز کی قیمت ہے سوائے انسان کے۔
حضرت انسان بھی کچھ کم نہیں ہیں بقر عید کی آمد آمد ہے اور اشیا خور و نوش آسمان پر۔ لیجیے صاحب پیاز، ٹماٹر ہر چیز کی قیمت آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ مذہبی تہوار، کچھ تو خوف خدا کرو۔ لیکن اگر خوف خدا ہوتا تو وہ کچھ نہ ہوتا جو کہ ہو رہا ہے۔
کیا ہو رہا ہے دیکھیں سامنے کھانے کا تھال ہے اور لوگ اس پر بے تحاشا ٹوٹ پڑے اب میں کیسے سمجھاؤں کہ یہ کھانا ہے صاحب سلیقے سے کھائیں۔ مگر مشکل ہے دیکھنے سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ کھانا نہیں بلکہ قومی خزانہ ہے۔
ناسمجھ یہ بھی نہیں سمجھتے کہ زیادہ کھا لینے سے بدہضمی ہو جاتی ہے جو کہ صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ کچھ فاقہ زدوں کا بھی خیال کر لو، لیکن اگر فاقہ زدوں کا خیال کیا ہوتا تو قوم معاشی طور پر اس قدر پسماندہ نہ ہوتی۔
جہاں تک خیال کا تعلق ہے بے شمار خیالات قطار در قطار ذہن میں آتے چلے جا رہے ہیں دل بھی مچل رہا ہے۔ کہنے کے لیے لیکن ڈر لگتا ہے آپ خود سمجھ جائیں ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی۔
غصہ اور زبان کا آپس میں گہرا تعلق ہوتا ہے اور یہی تعلق معاشرے پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غصے کو حرام قرار دیا گیا ہے اور زبان کو قابو میں رکھنے کی تلقین کی گئی ہے۔ لیکن صاحب اب تو ہر شخص غصے ہی میں نظر آتا ہے اور زبان وہ تو دن بہ دن بے قابو ہوتی جا رہی ہے۔
چہرے سے مسکراہٹیں تو غائب ہی ہوتی جا رہی ہیں اب تو صرف ایک دوسرے کو مسائل و مشکلات میں گھرا دیکھ کر طنزیہ مسکراتے ہیں اگر ہم غم و غصے اور نفرت کے جذبے کے ساتھ طنزیہ مسکراتے ہوئے ایک دوسرے کے چہرے دیکھ لیں یا پھر آئینے میں خود اپنا چہرہ دیکھ لیں تو ڈر جائیں۔ مکروہ چہرے ناقابل برداشت۔ ذرا صبر و تحمل کے ساتھ برداشت کا مادہ پیدا کریں اور خوشی خوشی نیک جذبوں کے ساتھ مسکرائیں دیکھیے فرق محسوس کریں چہرے کتنے خوبصورت پیارے پیارے لگتے ہیں اللہ نے دنیا میں ہمیں اسی لیے بھیجا ہے کہ ہم محبت و پیار سے رہیں نا کہ اپنی لمبی لمبی گز گز بھر کی زبانوں سے فتنہ و فساد پیدا کر کے دھرتی کو آلودہ کریں اور ایسی فضا پیدا کریں کہ لوگوں کے لیے زندہ رہنا مشکل ہو جائے۔
زبان اور لہجے کا چولی دامن کا ساتھ ہے بالکل اسی طرح جیسے چور کا چور سے ساتھ ہوتا ہے دونوں ایک دوسرے کا ساتھ خوب نبھاتے ہیں اور اگر غصہ آ جائے تو صاحب زبانیں ایک دوسرے کے خلاف ایسی کھلتی ہیں سارے ہی بھید کھل جاتے ہیں۔ اگر آپ کا غصہ قابو میں ہے تو زبان بھی قابو میں رہے گی اور اپنے اور دوسرے کے عیب بھی پس پردہ رہیں گے ورنہ۔۔۔۔۔
''جو غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کر دیتے ہیں ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں۔'' (سورۃ آل عمران۔3:134)
''جس نے غصے کو روک لیا اللہ تعالیٰ اس سے اپنے عذاب کو روک لیتا ہے اور جو اپنی زبان کو قابو میں رکھتا ہے، اللہ اس کے عیوب کو چھپا لیتا ہے۔''(حدیث نبویؐ)
اور اب ذرا غور کرتے ہیں اپنے بدصورت اعمال پر قصور معاف کرنا تو دور کی بات ہے بے قصور کو قصور وار اور قصور وار کو بے قصور ثابت کرنے میں زبان و بیان کا ایسا جارحانہ استعمال کرتے ہیں کہ محفلیں میدان جنگ کا نقشہ پیش کرنے لگتی ہیں۔ دوسروں کی ذات کو نشانہ بنانا ان کے عیوب تلاش کرنا اور نمک مرچ لگا کر بیان کرنا گویا اب ہمارا مقصد حیات بن گیا ہے۔ اصل مقصد حیات کو تو ہم فراموش ہی کر چکے ہیں۔
لیکن اب ایسا بھی نہیں ہے کہ ہم ہر وقت لڑتے ہی رہتے ہیں کام بھی کرتے ہیں اور بھائی چارے سے بھی کام لیتے ہیں اور کبھی کبھی زبان بندی پر عمل کرتے ہوئے خاموشی بھی اختیار کرتے ہیں، لیکن کب خاموشی اختیار کرتے ہیں اور بھائی چارے سے کام لیتے ہیں جب مصلحت کا تقاضا ہوتا ہے۔ صرف مصلحت ہی نہیں مفاد بھی۔ اگر آپ کا مفاد وابستہ ہو تو تھوڑی دیر چپ رہنے اور زبان کو قابو میں رکھنے میں کیا حرج ہے۔ رہ گیا سوال بھائی چارے کا تو صاحب وقت پڑنے پر تو لوگ گدھے کو بھی۔۔۔۔۔ یہاں اگر زہر اگلنے کے بعد ایک بندہ دوسرے بندے سے ہاتھ ملا لے تو کون سی بری بات ہے ہاں لیکن ذرا غور سے دیکھ لیں۔ آستین میں سانپ یا خنجر تو نہیں چھپا۔ ویسے پیچھے سے وار کرنے کی عادت پرانی ہو گئی ہے۔
خیر عادتوں کا کیا ہے، جب افتاد پڑی ہے تو عادتیں خودبخود بدل جاتی ہیں۔ لیکن صاحب عادتوں کے بدلنے میں بھی وقت لگتا ہے۔ کہتے ہیں چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے۔ اور رہی بات ہیرا پھیری کی تو یہ عادت تو گھٹی میں پڑ گئی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے اپنے گھر کا کچرا دوسرے کے گھر میں پھینکنے کی عادت۔
گندگی کو ٹھکانے لگانے کے بجائے ہم اس کی جگہ بدل دیتے ہیں۔ ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ رکھ دیتے ہیں بالکل اسی طرح جس طرح جب ہم کسی کی کارکردگی سے خوش نہیں ہوتے تو اس کا تبادلہ کر دیتے ہیں۔ معلوم نہیں یہ کیسی عادت ہے۔ اپنے سر کا بوجھ دوسرے کے سر پر ڈالنے کی۔
ہماری ذمے داریاں بھی اب تو بوجھ کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہیں پہلے ہم خوش اسلوبی سے انجام دیتے تھے اور اب۔۔۔۔۔
اور اب۔۔۔۔۔ کے بعد تو بہت کچھ ہے لکھنے کے لیے مثلاً ہم سب جو کبھی ایک دوسرے کے خلاف زہر اگلتے تھے۔ اب مشترکہ دشمن کے خلاف ایک ہو رہے ہیں۔ وہ بھی اس طرح مسکرا مسکرا کر جیسے جنم جنم کے ساتھی ہوں۔ صاحب مال بنانے میں تو ہم سب ایک ہیں لیکن جب مال بانٹنے کی بات آتی ہے تو ہم۔۔۔۔۔۔ہائے بیچ چوراہے پر ہنڈیا کچھ اس طرح پھوٹتی ہے کہ آواز دور دور تک جاتی ہے۔ دھبے خواہ کتنے بھی آئیں ڈرائی کلین ہو کر اس طرح صاف ہو جاتے ہیں کہ بڑے بڑے پارسا رشک کریں۔
پارسائی کی تو بات ہی نہ کریں اگر ذرا سا بھی شک کیا تو گریبان سلامت رکھنا مشکل ہو جائے گا۔
مشکل کا نہ پوچھیں صاف ستھرے علاقے ہوں یا معمولی ہر طرف گٹر بہہ رہے ہیں۔ اور اب تو باقاعدہ کائی کچھ اس طرح جم گئی ہے کہ سبزے کا شبہ ہوتا ہے اگر بدبو نہ آئے۔ دکان ہو یا مکان یا ریستوران ہر طرف گزر گاہ تکلیف دہ ہو گئی ہے۔ نالے تو کچرہ خانے کی شکل اختیار کر گئے ہیں۔ ہر کونے کنارے یا خالی پلاٹ پر کچرہ نظر آئے گا۔
تعفن، پھر بیماری، دکان ڈاکٹر کی چمکتی ہے۔ میڈیکل اسٹورز کی، کلینک کی، ہر ماہ آدھا بجٹ دوا پر آدھا بجٹ کھانے پر۔ پٹرول سستا ہوا، اونٹ کے منہ میں زیرہ۔ دودھ مہنگا، بچے کے منہ سے فیڈر بھی چھین لی گئی۔ یہاں بندے کی طرح قیمت آسمان پر چڑھتی ہے اور اترنے کے معاملے میں بندے کو تو ہم نیچے اتار لیتے ہیں لیکن قیمتیں قابو میں نہیں آتیں۔ یہ ایک ایسا جن ہے جسے قابو میں لانا مشکل نظر آ رہا ہے۔ مشکل کا کیا ہے یہ تو ہر مقام پر ہمارے ساتھ رہتی ہے۔ مشکلات کا حل ڈھونڈنا پڑتا ہے مثلاً اگر بکرا مہنگا ہے تو گائے میں حصے دار ہو جائیں۔ لیکن اگر گائے مہنگی ہے تو سمجھ لیں کہ حصہ بھی مہنگا ہو گا تو پھر سستا کیا ہے۔ ارے صاحب ہر چیز کی قیمت ہے سوائے انسان کے۔
حضرت انسان بھی کچھ کم نہیں ہیں بقر عید کی آمد آمد ہے اور اشیا خور و نوش آسمان پر۔ لیجیے صاحب پیاز، ٹماٹر ہر چیز کی قیمت آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ مذہبی تہوار، کچھ تو خوف خدا کرو۔ لیکن اگر خوف خدا ہوتا تو وہ کچھ نہ ہوتا جو کہ ہو رہا ہے۔
کیا ہو رہا ہے دیکھیں سامنے کھانے کا تھال ہے اور لوگ اس پر بے تحاشا ٹوٹ پڑے اب میں کیسے سمجھاؤں کہ یہ کھانا ہے صاحب سلیقے سے کھائیں۔ مگر مشکل ہے دیکھنے سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ کھانا نہیں بلکہ قومی خزانہ ہے۔
ناسمجھ یہ بھی نہیں سمجھتے کہ زیادہ کھا لینے سے بدہضمی ہو جاتی ہے جو کہ صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ کچھ فاقہ زدوں کا بھی خیال کر لو، لیکن اگر فاقہ زدوں کا خیال کیا ہوتا تو قوم معاشی طور پر اس قدر پسماندہ نہ ہوتی۔
جہاں تک خیال کا تعلق ہے بے شمار خیالات قطار در قطار ذہن میں آتے چلے جا رہے ہیں دل بھی مچل رہا ہے۔ کہنے کے لیے لیکن ڈر لگتا ہے آپ خود سمجھ جائیں ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی۔